واقعہ کربلا

فاقد تصویر
ویکی شیعہ سے
(شہادت حضرت امام حسین سے رجوع مکرر)
واقعہ کربلا
واقعہ کربلا کی قدیم نقاشی
واقعہ کربلا کی قدیم نقاشی
دیگر اسامیواقعہ عاشورا، واقعہ طف
واقعہ کی تفصیلامام حسینؑ اور ان کے اصحاب کی عمر سعد کی فوج سے جنگ۔
طرفینامام حسینؑ/ یزید بن معاویہ
زمان10 محرم 61 ہجری
دورہبنی امیہ
مکانکربلا
سببیزید کی بیعت سے امام حسینؑ کا انکار
عناصرعبید اللہ بن زیادعمر بن سعدشمر بن ذی الجوشن
اثراتقیام توابینقیام مختارجنگ خازرقیام زید بن علی
مربوطقیام امام حسینؑعزاداریروز عاشوراکوفیوں کے خطوط


محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


واقعہ کربلا یا واقعہ عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزیدی فوج کے ہاتھوں امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب شہید ہوگئے۔ واقعہ کربلا مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش ترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے۔ شیعہ حضرات اس دن وسیع پیمانے پر عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔

امام حسینؑ نے چار ماہ کے قریب مکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؑ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بناء پر آپؑ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر 8 ذی‌ الحجہ کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؑ کوفیوں کی عہد شکنی اور مسلم کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ حر بن یزید نے آپ کا راستہ روکا تو آپ کربلا کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر عبیدالله بن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔ اس فوج کی قیادت عمر بن سعد کے ہاتھ میں تھی۔

10 محرم، روز عاشورا کو دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ، ان کے بھائی عباس بن علی اور شیرخوار علی اصغر سمیت بنی ہاشم کے 17 افراد اور 50 سے زیادہ اصحاب شہید ہوئے۔ بعض مقتل نگار شمر بن ذی الجوشن کو امام حسینؑ کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ عمر بن سعد کے لشکر نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے شہیدوں کے اجساد کو پامال کیا۔ روز عاشور عصر کے وقت سپاه یزید نے امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کر کے انہیں نذر آتش کیا۔ شیعہ حضرات اس رات کو شام غریباں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ امام سجادؑ نے بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا لہذا آپؑ اس جنگ میں زندہ بچ گئے اور حضرت زینبؑ، اہل بیت کی خواتین اور بچوں کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اسیروں کو عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا اور وہاں سے انہیں یزید کے پاس شام بھیجا گیا۔

بیعت سے انکار

15 رجب سنہ 60 ہجری کو معاویہ کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔[1] یزید نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے معاویہ کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔[2] اسی بنا پر اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے نام ایک خط ارسال کر کے معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں ولید کو "حسین بن علی، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لینے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔ [3]

اس کے بعد یزید کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا کہ جس میں حامیوں اور مخالفین کے نام اور حسین بن علیؑ کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔[4] چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا؛[5] اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔[6]

امامؑ اپنے 30[7] عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔[8] ولید نے ابتداء میں معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے "حسینؑ سے اپنے لئے بیعت لینے کی تاکید کی تھی"۔ اس موقع پر امام حسینؑ نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں"۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے"۔ [9] امامؑ، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں"۔[10]

حاکم مدینہ نے دوسرے روز عصر کے وقت اپنے افراد کو امامؑ کے یہاں بھجوایا تاکہ آپؑ سے جواب وصول کرے؛۔[11] تاہم امامؑ ایک اور رات کی مہلت مانگی گئی جسے ولید نے قبول کیا اور امامؑ کو مہلت دے دی۔[12] امام عالی مقام نے دیکھا کہ مدینہ مزید پر امن نہ رہا، چنانچہ امام حسینؐ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔[13]

مدینے سے مکہ کا سفر

حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امام حسینؑ اتوار کی رات 28 رجب اور بعض دوسرے اقوال کی بنا پر 3 شعبان سنہ60ہجری قمری [14] کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کے 84 افراد کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[15] بعض مصادر کے مطابق آپؑ نے رات بھر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ(س) اور اپنے بھائی امام حسنؑ کی قبر مبارک پر حاضری دی وہاں نماز پڑھی اور وداع کیا اور صبح سویرے گھر لوٹ آئے۔ [16] بعض دیگر مصادر میں آیا ہے کہ آپؑ نے دو رات پے در پے اپنے نانا رسول خداؐ کے قبر مبارک پر رات گزاریں۔[17]

اس سفر میں سوائے محمد بن حنفیہ[18] کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔[19] بنی ہاشم کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔[20]

آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ کو جب امام حسینؑ کے سفر پر جانے کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کیلئے آئے۔ اس موقع پر امامؑ نے بھائی کے نام تحریری وصیتنامہ لکھا جس میں درج ذیل جملے بھی مذکور ہیں:

إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب[21]

ترجمہ:میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکلا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنے جد اور باپ کی سیرت پر چلوں گا....۔

امام حسینؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ سے خارج ہوئے اور اپنے عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[22] مکہ کے راستے میں عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی، اس نے امامؑ کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:"فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا"۔ عبداللہ نے کوفہ والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے امامؑ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔[23]

امام حسینؑ 5 دن بعد یعنی 3 شعبان سنہ 60 ہجری قمری کو مکہ پہنچ گئے۔[24] جہاں اھل مکہ اور بیت اللہ الحرام کی زیارت پر آئے ہوئے حاجیوں نے آپ کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔[25] مدینہ سے مکہ کے اس سفر کے دوران آپ نے درج ذیل منازل کو عبور کیا: ذوالحلیفہ، ملل، سیالہ، عرق ظبیہ، زوحاء، انایہ، عرج، لحر جمل، سقیا، ابواء، رابغ، جحفہ، قدید، خلیص، عسفان اور مرالظہران۔

امامؑ مکہ میں

امام حسینؑ 3 شعبان سے 8 ذوالحجہ تک یعنی چار مہینے سے زیادہ مکہ میں قیام پذیر رہے۔ مکہ میں آپؑ کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکہ کے باسی نہایت خوشحال ہوئے اور صبح و شام آپؑ کے وجود مبارک سے فیضاب ہوتے تھے جو عبداللہ بن زبیر پر نہایت سخت گذرا کیونکہ وہ اس امید میں تھے کہ مکہ والے اس کی بیعت کریں گے اور اسے یہ معلوم تھا کہ جب تک امام حسینؑ مکہ میں ہیں کوئی اس کی بیعت نہیں کریں گے۔[26]

کوفیوں کے خطوط اور امامؑ کو دعوت قیام

سلیمان بن صُرَد خزاعی کا امام حسینؑ کے نام خط:

اس خدا کا شکر بجا لاتا ہوں جس نے آپؑ کے دشمن کا خاتمہ کیا(معاویہ کی موت کی طرف اشارہ ہے)؛ وہ شخص جس نے اس امت کے خلاف بغاوت کی؛ ان کے اموال کو غصب کیا اور ان کی رضایت کے بغیر ان پر حاکم ہو گئے؛ اس کے بعد نیک لوگوں کو قتل کیا اور بدکاروں کو باقی رکھا اور بیت المال کو ثروتمندوں میں بانٹ دیا؛ خدا اسے قوم ثمود کے ساتھ محشور کرے؛ اس وقت ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، تشریف لائیں، شاید خداوند متعال ہم سب کو آپ کی قیادت میں راہ حق پر متحد ہونے کی توفیق دے...

مآخذ، طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۳۵۱.

امام حسینؑ کے مکہ میں پہنچ کر کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ عراق کے شیعہ معاویہ کی موت اور امام حسینؑ اور ابن زبیر کا یزید کی بیعت نہ کرنے سے با خبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر وہ سلیمان بن صُرَد خُزاعی کے گھر میں جمع ہو گئے اور امام حسینؑ کو ایک خط لکھا جس میں آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی۔[27] اس خط کے بھیجے ہوئے ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ کوفہ والوں نے 150 خط آپ کے نام لکھے جس میں سے ہر ایک پر کم از کم ایک سے چار افراد کے دستخط ہوا کرتا تھے۔[28] اس کے دو دن بعد اور خط امام حسینؑ کے نام بھیجے گئے۔[29] ان تمام خطوط میں امام حسینؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔

امام حسینؑ نے ان خطوں کے جواب دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ ان خطوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اس موقع پر آپ نے ایک خط تحریر فرمایا۔[30] جس کا مضمون یہ تھا:

...میں اپنے خاندان میں سے سب سے زیادہ با اعتماد چچازاد بھائی کو آپ کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ مجھے آپ لوگوں کی حالات سے آگاہ کرے۔ اگر اس نے مجھے یہ خبر دی کہ آپ لوگ وہی ہو جنھوں نے مجھے خطوط میں لکھے ہیں تو میں آپ کے یہاں آؤنگا ... امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا پر عمل پیرا ہو، عدالت قائم کرے، دین حق پر یقین رکھتا ہو اور اپنے آپ کو خدا کیلئے وقف کرے۔[31]

کوفہ میں سفیر حسینؑ

امامؑ نے کوفیوں کے نام ایک خط دے کر [32] اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو عراق روانہ کیا؛ تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے اور آپ کو حالات سے آگاہ کرے۔[33] مسلم 15 رمضان کو خفیہ طور پر مکہ سے نکلے اور 5 شوال المکرم کو کوفہ پہنچ کر[34] مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے۔[35] مسلم بن عقیل کی کوفہ پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی شیعیان کوفہ ان کے پاس آنے لگے۔ مسلم انہیں امامؑ کی تحریر سے آگاہ کرتے[36] اور ان سے امام حسینؑ کیلئے بیعت لینا شروع کیا۔[37] یوں 12000[38] یا 18000 [39] یا 30000 سے زیادہ [40] 18000 لوگوں نے مسلم کے ہاتھ پر امام حسینؑ کی بیعت کی اور آپؑ کا ساتھ دینے کا وعدہ دیا۔ اس موقع پر مسلم نے امام حسینؑ کو ایک خط لکھا جس میں بیعت کرنے والوں کی کثرت کا ذکر کرتے ہوئے امامؑ کو کوفہ آنے کا مشورہ دیا۔[41]

جب یزید کو کوفہ والوں کی امام حسینؑ کی بیعت اور نعمان بن بشیر (جو اس وقت کوفہ کا گورنر تھا) کے ان کے ساتھ نرم برتاؤ کا پتہ چلا تو اس نے عبیدالله بن زیاد کو (جو اس وقت بصره کا گورنر تھا) کوفہ کی گورنری پر منصوب کیا۔[42] ابن زیاد کوفہ آنے کے بعد امام حسینؑ کی بیعت کرنے والوں کی تلاش اور قبائلی سرداروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔[43]

تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عبید الله ابن زیاد کے کارندوں کے پروپیگنڈوں سے ڈر کر مسلم بن عقیل سے دور ہونے لگے یہاں تک کہ رات کے وقت تک مسلم بن عقبل تنہا رہ گئے اور چھپنے کیلئے کوئی جگہ بھی میسر نہ تھی۔[44] اور آخر کار ابن زیاد کی فوج سے لڑنے کی بعد محمد بن اشعث کی طرف سے امان دینے کے وعدہ سے ہتھیار ڈال دئے[45] اور انہیں پکڑ کر مہل لایا گیا؛ لیکن ابن زیاد نے محمد بن اشعث کے امان نامے کی پرواہ کئے بغیر مسلم کو شہید کرنے کا حکم دیا۔[46]

مسلم بن عقیل امام حسینؑ کیلئے فکرمند تھے اس وجہ سے آپ نے عمر بن سعد کو اس سلسلے میں وصیت کی، اس کا تعلق قریش سے تھا۔ مسلم کی پہلی وصیت یہ تھی کہ کسی کو امام حسینؑ کے پاس بھیج دیا جائے اور آنحضرت کو کوفہ آنے سے روکا جائے۔[47] "زبالہ" نامی جگہ پر عمر بن سعد کے ذریعے بھیجا گیا پیغام امامؑ کی خدمت میں پہنچا۔

مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی

امام حسینؑ مکہ میں چار مہینے پانچ دن اقامت کے بعد بروز پیر 8 ذوالحجہ[48] (جس دن مسلم بن عقیل نے کوفہ میں قیام کیا) 82 افراد کے ساتھ[49] (جن میں سے 60 افراد کوفہ کے شیعیان میں سے تھے )[50]، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔

بعض نے تاریخی اور حدیثی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے کها ہے کہ امام حسینؑ نے شروع سے ہی عمرہ مفردہ کی نیت کر رکھی تھی اسی لئے حج کے موسم میں مکہ سے باہر تشریف لے گئے۔[51](مزید تفصیلات کیلئے مراجعہ کریں: حج ناتمام)

مکہ میں قیام کے آخری مہینے میں جب امام حسینؑ کا کوفہ کی طرف جانے کا احتمال شدت اختیار کرنے لگا تو بہت سارے افراد نے اس سفر کی مخالفت کی منجملہ ان افراد میں عبداللّہ بن عبّاس اور محمّد بن حنفیہ امام کی خدمت میں آئے تاکہ آپؑ کو کوفہ کی طرف سفر کرنے سے منع کریں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔

جب امام حسینؑ اور آپ کے ساتھی مکہ سے باہر نکلے تو مکہ کے گورنر عمرو بن سعید بن عاص کی فوج نے یحیی بن سعید کی سرکردگی میں امام حسینؑ کا راستہ روکا لیکن آپ نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنا سفر جاری رکھا۔[52]

مکہ سے کوفہ کا راستہ

امام حسینؑ کا یہ کاروان مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے جن منزلوں سے گزرا ان کی ترتیب یہ ہے:

  1. بستان بنی عامر،
  2. تنعیم (یمن میں یزید کے کارگزار بحیر بن ریسان حمیری کی طرف سے صفایا سے شام کی طرف بھیجے گئے غنائم کو اپنی تحویل میں لے لینا)،
  3. صفاح (فرزدق مشہور شاعر سے ملاقات)،
  4. ذات عرق (بشر بن غالب اور عون بن عبداللہ بن جعفر وغیرہ سے ملاقات)،
  5. وادی عقیق،
  6. غمرہ،
  7. ام خرمان،
  8. سلح،
  9. افیعیہ،
  10. معدن فزان،
  11. عمق،
  12. سلیلیہ،
  13. مغیثہ ماوان،
  14. نقرہ،
  15. حاجر (قیس بن مسہر صیداوی کو کوفہ روانہ کرنا)،
  16. سمیراء،
  17. توز،
  18. اجفر (عبداللہ بن مطیع عدوی سے ملاقات اور ان کی طرف سے امام کو واپس لوٹنے کی نصیحت)،
  19. خزیمیہ،
  20. زرود (زہیر بن قین کا امام حسینؑ کے کاروان میں شامل ہونا، فرزندان مسلم سے ملاقات اور مسلم و ہانی وغیرہ کی شہادت کی خبر)،
  21. ثعلبیہ،
  22. بطان،
  23. شقوق،
  24. زبالہ (قیس کی شہادت کی خبر اور ایک نافع بن ہلال کے ہمراہ ایک گروہ کا امام سے ملحق ہونا)،
  25. بطن عقبہ (عمرو بن لوزان سے ملاقات اور ان کی طرف سے واپس لوٹنے کی نصیحت)،
  26. عمیہ،
  27. واقصہ،
  28. شراف،
  29. برکہ ابومسک،
  30. جبل ذی حسم (حر بن یزید ریاحی کی فوج سے ملاقات)،
  31. بیضہ (امام حسینؑ کا حر کی سپاہ سے خطاب)،
  32. مسیجد،
  33. حمام،
  34. مغیثہ،
  35. ام قرون،
  36. عذیب (کوفہ کا راستے عذیب سے قادسیہ اور حیرہ کی طرف تھا لیکن امام حسینؑ نے راستہ تبدیل کر کے کربلا میں اتر آئے)،
  37. قصر بنی مقاتل (عبیداللہ بن حر جعفی سے ملاقات اور امامم کی دعوت کو قبول نہ کرنا)،
  38. قطقطانہ،
  39. کربلا -وادی طف- (2 محرم 61 ہجری قمری امامؑ کا کربلا میں داخل ہونا)۔[53]

امامؑ ہر منزل پر لوگوں کو جذب کرنے اور ان کے ذہنوں میں اس معاملے کو واضح اور روشن کرنے کیلئے ہر ممکن تلاش کرتے رہے۔ نمونے کے طور پر یہ کہ ذات عرق نامی جگہ پر بشر بن غالب اسدی نامی ایک شخص امام کی خدمت میں پہنچ کر کوفہ کے حالات کی نزاکت کی اطلاع دی۔ اس موقع پر امام نے اس کی بات کی تصدیق کی۔ اس شخص نے امامؑ سے آیت: یوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاس بِإِمَامِهم[54] کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

امام دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جبکہ دوسرا وہ جو لوگوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ جو ہدایت کے امام کی پیروی کرتا ہے وہ بہشت میں جائیں گے جبکہ جو شخص ضلالت کے امام کی پیروی کرے گا وہ جہنم داخل ہو گا۔[55]

بشر بن غالب اس وقت تو امام کا ساتھ نہیں دیا لیکن بعد میں امام حسینؑ کی قبر مبارک پر گریہ کرتے دیکھا جاتا تھا اور امام کی نصرت اور مدد نہ کرنے پر پشیمانی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔[56]

اسی طرح ثعلبیہ نامی جگہے پر ابوہرّہ ازدی نامی شخص نے امام کی خدمت میں آکر اس سفر کی وجہ دریافت کی تو امام نے فرمایا:

بنی امیہ نے میری جائیداد لے لی اس پر میں نے صبر کیا۔ مجھے گالی دی گئی میں نے صبر کیا۔ میرے خون کے درپے ہوا تو میں نے فرار اختیار کی۔ اے ابوہرہ! جان لو کہ میں ایک باغی اور سرکش گروہ کے ہاتھوں مارا جاوں گا اور خدا ذلت و رسوائی کا لباس انہیں پہنائے گا اور ایک تیز دھار تلوار ان پر مسلط ہوگی جو ان کو ذلیل و رسوا کرے گی۔[57]

قیس بن مُسہر کی کوفہ روانگی

مروی ہے کہ امامؑ جب بطن الرمہ نامی جگہ پر پہنچے تو کوفیوں کو خط لکھا اور انہیں کوفہ کی طرف اپنی روانگی کی اطلاع دی۔[58] امامؑ نے خط قیس بن مسهر صیداوی کو دیا۔ قیس جب قادسیہ پہنچے تو ابن زیاد کے سپاہیوں نے ان کا راستہ روک کر ان کی جامہ تلاشی لینا چاہا۔ اس موقع پر قیس نے مجبور ہوکر امامؑ کا خط پھاڑ دیا تا کہ دشمن اس کے مضمون سے باخبر نہ ہوسکے۔ جب قیس کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تو اس نے غضبناک ہوکر چلاتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم! تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ ان افراد کا نام بتا دو جنہیں حسین بن علی نے خط لکھا تھا؛ یا یہ کہ منبر پر جا کر حسین اور ان کے باپ کو برا بھلا کہو!؛ اسی صورت میں میں تمہیں رہا کروں گا ورنہ تمہیں مار دوں گا"۔

قیس نے قبول کیا اور منبر پر جاکر امام کو برا بھلا کہنے کے بجائے کہا: اے لوگو! میں حسین بن علیؑ کا ایلچی ہوں اور تمہاری طرف آیا ہوں تا کہ آپ کا پیغام تم کو پہنچا دوں؛ اپنے امام کی ندا کو لبیک کہو"۔

ابن زیاد آگ بگولہ ہوگیا اور حکم دیا کہ قیس بن مسہر کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا جائے۔ اس کے سپایوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس جسم بےجان کی تمام ہڈیاں توڑ دیں۔[59]

عبداللہ بن یقطر کو کوفہ روانہ کرنا

مروی ہے کہ امام حسینؑ نے مسلم کی شہادت کی خبر پانے سے قبل اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن یقطر [60] کو مسلم کی طرف بھجوایا تھا لیکن وہ حصین بن نمیر کے ہاتھوں گرفتار ہوکر ابن زیاد کے پاس لے جائے گئے۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں دارالعمارہ کی چھت پر لے جایا جائے تاکہ کوفیوں کے سامنے امام حسینؑ اور آپ کے والد بزرگوار پر سبّ و لعن کریں۔ عبداللہ بن یقطر نے دارالامارہ کی چھت سے کوفہ والوں سے مخاطب ہوکر کہا: "اے لوگو! میں تہمارے پیغمبر کی بیٹی کے فرزند حسینؑ کا ایلچی ہوں؛ اپنے امام کی مدد کو دوڑو اور ابن مرجانہ کے خلاف بغاوت کرو"۔[61]

ابن زیاد نے جب یہ دیکھا تو حکم دیا کہ انہيں چھت سے نیچے گرا دیا جائے، اور اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا۔ عبداللہ بن یقطر جانکنی کی حالت میں تھی کہ ایک شخص نے آکر انہیں قتل کردیا۔[62]

عبداللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر مسلم اور ہانی کی شہادت کی خبر کے ہمراہ زبالہ کے مقام پر امام حسینؑ کو ملی۔[63]

سفیر حسینؑ بصرہ میں

امام حسینؑ نے بصرہ کے پانچ قبائل (عاليہ، بكر بن وائل، بنو تمیم، عبد القيس اور اَزْد) کے سرداروں کے نام ایک خط لکھا جسے سلیمان بن زرین نامی اپنے ایک موالی(آزاد کردہ) کے توسط سے روانہ کیا۔[64] سلیمان نے پانچوں قبائل کے سرداروس "مالك بن مِسمَع بَكرى، أَحنَف بنِ قیس، مُنذِر بن جارود العبدی، مسعود بن عمرو، قيس بن ہيثَم اور عمرو بن عبيدالله بن مَعمَر" میں سے ہر ایک کو خط کا نسخہ دیا۔[65] اس خط کا مضمون اور متن ایک ہی تھا جو کچھ یوں تھا: "۔۔۔ اَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلی کِتاب اللّه ِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ صلی الله علیه و آله ، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمیْتَتْ وَ اِنَّ البِدْعَةَ قَدْ اُحْیِیَتْ وَ اِنْ تَسْمَعُوا قَوْلی وَ تُطیعُوا اَمْری اَهْدِکُمْ سَبیلَ الرَّشادِ"۔ (ترجمہ:۔۔۔میں تمہیں كتاب خدا اور سنت رسولؐ کی طرف بلاتا ہوں۔ بےشک سنت نیست و نابود ہوگئی ہے اور بدعتیں زندہ ہوگئی ہیں؛ تم میری بات سنوگے اور میرے فرمان کی پیروی کروگے تو میں راہ راست کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا)۔[66] بصرہ میں مذکورہ افراد میں سے ہر ایک نے امامؑ کے موصولہ خط کا ایک ایک نسخہ چھپا کر رکھا سوائے منذر بن جارود عبدی کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ ابن زیاد کی ایک چال ہے۔[67] چنانچہ اس نے اگلے روز ابن زیاد کو ـ جو کوفہ جانا چاہتا تھا ـ حقیقت حال بتا دی[68] ابن زیاد نے امامؑ کے قاصد کو اپنے پاس بلوایا اور ان کا سر قلم کروایا۔[69]

حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ملاقات

عبیداللہ بن زیاد کو امام حسینؑ کی کوفہ عزیمت کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی فوج کے سربراہ حصین بن نمیر کو چار ہزار کا لشکر دے کر "قادسیہ" روانہ کیا تا کہ "قادسیہ" سے "خفان" اور "قُطقُطانیّہ" سے لعلع تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کے ذریعے ان علاقوں سے گزرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے مطلع رہ سکیں۔[70] حر بن یزید ریاحی کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین بن نمیر کے لشکر کا حصہ تھا جو قافلۂ حسینی کا راستہ روکنے کے لئے بھجوایا گیا تھا۔[71]

ابو مِخنَف نے اس سفر میں امام حسینؑ کے قافلے میں شامل دو اسدی افراد سے نقل کیا ہے کہ "جب قافلۂ حسینی "شراف" کی منزل سے روانہ ہوا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں آن پہنچیں"۔ "پس امامؑ نے "ذو حُسَم" کا رخ کیا۔[72]

حر اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کے آمنے سامنے آگئے؛ امامؑ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ حر اور اس کے سپاہیوں حتی ان کے گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی!

نماز ظہر کا وقت ہوا تو امام حسینؑ نے اپنے مؤذن حَجّاج بن مسروق جعفی- کو اذان دینے کی ہدایت کی اور چنانچہ انھوں نے اذان دی اور نماز کا وقت ہوا تو امام حسینؑ نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: "أَیُّهَا النّاسُ! إنَّها مَعْذِرَةٌ إِلَى اللّهِ وَإِلى مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمینَ، إِنِّی لَمْ أَقْدِمْ عَلى هذَا الْبَلَدِ حَتّى أَتَتْنِی کُتُبُکُمْ وَقَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ أَنْ اَقْدِمَ إِلَیْنا إِنَّهُ لَیْسَ عَلَیْنا إِمامٌ، فَلَعَلَّ اللّهُ أَنْ یَجْمَعَنا بِکَ عَلَى الْهُدى، فَإِنْ کُنْتُمْ عَلى ذلِکَ فَقَدْ جِئْتُکُمْ، فَإِنْ تُعْطُونِی ما یَثِقُ بِهِ قَلْبِی مِنْ عُهُودِکُمْ وَ مِنْ مَواثیقِکُمْ دَخَلْتُ مَعَکُمْ إِلى مِصْرِکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَکُنْتُمْ کارِهینَ لِقُدوُمی عَلَیْکُمْ اِنْصَرَفْتُ إِلَى الْمَکانِ الَّذِی أَقْبَلْتُ مِنْهُ إِلَیْکُمْ"۔

ترجمہ: یہ ایک عذر ہے اللہ کی بارگاہ میں اور تمہارے ہاں؛ "لوگو! میں تمہارے پاس نہیں آیا حتی کہ تمہارے خط ملے اور تمہارے قاصد اور ایلچی میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں تمہاری طرف آجاؤں اور تم نے کہا کہ "ہمارا امام نہیں ہے؛ شاید اللہ تمہیں میرے وسیلے سے راہ راست پر گامزن کردے، پس اگر تم اپنے عہد و پیمان پر استوار ہو تو میں تمہارے شہر میں آتا ہوں اور اگر نہیں ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔

حر اور اس کے سپاہیوں نے خاموشی اختیار کی اور کسی نے کچھ نہ کہا۔ پس امام حسینؑ نے نماز ظہر کے لئے اقامہ پڑھنے کا حکم دیا [اور نماز ادا کی] اور حر اور اس کے سپاہیوں نے بھی امام حسینؑ کی امامت میں نماز پڑھی۔[73] اسی دن عصر کے وقت امام حسینؑ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ روانگی کی تیاری کریں۔ اور پھر نماز عصر کے وقت امام علیہ السلام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو اذان عصر دینے کو کہا اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:"ايها الناس، فانكم ان تتقوا الله وتعرفوا الحق لاهله يكن ارضى لله عنكم، ونحن اهل بيت محمد اولى بولاية هذا الامر عليكم من هؤلاء المدعين ما ليس لهم، والسائرين فيكم بالجور والعدوان۔ فان ابيتم الا الكراهة لنا، والجهل بحقنا، وكان رأيكم الان غير ما اتتني به كتبكم، وقدمت على به رسلكم، انصرفت عنكم۔

ترجمہ: "اے لوگو! خدا سے ڈرو اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم اہل بیتِ محمدؐ منصب خلافت اور تمہاری ولایت و امامت امامت کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حقی دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ [اس کے باوجود] اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہماری اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوں میں لکھے ہوئے مضمون سے ہمآہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں"۔

حر نے کہا: "مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زياد کے پاس لے جائیں"۔[74] امامؑ نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!"، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے!"۔

امامؑ نے فرمایا: "امامؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا"۔

حر نے کہا: "میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛ لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو کوفہ لے جاؤں؛ پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف جارہا ہو نہ ہی مدینہ کی طرف؛ تا کہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے روانہ کروں؛ آپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط یزید کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر ختم ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں"۔[75]

امام حسینؑ "عذیب" اور "قادسیہ" کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ آپؑ عذیب سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور حر آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔[76]

ابن زیاد کے قاصد کی آمد

صبح ہوتے ہی امام حسینؑ نے البیضہ نامی منزل[77] پر توقف فرمایا اور نماز صبح ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ظہر کے وقت سرزمین نینوا میں پہنچے۔[78] ابن زياد کے قاصد نے ایک خط حر کے حوالے کیا جس میں ابن زیاد نے لکھا تھا: "میرا خط موصول ہوتے ہی حسین کے ساتھ سختی سے پیش آو اور انہیں کسی بےآب و گیاہ زمین پر رکنے پر مجبور کرو! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ وہ تمہاری طرف سے میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔ والسلام"۔[79]

حر نے ابن زياد کا خط امام حسینؑ کو پڑھ کر سنایا، امامؑ نے فرمایا: "ہمیں "نینویٰ" یا "غاضریہ"[80] جانے دو"۔[81] حر نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عبید اللہ نے اپنا قاصد مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے!"

زہیر نے کہا:"خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ یابن رسولِ اللہ! اس وقت اس گروہ (حر اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو ان کے پیچھے آرہے ہیں؛ میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے"۔

امامؑ نے فرمایا: "درست کہہ رہے ہو اے زہیر؛ لیکن میں کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کروں گا"۔[82] یہ کہہ کر امامؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ "کربلا" پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسینؑ کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔[83]

امام حسینؑ کے قافلے کا مدینہ سے کربلا اور کربلا سے مدینہ جانے والے راستے کا نقشہ

امام حسینؑ کربلا میں

اکثر تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب 2 محرم سنہ 61 ہجری کو کربلا کی سر زمین پر پہنچے ہیں۔[84] تاہم دینوری نے کربلا میں امام حسینؑ کی آمد کی تاریخ کو یکم محرم الحرام، قرار دی ہے۔[85] اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

جب حر نے امامؑ سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے"۔

امامؑ نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔

سب نے کہا: كربلا۔

فرمایا: یہ كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ میرے والد صفین کی طرف جاتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اس وقت آپ نے فرمایا: "یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "خاندان محمدؐ کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔[86]

امام حسینؑ نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔[87] اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان یہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم کا دن تھا۔[88] و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم محرم سنہ 61 کا دن تھا۔[89]

منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسینؑ نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:

"اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين"۔

ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے نبیؐ کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہؐ کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔

اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

" ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق[90] على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون"۔ ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔[91]

اس کے بعد امامؑ نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4x4 میل تھا ـ نینوی' اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔[92]

دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسینؑ اور اصحاب کربلا میں حسینؑ کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد،[93] حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔[94] حر کا خط ملتے ہی عبید اللہ نے ایک خط امام حسینؑ کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:

"امّا بعد، اے حسینؑ! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔

مروی ہے کہ امام حسینؑ نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:

"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا"۔

قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسینؑ کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امامؑ کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔ [95]

عمر بن سعد کی کربلا آمد

عمر سعد امامؑ کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز ـ یعنی تین محرم الحرام کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔[96] عمر سعد کی کربلا آنے کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:

"عبید اللہ بن زياد نے عمر سعد کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کوفیوں کو رے اور دَستَبی"[97] لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ عبید اللہ نے پہلے ہی رے کی حکومت کا حکم عمر سعد کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو رے کا والی مقرر کیا تھا۔ ابن سعد اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے باہر نکلا اور "حمام اعین" کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ رے جانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مسئلہ پیش آیا؛ اور جب امام حسینؑ نے کوفہ کی طرف عزیمت کی تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے امام حسینؑ سے جنگ کرنے جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اپنی حکومت کے مقام کی طرف کوچ کرو"۔ عمر سعد امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کو پسندید نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے عبید اللہ بن زیاد سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو"؛ لیکن ابن زیاد نے اس جنگ سے عمر سعد کی معافی کو رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔[98]

عمر سعد نے جب چون اصرار ابن زیاد کا اصرار دیکھا تو کہا: (میں کربلا) جاتا ہوں"۔[99] چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور نینوی' کے مقام پر امام حسینؑ کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔[100]

امام حسین ؑ اور عمر ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز

عمر ابن سعد نے کربلا پہنچتے ہی امام حسینؑ کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ آپؑ سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟"۔ اس نے یہ کام عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی اور امامؑ کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔[101] تاہم كثير بن عبداللہ شعیبہ نے تجویز مان لی اور خیام حسینی کی جانب روانہ ہوا، لیکن او ثمامہ صا‏ئدی نے اس کو ہتھیار لے کر امامؑ کے حضور پنچنے سے روک لیا، کثیر نامراد ہوکر عمر ابن سعد کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔[102]

کثیر کی واپسی پر عمر ابن سعد نے قرة بن قيس حنظلى سے[103] امامؑ کے پاس جانے کی درخواست کی۔

امام حسینؑ نے عمر کے پیغام کے جواب میں قرہ بن قیس سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہيں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔ عمر ابن سعد اس جواب سے خوش ہوا[104] پس ایک خط ابن زیاد کو لکھا اور اس کو امام حسینؑ کے اس کلام سے آگاہ کیا۔[105]

ابن زياد نے عمر ابن سعد کے خط کے جواب میں اس سے تقاضا کیا کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب سے یزید بن معاویہ کے لئے بیعت لے۔[106]

ابن زياد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش

کربلا میں امام حسینؑ کے آنے کے بعد ابن زیاد نے کوفیوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان کے بزرگوں کے درمیان یزید کے بھیجے گئے تحفے تقسیم کئے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انہیں دعوت دی کہ کربلا جاکر امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں عمر سعد کی مدد کریں۔[107]

ابن زياد نے کوفہ کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔[108] اور کوفیوں کو کربلا جاکر امام حسینؑ سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل کوفہ پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔[109] ابن زیاد نے حصین بن نمیر کو 4000 کے لشکر کے ساتھ قادسیہ سے نخیلہ بلوایا۔[110] ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی، کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو |ابو عبداللہ الحسینؑ کے ساتھ جنگ کے لئے تیار کریں۔[111] ابن زیاد نے سويد بن عبدالرحمن منقرى کو چند سوار دے کر کوفہ میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو ابو عبداللہ الحسینؑ کے ساتھ جنگ پر جانے سے اجتناب کررہے تھے۔ سوید نے کوفہ میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شامی مرد کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوایا جو اپنی میراث طلب کرنے کوفہ آیا تھا۔ ابن زیاد نے کوفیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔[112]

نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو ابن زیاد نے حصين بن نمير، حجار بن ابجر، شبث بن ربعى اور شمر بن ذی الجوشن کو ابن سعد کی مدد کے لئے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔[113] شمر نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لئے تیار ہوا۔[114] شمر کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مُصاب مارى (مُضاير بن رہینہ مازِنى) 3000 کے لشکر کے ساتھ[115] اور حصين بن نمیر [116] دو ہزار کے لشکر کے ساتھ[117] اور نصر بن حَربہ 2000 کے لشکر کے ساتھ ابن سعد سے جا ملے۔[118] اس کے بعد ابن زیاد ایک آدمی شبث بن ربعی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ ابن سعد سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر عمر بن سعد کی لشکر گاہ میں پہنچا۔[119] شبث کےبعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار[120] اور اس کے بعد محمد بن اشعث ایک ہزار سوار[121] لے کر کربلا پہنچا اور ان کے بعد حارث بن يزيد بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے کربلا روانہ ہوا۔[122]

ابن زیاد ہر روز صبح اور شام کوفیوں فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے کربلا روانہ کرتا تھا[123] حتی کہ چھ محرم الحرام کو ابن سعد کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔[124] ابن زیاد نے عمر بن سعد کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔

حبیب بن مظاہر اور امام حسینؑ کے لئے لشکر جمع کرنے کی کوشش

کربلا میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد حبیب بن مظاہر اسدی امام(ع( کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر، امامؑ کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ بنی اسد پہنچے اور ان سے بنت رسولؐ کے لئے مدد کی دوخواست کی۔

بنی اسد رات کے وقت خیام امامؑ کی جانب رواں دواں تھے کہ عمر بن سعد نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا؛ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور بنی اسد جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے؛ چنانچہ حبیب بن مظاہر اکیلے واپس آگئے۔[125]


سات محرم اور پانی کی بندش

سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ "حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔

خط ملتے ہی ابن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسینؑ اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔[126]

بعض مصادر میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، امام حسینؑ نے بھائی عباس کو بلوایا اور انہیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی میں پانی لانے کے لئے فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نافع بن ہلال جملی پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جارہے تھے؛ یہ افراد عباسؑ کی قیادت میں شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، ـ جو فرات کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب حسینؑ کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب حسینؑ کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور علمدار حسینؑ اور نافع بن ہلال سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں حسینؑ کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔[127]

عمر بن سعد کے ساتھ امام حسینؑ کی آخری مذاکرات

عمر بن سعد کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد امام حسینؑ عمرو بن قرظہ انصارى کو عمر بن سعد کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا"، امام حسینؑ اور عمر بن سعد دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ امام حسینؑ نے بھائی ابوالفضل العباس اور بیٹے علی اکبرؑ کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ ابن سعد نے بھی بیٹے حفص اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں امامؑ نے عمر بن سعد سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور آخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔"۔[128] عمر نہ مانا۔ امامؑ جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم عراق کی گندم نہ کھا سکوگے"۔[129]

امامؑ اور ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔[130]

ایک عجیب روایت

کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں عمر بن سعد نے ایک خط میں میں ابن زیاد کو لکھا:

"... حسین بن علیؑ نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود یزید کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!"[131]

خط ابن زیاد نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ ابن زیاد اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ شمر بن ذی الجوشن ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط عمر بن سعد کو پہنچا دو تا کہ وہ حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو حسین بن علیؑ کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد عمر بن سعد کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔"[132]

اس کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:

"... میں نے تمہیں (کربلا) نہیں بھیجا کہ حسین بن علیؑ سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر حسین بن علیؑ اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب حسین مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کے بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو شمر بن ذی الجوشن کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔[133]

حقیقت کیا ہے

اس روایت میں کچھ حقائق بھی ہیں؛ یہ بات روایات میں منقول ہے کہ عمرسعد نے مسئلے کو بغیر جنگ کے حل کرنے اور اپنے، ابن زیاد اور یزید کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی درست ہے کہ ابن زیاد نے ابن سعد کے لئے غیر انسانی احکامات بھجوائے (اور البتہ یہ بھی درست ہے کہ (عمر بن سعد نے ان احکامات پر من و عن عملدرآمد کیا) لیکن یہ دعوی درست نہیں ہوسکتا کہ امامؑ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی خواہش کی تھی اور اس کے ثبوت ایک سے زیادہ ہیں:

معاویہ کی موت اور مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے یزید کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد ولید بن عتبہ اور مروان بن حکم نے حضرت سید الشہداء سے کہا کہ یزید کی بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:"يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق ومثلى لايبايع مثله"۔

ترجمہ: "یزید ایک فاسق، شرابی، قاتل شخص ہے جو اعلانیہ فسق و گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا کوئی اس جیسے کسی کی بیعت نہیں کرتا"۔[134] بے شک اگر تحریک عاشورا کا ایک ہدف و مقصد یہی تھا تو یہ ابھی اپنی جگہ قائم تھا اور کسی نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ یزید اس عرصے میں توبہ کرکے اسلامی شریعت کا تابع مطلق بن چکا تھا۔ چنانچہ امام حسین علیہ السلام کے یزید کے پاس جانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

اور پھر امامؑ یزید کو پہلے سے جانتے تھے۔ حتی ایک مرتبہ جب معاویہ نے ایک مجلس میں یزید کی تعریف کی تو آپ نے شدید احتجاج کیا، اس کی برائیاں بیان کردیں اور یزید کے لئے بیعت لینے کے سلسلے میں معاویہ کی کوششوں کی مذمت کی۔[135]

امامؑ نے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اللهم إنك تعلم إنه لم يكن ما كان منا تنافسا في سلطان، ولا التماسا من فضول الحطام، ولكن لنري المعالم من دينك، ونظهر الاصلاح في بلادك، ويأمن المظلومون من عبادك، ويعمل بفرائضك وسنتك وأحكامك"۔

ترجمہ: "خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری طرف سے انجام پایا ہے (منجملہ اموی حکمرانوں کے خلاف خطبات اور اقدامات)؛ فرمانروائی کے لئے مسابقت اور دنیا کی ناچیز متاع کے حصول میں سبقت لینے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں لوگوں کو دکھا دیں اور بپا کریں اور تیری سرزمینوں میں اصلاح کے آشکار کردیں۔ ہم چاہتے ہيں کہ تیرے مظلوم بندے امان میں ہوں اور تیرے واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جاتا رہے"۔[136]

امامؐ نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمایا: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہؐ اور بابا علی بن ابی طالبؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔[137]

"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا"۔[138] "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسینؑ اور اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خداؐ (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔[139] یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسینؑ کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔

روز تاسوعا

9 محرم سنہ 61 ہجری کی شام کو شمر ابن زیاد کا حکم لے کر عمر سعد کے پاس کربلا پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔[140]عمر بن سعد نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔[141]

شمر یا ایک اور قول کی بنا پر ام البنین(س) کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل نے ام البنین کے بیٹوں کے لئے ابن زیاد سے امان نامہ لیا تھا [142] عبداللہ بن ابی المحل نے امان نامہ اپنے غلام کزمان یا عرفان (یا کرمان) کے توسط سے کربلا بھجوایا اور اس نے کربلا پہنچتے ہی امان نامے کا متن ام البنین(س) کے بیٹوں (عباس بن علی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی) کو پڑھ کر سنایا؛ تاہم انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔[143] ایک روایت یہ بھی ہے کہ شمر نے ابن زیاد کا امان نامہ خود کربلا لے کر آیا اور عباس بن علی اور ان کے بھائی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی کو پڑھ کر سنایا،[144] تاہم عباسؑ اور ان کے بھائیوں نے اتفاق رائے سے امان نامہ مسترد کیا۔[145]

شیخ مفید نے شمر اور ام البنین کے بیٹوں کی گفتگو کو یوں نقل کیا ہے، شمر نے کہا: اے میرے بہانجو آپ لوگوں کی جان محفوظ ہے۔ اس پر حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے کہا: خدا تم اور تمارے امان پر لعنت کرے، ہمیں امان دیتے ہو درحالیکہ فرزند رسول خدا کے لئے امان نہیں ہے؟![146]

شب عاشورا کے واقعات

اصحاب کا تجدید عہد

امام حسینؑ نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمہاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔

اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی مصادر میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔[147]

اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی

آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسینؑ اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی کو معلوم ہوا اور امامؑ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔

خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسینؑ بہن زینب کبری(س) کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ زینب(س) نے بھائی سے عرض کیا:

کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں"۔

امام حسین ؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں سینہ سپر ہو کر جنگ کیلئے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔

نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسینؑ آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امامؑ کے اہل بیتِ کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسینؑ کا دفاع کریں گے۔

حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین ؑ کو بلایا، بنی ہاشم کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسینؑ اور حضرت زینب سے سنا تھا، کو دھرایا۔

تمام اصحاب نے کہا: "اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسینؑ کے حکم کی انتظار میں نہ ہوتا تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔"

حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم رسول خداؐ یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔[148]

روز عاشورا کے واقعات

عاشورا کی صبح کو امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز ادا کی۔[149] نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) [150] کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو زہیر بن قین اور بائیں بازو کو حبیب بن مظاہر کے سپرد کیا اور پرچم بھائی ابوالفضل العباسؑ کے حوالے کیا۔[151]

میدان کے دوسری جانب عمر سعد نے اپنے لشکر کے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ[152] صفوں کو منظم کیا، عمرو بن حجاج زبیدی کو میمنہ، شمر بن ذی الجوشن کو میسرہ، عزرة بن قیس احمسی کو سوار دستے اور شبث بن ربعی کو پیادہ دستے کی کمانڈ دے دی۔ [153]

اسی عبداللہ بن زہیر اسدی کو کوفیوں، عبدالرحمن بن ابی اسیرہ کو مذحج اور بنو اسد، قیس بن اشعث بن قیس کو بنی ربیعہ اور کندہ اور حر بن یزید ریاحی کو بنی تمیم اور ہمدان کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کر کے[154] ابو عبداللہ الحسینؑ کے خلاف صف آرا ہوا۔

امام حسینؑ نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔[155] امامؑ کی گفتگو کے بعد زہیر بن قین نے آپؑ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔[156]

روز عاشورا کے اہم واقعات میں سے ایک حر بن یزید ریاحی کا لشکر عمر بن سعد سے نکل کر امام حسینؑ کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔[157]

شروع میں دونوں لشکر گروہی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ بعض تاریخی مصادر کے مطابق پہلے ہی حملے میں امام حسینؑ کے 50 اصحاب شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انفرادی طور پر تن بہ تن لڑائی شروع ہوئی۔ امامؑ کے با وفا اصحاب دشمن کو امام حسینؑ کے نزدیک ہونے نہیں دیتے تھے۔[158] غیر ہاشمی اصحاب اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کے جوان یکے بعد دیگرے میدان میں جانے لگے اور بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے میدان میں جانے والا جوان حضرت علی اکبر تھا۔[159] ان کے بعد ایک ایک کر کے امام بنی ہاشم کے جوانوں نے اپنی اپنی قربانی پیش کیں۔ ابوالفضل العباسؑ جو لشکر کے علمدار اور خیموں کے محافظ تھے، نہر فرات سے خیمہ گاہ حسینی میں پانی لاتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔[160]

بنی‌ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسینؑ خود جنگ کیلئے تیار ہوئے لیکن دشمن کے لشکر سے آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کوئی میدان میں آنے کیلئے تیار نہ تھے۔ جنگ کے دوران باوجود اینکہ آپؑ تنہا تھے اور آپ کا بدن زخموں سے چور چور تھا، آپ نہایت بہادری کے ساتھ تلوار چلاتے تھے۔[161]

امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کے واقعات

آپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے؛ قیس بن اشعث اور بحر بن کعب نے آپ کی قمیص [162]، اسود بن خالد اودی نے آپ کے نعلین‌، جمیع بن خلق اودی نے آپ کی تلوار شمشیر، اخنس بن مرثد نے آپ کا عمامہ، بجدل بن سلیم نے آپ کی انگوٹھی اور عمر بن سعد نے آپ کا زرہ۔[163]

خیموں کی غارت گری

اس کے بعد دشمن نے خیموں پر حملہ کیا اور ان میں موجود تمام سامان لوٹ لیا اور اس کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔[164] شمر امام سجادؑ کو قتل کرنے کی خاطر دشمن کے ایک گروہ کے ساتھ خیموں میں داخل ہوئے لیکن حضرت زینب(س) اس کام میں رکاوٹ بنیں۔ بعض مورخین کے مطابق دشمن کے بعض سپاہیوں نے شمر کے اس کام پر اعتراض کیا اور اسے اس کام سے باز رکھا۔[165] ابن سعد نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر بعض سپاہیوں کی پہرے لگا دیا گیا۔[166]

لاشوں پر گھوڑے دوڑایا جانا

ابن زیاد کے حکم پر عمر سعد نے اپنی فوج کے دس سپاہیوں کے ذریعے امام حسینؑ اور ان کے با وفا اصحاب کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جس سے شہداء کے جنازے پایمال ہو گئے۔[167]

اسحاق بن حویہ[168]، اخنس بن مرثد[169] حکیم بن طفیل، عمرو بن صبیح، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خیثمہ جعفی، واحظ بن ناعم، صالح بن وہب جعفی، ہانی بن ثبیت حضرمی اور اسید بن مالک [170] ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے شہداء کے بدن پر گھوڑے دوڑائے۔

شہداء کے سروں کی کوفہ اور شام بھیجوانا

عمر بن سعد نے اسی دن امام حسینؑ کے سر مبارک کو خولی اور حمید ابن مسلم کے ساتھ کوفہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح اس نے اپنی سپاہیوں کو دیگر شہداء کے سروں کو بھی ان کے جسم سے جدا کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو جن کی تعداد 72 تھیں، شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث، عمرو بن حجاج اور عزره بن قیس کے ساتھ کوفہ روانہ کیا۔[171]

اہل حرم کی اسیری

واقعہ عاشورا کے دن امام زین العابدینؑ سخت بیمار تھے۔ اسی وجہ سے آپ جنگ میں شرکت نہ کر سکے یوں مردوں میں سے صرف آپ زندہ بچ گئے اور حضرت زینب(س) سمیت اہل حرم کے دوسرے افراد کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد اور اسکے سپاہی اسرا کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس لے گئے پھر وہاں سے انہیں یزید بن معاویہ کے پاس شام میں لے جایا گیا۔

شہدائے عاشورا کی تدفین

مؤرخین کے مطابق عمر بن سعد کے کربلا سے چلے جانے کے بعد شہداء کو 11 محرم الحرام کے دن دفن کیا گیا؛[172] جبکہ بعض مورخین کے مطابق 13 محرم[173] شہداء کی تدفین کا دن ہے۔ سنی مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو 11 محرم سنہ 61 ہجری کے دن سپرد خاک کیا گیا ہے۔[174]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۴۲؛ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۵؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۲.
  2. محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔
  3. ابومخنف الازدی، مقتل الحسینؑ،ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔
  4. شیخ صدوق؛ الامالی،ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔
  5. ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
  6. الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
  7. ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔
  8. الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88
  9. الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔
  10. ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص19۔
  11. شیخ مفید، وہی ماخذ، ص34۔
  12. الطبری، وہی ماخذ، ص341 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص34۔
  13. ابن اعثم؛ الفتوح، وہی ماخذ، ص19 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص187۔
  14. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۲۱-۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.
  15. بَلاذُری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۴.
  16. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۱۹-۲۰؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۷.
  17. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۱۸-۱۹.
  18. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۲۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶.
  19. ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲۸؛ صدوق، امالی، صص۱۵۲-۱۵۳.
  20. صدوق، امالی، ص۱۵۲.
  21. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۱؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، صص۱۸۸-۱۸۹.
  22. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.
  23. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳.
  24. بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۵.
  25. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۶؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۶.
  26. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۶؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۶؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۰؛ خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج۱، ص۱۹۰.
  27. بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ج۳، صص۱۵۷-۱۵۸؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۲۷-۲۸؛ مفید، الارشاد، ج۲، صص۳۶-۳۷؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۳۰.
  28. بلاذری؛ انساب الاشراف، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۲؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.
  29. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.
  30. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۳۷؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، ج۲، ص۲۴۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.
  31. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۱.
  32. محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج 5، ص 353 و ابن اثیر، علی بن ابی الکرم؛ الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 21۔
  33. ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص230؛ الطبری، وہی ماخذ، ص347؛ ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص39و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص21۔
  34. علی بن الحسین المسعودی، مروج الذهب و معادن الجوهر، ج3، ص54۔
  35. الدینوری، وہی ماخذ، ص 231 و احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 77 و الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 355۔
  36. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۱.
  37. مقرم، الشهید مسلم بن عقیل، ص۱۰۴.
  38. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵،ص۳۴۸.
  39. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۵.
  40. ابن قتیبه دینوری، الامامة و السیاسة، ج۲، ص۸.
  41. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۳؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۹۵.
  42. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۱.
  43. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۹.
  44. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۶۹-۳۷۱.
  45. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۰-۳۷۴.
  46. مفید، الارشاد، ج۲، ص۵۳-۶۳.
  47. جعفریان، تأملی در نہضت عاشورا، ص۱۶۸.
  48. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۸۱.
  49. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۶۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۲۲۰؛ إربلی، کشف‌الغمہ، ج۲، ص۴۳.
  50. ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۵۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۶۹
  51. کلینی، الکافی، ج۴، ص۵۳۵، طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۳۲۸
  52. دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۱۶۴؛ طبری،تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۵.
  53. جعفریان، اطلس شیعہ، ص۶۶.
  54. اسرا، ۷۱
  55. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۰.
  56. ابن عدیم، ترجمۃ الامام الحسین، ص۸۸.
  57. ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۳
  58. الدینوری، وہی ماخذ، ص 245 و البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 167۔
  59. البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 167 و الطبری، وہی ماخذ، ص 405 و مسکویه، وہی ماخذ، ج 2، ص 60۔
  60. محمد السماوی؛ ابصار العین فی انصار الحسینؑ، ص 93۔
  61. البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 168 - 169 و الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ج 4، ص 42۔
  62. البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 169 و الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 43۔
  63. الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 42۔
  64. الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37۔
  65. الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و ابن اعثم الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج 1، ص 199۔
  66. الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و ابن کثیر، وہی ماخذ، ج 8، ص 157 - 158۔
  67. الدینوری، وہی ماخذ، ص 231 و الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص 199۔
  68. الطبری، وہی ماخذ، ص 358۔
  69. الطبری، وہی ماخذ، ص 358 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37۔
  70. احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج 3، ص 166 و محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج 5، ص 401 و ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج 2، ص 62 و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 41۔
  71. الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 401 و مسکویه، وہی ماخذ، ج 2، ص 62۔
  72. الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 400 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 63 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج 2، ص 77 - 78 و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 46۔
  73. الطبری، وہی ماخذ، ص 401 - 402 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص 78 - 79 و ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج 5، ص 76 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 62 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 47۔
  74. الطبری، وہی ماخذ، ص 402 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج 1، ص 232 و الکوفی، وہی ماخذ، ص 78 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص79 - 80 و مسکویه، وہی ماخذ، ص62 - 63 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 47۔
  75. الطبری، وہی ماخذ، ص 402 - 403 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ج 2، ص 81 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 64 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 48۔
  76. الدینوری، ابوحنیفه احمد بن داوود؛ الاخبار الطوال،ص 251 و البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 171 و الطبری، وہی ماخذ، ص 404۔
  77. یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج 1، ص 532 و صفی الدین عبدالمؤمن البغدادی، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنة و البقاع، ج 1، ص 243۔
  78. الطبری، وہی ماخذ، ص 403۔
  79. الطبری، وہی ماخذ، ص 408 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 67 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 51۔
  80. الحموی، یاقوت؛ وہی ماخذ، ج 4، ص 183۔
  81. شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص 84 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 68 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 52۔
  82. الطبری، وہی ماخذ، ص409؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص68 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52۔
  83. عبدالرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسینؑ، ص 192۔
  84. ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص84؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص409؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، ص68؛ علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص52؛ و ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص96۔
  85. ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری،الاخبار الطوال، ص53۔
  86. عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسینؑ، ص192۔
  87. سید بن طاوس؛ الملهوف علی قتلی الطفوف، ص68؛ إربلی، وہی ماخذ، ج2، ص47 و ابن شهر آشوب؛ وہی ماخذ، ج4، ص97۔
  88. الکوفی، وہی ماخذ، ص83؛ ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52؛ فتال نیشابوری، وہی ماخذ، ص181؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص84؛ الطبری، وہی ماخذ، ص409؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص68 و ابن شهر آشوب، وہی ماخذ، ص96۔
  89. الدینوری، وہی ماخذ، ص53۔
  90. لعق علی السنتهم سے مراد یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ لوگ دین کو ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا مزہ چاٹ اور چکھ کر معلوم کیا جاتا ہے؛ اور جب تک اس کا مزہ محسوس کرتے ہیں اس کو پاس رکھتے ہیں لیکن جب آزمائش کی گھڑی آن پہنچتی ہے؛ دینداروں کی تعداد گھٹ جاتی ہے[www۔ghorany۔com/karbala1۔htm|وبسایت ختم قرآن کریم]۔
  91. بحار الانوار ج44 ح383 ج75 ص116، بحوالہ تحف العقول۔ الموسوی المقرم، وہی ماخذ، ص193۔
  92. همان، ص196۔
  93. محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص409؛ الکوفی، ابن اعثم؛ الفتوح، ج5، ص83 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص84۔
  94. ابن اعثم، وہی ماخذ، ص84 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص239۔
  95. ابن اعثم، وہی ماخذ، ص85؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص239 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب،ج4، ص98۔
  96. ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ الطبری، وہی ماخذ، ص409 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52۔
  97. یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج2، ص454۔
  98. الدینوری، وہی ماخذ، ص253؛ البلاذری، وہی ماخذ، ص176 و الطبری، وہی ماخذ، ص409۔
  99. الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص86 و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص239-240۔
  100. الدینوری، وہی ماخذ، ص253؛ البلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص176و الطبری، وہی ماخذ، ص409۔
  101. الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص86 و شیخ مفید، صص84-85۔
  102. الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص86-87؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص 85 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص240۔
  103. الدینوری، وہی ماخذ، ص253۔
  104. الدینوری، وہی ماخذ، صص253-254؛ الطبری، وہی ماخذ، ص411 و شیخ مفید، وہی ماخذ، صص85-86۔
  105. الطبری، وہی ماخذ، ص411؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص86 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص241۔
  106. الطبری، وہی ماخذ، ص411 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص86۔
  107. احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص178؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص89 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص242۔
  108. ابن سعد، وہی ماخذ، ص466 و البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔
  109. ابن سعد، وہی ماخذ، ص466۔
  110. البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔
  111. البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔
  112. ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، صص254-255 و البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔
  113. الدینوری، وہی ماخذ، ص254و البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔
  114. الدینوری، وہی ماخذ، ص254 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔
  115. ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242 و ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔
  116. مقاتل، تراجم اور تواریخ کی کتب میں حُصَیْنُ بْنُ نُمَیْرٍ (بحارالأنوار ج : 45 ص : 335) وہی ہے جس کو بعض کتب میں "حصین بن نمیر" کہا گیا ہے [الدینورى ابو حنیفه احمد بن داود (م 282) الأخبارالطوال،ص:246) اور بعض کتب میں "حصین بن تمیم " کہلایا ہے(الطبری أبو جعفر محمد بن جریر (م 310) تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ‏الطبری)،ج‏5،ص:439، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم ، بیروت، دار التراث ، ط الثانیۃ، 1387/1967)۔
  117. ابن سعد، وہی ماخذ، ص466۔
  118. ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔
  119. الدینوری، وہی ماخذ، ص254؛ البلاذری، وہی ماخذ، ص178؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔
  120. البلاذری، وہی ماخذ، ص 178؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔
  121. شیخ صدوق؛ الامالی، ص155۔
  122. الدینوری، وہی ماخذ، ص254 و البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔
  123. البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔
  124. ابن اعثم، وہی ماخذ، ص90؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، صص242-243؛ سید بن طاوس؛ اللهوف، ص85 و حلی، ابن نما؛ مثیر الاحزان، ص50۔
  125. ابصار العين ص85-78؛ اسدالغابه؛ الاصابه؛ تاريخ طبري؛ رجال کشي ص191۔
  126. ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص255؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص180؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص412 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص86۔
  127. البلاذری، وہی ماخذ، ص181؛ الطبری، وہی ماخذ، صص412-413؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبیین، صص117-118 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص244۔
  128. الطبری، وہی ماخذ، ص413؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص92-93؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، صص70-71 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245۔
  129. الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245 و با اختلاف در مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72۔
  130. الطبری، وہی ماخذ، ص414 و مسکویه، وہی ماخذ، ص71۔
  131. الطبری، وہی ماخذ، ص414؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص87؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص71 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔
  132. البلاذری، وہی ماخذ، ص182؛ الطبری، وہی ماخذ، ص414 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔
  133. البلاذری، وہی ماخذ، صص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص93۔ شیخ مفید، وہی ماخذ، صص88۔
  134. مروج الذهب، ج 3، ص 67۔حضرت سید الشہداء نے اس مختصر جملے میں ایک قانون اور قاعدہ متعارف کرایا ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ جیسے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ نہ صرف یزید بلکہ [[یزید جیسے کسی بھی شخص کی بیعت کرے۔
  135. بحارالانوار، ج 44، ص 325۔
  136. ابن‌شعبه حراني، تحف العقول، ص239‎؛ مجلسي، بحارالانوار، ج97، ص81 ـ 80‎۔
  137. ابن اعثم، وہی ماخذ، ص21و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص188-189۔
  138. علی بن الحسین مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ص68۔
  139. تاریخ الیعقوبی، سابقہ ماخذ، ص253 و ابن الطقطقی؛ الفخری فی الآداب السلطانیه و الدول الاسلامیہ، ص116۔سبط بن جوزی کا لکھتا ہے: ایسے شخص کی حکومت کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنی حکومت کے پہلے سال امام حسینؑ کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت کا نشانہ بنایا اور اسے اپنے سپاہیوں کے لئے حلال کیا اور تیسرے سال کعبہ کو منجنیقوں کے ذریعے سنگ باری کا نشانہ بنا کر ویراں کیا۔ حوالہ از عبدالحسین امینی، الغدير، ج 1، ص 248۔
  140. ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص466؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص94 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔
  141. البلاذری، وہی ماخذ، ص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویہ، وہی ماخذ، ص73 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔
  142. الطبری، وہی ماخذ، ص415؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔
  143. الطبری، وہی ماخذ، ص415؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص93-94؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔
  144. حسنی، ابن عنبه؛ عمدة الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص327 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246۔
  145. البلاذری، وہی ماخذ، ص184؛ الطبری، وہی ماخذ، ص416 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ الخوارزمی، وہی ماخذ، صص249-250 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔
  146. مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۹.
  147. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۱-۹۴؛ طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۲۳۹
  148. المقرم، مقتل الحسینؑ، ص 219۔
  149. الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔
  150. البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔
  151. البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔
  152. سید بن طاوس نے اللہوف، ص119 اور عبد الرزاق الموسوی المقرم نے مقتل الحسینؑ، ص276 پر لکھا ہے کہ آخر وقت امامؑ 30000 ہزار کے لشکر کو بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر ادھر مار بھگاتے تھے۔ جس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ لشکر کی تعداد 30000 تھی۔
  153. البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422-426۔
  154. البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید، الارشاد، ج2، صص95-96 و ابن اثیر، الکامل، ج4، ص60۔
  155. خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.
  156. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷
  157. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج۲، ص۹.
  158. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰
  159. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‌الطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.
  160. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.
  161. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۲؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن‌مسکویہ، تجارب‌الامم، ج۲، ص۸۰؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷.
  162. ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۷۸؛ طبری، ج۵، ص۵۴۳.
  163. سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۳۰.
  164. قمی، نفس المهموم، ص۴۷۹
  165. قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰.
  166. قمی، نفس المهموم، ص۴۸۲؛ نک: طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴-۴۵۳
  167. الإرشاد، المفید ،ج‏۲،ص۱۱۳، بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ مسعودی، مروج‌الذهب، ج۳، ص۲۵۹
  168. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵.
  169. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ ابن طاوس، لہوف، ص۱۳۵.
  170. ابن طاوس، لهوف، ص۱۳۵.
  171. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۴۱۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۶؛ مسعودی، مروج‌الذہب، ج۳، ص۲۵۹.
  172. محمد بن جریرالطبری، التاریخ، ج5، ص455؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص63 ۔
  173. المقرم، مقتل الحسینؑ، ص319۔
  174. سید بن طاوس؛ اللہوف علی قتلی الطفوف، ص107۔

مآخذ

  • ابن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، ص1991۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت: دارصادر-داربیروت، 1965۔
  • ابن‌اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، 1991۔
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، ج3و5، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1992۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد بن صامل السلمی، طائف: مکتبۃ الصدیق، 1993؛ الطبقات الکبری، ج1، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1990۔
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4 و 3، قم: علامہ، 1379ھ۔
  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ج8، بیروت: دارالفکر، 1986۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، ج1، تبریز: مکتبۃ بنی ہاشمی، 1381ھ۔
  • ازدی، ابومخنف، مقتل الحسینؑ، تحقیق و تعلیق حسین الغفاری، قم: مطبعۃ العلمیہ، بی‌تا۔
  • اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • بغدادی، صفی الدین عبدالمؤمن، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ و البقاع، ج1، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت: دارالمعرفہ، 1954۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج5، تحقیق احسان عباس، بیروت: جمیعۃ المتشرقین الامانیہ، 1979؛ انساب الاشراف، ج3 و 1، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت: دارالتعارف، چاپ اول، 1977۔
  • جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، 1391۔
  • حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، قم: مدرسہ امام مہدی (عج)، 1406۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسینؑ، ج1، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم: مکتبۃ المفید، بی‌تا۔
  • دینوری، ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج1، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، 1990۔
  • دینوری، احمد بن داوود، الاخبارالطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم: منشورات رضی، 1368ہجری شمسی۔
  • سماوی، محمد، ابصارالعین فی انصار الحسینؑ، تحقیق: محمد جعفرالطبسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لممثلی الولی الفقیہ فی حرس الثورۃ الاسلامیہ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف، جہان، تہران، 1348ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، شیخ محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، بیروت، دارالصعب ـ دارالتعارف، 1401ھ۔
  • صدوق، الأمالی، قم: تحقیق: قسم الدراسات الإسلامیۃ - مؤسسۃ البعثۃ – 1417۔
  • شیخ مفید، الارشاد، قم: کنگرہ شیخ مفید، 1413۔
  • طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدی، ج1، تہران: اسلامیہ، 1390ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج2و5، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت: دارالتراث، 1967۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع‌البحرین، تہران، مرتضوی، چاپ سوم، 1375ہجری شمسی۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن حسن، روضۃ الواعظین، ج1، قم: رضی، بی‌تا۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج1، قم: ہجرت، 1409۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم: دارالہجرہ، 1409۔
  • ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الامم، ج2، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران: سروش، 1379ہجری شمسی۔
  • موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسینؑ، بیروت: دارالکتاب الاسلامیہ۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، تحقیق و تصحیح: گروہ پژوہش مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، بیروت، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، 1408ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج2، بیروت:‌دار صادر، بی‌تا۔
  • کلینی، ابی جعفر محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ۔