مندرجات کا رخ کریں

سورہ فتح آیت نمبر 29

ویکی شیعہ سے
سورہ فتح آیت نمبر 29
آیت کی خصوصیات
سورہفتح
آیت نمبر29
پارہ29
محل نزولمدینہ
مضمونپیغمبر اکرمؐ اور مؤمنین کی خصوصیات
مربوط آیاتسورہ مائدہ آیت نمبر 9


سورہ فتح آیت نمبر 29، میں رسول خداؐ اور آپؐ کے با ایمان ساتھیوں کی چند نمایاں خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ صفات یہ ہیں: کفار کے ساتھ سختی اور تندی سے پیش آنا، مؤمنین کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، پیوستہ عبادت میں مشغول رہنا، خدا کے فضل و کرم کے طلبگار اور ان کے چہروں پر سجدوں کے نشانات کا نمایاں ہونا۔

ان صفات کا ذکر سابقہ آسمانی کتابوں، تورات اور انجیل میں بھی آیا ہے، لیکن محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں تحریف کی وجہ سے ان کتابوں کی موجودہ عبارات کے ساتھ ان صفات کو تطبیق دینا انتہائی مشکل ہے اسی بنا پر بعض مفسرین نے ان اوصاف کو صرف قرآن کی روشنی میں بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

اہل سنت مفسرین اس آیت میں دئے گئے بخشش اور مغفرت کے وعدے کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام اصحاب کو عادل سمجھتے ہیں، جبکہ بعض مفسرین کے مطابق ایمان اور عمل صالح کی مداومت کی شرط کے بغیر اس حکم کو تعمیم دینا قرآن کی تکلیف شناسانہ منطق کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

شیخ طوسی کی پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک روایت کے مطابق اس آیت کے آخری حصے کے حقیقی مصداق امام علیؑ اور آپؑ کے پیروکار ہیں۔

آیت کا تعارف

سورہ فتح کی آیت نمبر 29 میں پیغمبر اسلامؐ اور ان کے با ایمان ساتھیوں کی چند صفات بیان کی گئی ہیں،[1] جنہیں سابقہ آسمانی کتابوں تورات اور انجیل میں بھی بیان کئے گئے ہیں۔[2] شیعہ مفسر قرآن سید محمدحسین فضل اللہ (متوفی: 1389ہجری شمسی) کے مطابق یہ آیت ایک ایمانی معاشرے کی تصویر پیش کرتی ہے جس کے ارکان اجتماعی طور پر پرورش پاتے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دے کر کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے ایک عظیم طاقت بن جاتے ہیں، جو کافروں کے غیظ و غضب کا باعث بنتے ہیں۔[3] آیت کے آخر میں ایمان اور عمل صالح کی شرط کے ساتھ گناہوں کی مغفرت اور عظیم اجر و ثواب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ بعض اہل سنت مفسرین تمام صحابہ کے عادل ہونے کے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے آیت کے اس آخری حصے سے استناد کرتے ہیں۔

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَہُمْ ۖ تَرَاہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاہُمْ فِي وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ ۚ وَمَثَلُہُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِہِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْرًا عَظِيمً
محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں تم انہیں دیکھو گے کہ وہ (کبھی) رکوع (اور کبھی) سجود کر رہے ہیں (اور) اللہ کے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں ان کی علامت ان کے چہروں پر سجدہ کے نشان سے نمایاں ہے ان کی توراۃ میں اور انجیل میں توصیف یوں ہے جیسے ایک کھیتی جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اس کو تقویت دی اور وہ مضبوط و موٹی ہوئی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی وہ کسانوں کو خوش کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ سے کفار کے دل جلائے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، مغفرت اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔



(سورۃ الفتح:29)


پیغمبر اکرمؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کی خصوصیات

سورہ فتح کی 29ویں آیت پیغمبر اسلامؐ اور آپ کے با ایمان اصحاب کو پانچ خصوصیات کے ساتھ متصف کرتی ہے: وہ کفار کے مقابلے میں سختی سے پیش آتے ہیں، آپس میں نرم دل اور مہربان ہیں، ہمیشہ عبادت میں مصروف رہتے ہیں، اللہ کے فضل و کرم اور خوشنودی کے طلبگار رہتے ہیں اور ان کے چہروں پر سجدوں کے آثار نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔[4] محمد حسین فضل اللہ کے مطابق یہ آیت پیغمبر اسلامؐ کو "رسول اللہ" کے طور پر متعارف کراتی ہے اور آپ کی رحلت کے بعد آپ کی سیرت سے راہنمائی لیتے ہوئے آپ کے پیروکاروں کے ذریعے آپ کی الہی دعوت کے تسلسل پر زور دیتی ہے۔[5] کفار کے معاملے میں سختی سے پیش آنے کا مطلب بے رحمی نہیں بلکہ الہی اقدار کی تحفظ کے لیے مزاحمت اور مقاومت کا ایک طریقہ ہے، اور مومنین کے آپس میں نرم دلی اور مہربانی ان کے درمیان رحمت اور ہمدردی پر مبنی سماجی رابطے کی نشاندہی کرتی ہے۔[6]

تفسیر نمونہ میں "سِیماہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ" کی عبارت کو خدا کے سامنے ان کے عجز و انکساری کی نشانی قرار دیا گیا ہے جو ان کی زندگی کے مختلف شعبوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔[7] البتہ اس عبارت کی تفسیر قیامت کے دن ان کے پیشانی پر ظاہر ہونے والی ایک تابناک علامت کے طور پر بھی کی گئی ہے۔[8] طبرسی کے مطابق عطاء خراسانی (متوفی: 165ھ) کہتے ہیں کہ اس خصوصیت میں وہ تمام نمازی بھی شامل ہیں جو پابندی کے ساتھ پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔[9]

مفسرین نے جملہ "تَرَاہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا" کی تفسیر کثرت سے نماز پڑھنے اور اس پر مداومت سے کی ہے۔[10]

تورات اور انجیل میں ان خصوصیات کا جائزہ

قرآن مجید میں سابقہ آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلامؐ اور ان کے ساتھیوں کی مذکورہ صفات کی موجودگی کی طرف اشارہ کے حوالے سے مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ تورات اور انجیل نے الگ الگ ان صفات کی طرف اشارہ کیا ہے،[11] جبکہ دوسرے گروہ کے مطابق یہ صفات ان دونوں کتابوں میں مشترکہ طور پر موجود ہیں۔[12] مثال کے طور پر آیت اللہ مکارم شیرازی ان کتابوں میں مذکورہ صفات میں امتیاز کے حوالے سے کہتے ہیں کہ تورات میں ان کی جسمانی اور ظاہری پہلووں سے توصیف کی گئی ہے جبکہ انجیل میں ان کے معنوی اور روحانی سیر و سلوک کے مختلف پہلووں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[13]

تاہم، کہا جاتا ہے کہ تورات اور انجیل کے موجودہ متون میں مشخصا ان صفات کو معین نہیں کر سکتے۔[14] اسی بنا پر علامہ طباطبائی اور آیت اللہ مکارم شیرازی جیسے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں صرف قرآنی مستندات پر اکتفا کیا ہے اور سابقہ کتابوں کی طرف رجوع نہیں کیا ہے۔[15] اس سلسلے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ گزر زمان کے ساتھ سابقہ آسمانی کتابوں میں کی گئی تحریفات کے باعث ان خصوصیات کا تورات و انجیل کے موجودہ مضامین سے دقیق مطابقت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔[16]

صحابہ کی عدالت پر اس آیت سے استدلال

شیعہ مفسرین ادبی اور عقلی دلائل کی بنیاد پر اس بات کے قائل ہیں کہ یہ آیت پیغمبر اسلامؐ کے تمام صحابہ کے بارے میں کوئی کلی حکم بیان نہیں کرتی،[17] بلکہ صرف مومنین کے ایک خاص گروہ کے بارے میں ہے جو فکر اور عمل دونوں میں پیغمبر کے ہم نوا تھے۔[18] وہ استدلال کرتے ہیں کہ آیت کو تمام صحابہ پر حمل کرنا، جس میں منافقین بھی شامل ہیں، دینی تعلیمات کے منافی ہے، کیونکہ ایمان اور عمل صالح کی شرط کے بغیر بخشش اور عظیم اجر و ثواب کا وعدہ دینی تکلیف شناسی کو بے معنی بنا دیتا ہے۔[19] اس کے مقابلے میں اہل سنت مفسرین اس آیت کو تمام صحابہ پر تعمیم دیتے ہیں[20] اور اس سے ان سب کی عدالت کا نتیجہ نکالتے ہیں۔[21]

شیخ طوسی کی پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک روایت کے مطابق اس آیت کے آخری حصے کا اصل مصداق امام علیؑ اور آپؑ کے پیروکار ہیں۔ اس روایت کے مطابق قیامت کے دن امام علیؑ ایک سفید نور کے جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہونگے اور مہاجرین اور انصار کے ہراول دستے آپ کے جھنڈے تلے جمع ہونگے اور آپؑ قیامت کے دین مؤمنین کے اعمال کا حساب کتاب اور بہشت میں ان کے مقام اور درجات متعین کرنے کی ذمہ داری پر مامور ہوں گے۔[22]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج22، ص113 و 114۔
  2. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص299۔
  3. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج21، ص129۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج22، ص113 و 114۔
  5. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج21، ص127۔
  6. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج21، ص128۔
  7. مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، 1371ش، ج22، ص115۔
  8. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص192۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص192۔
  10. سیواسی، عیون التفاسیر، 1427ھ، ج4، ص131؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع‏، 1412ھ، ج4، ص147؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص192۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج22، ص115 و 116؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج26، ص72۔
  12. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج21، ص129؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص300۔
  13. مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، 1371ش، ج22، ص117۔
  14. پورمحمد، «پیامبر اکرم(ص) در عہدین»، ص90؛ «پیامبر اسلام در تورات و انجیل»، مؤسسہ تحقیقاتی و نشر معارف اہل بیت(ع)۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج22، ص115 - 124؛ طباطبایی، المیزان، ج18، ص299 - 303۔
  16. پورمحمد، «پیامبر اکرم(ص) در عہدین»، ص90۔
  17. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج21، ص130۔
  18. مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، 1371ش، ج22، ص116۔
  19. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج21، ص130۔
  20. طنطاوی، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، 1997م، ج13، ص286؛ ابن‌جزری، التسہیل لعلوم التنزیل، ج2، ص292۔
  21. نیکزاد، «عدالت صحابہ در ترازوی تحقیق»، ص25 و 26۔
  22. شیخ طوسی، امالی، 1414ھ، ص378۔

مآخذ

  • ابن‌جزری، محمد بن احمد، التسہیل لعلوم التنزیل، محقھ، عبداللہ خالدی، بیروت، دار الأرقم بن أبی‌الأرقم، بی‌تا۔
  • پورمحمد، محسن، پیامبر اکرم(ص) در عہدین، مجلہ معرفت، شمارہ 25، تابستان 1377ہجری شمسی۔
  • سیواسی، احمد بن محمود، عیون التفاسیر، محقق: بہاء الدین دارتما، بیروت، دار صادر، چاپ اول، 1427ھ۔
  • شاہ‌عبدالعظیمی، حسین، تفسیر اثنی عشری، تہران، نشر میقات، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، امالی، تصحیح: مؤسسۃ البعثۃ، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن‏، تفسیر جوامع الجامع‏، تصحیح: ابوالقاسم گرجی، قم، مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن‏، مجمع البیان فی تفسیر القرآن‏، تصحیح: فضل‌اللہ یزدی طباطبایی، ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • طنطاوی، سید محمد، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، قاہرہ، 1997ء۔
  • فضل‌اللہ، محمدحسین، من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک، چاپ اول، 1419ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران‏، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • نیکزاد، «عدالت صحابہ در ترازوی تحقیق»، مجلہ رواق اندیشہ، شمارہ 28، فروردین 1383ہجری شمسی۔
  • پیامبر اسلام در تورات و انجیل»، «پیامبر اسلام در تورات و انجیل»، مؤسسہ تحقیقاتی و نشر معارف اہل بیت(ع).