اسماء بن خارِجہ فزاری (متوفی 82 ہجری) کوفہ کے بااثر سیاسی لوگوں میں سے تھا، خاص کر واقعہ کربلا کے باعث بننے والے واقعات میں موثر تھا۔ وہ بنو فَزارہ قبیلہ کے بزرگ تھے۔ اسماء صفین کی جنگ میں امام علیؑ کے لشکر میں موجود تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ ہمیشہ کوفہ کے اموی حکمرانوں کے دار الحکومت میں رہا۔ وہ کوفہ کے تین حکمرانوں کا مشیر اور ان کی بیٹی کوفہ کے تین حکمرانوں (عبید اللہ بن زیاد، بُشر بن مَروان اور حَجاج بن یوسف ثقَفی) کی بیوی تھی۔ اسماء نے ہانی بن عروہ کو دار الخلافت میں بلانے اور مسلم بن عقیل کی شہادت میں ابن زیاد کے ساتھ تعاون کیا اور کربلا میں حسن مثنی کو ان سے رشتہ داری کی وجہ سے بچا لیا۔ اس نے عثمان بن عفان کے خلاف بغاوت کرنے والے بعض باغی اور کمیل بن زیاد جیسے برجستہ شیعوں کے بارے میں حجاج کو آگاہ کیا۔

اَسماء بن خارجہ
کوائف
مکمل ناماسماء بن خارجۃ بن حِصن بن حُذیفۃ بن بَدر فَزاری کوفی
کنیتابو حَسّان، ابو محمد، ابو ہند
محل زندگیکوفہ
مہاجر/انصارتابعی
نسب/قبیلہبنوفزارۃ
اقاربداماد: عُبیداللہ بن زیاد، بُشر بن مَروان، حَجاج بن یوسف. اہم اولاد: حَسّان، مالِک، ہِند. نوادگان مہم: ابو اسحاق فزاری، محمد ذو الشامَہ.
دینی معلومات
وجہ شہرتواقعہ کربلا میں ابن زیاد کی حمایت
نمایاں کارنامےمشاور حاکمان کوفہ
دیگر فعالیتیںشہادت دادن علیہ حُجر بن عَدی، راضی کردن ہانی بن عُروہ دار الخلافہ جانے کے لئے حجاج بن یوسف کو امام علیؑ کے بعض شیعوں کی معرفی

صدر اسلام کے حوادث میں اسماء کا کردار

اسماء بن خارجۃ اصحاب رسول اللہؐ کے تابعین[1] میں سے کوفہ کے قبیلہ بنوفزارہ کے بزرگ تھے۔[2] صدر اسلام کے مختلف واقعات میں اس کا کردار رہا ہے۔

اسماء کی بیٹی ہند نے کوفہ کے تین حکمرانوں یعنی عبید اللہ بن زیاد،[3] بُشر بن مروان بن حکم اور حجاج بن یوسف ثقفی سے شادی کی۔[4] البتہ ابن زیاد (اپنے سابق شوہر) سے اظہارِ محبت کی وجہ سے حجاج نے اسے طلاق دیا۔[5] ان کے بیٹوں کے ناموں کی وجہ سے اسماء کو ابو حَسّان،[6] ابو محمد[7] اور ابو ہند بھی کہا جاتا تھا۔[8]

اسماء محدثین میں سے تھا[9] اور ان کا بیٹا مالک اور علی بن ربیعہ جیسے لوگوں نے اس سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[10]

اسماء کی تاریخ وفات کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں۔ ان کی وفات کے وقت کے حوالے سے سنہ 60،[11] 65،[12] 66 [13] اور 82ھ[14] بیان ہوئے ہیں۔

صحابہ کے حالات زندگی لکھنے والے ابن حجر عَسقلانی (متوفی: 852ھ) نے ان کی وفات 80 سال کی عمر میں ہونے کی بنا پر تاریخ وفات سنہ 60 ہجری اور پیدائش کو بعثت سے پہلے قرار دیا ہے۔[15]

حجر بن عدی کے خلاف گواہی

اسماء صفین کی جنگ میں امام علیؑ کی فوج میں شامل تھا۔[16] البتہ وہ بعد میں ان لوگوں میں شامل ہوا جنہوں نے ابن زیاد کی درخواست پر امام علیؑ کے صحابی حجر بن عدی (شہادت: 51 ہجری) کے خلاف گواہی دی[17] جس کے نتیجے میں حُجر کو گرفتار کر کے شہید کر دیا گیا۔[18]بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد میں انہیں اس پر نادم اور پشیمان ہوا۔[19]

واقعہ کربلا میں اسماء کا کردار

تاریخی ذرائع کے مطابق اسماء بن خارجہ کا واقعہ کربلا میں کردار رہا ہے:

مسلم بن عقیل کے گرد سے لوگوں کو منتشر کرنا

60 ہجری میں جب عبید اللہ بن زیاد کوفہ کا امیر بنا تو اسماء نے اپنی بیٹی کی اس سے شادی کی۔[20] وہ دار الخلافہ میں پہنچ گیا اور ابن زیاد کے ساتھ تعاون کیا۔[21] عبید اللہ نے اسماء اور کثیر بن شہاب حارثی، محمد بن اشعث بن قیس اور قعقاع بن سوید بن منقری کے ذریعے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا اور شہر کو کنٹرول سنبھالنے میں ان کی مدد لی۔[22] عبیداللہ نے ان لوگوں کو کوفہ کے لوگوں میں پھیل جانے اور لوگوں کو اس کی اطاعت اور کوفہ میں امام حسینؑ کے سفیر مسلم بن عقیل کے کی حمایت اور کوفہ میں بغاوت کرنے سے ڈرائیں۔[23]

ہانی بن عروہ کی گرفتاری میں تعاون

جب عبید اللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کو دار الخلافت میں بلانے اور اس سے مسلم بن عقیل کا مطالبہ کرنے اور انکار کرنے پر اسے شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تو اسماء بن خارجہ اور محمد بن اشعث کو اس کے پیچھے بھیج دیا۔[24] بعض منابع میں اس عمل میں عمرو بن حجاج زبیدی اور حسان ولد اسماء کے نام بھی مذکور ہیں۔[25]

ابن قتیبہ اور طبری نے ایک روایت ذکر کی ہے کہ اسماء بن خارجہ عبید اللہ بن زیاد کے ارادے سے بے خبر تھا.[26] پہلے تو اس نے ہانی کو عبیداللہ سے امان لینے کی کوشش کی[27] اور ہانی کو عبیداللہ کی طرف سے مار پیٹ اور قید ہوتے دیکھ کر اس کے خلاف احتجاج کیا اور خود بھی گرفتار ہوگیا۔[28] علی نمازی شاہرودی جیسے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عبید اللہ بن زیاد پر اعتراض کرنے والا بے خبر شخص اسماء کا بیٹا حسان تھا۔[29]

حسن مُثَنّیٰ کو روز عاشورا نجات

شیخ مفید اور محمد تقی ششتری کے مطابق، اسماء بن خارجہ نے عمر بن سعد کی فوج میں امام حسینؑ کے خلاف جنگ نہیں کی تھی اور جنگ کے خاتمے کے بعد عاشورہ کے دن کربلا میں حاضر ہوئے اور حسن مثنی کو زخمی حالت میں دیکھا تو ان کی ماں کا ان کے قبیلہ سے ہونے کی وجہ سے ان کی جان بچائی۔[30]

مختار کے انتقام کی فہرست میں اسماء

جب عبیداللہ نے مختار بن ابی عبید ثقفی کو قید کیا اور قسم کھائی کہ وہ اسے قتل کر دے گا تو اسماء بن خارجہ اور عروۃ بن مغیرہ زندان میں مختار سے ملنے گئے اور انہیں عبیداللہ بن زیاد کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات سے خبردار کیا۔[31] تاہم کوفہ پر قبضہ کرنے کے بعد مختار نے واقعہ کربلا کے مجرموں سے بدلہ لینے کی بات کرتے ہوئے اسماء کا نام بھی بتایا اور اسے دھمکی دی۔ اسی لئے اسماء کوفہ سے بھاگ گیا[32] اور مختار کی شکست تک کوفہ واپس نہیں آیا۔[33] مختار نے اسماء اور اس کے چچازاد بھائیوں کا گھر تباہ کر دیا۔[34]

شیعوں کی معرفی میں کوفی حکمرانی کی مدد

کوفہ پر حجاج بن یوسف ثقفی کی امارت کے آغاز (75ھ) کے بعد اسماء نئے حکمران کا سسر بن گیا۔[35] اور دار الخلافہ آنے جانے لگا۔[36] جب عبداللہ بن زبیر (وفات: 73 ہجری) کی طرف سے عبداللہ بن مطیع کوفہ میں حاکم تھا تو اس وقت بھی اسماء بن خارجہ دار الخلافہ میں موجود تھے اور اس وقت کے امیر کے مشیر تھے۔[37] طبری لکھتے ہیں کہ جب حجاج عثمان بن عفان کے خلاف باغیوں اور امام علیؑ کے شیعوں کو پکڑ کر شہید کر رہا تھا تو اسماء نے بعض باغیوں اور کمیل بن زیاد جیسے بعض نامور شیعوں کے نام حجاج کے سامنے پیش کیا۔[38]

نیز عبد الملک بن مروان کے دور خلافت (دور حکومت: 66-86 ہجری) میں جب عبد الملک کا بھائی بُشر بن مروان کوفہ کا حاکم بنا تو اس نے اپنی بیٹی کی شادی بُشر سے کر دی[39] اور ازرقی خوارج سے جنگ لڑنے کے لئے مہلب بن ابی صفرہ کو منتخب کرنے پر اس سے مشورہ ہوا۔[40]

اسماء بن خارجہ کی نسل

اسماء بن خارجہ کی اولاد میں سے بعض محدث تھے۔ اسماء بن خارجہ کی بیٹی ام حبیب کا بیٹا محمد،[41] ابراہیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجہ، جو ابو اسحاق فزاری کے نام سے مشہور ہیں،[42] اور ابراہیم کے چچا زاد بھائی ابو عبداللہ مروان بن معاویہ بن حارث بن اسماء[43] ان کی نسل سے ہیں جو اہل سنت کے محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔

اسی طرح مسلمہ بن عبدالملک (102ھ) کی طرف سے منتخب شدہ کوفہ کا امیر محمد ذوالشامہ کی ماں بھی اسماء بن خارجہ کی بیٹیوں میں سے ایک تھی۔[44]

حوالہ جات

  1. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج1، ص305۔
  2. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج13، ص173؛ ابن حزم اندلسی، جمہرة أنساب العرب، 1362ش، ص257۔
  3. بلاذری، انساب الاشراف، 1400ھ، ج5، ص380؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج12، ص23۔
  4. ابن حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیدہ، ص443۔
  5. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج8، ص96-97۔
  6. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج13 ص173۔
  7. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، 1413ھ، ج5، ص72۔
  8. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، 1413ھ، ج5، ص72۔
  9. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، 1413ھ، ج5، ص72۔
  10. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، 1413ھ، ج5، ص72۔
  11. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج1، ص339۔
  12. سمعانی، الانساب، 1382ھ، ج10، ص213؛ ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، 1413ھ، ج5، ص50۔
  13. زرکلی، الأعلام، 1989م، ج1، ص305، ج2، ص293۔
  14. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج9، ص43۔
  15. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج1، ص339۔
  16. مدنی، الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ، ص270۔
  17. بلاذری، انساب الاشراف، 1400ھ، ج5، ص254۔
  18. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص231۔
  19. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص270۔
  20. بلاذری، انساب الاشراف، 1400ھ، ج5، ص380؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج12، ص23۔
  21. بلاذری، انساب الاشراف، 1400ھ، ج5، ص380؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج12، ص23۔
  22. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ھ، ج3، ص178۔
  23. بلاذری، انساب الاشراف، 1397ھ، ج3، ص178۔
  24. بلاذری، أنساب الأشراف، 1394ھ، ج‏2، ص80۔
  25. ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج5، صص44، 46؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص365۔
  26. دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، ص237-236؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص365۔
  27. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص360۔
  28. ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج5، ص48؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج5، ص367۔
  29. نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، حیدری، ج2، ص329۔
  30. مفید، الارشاد، 1414، ج2، ص25؛ تستری، قاموس الرجال، 1422ھ، ج11، ص39۔
  31. بلاذری، أنساب الأشراف، 1400ھ، ج‏5، ص385۔
  32. .بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج‏6، ص410-411۔
  33. دینوری، الاخبار الطوال، 1368ش، ص303۔
  34. ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج6، ص254۔
  35. ابن حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیدہ، ص443۔
  36. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج‏7، ص82۔
  37. طبری، تاریخ طبری، 1387، ج6، ص31۔
  38. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج‏4، ص404۔
  39. ابن حبیب، المحبر، دار الافاق الجدیدہ، ص443۔
  40. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج7، ص421؛ ابن اعثم، الفتوح، 1411ھ، ج6، ص366؛ ابن قتیبہ، الإمامة و السیاسة، 1410ھ، ج‏2، ص109۔
  41. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص125۔
  42. شبستری، الفائق فی رواة و اصحاب الامام الصادق(ع)، 1418ھ، ج1، ص60۔
  43. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج7، ص238؛ ابن حزم اندلسی، جمہرة أنساب العرب، 1362ش، ص257-258۔
  44. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج‏9، ص346۔

مآخذ

  • ابن حبیب ہاشمی بغدادی، محمد بن امیہ، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بی تا.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ/1995ء۔
  • ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، جمہرۀ انساب العرب، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1403ھ/1362شمسی/1983ء۔
  • ابن سعد ہاشمی بصری، محمد، الطبقات الکبری الطبقة الخامسہ، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبة الصدیق، 1414ھ/1993ء۔
  • ابن سعد ہاشمی بصری، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن قتیبة دینوری، عبداللہ بن مسلم، الإمامة و السیاسة المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النہایہ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ/ 1986ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج2، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسة الأعلمی، 1394ھ/1974ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج3، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، دار التعارف، 1397ھ/1977ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج5، تحقیق احسان عباس، بیروت، جمعیة المستشرقین الألمانیہ، 1400ھ/1979ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الأشراف، ج6-13، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، 1417ھ/1996ء۔
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، موسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1422ھ۔
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر و مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، 1368ش‏.
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ/1993ء۔
  • زرکلی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
  • سمعانی، عبدالکریم بن محمد بن منصور تمیمی، الأنساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرةالمعارف العثمانیہ، 1382ھ/1962ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک معروف بہ تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ/1967ء۔
  • مدنی، سیدعلی خان، الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعہ، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، قم، منشورات مکتبہ بصیرتی، 1397.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرہ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد، بیروت، دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع، 1414ھ۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، حیدری، بی تا.
  • یعقوبی، احمد بن أبى يعقوب بن جعفر بن وہب واضح الكاتب العباسى المعروف باليعقوبى، تاریخ الیعقوبی، بيروت، دار صادر، بى تا.