عمرہ مُفردہ، عمرہ کی ایک قسم ہے جسے خانہ کعبہ کی زیارت کے مناسک و اعمال کے طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ عمرہ مفردہ حج کے اعمال کا حصہ نہیں ہے۔ اس اعتبار سے عمرہ مفردہ عمرہ تمتع کے مقابلے میں ہے جو حج تمتع کا جزء ہے۔

عمرہ مفردہ کے اعمال یہ ہیں: احرام، طواف، نماز طواف، سعی بین صفا و مروہ، تقصیر یا حلق، طواف نساء و نماز طواف نساء۔ احادیث و فقہاء کے اقوال کے مطابق ماہ رجب میں عمرہ مفردہ کی فضیلت دیگر مہینوں سے زیادہ ہے۔

عمرہ

عمرہ: احرام، طواف و سعی[1] پر مشتمل اعمال و عبادات کے مجموعے کو کہتے ہیں جو خانہ کعبہ کی زیارت کے موقع پر انجام دیا جاتا ہے۔[2] عمرہ کی دو قسم ہے: عمرہ تمتع و عمرہ مفردہ۔[3] عمرہ تمتع حج تمتع کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے اور اس کا ایک جزء ہے۔[4] جبکہ عمرہ مفردہ حج سے جدا انجام دیا جاتا ہے اور اس کا حج سے کوئی ربط نہیں ہے۔[5]

فقہاء عمرہ کو بھی حج کی طرح ہر مسلمان کے لئے جو اس کے شرائط رکھتا ہو، زندگی میں ایک بار واجب[6] اور ایک سے زیادہ بار مستحب[7] مانتے ہیں۔

وجہ تسمیہ و اقسام

عمرہ مفردہ کو مفردہ اس لئے کہا جاتا ہے چونکہ وہ حج کا حصہ نہیں ہے اور حج سے جداگانہ انجام دیا جاتا ہے۔[8] اسی بنا پر اسے عمرہ مبتولہ (بریدہ) بھی کہا جاتا ہے۔[9]

عمرہ قِران و عمرہ اِفراد، عمرہ مفردہ کی قسمیں ہیں۔ عمرہ قِران ان کے لئے ہے جن پر حج قران واجب ہو اور عمرہ اِفراد ان افراد کے لئے ہے جن پر حج افراد واجب ہے۔[10]

اعمال عمرہ مفردہ

عمرہ مفردہ سات عمل سے تشکیل پایا ہے جو بالترتیب درج ذیل ہیں:

عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں فرق

عمرہ مفردہ و عمرہ تمتع میں مندرجہ ذیل فرق پایا جاتا ہے:

با فضیلت ترین عمرہ مفردہ

کتب فقہی کے مطابق، دیگر مہینوں کی بہ نسبت ماہ رجب میں عمرہ مفردہ کا ثواب زیادہ ہے۔[14] روایات میں بھی یہ مسئلہ ذکر ہوا ہے۔ وسائل الشیعہ میں پیغمبر اکرم (ص) و امام جعفر صادق (ع) سے روایات میں نقل ہوا ہے کہ ماہ رجب میں ہونے والا عمرہ مفردہ سب سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔[15]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۵۔
  2. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۹۶؛‌ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱۔
  3. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۷۹۔
  4. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۱۔
  5. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
  6. برای نمونہ نگاہ کریں محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۴؛ نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۲۰، ص۴۴۱۔
  7. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۲۹۷؛ گروہ پژوہش بعثہ مقام معظم رہبری، منتخب مناسک حج، ۱۴۲۶ق، ص۵۹۔
  8. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
  9. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
  10. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۵۔
  11. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۵۔
  12. محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۵و۲۷۶۔
  13. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲، ج۵، ص۴۸۸۔
  14. برای نمونہ نگاہ کریں شہید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۳۷؛ محقق حلی، شرایع‌ الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔
  15. حر عاملی، وسایل‌ الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۴، ص۳۰۲۔

مآخذ

  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
  • شہید اول، محمد بن مکی العاملی، الدروس الشرعیہ فی الفقہ الامامیہ، قم، نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۷ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تحقیق و تصحیح سید محمد تقی کشفی، تہران، المکتبہ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، چاپ سوم، ۱۳۸۷ق۔
  • گروہ پژوہش بعثہ مقام معظم رہبری، منتخب مناسک حج، تہران، نشر مشعر، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبد الحسین محمد علی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
  • مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامى، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بيت عليہم‌ السّلام، قم، مؤسّسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامى، چاپ اول، ۱۳۹۲ش۔
  • نجفى، محمد حسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق۔