مندرجات کا رخ کریں

سورہ توبہ آیت نمبر 109

ویکی شیعہ سے
سورہ توبہ آیت نمبر 109
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامسورہ توبہ آیت نمبر 109
سورہتوبہ
آیت نمبر109
پارہ11
شان نزولمنافقین کے توسط سے مسجد قبا ساتھ ایک اور مسجد کی تعمیر
محل نزولمدینہ
موضوعمسجد ضرار اور مسجد تقوی تعمیر کرنے والوں کا موازنہ
مربوط آیاتسورہ توبہ آیت نمبر 107 اور سورہ توبہ آیت نمبر 108


سورہ توبہ کی آیت نمبر 109، میں مساجد کی تعمیر کرنے والوں کے مقاصد اور اہداف کا موازنہ کیا گیا ہے۔ تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی مسجد کو مضبوط اور پائیدار عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے، جبکہ نفاق کی بنیاد پر تعمیر کی گئی مساجد کو کھائی کے کنارے پر موجود اس کمزور اور غیر مستحکم عمارت کی مانند قرار دیا گیا ہے جو کسی بھی وقت منہدم ہو کر جہنم کی آگ میں جا گرے گی۔

یہ آیت در حقیقت دین کے دو متضاد رویوں کی نشاندہی کرتی ہے ایک طرف مؤمنوں کا طرز عمل اخلاص اور پرہیزگاری پر مبنی ہے اور دوسری طرف منافق نیکی کے لبادے میں فتنہ و فساد کے بیج بونے میں مصروف ہے۔ مفسرین نے اس آیت کی شان نزول کو منافقین اور مسجد ضرار کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس آیت کے نزول کے بعد نبی اکرمؐ نے مسجد ضرار کو منہدم کرنے کا حکم دیا تاکہ فساد اور تفرقے کو روکا جا سکے۔ اس آیت کے مفہوم سے کئی گہرے نکات اخذ کئے گئے ہیں، جن میں مؤمن اور منافق کے عمل میں موجود نمایاں فرق، حق کی استواری اور باطل کی ناپائیداری، اور اپنے امور کو مضبوط اصولوں پر قائم کرنے کی ضرورت شامل ہے۔

مفسرین کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا مسجد ضرار کا جہنم میں گرنا حقیقی تھا یا مجازی۔ حقیقی ہونے کے حق میں ان احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں مسجد ضرار سے بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں دھواں نکلنے کی تصدیق کی گئی ہے۔

آیت کے عمومی نکات

سورہ توبہ کی آیت نمبر 109 میں تقویٰ اور اللہ کی رضا کی بنیاد پر تعمیر کی گئی مسجد قباء کو نفاق اور فساد کی بنیاد پر تعمیر کی گئی مسجد ضرار سے موازنہ کی گئی ہے۔[1] یہ آیت مؤمنوں کو ان افراد سے تشبیہ دیتی ہے جو اپنی بنیاد کو ایک مضبوط زمین اور پائیدار مواد پر تعمیر کرتے ہیں، جبکہ منافقوں کو ایسے افراد کی مانند قرار دیتی ہے جو اپنی عمارت کو ایک خطرناک اور غیر مستحکم کھائی کے کنارے تعمیر کرتے ہیں جو کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔[2] یہ تشبیہ مؤمنوں اور منافقوں کی مختلف طرز زندگی کو نمایاں کرتی ہے[3] اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ ایمان کی بنیاد مستحکم اور مضبوط ہے جبکہ نفاق کی بنیاد غیر مستحکم اور متزلزل ہے۔[4] سورہ توبہ کی آیت نمبر 107 اور 108 میں بھی مسجد ضرار اور اس کے تفرقہ انگیز مقاصد کا ذکر کیا گیا ہے اور نبی اکرمؐ اور مؤمنوں کو اس میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔[5]

أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَہُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَہُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہِ فِي نَارِ جَہَنَّمَ وَاللَّہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ


آیا وہ شخص بہتر ہے جو اپنی عمارت کی بنیاد خوفِ خدا اور اس کی خوشنودی پر رکھے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر رکھی اور پھر وہ اسے لے کر دوزخ کی آگ میں جاگری اور اللہ ظالموں کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا۔



سورہ توبہ: آیت 109


شانِ نزول

مفسرین کے مطابق یہ آیت ان منافقین[6] کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے تفرقہ پیدا کرنے کے لیے[7] مسجد قباء کے قریب ایک اور مسجد بنائی اور نبی اکرمؐ سے اس میں نماز پڑھنے کی درخواست کی۔ لیکن اس آیت کے نزول اور ان کے ارادے سے مطلع ہونے کے بعد[8] نبی اکرمؐ نے اس مسجد کو منہدم کرنے کا حکم دیا اور اس جگہ کو کوڑے دان میں تبدیل کر دیا۔[9] متعدد احادیث کے مطابق یہ مسجد ابو عامر راہب[10] کے کہنے پر تعمیر کی گئی تھی، جو ایک عیسائی عابد اور نبی اکرمؐ کا مخالف شخص تھا۔[11] کہا جاتا ہے کہ اس آیت کی شأن نزول کے بارے میں مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔[12]

مسجد ضرار کا جہنم میں گرنے کی حقیقت

مسجد ضرار کے جہنم کی آگ میں گرنے کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[13] بعض کے مطابق یہ واقعہ حقیقی طور پر پیش آیا تھا اور وہ جگہ جہنم کا حصہ تھی، جبکہ دیگر مفسرین اسے مجازی قرار دیتے ہیں[14] اور کہتے ہیں کہ گویا وہ جہنم آگ میں گر گئی ہے۔ یہ نظریہ آیت «فَأُمُّہُ ہاوِیۃٌ»[15] کی تفسیر کے ساتھ شباہت رکھتی ہے۔[16]

اہلِ سنت مفسر قرطبی اس واقعے کے حقیقی ہونے کو درست مانتے ہیں[17] اور اس کو ثابت کرنے کے لئے جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں، جس کے مطاب انہوں نے نبی اکرمؐ کے زمانے میں مسجد ضرار سے دھواں نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔[18] اسی طرح یہ بھی نقل ہوا ہے کہ مسجد ضرار کی جگہ سے بنی‌ امیہ [19] یہاں تک کہ منصور عباسی کے دور خلافت میں بھی دھواں نکلتی تھی۔[20]

آیت سے مأخوذہ نکات

سورہ توبہ کی آیت نمبر 109 کی تفسیر میں مفسرین نے مختلف نکات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • مؤمن اور منافق کے عمل میں فرق: پرہیزگار انسان اور منافق انسان کے عمل کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ متقی انسان کا عمل مضبوط اور اصولی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے، جبکہ منافق کا عمل کمزور بنیادوں پر مبنی ہوتا ہے جو جلد ختم ہونے والا ہوتا ہے۔[21] علامہ طباطبائی کے مطابق مؤمن کا دین تقویٰ، اللہ کی رضا، اور یقین پر قائم ہوتا ہے، جبکہ منافق کا دین شک، بے یقینی اور بے ثباتی پر مبنی ہوتا ہے۔[22]
  • حق کی استواری اور باطل کی ناپائیداری: یہ آیت اسلام کی مضبوطی، اس کی طاقت، اور اس کے پیروکاروں کی خوش نصیبی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح باطل کی ناپائیداری، جلد فنا ہونا اور باطل پرستوں کی نا امیدی کو بیان کرتی ہے۔ اہل باطل کی آرزو اور امیدیں بہت جلد ختم ہوجاتی ہیں اور اس کا زوال یقینی ہے۔[23] ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای قرآن اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی چیز کی بیناد تقویٰ پر قائم کی گئی ہو، تو وہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ لیکن اگر تقویٰ کی بنیاد پر نہ ہو، تو وہ باطل اور فنا ہو جائے گی۔ کیونکہ کائنات کی حرکت حق کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے اور جو کچھ حق کے مطابق ہو وہ باقی رہتا ہے۔ جبکہ باطل، جو کائنات کے قدرتی نظام کے خلاف ہے، باقی نہیں رہ سکتا اور کائنات کی حرکت اسے ختم کر دے گی۔[24]
  • امور کو مضبوط اصولوں پر قائم کرنا: انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے امور کو ایسی بنیادوں پر استوار کریں جو انسان کو جہنم سے دور اور اللہ کی رضا اور نعمتوں کے قریب لے جائے۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنے امور کو ایسی کمزور بنیادوں پر استوار کریں تو یہ چیز انسان کو نابودی کی طرف لے جائے گی جس کا انجام جہنم کی آگ میں داخل ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔[25]
  • مسجدِ تقویٰ؛ امن اور استحکام کی علامت: وہ مسجد جو تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہو، وہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے جسے کوئی چیز متزلزل نہیں کر سکتی۔ ایسی مسجدوں کی تعمیر کرنے والے امن اور سکون میں رہتے ہیں اور اس کی برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔[26]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‌8، ص140-141۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج‌5، ص111؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج‌16، ص149؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج‌11، ص25۔؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‌8، ص140-141۔
  3. طباطبایی، المیزان، 1390شمسی، ج‌9، ص391۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‌8، ص140-141۔
  5. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج‌16، ص147؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج‌9، ص389۔
  6. بغوی، معالم التنزیل، 1420ھ، ج‌2، ص387؛ میبدی، کشف الأسرار، 1371شمسی، ج‌4، ص211۔
  7. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج‌6، ص19۔
  8. قمی، تفسیر القمی، 1363شمسی، ج‌1، ص305؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج‌11، ص18؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج‌2، ص310۔
  9. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج‌5، ص298؛ قمی مشہدی، کنز الدقائق، 1368شمسی، ج‌5، ص540-541۔ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج‌10، ص36۔
  10. قمی، تفسیر القمی، 1363شمسی، ج‌1، ص305؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج‌8، ص257۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج‌8، ص135۔
  12. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج‌8، ص117۔
  13. زحیلی، التفسیر المنیر، 1418ھ، ج‌11، ص46 - 47۔
  14. زحیلی، التفسیر المنیر، 1418ھ، ج‌11، ص46 - 47۔
  15. سورہ قارعہ، آیہ 9۔
  16. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج‌8، ص265 بہ نقل از دیگران۔
  17. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج‌8، ص265۔
  18. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج‌8، ص265۔
  19. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج‌11، ص25۔
  20. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج‌4، ص104۔
  21. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج‌5، ص111۔
  22. طباطبایی، المیزان، 1390شمسی، ج‌9، ص391۔
  23. مراغی، تفسیر المراغی، بیروت، ج‌11، ص28۔
  24. خامنہ‌ای، تفسیر سورہ برائت، 1398شمسی، ص686۔
  25. بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج‌3، ص98۔
  26. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج‌4، ص103۔

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • ابن‌عاشور، محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ، بی‌تا۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • بغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • خامنہ‌ای، سیدعلی، تفسیر سورہ برائت، تہران، انتشارات انقلاب اسلامی، 1398ہجری شمسی۔
  • حسینی ہمدانی، محمد، انوار درخشان در تفسیر قرآن، تہران، انتشارات لطفی، 1404ھ۔
  • زحیلی، وہبۃ بن مصطفی، التفسیر المنیر فی العقیدۃ و الشریعۃ و المنہج، بیروت، دارالفکر المعاصر، 1418ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)،‌ بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، 1377ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تحقیق حسین درگاہی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم،‌ دار الکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • مراغی، احمد بن مصطفی، تفسیر المراغی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، تہران، امیرکبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی۔