سورہ آل عمران آیت نمبر 164
| آیت کی خصوصیات | |
|---|---|
| سورہ | آل عمران |
| آیت نمبر | 164 |
| پارہ | 4 |
| محل نزول | مدینہ |
| موضوع | اعتقادی |
| مضمون | لوگوں پر پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کی نعمت کا بیان |
سورہ آل عمران آیت نمبر 164، میں پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کو مؤمنوں کے لیے ایک عظیم نعمت قرار دی گئی ہے۔ مفسرین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کو اس لیے نعمت کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مؤمنین کو جہالت، نادانی، خرافات، شرک اور عذابِ الٰہی سے نجات ملی۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب مسلمان، مشرکوں سے جنگ کی وجہ سے سختیوں میں مبتلا تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھایا کہ اس کے بدلے میں انہیں سب سے بڑی نعمت عطا کی گئی ہے اور وہ نعمت ایسا پیغمبرؐ ہے جو انہیں کھلی گمراہی سے نجات دیتا ہے۔
اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کے متعلق بیان کی گئی خصوصیات میں سے ایک، آپؐ کا بشر ہونا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لئے خود ان کے اندر سے انبیاء بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لیے نمونہ بن سکیں؛ کیونکہ پیغمبر یا نبی اگر جن یا فرشتہ ہوتا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ وہ گناہ اس لئے نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ فرشتہ ہے۔ دوسرا یہ کہ، جب پیغمبر انسان ہوگا تو اس کی سوچ، جذبات اور ضروریات بھی انسانوں جیسے ہوں گے، اور وہ ان کی تربیت انہی چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔
پیغمبر اکرمؐ کی بعثت، مؤمنوں کے لیے ایک عظیم نعمت
مفسرین کے مطابق سورہ آل عمران آیت نمبر 164 میں پیغمبر اسلامؐ کی بعثت کو خدا کی طرف سے مؤمنوں پر سب سے بڑی نعمت قرار دی گئی ہے۔[1] اگرچہ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت تمام انبیاء کی بعثت کو نعمت قرار دیتی ہے، نہ صرف پیغمبر اسلامؐ کی بعثت کو۔[2]
بعثت کو نعمت کہنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ لوگوں کو تاریکی سے روشنی،[3] نادانی سے آگاہی، ذلت سے عزت و کرامت اور گناہ اور عذابِ الٰہی سے اطاعت اور ثواب کی طرف لے کر آتے ہیں اور انہیں شرک، بت پرستی اور خرافات کی نجاست سے پاک کرتے ہیں۔[4]
اس آیت میں بعثت کی نعمت کو بیان کرنے کے لیے لفظ "منت" استعمال کیا گیا ہے جس کے بارے میں مفسرین دو قسم کی تفسیر بیان کرتے ہیں: ایک یہ کہ "منت" کا مطلب کاٹنے کے ہیں، یعنی پیغمبر کے ذریعے ظلمت اور مصیبت کے اسباب کا خاتمہ ہوتا ہے؛[5] اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ "منت" کا مطلب "بڑی اور بھاری نعمت" ہے[6] جو بعثت کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔[7]
اللہ نے اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کی بعثت پر صرف مؤمنوں پر کیوں احسان جتایا ہے؟، حالانکہ سورۂ سبا کی آیت نمبر 28 کے مطابق پیغمبر اکرمؐ تمام انسانوں کے لیے مبعوث گئے ہیں، اس کی وجہ مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ صرف مؤمنین اپنے ایمان کی بنا پر،[8] اس عظیم نعمت سے فائدہ اٹھائیں گے[9] اور ہدایت پائیں گے؛ جس طرح قرآن سے ہدایت پانے کو صرف متقین کے ساتھ مختص قرار دیا گیا ہے۔[10]
کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان نئے مسلمانوں کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی جو جنگ اُحد کے بعد یہ پوچھتے تھے کہ ہم کیوں اتنی مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔ اللہ نے اس آیت کے ذریعے انہیں بتایا کہ اگرچہ تمہیں نقصان پہنچا ہے، لیکن بدلے میں تمہیں سب سے بڑی نعمت عطا ہوئی ہے، اور وہ ایک ایسا پیغمبرؐ ہے جو تمہیں کھلی گمراہی سے نجات دے گا۔[11]
لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ يَتْلُو عَلَيْہِمْ آيَاتِہِ وَيُزَكِّيہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَۃَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
اللہ نے ہمیشہ اہل ایمان پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا۔ جو ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتا ہے۔ ان کو پاکیزہ کرتا ہے (ان کی اصلاح کرتا ہے) اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
[آل عمران: 164]
پیغمبر اکرمؐ کا بشر ہونا
مذکورہ آیت کے جن حصوں کے بارے میں بحث و گفتگو کی گئی ہے ان میں سے ایک "مِنْ أَنْفُسِہِمْ" (خود ان ہی میں سے) کی عبارت ہے؛ طبرسی اس عبارت کے بارے میں تین احتمال ذکر کرتے ہیں: 1- یہ کہ جس قوم میں انبیاء مبغوث کئے گئے وہ انہی میں سے ہی بھیجے گئے ہیں، 2- یہ کہ انبیا کو جس قوم میں بھیجے گئے ہیں وہ اسی قوم کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، 3- یہ کہ انبیاء بشر ہیں، نہ کہ فرشتہ یا جن۔[12]
بعض مفسرین نے تیسرے معنی کو اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کا بشر ہونا فرشتہ یا جن ہونے کے مقابلے میں ایک خاص فضیلت کا حامل ہے۔[13] اور انسانوں کی ہدایت کے لئے خود انہیں میں سے ایک کو پیغمبر بنا کر بھیجنا انسان کے لئے دوہری نعمت ہے۔[14]کیونکہ جب پیغمبر انسان ہوں گے تو ان کی سوچ، جذبات، طاقت اور تمنائیں سب انسانوں جیسی ہوں گی[15] اور وہ انسانوں کی ضروریات اور حالات کو سمجھ کر ان کی تربیت کریں گے۔[16]
اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ پیغمبر کا انسانوں کے لیے نمونہ ہونا تب ہی ممکن ہے جب وہ خود انہی میں سے ہوں، لوگ ان کی سابقہ زندگی سے واقف ہوں، ان پر اعتماد کریں اور وہ ان کے درمیان موجود ہوں۔ لیکن اگر پیغمبر فرشتہ ہو اور گناہ انجام نہ دے، تو لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ وہ اس لیے گناہ نہیں کرتا کیونکہ فرشتوں میں شہوت اور نفسانی خواہشات ہوتی ہی نہیں۔[17]
قرآن کی تلاوت، تعلیم کی بنیاد
سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 164 پیغمبر اکرمؐ کے تبلیغی منصوبے کو بیان کرتی ہے۔[18] شیعہ مفسر اور فقیہ آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اس آیت کی روشنی میں پیغمبر کی تین بنیادی ذمہ داریاں یہ ہیں: 1- لوگوں کو اللہ کی آیات کی تلاوت کرنا تاکہ وہ ان سے آشنا ہوں؛ 2- لوگوں کو اللہ کی آیات کی تعلیم دینا، یعنی ان کی حقیقتوں کو لوگوں کے دل میں اتارنا؛ 3- لوگوں کے نفوس کا تزکیہ اور لوگوں کی اخلاقی اور انسانی اصولوں کے مطابق تربیت کرنا۔
بعثت سے پہلے لوگوں کی کھلی گمراہی
اس آیت کے آخری حصے میں پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے قبل کے دور کو "صریح گمراہی" سے تعبیر کیا گیا ہے۔[19] اس کی وضاحت یہ کی گئی ہے کہ زمان جاہلیت کی گمراہی اس حد تک گہری تھی کہ لوگ خود بھی اس کا شعور نہیں رکھتے تھے۔[20] خواہشات کی پیروی، باطل اقدار کی ترویج، دینی تعلیمات سے محرومی اور جہالت، پیغمبر اکرمؐ کے ظہور سے قبل لوگوں کی گمراہی کی کچھ جھلک تھی۔[21] مفسرین کہتے ہیں کہ مؤمنین کو ان کے ماضی کی گمراہی اور پیغمبر اکرمؐ کی تعلیمات کے ذریعہ ہدایت پانے کی یاد دہانی، انہیں جنگ کی مشکلات برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے اور انہیں اللہ کی اس نعمت پر شکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔[22]
مفسرین سورہ آل عمران کی آیت نمبر 164 کے اس حصے کی روشنی میں کہتے ہیں کہ ایک عظیم نعمت کی قدر اُس وقت بہتر سمجھ میں آتی ہے جب اسے اس سے پہلے کے حالات سے مقایسہ کیا جائے۔ اسی لئے اس آیت میں بعثتِ انبیاء کی نعمت کو سمجھانے کے لیے انبیاء سے قبل کے دور کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعثت، آج کے انسانی تمدن، علم، خرافات سے نجات، اور دیگر کئی نعمتوں کی بنیاد ہے۔[23]
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص875؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص157-158؛ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج3، ص461؛ نجفی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج3، ص60؛ قرائتی، تفسیر نور، 1383ش، ج1، ص642؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج3، ص124۔
- ↑ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص321؛ قرائتی، تفسیر نور، 1383ش، ج1، ص642۔
- ↑ مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج1، ص693۔
- ↑ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج2، ص197۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص875۔
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات، 1404ھ، ج1، ص474۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج3، ص124؛ قرائتی، تفسیر نور، 1383ش، ج1، ص642۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص57۔
- ↑ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج3، ص461؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص322۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص876؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص158۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص158۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص876۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص158-159؛ نجفی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج3، ص60۔
- ↑ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص321؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج3، ص125۔
- ↑ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج3، ص461۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص159؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص322؛ نجفی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج3، ص60۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1383ش، ج1، ص642؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص159.
- ↑ فضلاللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج3، ص461۔
- ↑ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1439ھ، ج3، ص461؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص324۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص160؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص321۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج3، ص126۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج3، ص126۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص160؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج3، ص126؛ قرائتی، تفسیر نور، 1383ش، ج1، ص643؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج3، ص324۔
مآخذ
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بیجا، دفتر نشر الکتاب، چاپ دوم، 1404ھ۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہشہای تفسیر و علوم قرآنی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
- فضلاللہ، محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر و التوزیع، چاپ سوم، 1439ھ۔
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
- مدرسی، محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین علیہ السلام، چاپ اول، 1419ھ۔
- مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الإسلامی، چاپ اول، 1424ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدجواد، تفسیر آسان، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، چاپ اول، 1398ھ۔
- ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، چاپ پنجم، 1386ہجری شمسی۔