سورہ بقرہ آیت نمبر 7
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
سورہ | سورہ بقرہ |
آیت نمبر | 7 |
پارہ | 1 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | کفّار کی ہدایت نہ ہونے کی وجہ |
مضمون | اللہ تعالی کا کفار کے دلوں پر مُہر اور ان کے کان اور آنکھوں پر پردہ لگانے کے بارے میں۔ |
مربوط آیات | سورہ جاثیہ آیت نمبر 23 |
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 7 کافروں کے تعصب اور ہٹ دھرمی اور ان کی راہنمائی سے محرومی کو خدا کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگانے کا سبب قرار دیتی ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خدا نے ان کے کانوں اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور یہ ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔
مفسرین کے مطابق کافروں کے دلوں پر مہر لگانے کا مطلب ان کے پاس حق اور باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے اور ان کی سماعت و بصارت میں "عشاوہ" (پردہ) کے معنی حق کا نہ سننا اور حقائق کی دریافت کرنے میں بصیرت کا فقدان ہے۔ مفسرین مزید کہتے ہیں کہ یہ عذاب ان کے نامناسب اعمال کا نتیجہ ہے اور انہوں نے یہ عذاب اپنی مرضی سے بھگتنا ہے۔
متن اور ترجمہ
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
خدا نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور (آخرت میں) ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔» (سورہ بقرہ، آیت7)
محتوا
سورہ بقرہ کی ساتویں آیت کافروں کے تعصب اور ہٹ دھرمی کو خدا کی طرف سے ان کے دلوں پر لگائے جانے والے مُہر کے باعث سمجھتی ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر لگایا ہے اور ان کی آنکھوں اور کانوں پر ایک پردہ ڈال دیا ہے اور اس کو ان کے لیے دردناک عذاب کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[1]
شیعہ مفسر اور فقیہ ناصر مکارم شیرازی نے اس آیت کی تفسیر میں سورہ ق کی آیت نمبر 37 کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس میں قلب سے مراد عقل اور درک لیا ہے۔[2] 13ویں اور 14ویں صدی ہجری کے صوفی اور مفسر سلطان محمد گنابادی قلب کو انسان کی حقیقت کا ایک مرتبہ سمجھتا ہے جس میں علوم کے حقائق اور اعمال کے ثمرات اس مرتبے میں انسان درک کرتا ہے[3] اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دل کو قلب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عالَمِ فرشتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر کبھی منقلب ہوکر عالَمِ شیاطین کی طرف جھکاؤ دکھاتا ہے۔[4]
مفسرین نے کفار کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے مراد حق بات کا نہ سننا اور حقیقت سمجھنے کے لئے بصیرت کا فقدان قرار دیا ہے۔[5] اس آیت میں «قلب» اور «بصر» کو جمع اور «سمع» کو واحد لانے کے بارے میں مکارم شیرازی نے تین وجوہات بیان کی ہیں:
- «سمع» کبھی جمع استعمال ہوتا ہے اس کو الگ سے جمع لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
- «سمع» مصدر کے معنی میں آسکتا ہے اور مصدر زیادہ اور کم دونوں پر دلالت کرتا ہے۔
- تجربی علوم کے مطابق قلبی ادراکات اور آنکھ کے مشاہدات، مسموعات سے زیادہ ہوتے ہیں اس لئے قلوب اور ابصار کو جمع لے آیا ہے اور سمع کو واحد ذکر کیا ہے۔[6]
کافر کے دل پر اللہ کا مہر لگانے کے معنی
شیعہ نامور مفسر فضل بن حسن طَبْرِسی نے تفسیر جوامع الجامع میں اللہ کی طرف سے قلب اور دل پر مُہر لگانے کو استعارہ یا تمثیل قرار دیتے ہوئے اسے مجاز پر حمل کیا ہے.[7] اور یہ کہ کفار کے دل پر کیسے مُہر لگتی ہے اس بارے میں چند احتمال ذکر کیا ہے:
- اللہ تعالی کی طرف سے اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ ایجاد ہوتا ہے تاکہ فرشتوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اب اس نے ایمان نہیں لانا ہے اور اس پر نفرین کریں۔
- اللہ تعالی کی گواہی کہ ایہ لوگ پھر حق کو قبول نہیں کریں گے۔
- ان کا دل ایمان لانے سے بند ہوجانا۔
- کوتاہ فکری اور کوتاہ نظری کی وجہ سے حق اور باطل کی پہچان کھو جاتے ہیں[8]
لبنان کے شیعہ مفسر اور عالم دین محمد جواد مغنیہ کا کہنا ہے کہ قلب اور دل کو خلق کرنے کا مقصد درست دلائل کے ذریعے ہدایت پانا ہے، اگر انسان ہٹ دھرمی اور اصرار کی وجہ سے ضلالت اور گمراہی پر باقی رہا ہے اور حقیقت سے منہ پھیر لیا ہے تو درحقیقت اس کا کوئی دل نہیں ہے۔ آیت میں اللہ کا مہر لگانا کے مطلب بھی یہی ہے۔[9] آپ تفسیر مبین میں قلب پر مہر لگانے (ختم قلب) کو نہایت دشمنی اور کافروں کے استکبار سے کنایہ سمجھتے ہیں گویا ان کا دل پر تالا لگا ہے اور اس میں کسی چیز کا داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔[10]
امام حسن عسکریؑ سے منقول ایک روایت میں دل پر مُہر لگانے سے مراد اللہ کی طرف سے کفار کے دل پر ایک نشانی اور علامت لگانے سے تفسیر کیا ہے تاکہ اس طرح سے فرشتوں کو پتہ چلے کہ یہ شخص کبھی ایمان لانے والا نہیں ہے۔[11][یادداشت 1]
دل پر مہر لگانے کو اللہ کی طرف نسبت دینا
شیعہ مفسر اور فیلسوف علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ دل پر مُہر لگانے کی نسبت اللہ کی طرف دینا اور آنکھوں اور کان پر پردہ لگانے کی نسبت کفار کی طرف دینا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر کا ایک درجہ کفار ہی کی طرف سے ہے اور اس کی مقدار یہی ہے کہ وہ حق کو قبول نہیں کرتے تھے (وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ)، اور اس سے شدید درجہ اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر ان کے دلوں پر پردہ ڈالا ہے(خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ)، اس کے نتیجے میں ان کے اعمال دو حجاب کے درمیان واقع ہوئے ہیں، ایک حجاب وہ خود ہیں کہ ان کا کفر ایمان کے لئے رکاوٹ بنتا ہے اور دوسرا حجاب اللہ کی طرف سے ہے ان کے کفر اور فسق کے بعد اللہ نے ان کے لئے مختص کیا ہے۔[12] علامہ طباطبایی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 26 إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا کے ذیل میں اس بات کو تکمیل کرتے ہوئے کہتے ہیں
جس طرح متقی لوگوں کے لیے ہدایت کے دو راستے ہیں؛ فطری ہدایت اور قرآن نازل ہونے اور دین حق قبول کرنے کے بعد کی ہدایت، اسی طرح کافروں اور منافقوں کے لئے بھی دو گمراہی اور آندھا پن ہیں، پہلی گمراہی اور آندھاپنی جو کفر اور نفاق جیسی بری صفات کو ایجاد کرتی ہے اور دوسری ضلالت اور گمراہی جو پہلی گمراہی کو مزید تقویت دیتی ہے، پہلی گمراہی کی نسبت خود ان کی طرف دیا ہے اور دوسری گمراہی کی نسبت اپنی طرف دیا ہے جس کو ان کی گمراہی کی سزا کے طور پر اس گمراہی میں مزید اضافہ کیا اور کفار کے بارے میں فرمایا: ﴿وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ﴾ غشاوہ کی نسبت خود ان کی طرف دیا ہے اور دلوں پر مہر لگانے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف دیا ہے۔(خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ، وَ عَلى سَمْعِهِمْ)۔[13]
فضل بن حسن طَبْرِسی کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ خصوصیت اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے اس لئے اس کی نسبت اللہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کو پیسوں نے ہلاک کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پیسوں کے حصول کے راستے میں ہلاک ہوا ہے وگرنہ تو پیسوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔[14]
شیعہ فلسفی اور مفسر ملا صدرا نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ کفار کے دلوں پر مہر لگانا ان کی فطرت اور ان کی ذات کی وجہ سے ہے اور وہ اسے اصلاح اور دنیاوی نظام میں عدم توازن کو روکنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔[15]
ناصر مکارم شیرازی کا خیال ہے کہ مُہر اور غشاوہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے دی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے ان خصوصیات کو غیر مناسب اعمال کی انجام دھی میں رکھا ہے جو بالآخر دل، آنکھوں اور کانوں پر مہر لگانے کا باعث بنتی ہیں۔[16]
قوتِ ادراک سے محرومی کی صورت میں جبر کا مسئلہ
دل پر مہر لگانے کی نسبت اللہ کی طرف دینے سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کفار کی قوتِ ادراک سے محرومی اور ضلالت و گمراہی پر باقی رہنے کا لازمہ جبر نہیں ہے؟ ناصر مکارم شیرازی اس حوالے سے تین آیتیں ذکر کر کے [یادداشت 2] کہتا ہے کہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے کفر، تکبر، ظلم و ستم اور حق کے مقابلے میں سرکش ہٹ دھرم اور سرسخت خواہشات کا نتیجہ ہیں۔[17]
ان کا یہ ماننا ہے کہ غلط کام شروع میں ایک «حالت» ہے پھر یہ «عادت» میں بدل جاتا ہے اور آخر میں «ملکہ» میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس سے واپسی ممکن نہیں رہتی ہے۔[18]
شیعہ معاصر مفسر علی رضا مرزا خسروانی، ( 1310-1386ھ) کا کہنا ہے کہ کفار اپنے نامناسب اعمال کی وجہ سے ہدایت سے محروم ہوئے ہیں اور خدا کی رحمت سے ان کو سوائے مصائب کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے کیونکہ خدا کا عمل سورج کی کرنوں کی طرح ہے جو قمیص کو سفید اور چہرے کو سیاہ کر دیتی ہیں۔[19]
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص82۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص83۔
- ↑ تفسیر بیان السعادة فی مقامات العبادة، 1408 ھ، ج1، ص54۔
- ↑ گنابادی، تفسیر بیان السعادة، 1408ھ، ج1، ص55۔
- ↑ تفسیر المعین، 1410ھ، ج1، ص23؛ تفسیر روشن، 1380شمسی، ج1، ص71۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص90–91۔
- ↑ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، 1377شمسی، ج1، ص17۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص130۔
- ↑ مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص53۔
- ↑ مغنيہ، التفسير المبین، بی تا، ص4۔
- ↑ عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص33۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، منشورات اسماعيليان، ج1، ص51۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج1، ص45 و 91۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص131۔
- ↑ ملاصدرا، تفسیر القرآن الکریم، 1366شمسی، ج1، ص350–351۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص84۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص81–83۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج1، ص84۔
- ↑ میرزا خسروانی، تفسیر خسروی، 1390ھ، ج1، ص55۔
نوٹ
- ↑ فی کتاب الاحتجاج للطبرسی رہ باسنادہ الی أبی محمد العسکری علیه السلام انه قال فی قوله تعالی. خَتَمَ اللَّهُ عَلی قُلُوبِهِمْ وَ عَلی سَمْعِهِمْ وَ عَلی أَبْصارِهِمْ غِشاوَةٌ وَ لَهُمْ عَذابٌ عَظِیمٌ ای وسمها بسمة یعرفها من یشاء من ملائکته إذا نظروا إلیها بأنهم الذین لا یؤمنون و «علی سمعهم» کذلک سماة «وَ عَلی أَبْصارِهِمْ غِشاوَةٌ» و ذلک انهم لما اعرضوا عن النظر فیما کلفوه، و قصروا فیما أرید منهم جهلوا ما لزمهم من الایمان فصاروا کمن علی عینیه غطاء لا یبصر ما أمامه، فان الله عز و جل یتعالی عن العبث و الفساد، و عن مطالبة العباد بما منعهم بالقهر منه، فلا یأمرهم بمغالبته، و لا بالمصیر الی ما قد صدهم بالقسر عنه ثم قال، «وَ لَهُمْ عَذابٌ عَظِیمٌ» یعنی فی الاخرة العذاب المعد للکافرین، و فی الدنیا أیضا لمن یرید ان یستصلحه بما ینزل به من عذاب الاستصلاح، لینبهه لطاعته أو من عذاب الاصطلام لیصیره الی عدله و حکمته.
- ↑ سورہ نساء آیت 155 «بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَیْها بِکُفْرِهِمْ»؛ سورہ مؤمن آیت 35 «کَذلِکَ یَطْبَعُ اللَّهُ عَلی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ» و سورہ جاثیہ آیت 23 «فَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ وَ أَضَلَّهُ اللَّهُ عَلی عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلی سَمْعِهِ وَ قَلْبِهِ وَ جَعَلَ عَلی بَصَرِهِ غِشاوَةً»
مآخذ
- صدر المتالہین، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم (صدرا)، بتحقیق محمد خواجوی، قم، انتشارات بیدار، 1366ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان، چاپ پنجم، قم، مکتبہ الانشر الاسلامی، 1417ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران و مدیریت حوزہ علمیہ قم، 1377ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ محمد جواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
- عروسی حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، بتحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1415ھ۔
- کاشانی، محمد بن مرتضی، تفسیر المعین، قم، کتابخانہ آیة اللہ مرعشی نجفی، 1410ھ۔
- گنابادی، سلطان محمد، تفسیر بیان السعادة فی مقامات العبادة، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1408ھ۔
- مصطفوی، حسن، تفسیر روشن، تہران، مرکز نشر کتاب، 1380ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکشاف، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1424ھ۔
- مغنيہ، محمد جواد، التفسير المبين، قم، بنياد بعثت، بی تا.
- مکارم شیرازی ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیة، 1374ہجری شمسی۔
- میرزا خسروانی، علی رضا، تفسیر خسروی، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1390ھ۔