یعسوب الدین
قال رسول الله(ص): |
سَیَکونُ مِن بَعدی فِتنَةٌ فَاِذا کانَ ذلکَ فَاَلزِموا علی بن أبی طالب فَاِنّهُ أوّلُ مَن آمَنَ بی، وَ أوّلُ مَن یُصافِحُنی یَومَ القِیامَةِ، وَ هُوَ الصّدیقُ الأکبَرُ وَ هُو فاروقُ هذِهِ الأمّةِ، وَ هُوَ یَعسوبُ المُؤمِنینَ... |
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: میرے بعد عنقریب ایک فتنہ برپا ہو گا اس وقت علی ابن ابی طالب کے ساتھ رہو؛ وہ پہلا شخص ہے جس نے میرے اوپر ایمان لے آیا اور وہ پہلا شخص ہوگا جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کرے گا۔ وہ میری امت میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا اور حق اور باطل کو تمیز دینے والا ہے وہ یعسوب مؤمنین ہے۔ |
حسینی فیروزآبادی، فضائل خمسہ، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۱۸۹. |
یعسوب الدین یا یعسوب المومنین، امام علیؑ کے القاب میں سے ہے جس کے معنی بزرگ، سرپرست اور مومنین کے رہبر اور قائد کے ہیں۔ یہ لقب آپؑ کو پیغمبر اکرمؐ نے دیا تھا۔ بعض روایت کے مطابق حضرت علیؑ نے یعسوب الدین کا لقب اپنے اور حضرت مہدیؑ کے متعلق کہا ہے۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
یعسوب لغت میں شہد کی مکھی کی ملکہ کو کہتے ہیں، اس کے علاوہ بزرگ، سید اور کسی قوم کے سردار اور رہبر کو بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت علیؑ کو یعسوب دین اور یعسوب مومنین کہا جاتا ہے، جس طرح شہد کی مکھیوں کی ملکہ تمام مکھیوں کا امیر اور رہبر ہوا کرتی ہے، امیرالمومنین بھی مومنین اور دین کے رہبر اور امیر ہیں۔ [1] اور جس طرح تمام مکھیاں اپنی ملکہ کی پیروی کرتی ہیں اسی طرح تمام مومنین بھی آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ [2] سید رضی نے یعسوب سے مراد لوگوں کے امور کا مالک اور سرپرست لیا ہے۔[3]
حدیث
پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو یعسوب الدین[4] اور یعسوب المومنین[5] کا لقب دیا اور حضرت علیؑ نے بھی اپنے لئے انا یعسوب الدین کی تعبیر استعمال کی ہے[6]۔ ابن ابی الحدید نے اس حدیث میں یا علی انت یعسوب الدین و انت یعسوب المومنین کہا ہے: کہ گویا پیغمبر اکرمؐ نے آپؑ کو مومنین کے رہبر اور اہل ایمان کے آقا قرار دیا ہے [7]۔ حضرت علیؑ نے حضرت مہدی(عج) کو بھی یعسوب الدین کے عنوان سے یاد فرمایا ہے: فاذا کان ذلک ضرب یعسوب الدین بذنبه فیجتمعون الیه کما یجتمع فزع الخریف[8]۔
حوالہ جات
- ↑ مجمع البحرین، ج۲، ص۱۲۱
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۹، ص۲۲۴
- ↑ سید رضی، ج۴، ص۵۱۷؛ مجلسی،ج۵۱، ص۱۱۳۔
- ↑ بن طاووس، ج۳، ص۱۳۳؛ امینی، ج۲، ص۳۱۳
- ↑ یا علی أنت یعسوب المؤمنین والمال یعسوب الظالمین؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج۲، ص۱۴۷؛ ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص۱۲۵
- ↑ دشتی(ترجمہ)، نہج البلاغہ، حکمت ۳۱۶، ص۷۰۴
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۹، ص۲۲۴
- ↑ سید رضی، ص۵۱۷؛ طوسی، ص۴۴۷؛ ابن ابی الحدید، ج۱۹، ص۱۰۴؛ مجلسی، ج۵۱، ص۱۱۳
مآخذ
- ابن أبی الحدید، عبدالحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد أبوالفضل إبراہیم، قم، مکتبۃ آیت اللہ المرعشی، ۱۳۸۵ھ۔
- ابن حجر الہیتمی، الصواعق المحرقۃ فی الرد علی أہل البدع والزندقۃ، تحقیق: عبدالوہاب عبداللطیف، قاہرہ، مکتبۃ القاہرۃ لعلی یوسف سلیمان، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء۔
- ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب، تحقیق و تصحیح: لجنۃ من أساتذۃ النجف الأشرف، النجف، المکتبۃ الحیدریہ، ۱۳۷۶ق/۱۹۵۶ء۔
- حسینی فیروزآبادی، سید مرتضی، فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳ء۔
- سید بن طاووس، علی بن موسی، إقبال الأعمال، تحقیق: جواد القیومی الاصفہانی، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، ۱۴۱۶ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، مؤسسہ معارف اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
- طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، مصحح: سید احمد حسینی، تہران، کتابفروشی مرتضوی، ۱۴۱۶ھ۔
- علامہ امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷ء۔
- علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۴ھ۔
- نہج البلاغۃ، سید رضی، تحقیق: صبحی صالح، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، چاپ اول، ۱۹۸۰ء۔