مندرجات کا رخ کریں

سورہ یوسف آیت نمبر 97

ویکی شیعہ سے
سورہ یوسف آیت نمبر 97
آیت کی خصوصیات
سورہسورہ یوسف
آیت نمبر97
پارہ13
محل نزولمکہ
موضوعاعتقادی
مضمونحضرت یعقوب کے بیٹوں کی اپنے والد سے طلب بخشش کی درخواست
مرتبط موضوعاتتوسل اور شفاعت
مربوط آیاتسوره نساء آیت نمبر 64، سورہ مائدہ آیت نمبر 35، سورہ توبہ آیت نمبر 114


سورہ یوسف آیت نمبر 97، حضرت یعقوب کے بیٹوں کی درخواست کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس کے مطابق انہوں نے اپنے والد سے ان کے گناہوں کی بخشش کے لئے خدا کے یہاں شفاعت کی درخواست کی تھی۔

شیعہ علماء اولیائے الہی سے توسل اور شفاعت طلبی کی مشروعیت کے لیے اس آیت سے استناد کرتے ہیں۔ اسی طرح ان اعمال کے شرک ہونے سے متعلق وہابیوں کے دعوے کو رد کرنے کے لئے بھی اس آیت سے استناد کرتے ہیں، کیونکہ اگر یہ اعمال شرک ہوتے تو اللہ کے نبی حضرت یعقوب اپنے بیٹوں کی اس درخواست کو قبول نہ کرتے۔

تعارف

سورہ یوسف کی آیت نمبر 97 میں حضرت یعقوب کے بیٹوں کی طرف سے گناہوں کی مغفرت کے لئے اپنے والد سے شفاعت کی درخواست کا ذکر ہے۔[1] اس آیت کو اعتقادی موضوعات، خاص طور پر توسل اور شفاعت کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔[2] شیعہ اور اہل سنت دونوں فریقوں کی کتابوں میں توسل کے ساتھ اس آیت کے ارتباط سے متعلق احادیث بھی نقل ہوئی ہیں۔[3]

قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
انہوں (بیٹوں) نے کہا اے ہمارے باپ (خدا سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کریں یقینا ہم خطاکار تھے۔



یوسف: 97


یہ آیت سورہ یوسف کی آخری آیات میں سے ہے اور حضرت یوسف کی داستان سے متعلق ہے۔ ان آیات کے مطابق حضرت یوسف کے بھائیوں نے جب خود کو گناہگار پایا (یعنی حضرت یوسف کے خلاف سازش، جھوٹ بولنا اور اپنے والد کو تکلیف پہنچانا وغیرہ)[4] تو انہوں نے اپنے والد کو واسطہ بنایا کہ وہ خدا سے ان کے گناہوں کی مغفرت کے لئے دعا کریں۔[5] اگلی آیت میں حضرت یعقوب خدا کی بخشش کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے دعا کریں گے۔[6] مفسرین کے مطابق حضرت یوسف کے بھائیوں نے اپنے والد کو واسطہ اور شفیع اس لیے بنایا کیونکہ وہ نبوت کی برکتوں سے آشنا تھے اور یقین رکھتے تھے کہ ان کی دعا قبول ہو گی۔[7]

توسل اور شفاعت کی مشروعیت کے لئے استناد

سورہ یوسف کی آیت نمبر 97 ان آیات میں سے ہے جنہیں توسل اور شفاعت کی مشروعیت اور جواز کے لئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔[8] اس سلسلے میں یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت یوسف کے بھائیوں نے اپنے درمیان موجود نبی یعنی حضرت یعقوب کو واسطہ اور شفیع بنایا تاکہ وہ خدا سے ان کی مغفرت طلب کرے اور حضرت یعقوب نے بھی اس درخواست کو رد نہیں کیا بلکہ اپنے بیٹوں کے لئے دعا کرنے کا وعدہ کیا۔[9] اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کو واسطہ قرار دینا اور شفاعت طلب کرنا توحید کے منافی نہیں ہے۔[10]

شیعہ علماء اس آیت کے ذریعے ابن تیمیہ اور وہابیوں کی اس رائے کو مسترد کرتے ہیں[11] جس کے مطابق وہ لوگ توسل اور شفاعت کو شرک سمجھتے ہیں۔[12] کیونکہ وہابی مردوں سے توسل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[13] لیکن یہ آیت بلا کسی قید کے اولیائے الہی سے توسل اور شفاعت طلبی کی مشروعیت کو ثابت کرتی ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج5، 403؛، طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج11، 245؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج3، ص176؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج13، ص42۔
  2. ملاحظہ کریں: سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، قم، ج4، ص374؛ مکارم شیرازی، شیعہ پاسخ می‌گوید، 1386ش، ص93۔
  3. قمی، تفسیر القمی، 1363ش، ج1، ص356؛، مکارم شیرازی، آیات الولایۃ فی القرآن، 1383ش، ص203-205۔
  4. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج6، ص195؛ حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج4، ص318؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج10، ص71۔
  5. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج4، ص356۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج10، ص71۔
  7. حسینی شیرازی، تقریب القرآن، 1424ھ، ج3، ص42۔
  8. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، قم، ج4، ص374؛ مکارم شیرازی، شیعہ پاسخ می‌گوید، 1386ش، ص93؛ مکارم شیرازی، الأمثل، 1421ھ، ج19، ص98۔
  9. مکارم شیرازی، آیات الولایۃ فی القرآن، 1383ش، ص201؛ حسینی نسب، شیعہ پاسخ می‌دہد، 1386ش، ص145؛ حسینی اوسطی، دوازدہ گفتار دربارہ حضرت مہدی(ع)، 1386ش، ص123-124۔
  10. مکارم شیرازی، آیات الولایۃ فی القرآن، 1383ش، ص201-205۔
  11. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، قم، ج4، ص374؛ مکارم شیرازی، الأمثل، 1421ھ، ج7، ص301۔
  12. ملاحظہ کریں: بہ ابن‌تیمیہ، مجموع الفتاوی، 1416ھ، ج1، ص159؛ ابن‌تیمیہ، مجموعۃ الرسائل و المسائل، لجنۃ التراث العربی، ج1، ص22-23؛ابن‌عبدالوہاب، الرسائل الشخصیۃ، جامعۃ الإمام محمد بن سعود، ص154؛ منجد، موقع الإسلام سؤال و جواب، 1430ھ، ج1، ص938۔
  13. ابن‌تیمیہ، مجموعۃ الرسائل و المسائل، لجنۃ التراث العربی، ج1، ص22-23۔
  14. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، آیات الولایۃ فی القرآن، 1383ش، ص201-205۔

مآخذ

  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی، مدینہ، مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف، 1416ھ۔
  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموعۃ الرسائل والمسائل، بی‌جا، لجنۃ التراث العربی، بی‌تا۔
  • ابن‌عبدالوہاب، محمد، الرسائل الشخصیۃ، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود، بی‌تا۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فی رحاب أہل البیت(ع)، قم، المجمع العالمی لأہل البیت(ع)، چاپ دوم، 1426ھ۔
  • حسین اوسطی، دوازدہ گفتار دربارہ حضرت مہدی(ع)، تہران، نشر مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تقریب القرآن إلی الأذہان، بیروت، دارالعلوم، 1424ھ۔
  • حسینی نسب، سید رضا، شیعہ پاسخ می‌دہد، تہران، نشر مشعر، چاپ نوزدہم، 1386ہجری شمسی۔
  • حقی بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، شیعہ پاسخ می‌گوید، قم، مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ ہفتم، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، آیات الولایۃ فی القرآن، قم، مدرسۃ الإمام علی بن أبی‌طالب(ع)، 1383ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، الأمثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، 1421ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔