حدیث تشبیہ
حدیث تشبیہ | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
دوسرے اسامی | حدیث اشباہ |
موضوع | ٖفضائل امام علی علیہ السلام |
صادر از | پیغمبر اکرم ؐ |
اصلی راوی | عبدالله بن عباس، ابو الحمراء (ہلال بن حارث) و انس بن مالک |
اعتبارِ سند | شیعوں کے نزدیک معتبر |
شیعہ مآخذ | کمال الدین، المسترشد فی الامامة، الامالی (شیخ مفید)، الامالی (شیخ طوسی) |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
حدیث تشبیہ یا حدیث اشباہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ حدیث ہے کہ جس میں حضرت علی علیہ السلام کو بعض فضائل میں انبیاء سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پر مختلف فضائل جیسے: حضرت آدم کا علم، حضرت نوح کا تقوی اور صلح پسندی، حضرت ابراہیم کا حلم و صبر، حضرت موسی کی ہیبت و ذہانت، حضرت داؤد کا زہد، حضرت عیسی کی عبادت کو حضرت علی ؑ کے لئے بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث، شیعہ اور سنی کتب میں اصحاب پیغمبر ؐ سے نقل ہوئی ہے اس حدیث کے راویوں میں عبدالله بن عباس، عبد اللہ بن مسعود، ابو الحمراء اور انس بن مالک شامل ہیں۔
شیعہ علماء کے مطابق حدیث تشبیہ کی رو سے حضرت علی ؑ مذ کورہ صفات میں انبیاء کے برابر ہیں لہذا یہ حدیث حضرت علی کی امامت و ولایت پر واضح دلیل ہے۔ بعض اس حدیث کو پیغمبر اسلامؐ کے علاوہ تمام انبیاء پر حضرت علیؑ کی فضیلت اور برتری پر دلیل قرار دیتے ہیں۔
یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت علماء کے نزدیک معتبر ہے صرف بعض اہل سنت علماء نے اس کو قبول نہیں کیا ہے۔
متن اور تعارف
عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کُنَّا جُلُوساً عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَى آدَمَ فِی عِلْمِهِ وَ إِلَى نُوحٍ فِی سِلْمِهِ وَ إِلَى إِبْرَاهِیمَ فِی حِلْمِهِ وَ إِلَى مُوسَى فِی فِطَانَتِهِ وَ إِلَی دَاوُدَ فِی زُهْدِهِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی هَذَا قَالَ فَنَظَرْنَا فَإِذَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ قَدْ أَقْبَلَ۔
عبدالله بن عباس سے روایت ہے کہ: ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: جو شخص آدم کو ان کے علم میں، نوح کو ان کے صلح و تقوی میں، ابراہیم کو ان کے صبر و حلم میں، موسی کو ان کے ہیبت و ذہانت میں، داوود کو ان کے زہد میں دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے جو آ رہا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں یہ سن کر ہم نے (حیرت سے) آس پاس دیکھا (کہ آخر حضرت کا مقصد کون شخص ہے؟) کہ اچانک علی بن ابی طالب علیہ السلام داخل ہوئے۔
حدیث تشبیہ مختلف مضامین کے ساتھ شیعہ [2] اور اہل سنت کتب [3] میں نقل ہوئی ہے۔
البتہ حدیث کا مضمون اس لحاظ سے مختلف ہے کہ کون کون سے انبیاء سے حضرت علی علیہ السلام کو تشبیہ دی گئی ہے۔ بعض کتب میں حضرت علی ع کو اولو العزم رسولوں اور حضرت نوح ؑ سے تشبیہ دی گئی ہے۔[4] شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب کمال الدین میں مذ کورہ انبیاء کے ساتھ، حضرت داوود نبی ؑ کا نام بھی ذکر کیا ہے۔ [5] بعض کتب میں حضرت علی علیہ السلام کو حضرت آدم ؑ، ابراهیمؑ ، موسیؑ ، یحییؑ، عیسیؑ، شیث ؑ اور ادریسؑ سے تشبیہ دی گئی ہے۔[6] اہل سنت کی بعض کتب میں حضرت علی ؑ کو حضرت آدم، نوح، ابراہیم، یحیی اور موسیؑ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [7] اس کے علاوہ، مناقب ابن مغازلی میں صرف، حضرت آدم اور نوح ؑ سے تشبیہ بیان ہوئی ہے۔ [8] بعض کتب میں، حضرت علی ؑ کو اسرافیل کی ہیبت، جبرئیل کی عظمت اور میکائیل کے رتبہ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔[9] قاضی سید نور اللہ شوستری[10] اور میر حامد حسین [11] نے حدیث تشبیہ کے تمام راوی، اسناد اور حدیث کے مختلف مضامین کو جمع کرکے نقل کیا ہے۔ اس حدیث کو حدیث اشباہ بھی کہا گیا ہے۔[12]
علیؑ کی انبیاء سے تشبیہ کے اسباب و علل
کہا گیا ہے کہ حدیث تشبیہ کی بنیاد پر علی ؑ، اخلاق انبیاء کے حامل اور ان کے صفات کے (انہیں کی طرح) مالک ہیں۔[13] محمد بن یوسف گنجی شافعی، جو کہ ساتویں ہجری میں شافعی مذھب کے عالم تھے شباہت سے متعلق وضاحت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ: علی ؑ کی آدم ؑ سے شباہت اس وجہ سے ہے کہ سورہ بقرہ آیت 31 کے مطابق خداوند عالم نے آدم ؑ کو ہر چیز کا علم سکھا یا، اور علی ؑ بھی ہر واقعہ (اور ہر چیز) کا علم رکھتے تھے۔[14] اسی طرح علیؑ کی نوحؑ سے تشبیہ کا سبب، حکمت یا حکم میں یہ ہے کہ حضرت علی ؑ، نوحؑ کی طرح[15] کفار کے ساتھ سخت اور مومنین کے ساتھ نرم اور مہربان تھے۔ [16]اور ابراہیم ع سے تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ ابراهیمؑ کو قرآن میں حلم کی صفت سے یاد کیا گیا ہے،[17]اورحضرت علیؑ کو حلم و صبر میں ان سے تشبیہ دی گئی ہے۔[18] محمد بن طلحہ شافعی کہ جو چھٹی اور ساتویں ہجری میں شافعی علماء میں سے تھے اس بارے میں کہتے ہیں کہ: اس حدیث میں پیغمبر اسلام ؐ نے علیؑ کے لئے ، علم آدمؑ سے مشابہ علم، تقوای نوحؑ سے مشابہ تقوا، حلم ابراهیمؑ کی طرح حلم، ہیبت موسیؑ کی طرح ہیبت، اور عبادت عیسیؑ کی طرح عبادت کو بیان کیا ہے۔[19] ان کے نظریہ کے مطابق، مذکورہ صفات میں علیؑ کی انبیاء سے تشبیہ، علیؑ کی ذات میں ان صفات کے اعلی مرتبہ کو ثابت کرتا ہے۔[20] احمد بن محمد عاصمی، کہ جو چوتھی اور پانچویں ہجری کے سنی علماء میں سے ہیں اپنی کتاب زین الفتی میں حدیث تشبیہ کو نقل کرنے کے بعد، حضرت علی علیہ السلام کی آدم، نوح، ابراہیم، یوسف ، موسی، داوود، سلیمان، ایوب، یحیی، عیسی علیہم السلام اور پیغمبر اسلام ؐ سے شباہتوں کو ذکر کرتے ہیں اور شرح بھی دیتے ہیں۔[21] اولوالعزم انبیاء سے حضرت علیؑ کی شباہتوں کی سلسلہ وار فہرست کہ جس کو عاصمی نے اس طرح نقل کیا ہے:
- علی ؑ کی نوح ؑ سے شباہتیں: فہم، دعوت، اجابت دعا، کشتی(کہ کشتی پہ سوار ہونے والے نجات پاگئے اور روگردانی کرنے والے ہلاک ہو گئے)، یہ حدیث سفینہ کی طرف اشارہ ہے، اور اس کے علاوہ برکت، سلام و تحیت، شکر گزار ہونا اور قوم کو (ان کے گناہ اور خلاف ورزی کی بنا پر) ہلاک کرنا۔ (عاصمی، العسل المصفی من تہذیب زین الفتی، 1418ھ ، ج1، ص429-458)
- ابراهیمؑ سے شباہتیں: وفا، شر پسندوں سے محفوظ رہنا، باپ اور قوموں سے مناظرے، بت شکنی، اولاد کی بشارت، صالح اور ظالم نسل کے درمیان اختلاف، نفس کا امتحان، اور مال و اولاد کا امتحان اور خلیل نام رکھنا(ابراهیمؑ خلیل الله ہیں اور علیؑ خلیل رسول اللهؐ ہیں)۔ (عاصمی، العسل المصفی من تہذیب زین الفتی، 1418ھ ، ج1، ص459-483)
- موسیؑ سے شباہتیں: مضبوطی اور قوت و شدت، دفاع اور دعوت، عصا اور طاقت، شرح صدر، برادری اور نزدیکی(موسی و هارون ؑ اور پیغمبر و علیؑ کے درمیان)، مودت و محبت، رنج و بلا کو برداشت کرنا اور شریعت کی وراثت۔(عاصمی، العسل المصفی من تهذیب زین الفتی، 1418ھ ، ج2، ص5-25)
- عیسیؑ سے شباہتیں: خدا کی ربوبیت اور عبودیت کا گماں، بچپنے میں کتاب خدا کا عالم ہونا، پڑھنے اور لکھنے کا علم، گمراہ گروہوں سے دو گروہ کا ہلاک ہونا(عیسی ؑ کی نسبت یهود و نصاری اور علی ؑ کی نسبت خوارج و غلات)، زہد(دنیا اور دنیوی زرق و برق سے دوری)، سخاوت اور کرم، آیندہ کے حالات کی پیش گوئی کرنا، قناعت و اکتفاء۔(عاصمی، العسل المصفی من تہذیب زین الفتی، 1418ھ ، ج2، ص117-166)
- پیغمبر اسلامؐ سے شباہتیں: عاصمی نے اس بارے میں، پیغمبر اسلام ؐ سے تیئیس (23) عدد، وجہ شباہت بیان کی ہیں کہ جن میں کچھ یہ ہیں: خلقت، برادری، مدت عمر، عفو و درگذشت، محبت و بغض، عصمت (یعنی ہر قسم کے گناہ سے پاک)، اطاعت، ولایت، درخت سے شباہت۔ (عاصمی، العسل المصفی من تہذیب زین الفتی، 1418ھ ، ج2، ص167-286۔)}}
علامہ مجلسی نے، بحار الانوار میں اس موضوع سے متعلق ایک باب قائم کیا ہے کہ جس میں حضرت علی علیہ السلام کے انبیاء کے فضائل میں مساوات اور اشتراک کے سلسلے میں احا دیث کی روشنی میں اسباب و علل کو بیان کیا ہے۔[22]
حضرت علی ؑ کی فضیلت پر دلیل
بعض شیعہ علماء، حدیث تشبیہ کو اس بات کی دلیل جانتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام تمام انسانوں پر فضیلت رکھتے ہیں لہذا اس کو حضرت کی امامت و خلافت کی بہترین دلیل جانتے ہیں۔[23] اسی طرح بعض علماء نے حدیث تشبیہ کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ، تمام انبیاء پر فضیلت رکھتے ہیں؛ کیونکہ حضرت علی ؑ، انبیاء میں سے ہر ایک نبی کے خصوصیات کے مالک ہیں اور جو ذات، ان تمام فضائل وخصوصیات کی مالک ہو وہ بہر حال اس شخص سے افضل ہے کہ جو ان میں سے، صرف بعض خصوصیت رکھتا ہے۔[24] اس سلسلے میں مرحوم میر حامد حسین ہندی کہتے ہیں کہ حدیث تشبیہ، اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی ؑ، مذکورہ خصوصیات میں انبیاء کے برابر ہیں اور پھر برابری کے ثبوت کے لئے، بیس دلیلیں پیش کرتے ہیں۔[25] ان کی نظر میں، انبیاء سے برابری اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی ؑ، انبیاء اور تمام انسانوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔[26]
راوی اور اعتبار حدیث
مذکورہ حدیث اصحاب پیغمبر ؐ جیسے: عبدالله بن عباس،[27]اور عبدالله بن مسعود،[28] ابو ہریره [29] اور ابو الحمراء (هلال بن حارث)[30] خادم پیغمبرؐ،[31] اور انس بن مالک جیسے[32] افراد سے نقل ہوئی ہے۔ لھذا اس حدیث کے اعتبار و وثوق میں شک کا امکان نہیں ہے۔
اعتبار
شیعہ علماء نے، حدیث تشبیہ کو معتبر قرار دیا ہے اور سند کے طور پراس سےاستفادہ کیا ہے۔ کتاب شبھای پیشاور کے مصنف مرحوم سلطان الواعظین شیرازی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی علماء کا اس بات پراجماع اور اتفاق ہے کہ حدیث تشبیہ معتبر ہے۔[33] میر حامد حسین مرحوم نے،عبقات الانوار میں اس حدیث کو اہل سنت کے چالیس محدثین سے نقل کیا ہے اور حدیث کی صحت کو ثابت کیا ہے۔ [34] بعض نظریات کے مطابق، چونکہ یہ حدیث متعدد طریقوں سے نقل ہوئی ہے اس لئے معتبر ہے، اگرچہ اس کی سندیں ضعیف ہی کیوں نہ ہوں۔[35] اہل سنت کے بعض علماء نے، حدیث کے اعتبار پر سوال اٹھایا ہے۔ دیکھئے: شمسالدین ذہبی، جو آٹھویں ہجری میں سلفی مذہب کے مورخ اور محدث تھے،[36] اور ابن حجر عسقلانی، یہ آٹھویں اور نویں ہجری میں شافعی مذہب کے مورخ اور محدث تھے۔[37] اور ابن کثیر، جو آٹھویں ہجری کے اہل سنت علماء میں آتے ہیں[38] حدیث تشبیہ کو حدیث منکر(ضعیف روایت کی قسم) شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابن جوزی، جو چھٹی ہجری کے اہل سنت عالم ہیں، حدیث تشبیہ کو حدیث جعلی قرار دیتے ہیں۔[39] ذهبی[40] اور ابن تیمیہ، [41] بہیقی سے، بغیر سند کی حدیث نقل کرنے کے بعد، اسے بغیر سند کے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علمائے حدیث شناس کے نزدیک، یہ حدیث جعلی اور جھوٹ ہے، اسی بنا پر علماء نے اسے نقل نہیں کیا ہے؛ لیکن ان کے بر خلاف موفق بن احمد خوارزمی، کہ جو چھٹی ہجری کے اہل سنت علماء میں سے ہیں اپنی کتاب المناقب الامیرالمؤمنین میں اس حدیث کو بہیقی سے مکمل سند روایت کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔۔[42] یہ حدیث ،اہل سنت سے دوسرے اسناد کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے۔[43]
کتاب شناسی
حدیث تشبیہ، متعدد کتب میں علمی اور تحقیقی اعتبار سے، محل بحث رہی ہے(علماء نے نہایت دقت نظر کے ساتھ اسے ثابت کیا ہے)۔ [44] میر حامد حسین مرحوم نے کتاب عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطهارع کی سولہویں جلد کو اس حدیث کی سندی اور دلالتی تحقیق سے مخصوص کیا ہے۔ اور یہ جلد مستقل اور جداگانہ طور پر«خلاصه عبقات الانوار؛ حدیث تشبیه» کے نام سے، سید علی حسینی میلانی کی تصحیح و تلخیص اور مرتضی نادری کے فارسی ترجمہ کے ساتھ، نبا فاونڈیشن کی جانب سے شائع ہوئ ہے۔
حوالہ جات
- ↑ صدوق، کمالالدین، 1395ھ، ج1، ص25۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھیں: التفسیر المنسوب الی الامام العسکریؑ، 1409ھ ، ص 449 اور 498- صدوق، کمالالدین، 1395ھ ، ج1، ص25؛ طبری آملی کبیر، المسترشد فی الامامة، 1415ھ ، ص287؛ مفید، الامالی، 1413ھ ، ص14؛ طوسی، الامالی، 1414ھ ، ص417؛ طبری آملی، بشارة المصطفی، 1383ھ ، ص83۔
- ↑ میں نمونہ کے طور پر دیکھیں: عاصمی، العسل المصفی، 1418ھ ، ج1، ص124-126؛ ابن عساکر، ترجمة الامام علی بن ابی طالب، 1400ھ ، ج2، ص280؛ ابن مغازلی، مناقب امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، 1424ھ ، ص281؛ خوارزمی، المناقب، 1411ھ ، ص 84اور312 ؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ ، ج1، ص103؛ طبری، ذخائر العقبی، 1354ھ ، ص 93 اور 94؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، 1398ھ ، ج1، ص170۔
- ↑ طبری آملی کبیر، المسترشد فی الامامة، 1415ھ ، ص287۔
- ↑ صدوق، کمالالدین، 1395ھ ، ج1، ص25۔
- ↑ التفسیر المنسوب الی الامام العسکریؑ، 1409ھ ، ص 497 اور 498۔
- ↑ عاصمی، العسل المصفی، 1418ھ ، ج1، ص125؛ ابن مردوی، مناقب علی بن ابی طالب، 1424ھ ، ص147؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ ، ج1، ص103؛ طبری، ذخائر العقبی، 1354ھ ، ص93 اور94۔
- ↑ ابن مغازلی، مناقب امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، 1424ھ ، ص281 ۔
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ ، ج5، ص396 اور397، ج15، ص619، ج22، ص329۔
- ↑ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ ، ج4، ص392-405، ج5، ص4-6، ج15، ص610-622، ج22، ص296-300 اور ج31، ص317 اور 318۔
- ↑ مرحوم نے، عبقات الانوار، 1366ھ ش، ج16، پہلا حصہ، ص15-454۔
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ھ ، ج3، ص486 ۔
- ↑ گنجی شافعی، کفایة الطالب، 1362ھ ش، ص122۔
- ↑ گنجی شافعی، کفایة الطالب، 1362ھ ش، ص122۔
- ↑ سوره نوح، آیه 26۔
- ↑ گنجی شافعی، کفایة الطالب، 1362ھ ش، ص122۔
- ↑ سوره توبه، آیه ۱۱۴۔
- ↑ گنجی شافعی، کفایة الطالب، 1362ھ ش، ص122۔
- ↑ نصیبی شافعی، مطالب السؤول، مؤسسه البلاغ، ص98۔
- ↑ نصیبی شافعی، مطالب السؤول، مؤسسه البلاغ، ص98۔
- ↑ دیکھیں: عاصمی، العسل المصفی، 1418ھ ، فصل پنجم، ج1، ص124-503 اور ج2، ص5-286۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ ، ج39، ص35-82۔
- ↑ مثال کے طور پر دیکھیں: طبری، تحفة الابرار، 1376ھ ، ص140 اور 263؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالببین، 1405ھ ، ص354؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ ، ج6، ص329۔
- ↑ دیکہیں: طبری، تحفة الابرار، 1376ھ ، ص 140 اور263؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ ، ج6، ص330؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ ، ج3، ص279؛ سلطان الواعظین، شبهای پیشاور، 1379ھ ، ص 478 اور479۔
- ↑ میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366ھ ، ج16، حصہ دوئم ، ص77-118۔
- ↑ میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366ھ ، ج16، حصہ دوئم، ص154-157۔
- ↑ صدوق، کمالالدین، 1395ھ ، ج1، ص25؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ ، ج1، ص137؛ طبری، ذخائر العقبی، 1354ھ، ص94؛ گنجی شافعی، کفایة الطالب، 1404ھ، ص121 اور 122۔
- ↑ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص417۔
- ↑ طبری آملی کبیر، المسترشد فی الامامة، 1415ھ، ص287۔
- ↑ عاصمی، العسل المصفی، 1418ھ، ج1، ص124-126؛ ابن عساکر، ترجمة الامام علی بن ابی طالب، 1400ھ، ج2، ص280؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص100 اور103؛ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص84 اور312؛ طبری، ذخائر العقبی، 1354ھ، ص93۔
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، 1373۱ھ، ص86؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج2، ص74۔
- ↑ ابن مغازلی، مناقب امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب، 1424ھ، ص281؛ طبری آملی، بشارة المصطفی، 1383ھ، ص83۔
- ↑ سلطان الواعظین، شبهای پیشاور، 1379ھ ش، ص478۔
- ↑ میرحامد حسین، عبقات الانوار، 1366ھ ش، ج16، بخش اول، ص15-454۔
- ↑ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ ، ج6، ص329۔
- ↑ ذہبی، المنتقی من منهاج الاعتدال، ص344۔
- ↑ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 1390ھ، ج6، ص24
- ↑ ابن کثیر، البدایة و النهایة، 1418ھ، ج11، ص89۔
- ↑ ابن جوزی، الموضوعات، 1386ھ، ج1، ص370۔
- ↑ ، المنتقی من منہاج الاعتدال، ص344۔
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنة، 1406ھ، ج5، ص510 اور 511۔
- ↑ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص83 اور84۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھیں: عاصمی، العسل المصفی، ۱۴۱۸ھ، ج1، ص124-126؛ طبری آملی کبیر، المسترشد فی الامامة، 1415ھ، ص287؛ ابن عساکر، ترجمة الامام علی بن ابی طالب، 1400ھ، ج2، ص280؛ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص103؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، 1398ھ، ج1، ص170۔
- ↑ نمونہ کے لئے دیکھیں: شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج4، ص392-405، ج5، ص4-6، ج15، ص610-622، ج22، ص296-300 اور ج31، ص317 اور 318؛ میرحامد حسین، عبقات الانوار، 1366ھ، ج16(اس جلد کی تمام ابحاث، حدیث تشبیہ کے بارے میں ہیں)؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج3، ص486-493۔
مآخذ
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنة النبویة فی نقض کلام الشیعة القدریة، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامیة، 1406ھ /1986 ع۔
- ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، الموضوعات، تحقیق عبدالرحمن محمد عثمان، مدینہ، محمد عبدالمحسن، چاپ اول، جلد 1 اور2: 1386ھ اور ج3: 1388ھ۔
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، مؤسسہ اعلمی، دوسرا ایڈیشن، 1390ھ -1971 ع۔
- ابن عساکر، علی بن حسن، ترجمة الامام علی بن ابی طالب من تاریخ مدینة دمشق، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسہ محمودی، دوسرا ایڈیشن، 1400ھ۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النہایة، تحقیق عبدالله بن عبدالمحسن الترکی، دار ہجر، پہلا ایڈیشن ، 1418ھ۔
- ابن مردویہ، احمد بن موسی، مناقب علی بن ابی طالب و ما نزل من القرآن فی علی، تحقیق عبدالرزاق محمد حرزالدین، قم، دار الحدیث، دوسرا ایڈیشن ، 1424ھ/1382ھ۔
- ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، تحقیق ابو عبدالرحمن ترکی بن عبدالله الوادعی، صنعا، دار الآثار، پہلا ایڈیشن ، 1424ھ/2003ع۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، قم، مرکز الغدیر، پہلا ایڈیشن ، 1416۶ھ۔
- حسکانی، عبیدالله بن عبدالله، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمد باقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی مجمع إحیاء الثقافة الإسلامیة، پہلا ایڈیشن ، 1411ھ۔
- التفسیر المنسوب الی الامام العسکریؑ، قم، مدرسہ امام مہدی(عج)، پہلا ایڈیشن ، 1409ھ۔
- حمویی جوینی، ابراہیم، فرائد السمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، مؤسسہ محمودی، پہلا ایڈیشن ، 1398ھ/1978ء۔
- خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق شیخ مالک محمودی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی جامعہ مدرسین حوزه، 1411ھ۔
- ذهبی، شمس الدین، المنتقی من منهاج الاعتدال فی نقض کلام اهل الرفض و الاعتزال، تحقیق محب الدین الخطیب، بیجا، بینا، بیتا۔
- سلطان الواعظین شیرازی، سید محمد، شبهای پیشاور در دفاع از حریم تشیع، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، انتالیسواں ایڈیشن ، 1379ھ ہجری شمسی۔
- شوشتری، قاضی نورالله، احقاق الحق و إزهاق الباطل، قم، مکتبه آیت الله مرعشی نجفی، ، پہلا ایڈیشن ، 1409ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، کمالالدین و تمام النعمة، تصحیح علی اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، دوسرا ایڈیشن ، 1395ھ۔
- طبری آملی کبیر، محمد بن جریر، المسترشد فی الامامة علی بن ابی طالبؑ، تحقیق و تصحیح احمد محمودی، قم، کوشانپور، پہلا ایڈیشن ، 1415ھ۔
- طبری آملی، عماد الدین محمد بن ابیالقاسم، بشارة المصطفی لشیعة المرتضی، نجف، المکتبة الحیدریة، دوسرا ایڈیشن ، 1383ھ۔
- طبری، عماد الدین حسن بن علی، تحفة الابرار فی مناقب الأئمة الاطهار، تصحیح و تحقیق سید مهدی جهرمی، تہران، میراث مکتوب، پہلا ایڈیشن ، 1376ہجری شمسی۔
- طبری، محب الدین، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قاہره، مکتبة القدسی، 1354ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافه، پہلا ایڈیشن ، 1414ھ۔
- عاصمی، احمد بن محمد، العسل المصفی من تهذیب زین الفتی فی شرح سورة هل أتی، تحقیق محمد باقر محمودی، قم، مجمع إحیاء الثقافة الاسلامیہ، 1418ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، ارشاد الطالببین فی نہج المسترشدین، تحقیق سید مہدی رجائی، قم، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی، 1405ھ۔
- گنجی شافعی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی طالبؑ، تحقیق محمد هادی امینی، تہران، دار احیاء تراث اهل البیتؑ، تیسرا ایڈیشن ، 1362ھ ش/1404ھ۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، دوسرا ایڈیشن ، 1403ھ۔
- مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، قم، مؤسسہ آل البیت، پہلا ایڈیشن، 1422ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الامالی، تحقیق و تصحیح حسین استاد ولی و علی اکبر غفاری، قم، کنگره شیخ مفید، پہلا ایڈیشن، 1413ھ۔
- میر حامد حسین، عبقات الانوار فی اثبات امامة ائمةالاطهار، اصفہان، کتابخانہ امیرالمؤمنین، دوسرا ایڈیشن، 1366ہجری شمسی۔
- نصیبی شافعی، محمد بن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، تصحیح عبدالعزیز طباطبایی، بیروت، مؤسسه البلاغ، بیتا۔