آیت لاتحزن

ویکی شیعہ سے
(آیت لا تحزن سے رجوع مکرر)
آیہ لا تحزن
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ لا تحزن
سورہتوبہ
آیت نمبر40
پارہ10
شان نزولغزوہ تبوک میں آنحضرتؐ کی ہمراہی میں بعض مسلمانوں کی سستی
موضوعاللہ کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کی ںصرت


آیہ لا تحزن یا آیہ غار (سورہ توبہ آیت 40) میں پیغمبر اکرم ؐ اور ابوبکر کے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے موقع پر غار ثور میں پناہ لینے کا ذکر ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں بعض مسلمانوں کے غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ نہ دینے کا ذکر آیا ہے۔ شیعہ اور سنی مفسرین اس آیت کے ابوبکر کی فضیلت کے بارے میں ہونے میں اختلاف رکھتے ہیں۔

آیت اور ترجمہ


اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو (جان لو کہ) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کفار نے انہیں نکالا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا رنج نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتے تھے۔۔



سورہ توبہ: آیت 40


شان نزول

غار ثور کی تصویر

کہا جاتا ہے شیعہ اور سنی مفسرین کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمانوں میں سے کچھ نے جنگ میں شرکت نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ماننے میں سستی دکھائی۔ یہ آیات مسلمانوں کو جہاد کی طرف توجہ نہ دینے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنے سے روکتی ہیں اور صراحت کے ساتھ کہتی ہیں: اگر آپ پیغمبرؐ کی اس جنگ اور جہاد میں مدد نہیں کرتے ہیں تو خدا ان کی مدد کرے گا، جس طرح پہلے مدینے کی طرف ہجرت کے موقع پر اس غار کی تنہائی میں ان کی مدد کی تھی جب ان کا کوئی یار مددگار نہ تھا سوائے اس ساتھی کہ جو خوف اور حزن کا شکار تھا۔[1] مشہور نظریہ کے مطابق جب پیغمبرؐ کو وحی کے ذریعے قریش کے مشرکین کی طرف سے ان کے قتل کی سازش سے آگاہ ہوئے تو ابو بکر کے ساتھ مکہ سے نکل گئے اور ایک گمنام راستے سے کی طرف سے یثرب کی جانب چلے یہاں تک کہ غار ثور پہنچے اور وہاں مخفی ہوئے۔[2] علامہ طباطبائی کا ماننا ہے کہ روایات کی بنیاد پر یہ آیات غزوہ تبوک کے واقعہ سے متعلق ہیں۔[3]

شیعہ مفسرین کا رجحان

شیعہ مفسرین اور کچھ اہل سنت مفسرین (لا تحزن)کو خوفزدہ نہ ہونے کے معنی میں سمجھتے ہیں۔ اس کی توضیح و تفسیر اس طرح کی ہے: جب قریش پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکہ سے نکل جانے سے آگاہ ہوتے ہیں تو کرز بن علقمہ بن ہلال خزاعی جو کہ ماہر جستجوگر تھا، کی مدد اس راستے کا پتہ لگا لیتے ہیں یہاں تک کہ غار تک پہنچ جاتے ہیں اور پیغمبرؐ اور ابوبکر کے مل جانے سے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ابوبکر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: کیا گمان کرتے ہو ان دو لوگوں کے بارے میں کہ جن کا تیسرا خدا ہے۔[4] اہل سنت کے مآخذ تاریخ جیسے طبری میں اس طرح ابوبکر کے خوفزدہ ہونے کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔[5]

ان مفسرین کا فَاَنْزِلَ اللّهَ سَکینَتَهُ عَلَیهِ، علیہ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کے پہلے اور بعد کے حصے تَنْصُروهُ، نَصَرَهُ، اَخْرَجَهُ، یقولُ، لِصاحِبِهِ اور أَیدَهُ کی ضمائر کا مرجع پیغمبرؐ ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی دلیل کے بغیر اور ایک چیز کے واضح ہوتے ہوئے (علیہ) کی ضمیر کسی دوسرے کی طرف جیسے ابوبکر کی طرف پلٹے؟ اس بات کے ذیل میں کہ آیت، خدا کی پیغمبر کے لئے مدد اور ان کی تائید بیان کر رہی ہے نہ کہ کسی دوسری چیز کو۔[6]

بعض اہل سنت مفسرین کا رجحان

بعض اہل سنت علما سورہ توبہ کی چالیسویں آیت میں ثانِی اثْنَینِ، «لا تَحْزَنْ اور فَاَنْزَلَ اللّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ، جیسی عبارتوں کو ابوبکر کے فضائل میں شمار کرتے ہیں[7] اور عبارت ثانِی اثْنَینِ اِذْ هُما فِی الْغارِ کو ان کی خلافت کے قابل ہونے کی دلیل جانتے ہیں۔[8] اور بعض آیۂ لا تَحْزَنْ سے جو کہ پیغمبر کا ابوبکر سے خطاب ہے، پیمغمبر کا محزون ہونا سمجھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وَ لا تَحْزَنْ عَلَیهِمْ وَ اخْفِضْ جَناحَکَ لِلْمُؤْمِنینَ۔ اے پیغمبر جو ایمان نہیں لاتے ان کے لیے غمگین نہ ہوں اور اپنے بازووں کو مومنین کے لئے پھیلا دیجئے۔[9] وَ لا یحْزُنُکَ قَوْلُهُمْ[10] و لا یحْزُنُکَ الَّذینَ یسارِعونَ فِی الْکُفْرِ [11] جیسی آیات کی بنیاد پر پیغمبر کے اس حزن سے منع کرنے کو ابو بکر کی معصیت کی دلیل کے بجائے اسے پروردگار کی اطاعت سمجھتے ہیں۔[12] اسی طرح ان کے نزدیک علیہ کی ضمیر کو ابوبکر کی طرف پلٹایا ہے اور فَاَنْزَلَ اللّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ: خدا نے ان کو قرار اور سکون بخشا» کو خدا کا ابو بکر پر لطف سمجھتے ہیں۔[13]

حوالہ جات

  1. نجار زادگان، تفسیر تطبیقی، ۱۳۸۳ش،ج۱، ص۲۴۹۔
  2. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ۱۳۵۵ھ، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸ء، ۱، ص۲۲۷-۲۲۹۔
  3. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹۔
  4. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۴۸-۴۹؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۹، ص۲۷۹.
  5. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱۰، ص۹۵.
  6. دیکھئے: طباطبائی،المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹-۲۸۰۔
  7. بخاری، صحیح بخاری، ۱۳۱۵ق، ج۵، ص۲۰۴؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۴، ۱۳۸، ۱۳۹؛ نویری، نهایة الارب، دار الکتب، ج۱۹، ص۱۴-۱۵.
  8. رجوع کیجئے: ابن سلام، بدء الاسلام، ۱۴۰۶ھ، ص۷۰۔
  9. سوره حجر، آیہ ۸۸
  10. سوره یونس، آیہ ۶۵
  11. سوره مائده، آیہ ۴۱۔
  12. میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۹۔
  13. میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۴، ۱۳۸؛ نویری، نہایۃ الأرب، دار الکتب، ج۱۹، ص۱۴۔

مآخذ

  • قرآن مجید
  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، بہ کوشش ابو القاسم گرجی، تہران، انتشارات دانشگاه تہران، ۱۳۶۶ش۔
  • ابن سلام اباضی، لواب، بدءالاسلام و شرائع‌الدین، بہ کوشش ورنر شوارتز و سالم بن یعقوب، ویسبادن، انتشارات فرانتزشتاینر، ۱۴۰۶ھ، ص۱۹۸۶ء
  • ابن سعد، محمد بن منیع البصری، الطبقات الکبرى، بیروت، دار صادر، ۱۹۶۸ء
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، بی‌نا، ۱۳۵۵ھ
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، قاہری، بی‌نا، ۱۳۱۵ھ
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۷ھ
  • طبرسی، فضل‌ بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی و فضل‌اللہ یزدی، بیروت، بی‌نا، ۱۴۰۸ھ، ص۱۹۸۸ء
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، ط الثانیہ، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، بہ کوشش علی‌اصغر حکمت، تہران، امیر کبیر، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • نجار زادگان، فتح ‌اللہ، تفسیر تطبیقی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • نویری، احمد بن عبد الوہاب، نہایۃ الارب فی فنون الأدب، قاہره، دار الکتب و الوثائق القومیۃ، بی‌تا۔