مندرجات کا رخ کریں

سورہ انبیاء آیت نمبر 107

ویکی شیعہ سے
سورہ انبیاء آیت نمبر 107
آیت کی خصوصیات
سورہانبیاء
آیت نمبر107
پارہ17
محل نزولمکہ
موضوعپیغمبر اکرمؐ کا عالمین کے لئے رحمت ہونا
مربوط آیاتسورہ توبہ آیت نمبر 128 اور سورہ آل عمران آیت نمبر 159


سورۂ انبیاء آیت نمبر 107، جسے آیۂ رحمۃً للعالمین بھی کہا جاتا ہے، حضرت محمد مصطفیٰؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیتی ہے۔ ایسے نبی کا مبعوث برسالت ہونا، جس کی بعثت رحمتِ عامہ پر مبنی ہو، اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں پر سب سے بڑی عنایت اور لطف شمار کیا گیا ہے۔ مفسرین کے مطابق مذکورہ آیت چونکہ عام ہےاس لئے رسول اکرمؐ کی رحمت دنیا اور آخرت دونوں میں تمام انسانوں بلکہ عالمین کے تمام مخلوقات کو شامل کرتی ہے، حتیٰ کہ فرشتے بھی اس رحمت کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس اعتبار سے کافر بھی مؤمنین کی طرح رحمتِ نبوی سے بہرہ‌مند ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ نبی اکرمؐ کی ذاتِ گرامی، حیاتِ طیبہ اور عالم گیر بلاؤں اور عذابوں کا اٹھایا جانا جو سابقہ امتوں کے کافروں پر نازل ہوتے تھے، سب کے سب آپ کی رحمت سائے ہیں جن سے کافر بھی مستفید ہوتے ہیں۔

اسلامی تفاسیر میں رسول اکرمؐ کے رحمت ہونے کی مختلف جہات بیان کی گئی ہیں، جیسے: مخلوقات پر اللہ کے فیض کے واسطہ بننا، آپ کا اخلاق، سیرت، احکام اور شریعت، انسانوں کی اطاعتِ الٰہی کی طرف ہدایت و راہنمائی، خدا کی نعمتوں سے بہرہ مندی، خیر کی رغبت اور شر و شیطانیت سے دوری کی تلقین اور اور لوگوں کو جنگ و خونریزی اور آپسی دشمنیوں سے نجات دینا۔

کہا جاتا ہے کہ اس آیت کو ختمِ نبوت، رسالت کی ہمہ‌گیری اور دین اسلام کے عالمگیر ہونے پر بھی دلیل قرار دی گئی ہے۔

اہم نکات

سورہ انبیاء کی آیت نمبر 107 یا آیت رحمۃ للعالمین[1] حضرت محمدؐ کو براہِ راست مورد خطاب قرار دیتے ہوئے[2] آپ کو عالمین کے لئے رحمت قرار دیتی ہے۔[3] اسی بنا پر نبی کریمؐ خود بھی اپنی بعثت کو رحمت قرار دیتے تھے۔[4] ایک موقع پر جب ایک صحابی نے مشرکین پر لعنت کی درخواست کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے لعنت اور نفرین کرنے کے لیے نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔[5]

حضور سرور کائناتؐ کا رحمۃ للعالمین ہونے سرچشمہ آپ کا خلقِ عظیم ہے۔[6] اور ان خصوصیات کے حامل نبی اور پیغمبر کو مبعوث برسالت کرنا خداوند عالم کی طرف سے اپنے بندوں پر سب سے بڑی عنایت اور لطف ہے۔[7]

اس آیت کی تفسیر میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے بعض مختلف روائی اور حدیثی تفاسیر میں نقل ہوئی ہے۔[8] کتاب الکافی میں منقول ایک حدیث کے مطابق آپ کی بعثت کو رحمتِ عامہ کا نقطہ آغاز قرار دی گئی ہے۔[9] قرآن کریم کی دیگر آیات میں بھی آپؐ کے لیے رحمت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ سے یاد کئے گئے ہیں (جیسے سورۂ آل عمران آیت نمبر 159 اور سورہ توبہ آیت نمبر 128

تفسیر نمونہ میں آیت‌اللہ مکارم شیرازی اور ان کے ساتھیوں کے مطابق حضرت محمدؐ کی رحمت کا تکمیل یافتہ ثمرہ صالحین کی عالمی حکومت ہے۔[10] اسی سلسلے میں شیعہ فقیہ اور مفسر محمد صادق تہرانی اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت محمدؐ کا تمام عالمین کے لئے رحمت ہونا صرف ایک عالمگیر حکومت کے سائے میں محقق ہوگا جس میں جغرافیائی، نسلی، اور مذہبی اختلافات کا خاتمہ ہو[11] اور یہ امر خود پیغمبر اکرمؐ اور آپ کے بعد آنے والے ائمہ معصومین کے زمانے میں محقق نہیں ہوا ہے لیکن ان شاء اللہ مستقبل میں یہ امر ضرور واقع ہوگا۔[12]

آیت کا متن اور ترجمہ

آیت رحمۃ للعالمین


وَما أرسَلناکَ إِلّا رَحمَۃً لِلعالَمینَ
"اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔"



(الانبیاء: 107)


حضورؐ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے ثمرات اور مظاہر

مفسرین پیغمبر اکرمؐ کے رحمۃ للعالمین ہونے کو دنیا اور آخرت دونوں میں مثمر ثمر[13] اور نبی اکرمؐ کے احکام اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو تمام ناکامیوں اور بدبختیوں کا خاتمہ قرار دیتے ہیں۔[14] کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے طفیل جو آثار حسنہ اور رحمتیں انسان کو نصیب ہوئی ہیں وہ آپ کی نبوت سے پہلے کی انسانی زندگی کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے؛[15] کیونکہ آپ کی بعثت اس وقت ہوئی جب لوگ جاہلیت اور گمراہی کے گھٹا ٹوب اندیرے میں بھٹک رہے تھے اور اہلِ کتاب بھی اپنے دین میں حیران و سرگرداں تھے اور ان کی آسمانی کتاب میں اختلاف پیدا ہو چکا تھا۔ اس وقت نبی اکرمؐ کی بعثت کے ذریعے انہیں حق کی طرف دعوت اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی گئی۔[16]

عالمین کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی رحمت کے مطادیق کے بیان میں مفسرین کے درمیان مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • ایسے دین کی ترویج جو سب کی نجات[17] اور دنیا و آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔[18]
  • نبی اکرمؐ کا اخلاق، سیرت، تعلیمات اور اہداف۔[19]
  • آپ کی شریعت اور احکام جو دنیا و آخرت کی سعادت کا سبب ہیں۔[20]
  • لوگوں کی کمالِ مطلق[21] اور انسانی کمالات کی طرف رہنمائی۔[22]
  • لوگوں کو خدا کی اطاعت اور حصول ثواب کی طرف دعوت دینا۔[23]
  • لوگوں کی اللہ تعالی کی نعمتوں اور ان سے فائدہ اٹھانے کی طرف راہنمائی۔[24]
  • انسانوں میں خیر کی رغبت پیدا کرنا اور انہیں شیطانی میلانات سے دور رکھنا۔[25]
  • تمام موجودات تک فیض خداوندی پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بننا۔[26]
  • انسان کو دنیا میں جنگ، خونریزی اور باہمی دشمنی سے نجات دینا۔[27]

عالمین سے مراد

آیت رحمۃ للعالمین میں رحمت کے مطلق ہونے کی بنا پر شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے اس کے دائرے کو تمام انسانوں پر محیط قرار دیا ہے؛[28] جس میں ہر زمانے،[29] خلقت کی ابتدا سے انتہا تک،[30] بغیر کسی استثنا کے؛ سفید و سیاہ، مرد و عورت، عرب و عجم اور فقیر و غنی[31] سب شامل ہیں۔ بلکہ اس رحمت کو تمام مخلوقات،[32] تمام عالمین، تمام اشیاء اور ارواح تک عام سمجھا گیا ہے۔[33]

کہا گیا ہے کہ نبی اکرمؐ مؤمن کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں[34] دوسرے الفاظ میں آپ کے دین کی پیروی کرنے والے تمام جن و انس کے لیے آپ رحمت ہیں؛[35] اس طرح کہ دنیا میں ہدایت پا کر ایمان کے دائے میں داخل ہوتے ہیں اور آخرت میں جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے۔[36]

کافروں کے لیے رحمت کا پہلو

نبی اکرمؐ کا کافروں کے لیے بھی رحمت ہونے اور اس کی نوعیت کے بارے میں مختلف آرا بیان ہوئی ہیں، اور اس سلسلے میں بعض مصادیق ذکر ہوئے ہیں جو مؤمن اور کافر دونوں کو شامل کرتے ہیں؛ مثلا آپؐ کی ذاتِ اقدس اور نبوت،[37] کافروں کا دنیوی زندگی اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا،[38] اور اسی طرح انہیں ایمان، دائمی ثواب اور ترک گناہ کی دعوت دینا،[39] اگرچہ وہ غفلت[40] اور کوتاہیوں[41] کے سبب اس رحمت کو قبول نہ کریں[42] اور اس سے اپنے آپ کو محروم کرنے کے ذریعے[43] دنیا و آخرت کی سعادت اور خوشبختی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔[44]

پس کافروں کی جانب سے اس رحمت سے فائدہ نہ اٹھانے سے اس کی عمومیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی نبی اکرمؐ کے رحمت ہونے کو نقصان پہنچتا ہے؛[45] جیسے کوئی بھوکا شخص کھانے پینے سے انکار کرے[46] یا کوئی ضدی مریض علاج معالجے کے لئے ہسپتال جانے سے انکار کرے۔[47]

اس کے علاوہ مسلمان مفسرین نے اس سلسلے میں کافروں کے لیے دوسرے فوائد بھی بیان کیے ہیں؛ مثلاً بلاؤں اور ہلاکتوں کا اٹھایا جانا،[48] جیسے خسف (زمین میں دھنس جانا) اور آسمانی عذاب کا نزول، مسخ اور قذف(آسمان سے بلا نازل ہونا)،[49] اور استیصالی عذاب[50] جو پچھلی امتوں کے کافروں کو اپنی لپیٹ میں لیتا تھا۔[51]

تفسیری نکات

مفسرین نے آیت رحمۃ للعالمین سے مختلف نکات اخذ کیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:

  • مذکورہ آیت میں نبی اکرمؐ کی وسیع اور فراگیر رحمت ختمِ نبوت اور آپ کی رسالت کے عالمگیر ہونے پر دلالت کرتی ہے[52] اور اسلام کے احکام کی ہمہ‌گیری[53] اور نسخ‌ ناپذیری[54] پر دلیل ہے؛ کیونکہ آپ کی ذات تا قیامت آنے والے سب انسانوں کے لیے رحمت ہے[55] اور کسی دوسرے نبی کی ضرورت نہیں۔[56]
  • آپ کی رحمت فرشتوں کو بھی شامل ہے؛[57] جیسا کہ جبرائیل نے بھی پیغمبر اکرمؐ کی رحمت سے اپنی بہرہ‌مندی کا ذکر کیا ہے۔[58] البتہ اہلِ سنت کے بعض علما کے درمیان اس بات پر اختلاف موجود ہے کہ جبرائیل کے علاوہ دوسرے فرشتے بھی پیغمبر اکرمؐ کی رحمت سے مستفید ہوئے ہیں یا نہیں۔[59]
  • آیت رحمت للعالمین اہل جبر کے اس عقیدے کو باطل کرتی ہے جو کہتے تھے کہ کافر نعمتِ الٰہی سے محروم ہیں۔[60]
  • رحمتِ نبوی دوسرے انبیا،[61] بلکہ تمام مخلوقات پر آپؐ کی افضلیت اور برتر ہونے کی علامت ہے؛[62] مثلا یہ کہ آپؐ اور حضرت عیسیٰؑ میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے؛ کیونکہ سورہ مریم[63]کے مطابق حضرت عیسی کی رحمت صرف حضرت عیسی پر ایمان لانے والوں کے لیے تھی اور وہ بھی حضرت عیسی کے بعد منسوخ ہو گئی اور ان کا دین بھی منقطع ہو گیا، لیکن حضورؐ کی رحمت مطلق طور پر آئی ہے اور آپ کی رحمت کسی صورت عالمین سے منقطع نہیں ہوگی۔[64] اور ان کے بعد دین کے منسوخ ہونے سے وہ رحمت ختم ہو گئی، لیکن رسول اللہؐ کی رحمت مطلق اور دائمی ہے۔
  • سورہ انبیاء آیت نمبر 105 میں صالحین کی حکومت کا ذکر آیا ہے، وہ درحقیقت آپؐ کی رسالت کے سایے میں ظہور پانے والی رحمت کا مظہر ہے۔[65]
  • اسلام کے تمام احکام اور تعلیمات، حتیٰ کہ جہاد، حدود، قصاص اور دیگر سزائیں اور قوانین بھی بشریت کے لیے رحمت ہیں۔[66]

پیغمبر اکرم کی جنگوں کا سبب

چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ و مفسر فخر رازی کے مطابق، نبی اکرمؐ کی جنگیں آپ کے رحمت ہونے کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے اپنے زمانے کے مستکبروں سے جنگ کی ہے جبکہ سابقہ انبیاء کی امتیں جب اپنے انبیاء کی تکذیب کرتیں تو عذابِ الٰہی سے ہلاک کر دی جاتیں تھیں، لیکن نبی اکرمؐ نے کبھی اپنی قوم کے لیے عذاب کی دعا نہیں کی بلکہ حسنِ خلق سے پیش آتے تھے۔ علاوہ ازیں، رحمتِ نبوی صرف مؤمنین کے ساتھ مختص نہیں ہے۔[67]

حوالہ جات

  1. جوادی آملی، «عقیدۃ: ہدف و نہج الأنبیاء»، ص14۔
  2. خطیب، التفسیر القرآنی للقرآن، بیروت، ج9، ص963۔
  3. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج14، ص331؛ طیب، اطیب البیان، 1369ش، ج9، ص255۔
  4. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107۔
  5. مظفر نجفی، دلائل الصدھ، 1422ھ، ج4، ص150؛ مغنیہ، التفسیر المبین، قم، ص432۔
  6. حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج5، ص528۔
  7. طیب، اطیب البیان، 1369ش، ج9، ص256۔
  8. قمی مشہدی، کنز الدقائق، 1368ش، ج8، ص485؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج4، ص342؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص358۔
  9. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص149۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526-527۔
  11. صادقی تہرانی، الفرقان، 1365ش، ج19، ص384۔
  12. صادقی تہرانی، الفرقان، 1365ش، ج19، ص384۔
  13. ثعلبی، الکشف والبیان، 1422ھ، ج6، ص314۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526-527۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج14، ص331۔
  16. فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22، ص193۔
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526۔
  18. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج14، ص331؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج17، ص83۔
  19. مغنیہ، التفسیر المبین، قم، ص432۔
  20. مراغی، تفسیر المراغی، بیروت، ج17، ص78۔
  21. ابن‌عربی، تفسیر ابن عربی، 1422ھ، ج2، ص52۔
  22. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج7، ص391۔
  23. ماوردی، النکت والعیون، بیروت، ج3، ص476۔
  24. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج7، ص390۔
  25. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج15، ص277۔
  26. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج9، ص100۔
  27. فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22، ص193۔
  28. بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج4، ص62؛ خطیب، التفسیر القرآنی للقرآن، بیروت، ج9، 9ص63۔
  29. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج5، ص303؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526۔
  30. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج5، ص303۔
  31. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج7، ص391۔
  32. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج9، ص100۔
  33. حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج5، ص528۔
  34. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107۔
  35. ابن‌سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج3، ص97۔
  36. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج17، ص83۔
  37. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج13، ص288۔
  38. طیب، اطیب البیان، 1369ش، ج9، ص256۔
  39. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص285؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107.
  40. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج9، ص99۔
  41. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج13، ص288۔
  42. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107۔
  43. طیب، اطیب البیان، 1369ش، ج9، ص256؛ مراغی، تفسیر المراغی، بیروت، ج17، ص78۔
  44. مراغی، تفسیر المراغی، بیروت، ج17، ص78۔
  45. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526۔
  46. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107۔
  47. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526۔
  48. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107۔
  49. ثعلبی، الکشف والبیان، 1422ھ، ج6، ص314؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ش، ج11، ص350؛ میبدی، کشف الأسرار، 1371ش، ج6، ص318۔
  50. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج13، ص289۔
  51. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج17، ص83؛ فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22، ص193؛ سبزواری نجفی، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ص336۔
  52. قرشی، تفسیر احسن الحدیث، 1377ش، ج6، ص558؛ حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج11، ص113۔
  53. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج5، ص505۔
  54. حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج11، ص113۔
  55. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526-527؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج5، ص505۔
  56. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج5، ص505۔
  57. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج13، ص526-527۔
  58. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107؛ قمی مشہدی، کنز الدقائق، 1368ش، ج8، ص485؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص359؛ صادقی تہرانی، الفرقان، 1365ش، ج19، ص385۔
  59. برای اطلاعات بیشتر رجوع کنید بہ: آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج9، ص99۔
  60. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج7، ص285؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج7، ص107؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج13، ص288۔
  61. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج7، ص391۔
  62. حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج5، ص528۔
  63. سورہ مریم، آیہ 21۔
  64. حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، بیروت، ج5، ص528۔
  65. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج5، ص505۔
  66. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج5، ص505۔
  67. فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22، ص193۔

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان وروح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • ابن‌سلیمان، مقاتل، تفسیر مقاتل بن سلیمان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1423ھ۔
  • ابن‌عربی، محمد بن علی، تفسیر ابن عربی، بیروت، دار الحیاء التراث العربی، 1422ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل وأسرار التأویل، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف والبیان: تفسیر الثعلبی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جوادی آملی، «عقیدۃ: ہدف و نہج الأنبیاء»، نشریہ بقیۃ اللہ، شمارہ 10، محرم 1413.
  • حسینی ہمدانی، سید محمد، انوار درخشان، تحقیق محمدباقر بہبودی، تہران، کتابفروشی لطفی، 1404ھ۔
  • حقی بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • خطیب، عبدالکریم، التفسیر القرآنی للقرآن، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • سبزواری نجفی، محمد، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1419ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، 1404ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن، قم، انتشارات فرہنگ اسلامی، 1365ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر: مفاتیح الغیب،‌ بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فضل‌اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعۃ و النشر، 1419ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ‌مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، 1377ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق وبحر الغرائب، تحقیق حسین درگاہی، تہران، سازمان چاپ وانتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • ماوردی، علی بن محمد، النکت والعیون: تفسیر الماوردی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بی‌تا۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین، 1419ھ۔
  • مراغی، احمد بن مصطفی، تفسیر المراغی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مظفر نجفی، محمدحسن، دلائل الصدق لنہج الحھ، قم، موسسۃ آل‌البیت، 1422ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر المبین، قم، بنیاد بعثت، چاپ سوم، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار وعدۃ الابرار، تہران، امیرکبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی۔