ماریہ بنت شمعون
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | ماریہ بنت شمعون |
لقب | ام المومنین |
محل زندگی | مصر، مدینہ |
وفات | محرم سنہ ۱۶ ہجری |
دینی معلومات | |
وجہ شہرت | زوجہ پیغمبر اکرم (ص) |
ماریہ بنت شمعون (متوفی ۱۶ ھ) ماریہ قبطیہ کے نام سے معروف، رسول خدا (ص) کی ازواج میں سے ہیں جن کے بطن سے ابراہیم پیدا ہوئے۔ مصر اور اسکندریہ کے حاکم مقوقس نے انہیں رسول خدا (ص) کے خط کے جواب میں تحائف کے ساتھ بھیجا تھا۔ رسول اللہ کی ازواج میں حضرت خدیجہ کے علاوہ صرف یہی زوجہ تھیں جن سے آپ کے یہاں اولاد ہوئی۔
زوجیت سے پہلے
خدیجہ بنت خویلد | (ازدواج: 25 عام الفیل) |
سودہ بنت زمعہ | (ازدواج: قبل از ہجرت) |
عائشہ بنت ابوبکر | (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری) |
حفصہ بنت عمر | (ازدواج: 3 ہجری) |
زینب بنت خزیمہ | (ازدواج: 3 ہجری) |
ام سلمہ بنت ابوامیہ | (ازدواج: 4 ہجری) |
زینب بنت جحش | (ازدواج: 5 ہجری) |
جویریہ بنت حارث | (ازدواج: 5 یا 6 ہجری) |
رملہ بنت ابوسفیان | (ازدواج: 6 یا 7 ہجری) |
ماریہ بنت شمعون | (ازدواج: 7 ہجری) |
صفیہ بنت حیی | (ازدواج: 7 ہجری) |
میمونہ بنت حارث | (ازدواج: 7 ہجری) |
مصر میں انصا علاقے کے حفن نامی گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ہجرت کے ساتویں برس رسول اللہ نے حاطب بن ابی بلتعہ کے ہمراہ مصر کے حاکم مقوقس کو اسلام کا دعوت نامہ بھیجا۔[1] مقوقس نے جواب میں مصر کے ملوک میں ایک بادشاہ کی بیٹی کو اہنی بہن سیرین کے ہمراہ رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا۔«سیرین»[2] ایک نقل کے مطابق شیرین[3] اور بہت سے تحفے تحائف رسول اللہ کیلئے روانہ کئے نیز نامہ میں لکھا کہ میں نے آپ کے بھیجے ہوئے خط کا اکرام کیا آپ کی جانب دو کنیزیں روانہ کی ہیں کہ جو قبط کی عظیم سرزمین میں نہایت قابل احترام و منزلت ہیں۔[4] مروی ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ نے راستے میں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔[5]
ازدواج
ان کے مدینے میں آنے کے بعد رسول خدا نے انہیں اپنے لئے انتخاب کیا اور سیرین حسان بن ثابت کو بخش دی۔[6] ام المؤمنین ماریہ کی پہلی سکونت حارثہ بن نعمان کا گھر تھا۔ یہاں انہوں نے ایک سال تک قیام کیا۔ ماریہ کی شائستگیوں اور رسول اللہ کی توجہ کی وجہ سے بعض بیویوں خاص طور پر حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ حسد کا شکار ہوئیں۔
ماریہ ایک پاکیزہ خاتون[7] دیندار اور صالح، نیکوکار، شائستہ عورتوں میں سے تھی اور رسول اللہ کی پسندیدہ اور مورد توجہ تھی۔[8] مؤرخین نے انہیں ایک اچھے دین کی مالک خاتون سے یاد کیا ہے۔[9] پیغمبر (ص) نے ان سے اپنی محبت کا یوں اظہار کیا: جب مصر کو فتح کرو تو ان سے اچھا برتاؤ کرنا چونکہ میں ان کا داماد ہوں۔[10]
سوره تحریم کی آیات کا نزول
حضرت حفصہ سے مخصوص دن حفصہ وہ رسول اللہ کے پاس آئییں اور ان سے ایک کام کی وجہ سے اپنے باپ سے ملنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی۔ اس کے جانے کے بعد آپ نے ماریہ کو طلب کیا۔ حفصہ واپس آئیں تو دروازہ بند تھا دروازے پر بیٹھ گئیں۔ جب رسول اللہ کے ہمراہ ماریہ کو دیکھا تو ناراحت ہوئیں اور رسول خدا سے سخت کلامی کی۔ رسول خدا (ص) نے ان کی رضایت کی خاطر ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر دیا اور اس سے اس واقعے کو پوشیدہ رکھنے کا کہا۔ لیکن حفصہ نے اس سارے واقعہ سے حضرت عائشہ کو آگاہ کیا۔[11] اور کہا میں خوشخبری دیتی ہوں کہ رسول اللہ نے اپنی کنیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور خدا نے ہمیں اس سے نجات دے کر ہمیں سکون دیا ہے۔[12]
اس موقع پر سورہ تحریم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ان آیات میں حفصہ اور عائشہ کی ملامت کے ساتھ رسول اللہ کو یوں خطاب ہوا ہے:
- یا أَیهَا النَّبِی لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَک تَبْتَغِی مَرْضَاتَ أَزْوَاجِک ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ
- اے نبی! اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے ؟خدا مہربان اور رحیم ہے [13]
فرمان خدا اس بات کا بیانگر ہے رسول خدا اور ماریہ کے درمیان مہر و محبت موجود تھی جو خدا کے نزدیک ایک پسندیدہ امر تھا۔ ماریہ رسول کے پاس اسی طرح رہی اور بعض ازواج نبی رسول سے ناراحت رہیں۔ بعض ازواج کی یہ ناراحتی ماریہ کے حاملہ ہونے کے وقت شدت اختیار کر گئ۔ اس وجہ سے رسول اللہ نے ماریہ کو مدینہ سے باہر غزوہ بنی نضیر میں ملنے والے عالیہ نامی نخلستان میں رہائش کیلئے بھیج دیا۔ (جو آج کل مشربہ ام ابراہیم سے معروف ہے)۔ اس کے بعد آپ اسے دیکھنے وہاں جایا کرتے تھے۔[14]
یہ جگہ آج کل ایک خراب قبرستان کی شکل میں ہے جہاں امام رضا کی والدہ نجمہ، کچھ اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کی قبریں موجود ہیں۔ یہاں ایرانی کبھی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے لیکن کچھ سال پہلے وہاں ایک بلند دیوار بنا دی گئی ہے اور اسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔[15]
ولادتِ ابراہیم
کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ کے علاوہ حضرت ماریہ بنت شمعون سے رسول اللہ کی اولاد پیدا ہوئی۔[16] نئے گھر میں سکونت اختیار کرنے کے بعد ماریہ کے بطن سے ہجرت کے آٹھویں سال ابراہیم کی ولادت ہوئی۔ جبرائیل نازل ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ کو ابا ابراہیم کہہ کر سلام کیا۔[17] منقول ہے کہ ابراہیم کی ولادت کے بعد رسول اللہ خوش ہوئے اور نومولود حضرت عائشہ کو دکھاتے ہوئے فرمایا: دیکھو یہ بچہ کس قدر میرا ہمشکل ہے۔[18]
ابراہیم ہجرت کے دسویں سال، سنہ ۱۸ رجب کو ۱۸ ماہ کی عمر میں فوت ہوئے اور بقیع میں دفن ہوئے پیغمبر(ص) اس کے غم میں نہایت غمگین ہوئے اور فرمایا: یہ غم آنسو جاری کرتا ہے اور دل کو افسوسناک لیکن میں کوئی ایسی بات نہیں کہوں گا کہ جو پروردگار کے خشم کا باعث بنے۔
ماجرائے افک
ماجرائے افک صدر اسلام کے واقعے کو کہا جاتا ہے کہ جس کی طرف سورۂ نور کی (۱۱ تا ۲۶) تک کی بعض آیات میں اشارہ موجود ہے۔ بعض روایات میں اس کا شان نزول کی بعض روایات اس کا مصداق عائشہ کو سمجھتی ہیں اور بعض دیگر روایات کے مطابق جس پر تہمت لگائی گئی وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔
وفات
رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے پانچ سال بعد ماریہ ہجرت کے ۱۶ ویں سال کے محرم کے مہینے میں فوت ہوئیں اور بقیع میں دفن ہوئیں۔[19]
حوالہ جات
- ↑ الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۷
- ↑ تاریخ طبری، ج۱۱، ص۶۱۷.
- ↑ انساب الاشراف، ج۱،ص۴۴۹.
- ↑ طبقات الکبری، ج۱، ص۲۰۰.
- ↑ انساب الاشراف، ج۱، ص۴۴۹
- ↑ تاریخ طبری، ج۱۱، ص۶۱۷
- ↑ تاریخ طبری، ج۳، ص۲۲.
- ↑ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۷۴.
- ↑ الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۷.
- ↑ معجم البلدان، ج۵، ص۱۳۸.
- ↑ الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۸۲
- ↑ الطبقات الکبری، ج۸، ص۱۵۱
- ↑ تحریم، ۱
- ↑ طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۷
- ↑ پایگاه اطلاع رسانی حوزه
- ↑ الاستيعاب،ج1،ص:50.
- ↑ انساب الاشراف، ج۱، ص۴۵۰
- ↑ نک: انساب الاشراف، ج۱،ص۴۵۰.
- ↑ تاریخ طبری، ج۱۱، ص۶۱۸
مآخذ
- ابن سعد، محمد بن سعد، طبقات الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۹۹۰ء۔
- ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار وریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، ۱۹۹۶ء۔
- حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، چاپ دوم، ۱۹۹۵ء۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۷۸ھ۔