حصین بن نمیر

ویکی شیعہ سے
حصین بن نمیر
بنی امیہ کا کمانڈر اور امام علیؑ کا دشمن
کوائف
علمی معلومات
دیگر معلومات
فعالیتفتح عراق، واقعہ حرہ، مکہ پر حملہ اور کعبہ پر آگ لگانا • قیام توابین کو کچلنا
منصبمعاویہ، یزید اور مروان بن حکم کے دور میں بنی امیہ کا سپہ سالار


حُصَین بن نُمَیر(وفات:66 یا 67ھمعاویہ، یزید اور مروان بن حکم کے دَور میں بنی امیہ کے جرنیلوں میں سے ایک تھا۔ اسے امام علیؑ کے سخت ترین دشمنوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے اور ان لوگوں میں سے جانا جاتا ہے جنہوں نے معاویہ کو یزید اپنا جانشین منتخب کرنے کی ترغیب دی تھی۔ حصین بن نمیر نے واقعہ حرہ اور مکہ پر شامیوں کے حملے اور خانہ کعبہ کو جلانے میں کردار ادا کیا۔ وہ توبین کے قیام کے آغاز میں عین الوردہ گیا اور اس قیام کو دبا دیا۔ وہ 66یا 67ھ میں خازر کی جنگ میں ابراہیم بن مالک اشتر کے ہاتھوں مارا گیا۔

نسب

ان کا سلسلہ نسب شَبیب بن سَکون سے ملتا ہے جو کنْدَہ قبیلے (یمن کے عرب قبائل سے) کے بزرگوں میں سے ایک تھے۔[1] چوتھی صدی ہجری کے مورخ علی بن حسین مسعودی نے حصین بن نمیر کو پیغمبر اکرمؐ کے کاتبان وحی میں سے ایک قرار دیا ہے۔[2]

ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں

گیارہویں ہجری میں ابوبکر کے دور خلافت میں لڑی جانے والی ردّہ کی جنگوں میں حصین بن نمیر کا ذکر ملتا ہے۔ جب ابوبکر نے زیاد بن لَبید کو بنی عَمرو بن معاویہ سے زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو زیاد نے حصین بن نمیر کو ان کو دبانے کا کام سونپا۔[3]

عمر بن خطاب کے دور خلافت میں جب چودہویں ہجری میں قادسیہ کی فتح کے دوران سعد بن ابی وقاص کی سربراہی میں 4000 افراد کا لشکر عراق کو فتح کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں حصین بن نمیر اور سَکون قبیلہ کا ایک گروہ شامل تھا۔[4]

امام علی علیہ السلام کے زمانے میں

جنگ صفین

ایک روایت میں حصین بن نمیر کو امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ ​​میں سخت ترین دشمن کہا گیا ہے[5] لیکن نصر بن مزاحم نے اپنی کتاب وقعة صفّین،[6] میں اگرچہ حصین کو معاویہ کے کمانڈروں میں ذکر کیا ہے لیکن جنگ صفّین میں اس کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔

مصر میں موجودگی

نصر بن مزاحم کے مطابق معاویہ نے اپنے ایک خط میں مصریوں سے کہا کہ وہ حضرت علیؑ کے گورنر قیس بن سعد بن عبادہ کے مقابلے میں حصین بن نمیر اور معاویہ بن خُدَیج کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں - جو دونوں مصر میں تھے۔[7]

یزید کی حکومت

حصین اہل شام کے رہنماؤں میں سے تھا جس نے سنہ 56 ہجری میں معاویہ کو یزید اپنا ولی عہد منتخب کرنے کی ترغیب دی۔[8] بعض روایات میں حصین بن نمیر کو سنہ 60 ہجری میں عبید اللہ بن زیاد کی پولیس کا سربراہ اور امام حسینؑ کے قیام اور واقعہ کربلا میں عبید اللہ کی فوج کے جرنیلوں میں سے قرار دیا ہے؛[9] لیکن لگتا یہ ہے کہ اسے حصین بن تَمیم تمیمی سے اشتباہ کیا ہے۔ طبری نے حصین بن تمیم تمیمی کو عبیداللہ بن زیاد کی پولیس کا سربراہ کے طور پر ذکر کیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے دوران کے واقعات میں بھی اس کا نام ذکر کیا ہے۔[10]

واقعہ حرہ اور مکہ

واقعہ حَرّہ میں (سنہ 63 ہجری کے اواخر) حصین بن نمیر مسلم بن عقبہ کے ہمراہ کمانڈروں میں سے تھا جو دمشق سے مدینہ مدینہ کی جانب نکلا۔ حصین حِمْص کے لوگوں کا انچارج تھا۔ محرم سنہ 64 ہجری کے آخر میں مسلم بن عقبہ اہل مدینہ کے قیام کو کچلنے کے بعد، عبداللہ بن زبیر کی بغاوت کو کچلنے کے لیے مکہ جاتے ہوئے راستے میں مرگیا اور یزید کے حکم سے حصین بن نمیر نے فوج کی کمان سنبھالی۔[11] لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت کی تھی۔[12] حصین بن نمیر 25 یا 26 محرم الحرام کو مکہ میں داخل ہوا اور عبد اللہ بن زبیر کا محاصرہ کیا۔ ابن زبیر اور ان کے ساتھیوں نے مسجد الحرام میں پناہ لی۔ 3 ربیع الاول سنہ 64 ہجری کو حصین بن نمیر اور شامیوں نے کعبہ کے اطراف کے پہاڑوں پر منجنیق نصب کیا اور مکہ مکرمہ اور کعبہ پر پتھروں اور آگ سے حملہ کیا جس سے کعبہ کو تباہ کر دیا گیا اور اس کا غلاف اور لکڑیاں جلا دی۔[13]

یزید کے بعد

شامیوں اور مکہ والوں کے درمیان جنگ عروج پر تھی اس دوران یزید کی موت کی خبر (14 ربیع الاول 64ھ) عبداللہ بن زبیر تک پہنچی۔ حصین بن نمیر نے ابن زبیر کو خلافت لینے اور حصین اور اس کی فوج کے ساتھ شام جانے کی ترغیب دی تاکہ شامیوں سے بیعت لی جائے لیکن ابن زبیر نے اس کی پیشکش قبول نہیں کی اور حصین اپنی فوج کے ساتھ شام واپس چلا گیا۔[14] معاویہ بن یزید کی مختصر خلافت اور 64 ہجری میں اس کی موت کے بعد حصین نے مروان بن حکم کو خلافت میں لانے کی کوشش کی۔[15]

عین الوردہ

65 ہجری میں، عبد الملک بن مروان کی خلافت کے آغاز میں، حصین بن نمیر شام کے ان کمانڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے عین الوردہ میں سلیمان بن صُرَد کی قیادت میں ہونے والے توابین کے قیام کو کچل دیا۔[16]

مختار کی حکومت اور حصین کی موت

جب مختار نے امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے لئے قیام کیا تو اس نے اپنی فوج کے سپہ سالار ابراہیم بن اشتر کو عبید اللہ بن زیاد اور حصین بن نمیر کو قتل کرنے کا حکم دیا۔[17]

66 یا 67 ہجری میں ابن زیاد کی فوج اور مختار کی فوج کے درمیان ابراہیم ابن اشتر کی کمان میں جنگ چھڑ گئی۔ تاریخی مآخذ میں اس جنگ کا نام خازِر کہا گیا ہے۔ اس جنگ میں واقعہ کربلا کے بہت سے مجرم مارے گئے، اسی طرح حصین بن نمیر بھی مارا گیا۔[18] ابراہیم ابن اشتر نے حصین اور شامی فوج کے دیگر مرنے والوں کا سر مختار کے لیے کوفہ بھیجا۔ مختار نے حصین اور کچھ دوسرے مُردوں کے سر مکہ میں محمد بن حنفیہ کو بھیجا اور باقی سروں کو کوفہ میں لٹکا دیا۔[19]

حوالہ جات

  1. ابن حزم، ص429۔
  2. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص245۔
  3. ابن اثیر، ج2، ص380۔
  4. ابن اثیر، ج2، ص451۔
  5. ملاحظہ کریں: ابن اثیر، ج2، ص452۔
  6. نصر بن مزاحم، وقعہ صفین، ص 47۔
  7. نصر بن مزاحم، وقعہ صفین،ص 128۔
  8. ملاحظہ کریں: ابن اعثم کوفی، ج4، ص334؛ طبری، ج5، ص301۔
  9. رجوع کنید بہ دینوری، ص240، 243، 246، 254، 258ـ259؛ ابن اعثم کوفی، ج5، ص52، 82، 89، 117ـ118۔
  10. مثلاً رجوع کنید بہ ج5، ص394ـ395، 401، 434، 437، 439ـ440، 449۔
  11. دینوری، ص246؛ یعقوبی، ج2، ص251؛ طبری، ج5، ص488، 490، 496۔
  12. طبری، ج5، ص497۔
  13. طبری، ج5، ص497ـ499؛ ابن اعثم کوفی، ج5، ص164؛ مسعودی، مروج، ج3، ص270۔
  14. دینوری، ص268؛ یعقوبی، ج2، ص253؛ طبری، ج5، ص499، 501ـ502؛ مسعودی، مروج، ج3، ص281۔
  15. ملاحظہ کریں: طبری، ج5، ص503، 535ـ536۔
  16. طبری، ج5، ص594، 597ـ599؛ ابن اعثم کوفی، ج6، ص221ـ224؛ مسعودی، مروج، ج3، ص294ـ295۔
  17. دینوری، ص293۔
  18. طبری، ج6، ص88ـ90؛ ابن اعثم کوفی، ج6، ص280؛ مسعودی، مروج، ج3، ص298۔
  19. ابن حبیب، ص491؛ ابن اعثم کوفی، ج6، ص282ـ283؛ ذہبی، حوادث و وفیات 61ـ80ہ، ص56ـ 57۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد؛ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ؛ دار الفکر؛ بیروت، 1409ھ۔
  • ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت 1411/1991ھ۔
  • ابن حبیب، کتاب المُحَبَّر، چاپ ایلزہ لیشتن اشتتر، حیدر آباد، دکن 1942ء، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن حزم، جمہرة انساب العرب، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، 1982ء۔
  • دینوری، احمدبن داوود، الاخبار الطِّوال، چاپ عبدالمنعم عامر، مصر [1379/ 1959]، چاپ افست بغداد [بی تا].
  • ذہبی، محمدبن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، چاپ عمر عبد السلام تدمری، حوادث و وفیات 61ـ80ھ، بیروت 1418/1998ھ۔
  • طبری، تاریخ طبری، بیروت.
  • مسعودی، التنبیہ و الاشراف، قاہرہ، دار الصاوی، بی تا.
  • مسعودی، مروج الذہب، بیروت.
  • نصر بن مزاحم، وقعة صفّین، بیروت، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، 1410/1990ھ۔
  • یعقوبی، تاریخ.

بیرونی روابط