حجاج بن یوسف ثقفی

ویکی شیعہ سے
حجاج بن یوسف ثقفی
کوائف
مکمل نامحجاج بن یوسف ثقفی
لقباشتر
محل زندگیعراق، حجاز
وفات95 ھ، واسط
دینی معلومات
وجہ شہرتبنی امیہ کا اہلکار


حَجّاج بن یوسف ثقفی (متوفی 95ھبنی امیہ کے دور میں عراق اور حجاز کا حاکم اور شیعوں کا دشمن تھا۔ بنی امیہ کی حکومت کو مضبوط بنانے میں اس کا بڑا کردار تھا۔ بنی امیہ خاندان سے وفاداری اور ان کی خلافت کی ترویج میں سعی و کوشش کی وجہ سے ان کے یہاں اسے بڑا مقام ملا۔ عبدالملک بن مروان نے مرتے ہوئے اپنے بیٹے ولید سے اس کی سفارش کی اور اپنے ایک بیٹے کا نام بھی حجاج رکھا۔

وہ تاریخ میں خونخواری اور سفاکی میں مشہور ہے اور اپنے مخالفوں کو قتل کرنے میں اتنا آگے گیا کہ عبدالملک بن مروان نے بھی اتنی خون ریزی سے نارضایتی کا اظہار کیا۔ حجاج کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد کو مورخین نے 120000 اور ایک قول کے مطابق 130000 آدمی کا اندازہ لگایا ہے۔

حجاج بن یوسف، نے واسط شہر کو تاسیس کیا اور وہیں پر فوت ہوا۔

حسب و نسب اور پیدائش

خلافت بنوامیہ

سلاطین

عنوان


معاویہ بن ابی سفیان
یزید بن معاویہ
معاویہ بن یزید
مروان بن حکم
عبدالملک بن مروان
ولید بن عبدالملک
سلیمان بن عبدالملک
عمر بن عبدالعزیز
یزید بن عبدالملک
ہشام بن عبدالملک
ولید بن یزید
ولید بن عبدالملک
ابراہیم بن الولید
مروان بن محمد

مدت سلطنت


41-61ھ
61-64ھ
64-64ھ
64-65ھ
65-86ھ
86-96ھ
96-99ھ
99-101ھ
101-105ھ
105-125ھ
125-126ھ
126-126ھ
126-127ھ
127-132ھ

مشہور وزراء اور امراء

مغیرۃ بن شعبہ ثقفی
زیاد بن ابیہ
عمرو عاص
مسلم بن عقبہ مری
عبیداللہ بن زیاد
حجاج بن یوسف ثقفی

اہم واقعات

صلح امام حسن
واقعہ عاشورا
واقعہ حرہ
قیام مختار
قیام زید بن علی

حجاج، بنی صخر کے دیہات میں پیدا ہوا اور ان کی کنیت ابو محمد تھی۔[1] ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ سنہ۳۹، ۴۰ یا ۴۱ھ [2] ۴۲ [3] اور ایک روایت کے مطابق سنہ۴۵ھ یا اس سے کچھ دن بعد[4] کو ان کی تاریخ پیدایش قرار دیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ بچپن میں اس کا نام کُلَیب تھا اور پھر بعد میں حجاج رکھا گیا ہے۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ کلیب بچپنے میں اس کا لقب تھا۔[5]

حجاج کا والد، یوسف بن حکم ثقفی، ثقیف قبیلہ کے بزرگوں میں سے شمار ہوتا تھا[6] اور مروان بن حکم کے خاندان سے اس کی بہت گہری دوستی تھی اور عبدالملک بن مروان کے دور کی جنگوں میں شرکت بھی کی۔ اور عبد الملک کے دور حکومت میں بعض علاقوں کی حکومت کا عہدے دار بھی رہا اور حجاز (مدینہ) پر اس کے بیٹے کی حکومت کے دوران فوت ہوا۔[7] اس کی ماں کا نام فارعہ/ فریعہ بنت ہَمّام‌ بن عروۃ ثقفی تھا۔[8]

حالات زندگی

حجاج کی جوانی کے بارے میں کوئی خاص اطلاعات نہیں ہیں، اور صرف بعض اشعار اور تاریخی بعض گزارشات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی طرح طائف میں پتھر لاتا، کنویں کھودتا، [9] بکریاں چراتا اور دباغت کا کام[10] کرتا تھا۔ حجاج نے بچپنے میں قرآن مجید اور دینی ابتدائی علوم کو اپنے باپ کے پاس طائف میں پڑھا۔[11] اور پھر عبداللہ بن عباس، انس بن مالک، سَمُرَۃبن جُندَب، ابوبُرْدَۃ بن ابوموسی اشعری جیسے اساتذہ کے پاس پڑھا۔[12]

حجاج نے طائف کے نزدیک کوثر نامی دیہات میں بچوں کو پڑھایا۔[13]اور کچھ عرصہ سلیمان بن عبدالملک اور سلیمان‌بن نعیم حِمْیری (سلیمان بن عبدالملک کا کاتب ) کے بچوں کا استاد بھی رہا۔[14]

بیس سے زیادہ سال کی عمر تک طائف میں رہا اور پھر اپنے والد کے ہمراہ شام چلا گیا[15] اور وہیں پر رہا۔[16]

خصوصیات

کہا گیا ہے کہ حجاج چھوٹے قد کا بدصورت شخص تھا[17] لیکن بڑا فصیح و بلیغ اور ماہر خطیب تھا۔[18]

تاریخی مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج بڑا سیاسی اور مدبر شخص تھا اور جنگوں میں کامیابی کے لیے بڑی مکاریوں اور چالاکیوں سے استفادہ بھی کرتا ہے تاکہ جنگ جیت سکیں۔ بعض مورخوں نے اسے ظالم، جابر، کافر، فاسق،[19] جھوٹا، اور خبیت جیسے ناموں سے یاد کیا ہے۔[20]

حجاج نے عبدالملک کے خط کے جواب میں اپنے آپ کو چڑچڑا، حسد اور بغض رکھنے والے سے تعبیر کیا ہے۔[21]

مروان ‌بن حکم کا دور

مصر اور شام میں

حجاج اور اس کا باپ مروان بن حکم کے سپاہیوں میں تھے اور سنہ۶۴ھ کو مصر چلے گئے اور عبد اللہ بن زبیر کے اہلکار عبدالرحمان‌بن جَحْدم فِہری کے ہاتھوں سے چھین لیا اور یوں مصر، بنی امیہ کی سلطنت میں شامل ہوئی۔[22] فسطاط شہر میں دو مہینے قیام کے بعد، حجاج اور اس کا باپ، مروان کے ہمراہ شام واپس لوٹے۔[23]

حجاز میں

مروان بن حکم، نے سنہ ۶۵ھ، شعبان یا رمضان کے مہینے میں عبداللہ بن زبیر کو سرکوب کرنے، حُبَیش‌ بن دَلَجہ (دُلجہ) قَینی کی سپہ سالاری میں ایک لشکر حجاز بھیجا اور اس لشکر میں حجاج اور اس کا باپ علمبردار تھے اور اس فوج نے مدینہ کے باہر رَبَذَہ نامی دیہات کے قریب عبد اللہ بن زبیر سے شکست کھائی اور بھاگ گئے اور اسی فرار کی وجہ سے بعد میں بھی حجاج کو طعنے ملتے تھے۔[24]

عبدالملک بن مروان کا دور

عبدالملک بن مروان کی خلافت کے دوران حجاج فلسطین میں خلیفہ کے بھائی اَبان‌بن مروان کی پولیس کے سربراہ تھا۔[25] پھر خلیفہ کے وزیر اور اس کے قریبی ساتھی رَوح‌بن زنباع جُذامی کے پولیس میں شامل ہوا۔ جب عبدالملک بن مروان نے روح بن زنباع سے فوج میں بے نظمی کی بات کی تو روح نے حجاج کو فوجی نظم و انضباط اور نقل و حرکت کا عہدے دار بنانے کی تجویز دی۔ حجاج اس کام میں پر عزم ثابت ہوا اور عبدالملک کو توجہ کا مرکز بنا۔[26]

جب جزیرہ ابن‌ عمر کا علاقہ قَرقیسیا میں زُفَر بن حارث کِلابی نے عبد الملک کے خلاف بغاوت کیا اور زفر کا محاصرہ طول پکڑا تو عبدالملک نے رجاء بن حَیوَہ کندی کی زیر سرپرستی ایک وفد کو صلح کیلیے مذاکرات کرنے زفر کے پاس بھیجا اور حجاج بھی اس وفد کے ارکان میں سے تھا۔اس وفد کے دوسرے افراد کے برخلاف حجاج نے زفر بن حارث کے پیچھے نماز نہیں پڑھی اور کہا جو شخص اموی خلیفہ کی مخالفت کرتا ہے اور منافق ہے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا ہوں۔ اس کی وجہ سے عبد الملک کے پاس حجاج کا مقام اور بڑھ گیا اور خلیفہ نے پہلی بار تبالہ نامی ایک چھوٹے شہر کی حکومت اس کے حوالے کی، لیکن جیسے ہی حجاج تبالہ کے قریب پہنچا اور اس کو بہت چھوٹا اور حقیر سمجھ کر واپس عبدالملک کے پاس لوٹا اور اس شہر کے والی بننے سے معزرت کی۔[27]

مصعب بن زبیر کے ساتھ معرکہ

سنہ۷۲ھ کو شام کے لوگوں کو مصعب بن زبیر کے ساتھ لڑنے عراق جانے پر تیار کرنے میں حجاج کا بڑا ہاتھ تھا اور عبدالملک بن مروان کی عراق پر چڑھائی میں شامل تھا۔ اس جنگ میں مصعب مارا گیا اور عراق اموی خلافت کے کنٹرول میں آگیا۔[28]

عراق پر کنٹرول کرنے کے بعد عبد الملک نے حجاج کو عبداللہ بن زبیر کا تختہ الٹنے ایک لشکر کے ساتھ کوفہ سے حجاز بھیج دیا۔[29]بعض روایات میں مبالغہ کرتے ہوئے حجاج کی فوج کی تعداد کو بیس سے چالیس ہزار تک نقل کیا ہے۔[30]لیکن معتبر روایات کے مطابق حجاج کی فوج اور ان کی مدد کو آنے والے بعد کے گروہوں سمیت کل تعداد کو سات ہزار تک بتائی ہے۔[31]

عبدالله ‌بن زبیر سے لڑائی میں

جمادی الاول سنہ ۷۲ھ کو حجاج کوفہ سے نکلا اور اسی سال شعبان‌‌ کو طائف پہنچا اور وہی پر رہنے لگا[32]اور وہاں رہنے کی وجہ بھی شاید یہ ہوسکتی ہے کہ وہ شروع میں مکہ اور مسجدالحرام پر حملہ کرنے پر مامور نہیں تھا۔ [33] ایک یا دو مہینے طائف میں رہنے اور عرفات میں عبد اللہ ابن زبیر کی فوج سے اکا دکا معمولی جھڑپوں کے بعد، جب مزید مدد کیلیے فوج پہنچی اور اموی خلیفہ کی طرف سے اجازت ملی تو مکہ کی طرف روانہ ہوا اور شہر کو سات یا نو مہینے محاصرے میں رکھا اور کعبہ کو منجنیق سے سنگ باران کیا اور بڑی گھمسان کی لڑائی کے بعد 17 جمادی الاولی یا جمادی الثانی، ۷۳ھ کو عبد اللہ ابن زبیر کو قتل کیا اور مکہ کو اپنے اختیار میں لے لیا اور حجاز کو اموی حکومت میں شامل کردیا۔[34]

حجاز کی حکمرانی

عبدالملک بن مروان نے حجاج کی خدمت کے پاداش میں اسے مکہ کا والی بنایا پھر کچھ عرصہ بعد مدینہ اور طائف کا پھر یمن اور یمامہ کا حاکم بنادیا۔ [35]

حجاج نے سب سے پہلے مسجد الحرام سے جنگی آثار کو ختم کیا اور سنہ 74ھ کے ابتدا میں مدینہ چلا گیا اور وہاں پر ایک یا دو مہینے ٹھہرنے کے بعد مکہ واپس لوٹا اور خلیفہ کے حکم سے کعبہ کی مرمت کی۔[36]مدینہ میں سکونت کے دوران مدینہ کے لوگوں خاص کر پیغمبر اکرمؐ کے صحابیوں سے بہت برا سلوک کیا۔[37]

پھر بزرگوں کے ایک گروہ کے ساتھ شام کو چلا گیا اور وہاں خلیفہ اموی سے ملاقات کی۔[38]

عراق کی حکمرانی

دو یا تین سال حجاز کا حاکم رہنے کے بعد عبدالملک بن مروان نے اسے اس عہدے سے برطرف کیا اور ۷۵ھ کے رجب یا رمضان کے مہینے میں تمام تر وسیع اختیارات کے ساتھ اسے عراق کا حاکم بنا دیا۔ اسے معزول کرنے کی وجوہات میں خلیفہ کے بھائی بِشر بن مروان بن حکم کی موت، عراق کی بگڑتی حالاتی، خوارج کا بڑھتا خطرہ اور حجاز کے بعض بزرگوں کی طرف سے حجاج کو حجاز سے برطرف کرنے کی درخواست قابل ذکر ہیں۔[39] اور اس طرح سے علی بن ابی طالبؑ کا کوفیوں سے کیا ہوا وہ مشہور خطاب ثابت ہوا، جس میں آپ نے پیشنگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا: «خدا کی قسم ثقیف قبیلہ کا ایک متکبر، دوسرا کا حق کھانے والا لڑکا تم پر مسلط ہوگا اور تمہارا مال کھا جائے گا اور ظلم کی شدت سے تمہاری چرب پگل دے گا»۔

عراق کی حکومت ملنے کے بعد حجاج بہت جلدی سے عراق کی طرف روانہ ہوا اور صرف دو دن کی سواری سفر سے کوفہ پہنچ گیا اور جمعہ کے دن چہرہ چھپا کر مسجد چلا گیا اور خطبے میں تمام ان لوگوں کو قتل کی دھمکی دی جو حروریہ کے خوارج سے جنگ کرنے کے بجائے بشر بن مروان کی سپہ سالاری میں تشکیل یافتہ مُہلَّب بن ابی‌صفرہ کی فوج سے بھاگے تھے۔ اور انہیں کہا اگر تین دن کے اندر ان سے نہ ملنے کی صورت میں قتل کئے جاینگے۔[40] کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد حجاج بصرہ چلا گیا اور وہاں پر بھی کوفہ میں دیے جانے والے خطبے کی طرح ایک دھمکی آمیز خطبہ دیا اور پھر رُسْتَقُباذ چلا گیا تاکہ خوارج کے مقابلے میں مُہلّب کی مدد کرسکے۔[41]

ابن‌ جارود سے نبرد آزمائی

حجاج جب رستقباذ پہنچا تو عبداللہ بن جارود کی سربراہی میں عراقی عوام کی طرف سے سب سے پہلی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بغاوت میں حجاج کی فوج کے لیے جنگ میں فتح تک ثابت قدم رہنے کی دھمکیاں اور اگر سپاہیوں کی سو درہم تک تنخواہ میں کمی رنگ لے آئی۔ یہ قیام جو ربیع الثانی سنہ 76ھ کو واقع ہوا، جس میں عراق کی عوام نے حجاج کے ذخیرے سے اسلحہ اور مال کو غارت کیا۔ حجاج نے اپنے دوستوں سے مشورت اور مزید مدد کے لیے فوج پہنچنے کے بعد ابن جارود سے دوبارہ جنگ کی اور ابن جارود کو قتل کیا اور اس کے یار او انصار کو تتر بتر کردیا۔[42]

عراقی زنگیوں کی نابودی

ابن جارود کی بغاوت کے ساتھ ہی رباح بن شیرزنجی (شارزنجی) کی سربراہی میں بغاوت کی اور بصرہ کے اطراف کو اپنے کنٹرول میں لے آیا۔ حجاج نے بصرہ کے لوگوں کا ایک لشکر بھیج کر انہیں (دَورَق کے نزدیک) خوزستان کے صحرا میں نابود کیا۔[43]

خوارج سے مقابلہ

۷۵ھ کے اواخر رمضان کے مہینے میں حجاج نے مہلّب اور عبدالرحمن بن مخنف سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد قَطَری بن الفُجاءۃ کی سربراہی میں بننے والے ازارقہ کے خوارج سے لڑیں۔ یہ لڑائی سنہ78ھ کے ابتدائی مہینوں تک جاری رہی اور پھر خوارج کے آپس میں اختلاف ہوا اور یوں شکست کھا گئے۔ [44]

سنہ۷۶ اور ۷۷ھ کو خوارج نے شبیب بن یزید شیبانی کی سربراہی میں حجاج کے خلاف قیام کیا اور حجاج کی فوج کے ساتھ دسیوں جنگیں عراق میں لڑے اور تمام جنگوں میں حجاج کی فوج کو شکست ہوئی۔ آخرکار حجاج نے شبیب کو قتل کروایا اور اس کے ساتھیوں کو شکست دی۔[45]

مُطَرّف ‌بن مُغیرۃبن شعبہ کا قیام

سنہ۷۷ ہجری قمری کو حجاج کا اہل کار مُطَرّف ‌بن مُغیرۃ بن شعبہ نے مدائن میں امویوں کے خلاف قیام کیا اور عبدالملک بن مروان کو حکومت سے معزول کرنے کا اعلان کیا اور حجاج کے قتل کو بھی حلال قرار دیا۔ حجاج نے بھی مطرّف کے بھائی اور معاون حمزہ کو ہمدان میں گرفتار کیا اور ایک لشکر مطرّف کے مقابلے کے لیے بھیجا اور مطرّف اور اس کے ساتھیوں کو اصفہان کے نزدیک شکست دی اور مار دیا اور قیام کو نابود کردیا۔[46]

ابن اشعث سے لڑائی

حجاج کے خلاف ہونے والی اب تک کی بغاوتوں میں عبدالرحمان‌بن اشعث کِندی کی بغاوت سب سے بڑی اور زیادہ خطرناک بغاوت تھی جو ۸۱ھ سے ۸۴ھ تک جاری رہی۔[47]

سال ۷۹ھ کو زابلتسان کے حاکم رُتبیل سے اموی سپاہیوں کی شکست اور ہزاروں افراد کے قتل کے بعد[48] حجاج نے 79ھ کے آواخر یا 80ھ کے ابتدا میں رتبیل کی نابودی کے لئے سیستان میں عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کی سربراہی میں چالیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک لشکر تیار کی جنہیں «طاوسوں کا لشکر» (مور) کہا جاتا تھا۔ ابن اشعث نے کئی کامیابیوں کے بعد رتبیل کے علاقے مین پیش قدمی کو اگلے سال کے موسم بہار تک روک دیا تاکہ مناسب موسم میں اقدام کیا جاسکے۔ اور کچھ مدت تک رُخَّج نامی شہر میں پڑاؤ ڈالا۔ لیکن یہ فیصلہ حجاج کو پسند نہیں آیا اور ایک توہین آمیز خط کے ذریعے کابل کی فتح تک پیش قدمی جاری رکھنے پر اصرار اصرار کیا۔ حجاج اور ابن اشعث کے درمیان اختلاف کی وجوہات میں سے ایک یہی اختلاف تھا جس کی وجہ سے ابن اشعث نے حجاج کے خلاف قیام کیا۔ اب اشعث کے پاس ستر ہزار سے زیادہ سپاہی تھے ان سب نے اس کی بیعت کی اور اس نے حجاج کو رُخّج سے نکال دیا اور رتبیل سے صلح کر لی اور پھر عراق چلا گیا۔ [49] عبدالملک بن مروان کی طرف سے مدد کے لیے لشکر پہنچنے کے بعد حجاج بصرہ میں ابن اشعث کا مقابلہ کرنے چلا گیا اور دُجَیل نامی پہلی جنگ میں وہ کامیاب ہوا، لیکن ۱۰ ذیحجہ ۸۱ھ ہونے والی تستر نامی دوسری جنگ میں شکست کھا گیا اور بصرہ سے عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوا۔ اب ابن‌اشعث حجاج سے نبرد آزمائی کے لیے بصرہ کے قریب گیا اور ابتدائی کامیابی کے باوجود محرّم سنہ۸۲ھ کے آخری دنوں میں شکست کھایا۔ حجاج نے عبدالرحمان بن عباس ہاشمی سے بڑی گھمسان کی لڑائی کے بعد بصرہ کو واپس لے لیا اور عوام کو معاف کیا۔ جب حجاج کو کوفہ سے سات فرسخ کے فاصلے پر دَیرالجماجم میں ابن اشعث کی دو لاکھ کی فوج ہونے کی خبر ملی تو ان سے لڑنے گیا اور ربیع‌ الاول کی ابتدا سے ۱۴ جمادی‌ الثانی سنہ۸۲ھ تک سو دنوں میں 80 سے زیادہ لڑائیوں کے بعد ابن اشعث کو سخت شکست دی اور اکثر جنگی قیدوں کی گردن اڑا دی۔[50]

شعبان سنہ۸۳ھ کو حجاج نے ایک بار پھر سے ابن اشعث کی فوج کو مَسکِن کی لڑائی میں شکست دی اور ابن‌اشعث رتبیل کے پاس سیستان بھاگا اور حجاج نے رتبیل سے صلح کرنے کے بعد اس سے ان اشعث تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا اور اس نے بھی ایسا ہی کیا لیکن ابن اشعث نے راستے میں ہی خودکشی کر لی۔[51]

برصغیر کی فتوحات

حجاج نے داخلی دشمنوں کو شکست دینے کے بعد خراسان کے حاکم قُتَیبۃبن مسلم باہلی کو فتوحات جاری رکھنے کا حکم دیا اور اس نے بھی ماوراء النہر اور مرکزی ایشیا کی بعض شہروں کو فتح کیا۔ [52] دوسری جانب محمد بن قاسم ثقفی نے برصغیر کے بعض حصوں کو فتح کیا۔[53]

حجاج کی کارکردگی

شہری تعمیرات اور اصلاحات

حجاج نے اپنی حکومت کے دوران بعض شہری خدمات اور تعمیراتی کام بھی کیا جن میں سے مکہ میں یاقوتیہ نام کا ایک کنواں کھودنا، مکہ کے اطراف میں آبی ذخایر کے لیے ڈیم بنانا [54] زرعی زمینوں کے لیے فرات سے نہری پانی کا بندوبست کرنا[55] قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح اس نے نیل کے نام سے فرات کے ساحل پر حلہ کے شمال میں ایک شہر بنا دیا جس کا آج کل ڈھانچہ ہی باقی ہے۔[56] حجاج نے ۸۳ھ سے ۸۶ھ تک واسط کو بنا دیا اور اس کی صفائی اور خوبصورتی کی حفاظت کے لیے مخصوص قوانین بنادیا اور فوت ہونے تک وہی پر رہا۔ [57]

حجاج نے سنہ۷۵ اور ۷۶ھ کو عربی خط کے ساتھ درہم اور دینار کا سکہ رائج کیا۔[58]

بعض روایات کے مطابق حجاج نے ایک شکل کے حروف کو پڑھتے ہوئے قرآن مجید میں تحریف سے بچنے کے لیے امام علیؑ سے نحو سیکھنے والے ابوالاسود دوئلی کے شاگرد نصربن عاصم اور یحیی‌بن یعْمُر کو قرآن مجید میں نقطے لگانے کی درخواست کی۔[59]اور حافظوں سے قرآن کو پانچ یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کی درخواست کی۔[60] یہ بات مشہور ہے کہ حجاج نے ہی کعبہ کو سب سے پہلے ابریشم کے غلاف پہنایا۔[61]اور پہلا شخص ہے جس نے کشتیوں کو تارکول اور تیل لگایا۔ اور کشتیاں بنانے میں میخ اور کیل کو استعمال کیا۔[62]

اسی طرح حجاج کی ستم کے باعث اشعری خاندان نے قم کی طرف ہجرت کی اور اس کی وجہ سے اس شہر میں تشیع پھیلنے میں بڑی مدد ملی۔ [63]

شعر و شاعری پر توجہ

حجاج فصاحت، ادب اور شعر و شاعری میں مشہور تھا اور اسی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں پر خاص توجہ رکھتے تھے۔ بہت سارے شاعر اس کے ہاں آتے تھے اور بعض نامور شعرا جیسے جریر نے ان کو سراہا ہے۔[64]لیکن بعض نے اس کی سرزنش بھی کی ہے۔[65]

بنی امیہ سے وفاداری

بنی امیہ سے وفاداری اور ان کے سامنے تسلیم محض ہونے اور اموی خلافت کی بقا کیلئے کی جانے والی خدمات کے پیش نظر حجاج کو ان کے یہاں بڑا مقام ملا، اس حد تک کہ عبد الملک بن مروان نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹے سے حجاج کی سفارش کی۔ [66] اور ایک بیٹے کا نام بھی حجاج رکھا۔[67] ولید بن عبدالملک نے بھی حجاج کی عزت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور اسے اپنے چہرے کی آبرو قرار دیا۔[68]اور جب حجات کی موت کا سنا تو بہت مغموم ہوا۔[69]

بے انتہا خونریزی

حجاج ان لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنے اور بنی امیہ کے مخالفوں کو قتل کیا ہے۔ اور اسے قتل اور خونریزی کا بڑا شوق تھا۔[70] اور خود ان کا ہی کہنا ہے کہ سب سے زیادہ مزہ خون کرنے اور ان کاموں کو انجام دینے میں ہے جنہیں اب تک کسی نے انجام نہیں دیا ہے۔[71] حجاج نے دیر جماجم اور زاویہ کے ہزاروں قیدیوں کو قتل کیا اور مورخوں کے نقل کے مطابق حجاج نے ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا ہے۔[72] اس نے اپنے مخالفوں کے قتل میں اس حد تک تجاوز کیا کہ عبدالملک بن مروان بھی اس قدر خونریزی کو نہیں چاہتا تھا اور حجاج کو خط لکھا کہ مزید اس کام کو جاری نہ رکھے۔[73]

حجاج اور شیعہ

حجاج نے اپنے اسلاف کے طرز پر حضرت علیؑ (اور آل علیؑ) پر سب کرنے کو جاری رکھا اور جو علیؑ سے بیزاری کا اعلان نہیں کرتا اسے مار دیتا تھا۔[74]

ابن ابی الحدید نے حجاج کی شیعہ کشی کے بارے میں امام باقرؑ سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:

... حجاج شیعوں کو مارتا تھا اور بہت معمولی الزام اور تہمت پر انہیں گرفتار کرتا تھا۔ وہ بھی اس حد تک کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے کسی شخص کے بارے میں کہا ہے کہ وہ زندیق یا کافر ہوتا تو علی کا شیعہ ہونے سے تو بہتر تھا۔[75]

مسعودی کا کہنا ہے کہ ایک دن حجاج نے عبداللہ بن ہانی (حجاج کا قریبی ایک بدصورت شخص) سے کہا کہ تمہارے قبیلے کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ تو ابن ہانی نے اپنے قوم کی فضیلتوں کو بیان کرنا شروع کیا اور حجاج ہر بات کے بعد کہتا تھا:«ہاں (یہ ایک فضیلت ہے)» یہاں تک کہ جب ابن ہانی نے کہا کہ میری قوم کے تمام افراد نے ابوتراب پر لعن اور سب و شتم کیا ہے اور اسی طرح ابوتراب کے دونوں بیٹے حسنین اور ان کی ماں (حضرت فاطمہؑ) کو بھی اضافہ کیا تو اس کے بعد حجاج نے کہا: "خدا کی قسم یہ فضیلت ہے! "[76]

بعض دوسرے موارد

مورخین نے حجاج کے بارے میں بعض اور موارد بھی بیان کئے ہیں، جیسے؛ پیغمبر اکرمؐ کے منبر اور مدینہ منورہ کی توہین، نماز کو تاخیر میں ڈالنا،[77]اموی خلیفہ کو پیغمبر اکرمؐ، انبیاءؑ اور فرشتوں سے افضل سمجھنا،[78]اپنی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے زیادہ واجب سمجھنا۔[79]

وفات

سعید بن جیبر کی بد دعا

بعض نے سعید بن جبیر کی بد دعا کو حجاج کی موت کا سبب قرار دیا ہے۔ سعید ان لوگوں میں سے ایک تھا جو حجاج کے ہاتھوں مارا گیا، اس نے مرنے سے پہلے دعا کی: «اللّہمّ لا تسلّطہ علی احد...؛ خدایا اس ظالم کو میرے بعد کسی پر مسلط نہ کر۔»[80]کہا گیا ہے کہ سعید کی موت کے بعد 40 دن سے زیادہ حجاج زندہ نہیں رہا۔[81]جب تک زندہ تھا تو ہمیشہ خواب میں سعید کو دیکھتا تھا، اور وہ حجاج کا گریباں پکڑ کر کہتا تھا اے اللہ کے دشمن، مجھے کیوں قتل کیا؟ ایسے میں حجاج کی نیند اڑ جاتی تھی اور کہتا تھا: مالی و لسعید، مالی و لسعید؛ میرا سعید سے کیا کام![82]

وفات

حجاج 95ھ کے رمضان یا شوال کے مہینے میں مر گیا۔[83]اس نے اپنے جانشین یزید بن ابی‌مسلم کو وصیت کی کہ اسے مخفی طور پر دفن کیا جائے اور اس کی قبر پر پانی چھڑک کر قبر کے آثار کو ختم کیا جائے تاکہ کسی کو قبر کا علم نہ ہو اور نبش قبر نہ کر سکیں۔[84]

خاندان

سلیمان‌ بن عبدالملک کی خلافت کے دوران حجاج کے خاندان پر بڑا دباؤ آیا، مال ضبط ہوگیا اور اموی خلیفہ کے حکم سے منبروں سے حجاج پر لعن اور نفرین کیا گیا۔[85]اور عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے دوران حجاج کا خاندان اور رشتہ دار یمن کی طرف جلا وطن کئے گئے۔[86]

حوالہ جات

  1. صدقی عمد، ۱۹۷۲، ص ۸۳
  2. ر.ک: خلیفہ بن خیاط، ص ۱۲۵؛ ابو زرعہ دمشقی، ج ۲، ص ۷۰۰؛ ابن‌ عساکر، ج ۱۲، ص ۱۱۵، ۱۹۷، قس ص ۱۹۸
  3. طبری، ج ۵، ص ۱۷۲
  4. ابن‌ حجر عسقلانی، ج ۲، ص ۱۸۶
  5. مراجعہ کریں: جاحظ، ۱۹۴۸، ج۱، ص ۳۲۴
  6. ابن‌خلدون، ج۱، ص۴۰
  7. ابن‌ قتیبہ، ۱۹۶۰، ص ۳۹۵ـ ۳۹۶
  8. بلاذری، ۱۹۹۶ـ ۲۰۰۰، ہمانجا
  9. مراجعہ کریں: ابن عبدربہ،‌ ۱۹۹۰، ج۵، ص ۳۱
  10. ابن‌نباتہ، ۱۹۶۴، ص۱۷۰
  11. صدقی عمد، ۱۹۷۲، ص ۹۱
  12. ابن‌عساکر، ۲۰۰۱، ج ۱۲، ص ۱۱۳
  13. ابن‌قتیبہ، ۱۹۶۰، ص ۴۷۵
  14. صدقی عمد، ۱۹۷۲، ص ۱۰۷
  15. صدقی عمد، ۱۹۷۲، ص۹۳ - ۹۷
  16. جہشیاری، ۱۹۳۸، ص۲۴
  17. جاحظ، ۱۹۴۸، ج۱، ص ۳۸۶
  18. جاحظ، ۱۹۴۸، ج۱، ص ۳۴۶
  19. ابن عبدربہ، ۱۹۹۰، ج۵، ص ۴۲ و ۴۳
  20. جہشیاری، ۱۹۳۸، ص ۲۶
  21. ابن‌عساکر، ۲۰۰۱، ج ۱۲، ص ۱۶۷
  22. طبری، ۱۹۷۱، ج ۵، ص۵۳۰ - ۵۴۰
  23. صدقی عمد، ۱۹۷۲، ص ۱۰۲
  24. طبری، ۱۹۷۱، ج۵، ص ۶۱۱ـ ۶۱۲
  25. ابن‌ قتیبہ، ۱۹۶۰، ص ۳۵۴ - ۳۹۶
  26. ابن‌عبدربّہ، ۱۹۹۰، ج۵، ص۱۴
  27. ابن نباتہ، ۱۹۶۴، ص ۱۷۳
  28. مسعودی، ۲۰۰۵، ج۳، ص ۹۰ - ۹۴
  29. بلاذری، ۲۰۰۰، ج۶، ص ۲۰۴ و ۲۱۲ و ۲۴۲
  30. یعقوبی، ۲۰۱۰، ج۲، ص ۱۸۵
  31. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص۲۲۰
  32. طبری، ۱۹۷۱، ج۶، ص۱۷۴ـ۱۷۵
  33. بلاذری، ۲۰۰۰، ج۶، ص ۲۲۰
  34. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص۲۲۰ـ۲۲۴
  35. مسعودی، ۲۰۰۵، ج۳، ص ۹۸
  36. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۲۴۰
  37. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص۲۴۰
  38. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۲۴۱
  39. طبری، ۱۹۷۱، ج۶، ص ۲۰۲ - ۲۰۹
  40. جاحظ، ۱۹۴۸، ج ۲، ص۳۰۷ـ ۳۱۰
  41. طبری، ۱۹۷۱، ج۶، ص۲۱۰
  42. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۳۹۷ـ۴۰۵
  43. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۴۱۴ـ۴۱۵
  44. رجوع کنید بہ ابن‌قتیبہ، ۱۹۶۰، ص ۴۱۱
  45. ابن‌قتیبہ، ۱۹۶۰، ص۴۱۱
  46. طبری، ۱۹۷۱، ج ۶، ص ۲۸۴ـ۲۹۸
  47. صدقی عمد، ۱۹۷۲، ص ۲۵۹
  48. طبری، ۱۹۷۲، ج ۶، ص ۳۲۲ـ۳۲۴
  49. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۴۳۱، ۴۳۶
  50. بلاذری، ۲۰۰۰، ج۶، ص۴۵۲ـ ۴۶۰، ۴۸۰
  51. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۴۲۵ـ۴۷۲، ۴۸۰
  52. طبری، ج ۶، ص ۴۲۴ـ۴۴۵؛ ابن‌نباتہ، ص ۱۸۸ـ۱۹۱
  53. ابن‌قتیبہ، ۱۹۸۵، ج ۱، جزء۱، ص ۳۳۲؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۸۸ـ۲۸۹
  54. ازرقی، ۱۹۸۳، ج ۲، ص ۲۲۴، ۲۸۱ـ۲۸۲
  55. بلاذری، ۱۹۹۲، ص۲۹۰
  56. بلاذری، ۱۹۹۲، ص ۲۹۰
  57. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۴۸۱ و ۵۰۷ و ۶۱۳
  58. ابن‌قتیبہ، ۱۹۶۰، ص ۳۵۷
  59. ابن‌کثیر، ۱۹۸۸، ج۹، ص ۱۲۴
  60. ابن‌عساکر، ۲۰۰۱، ج ۱۲، ص ۱۱۶
  61. ابن‌کثیر، ۱۹۸۸، ج ۲، ص ۲۸۲
  62. جاحظ، ۱۹۴۸، ج ۲، ص ۳۰۳
  63. بلاذری، ۱۹۹۲، ص ۳۸۳
  64. ابن کثیر، ۱۹۸۸، ج۹، ص ۲۹۲
  65. ابن کثیر، ۱۹۸۸، ج۹، ص ۳۴
  66. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۳۲۲
  67. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۳۰۳
  68. ابن‌ قتیبہ، ۱۹۲۵، ج۲، ص ۴۹
  69. مبرّد، ج ۲، ص ۱۱۱
  70. مغنیہ، ۲۰۰۰، ص ۹۴
  71. مسعودی، ۲۰۰۵، ج۳، ص ۱۰۶
  72. طبری، ۱۹۷۱،‌ ج۶،‌ ص ۳۸۱و۳۸۲
  73. مسعودی، ۲۰۰۵، ج ۳، ص ۳۴۱
  74. مغنیہ، ۲۰۰۰،‌ ص ۹۴ - ۹۶
  75. ابن ابی الحدید، ۲۰۰۷، ج۱۱، ص ۲۹
  76. مسعودی، ۲۰۰۵، ج۳، ص ۱۲۰
  77. جاحظ، ۱۹۴۸، ج۲، ص۲۹۸
  78. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۶، ص ۴۸۱ و ۵۰۷ و ۶۱۳
  79. جاحظ، ۱۹۶۹، ج۳، ص ۱۵ـ ۱۶
  80. ابن کثیر، ۱۹۸۸، ج۹،‌ ص ۱۱۶
  81. ابن کثیر، ۱۹۸۸، ج۹،‌ ص ۱۱۶
  82. ابن کثیر، ۱۹۸۸، ج۹،‌ ص ۱۱۵
  83. ابن‌قتیبہ، ۱۹۶۰، ص ۳۹۵
  84. بلاذری، ۲۰۰۰، ج ۱۲، ص ۳۵۳
  85. جاحظ، ۱۹۴۸، ج ۱، ص ۳۹۷
  86. ابن‌ عساکر، ۲۰۰۱، ج۱۲، ص۱۸۷

مآخذ

  • نہج البلاغۃ، قم:‌دار الثقلین.
  • ابن أبی الحدید (۲۰۰۷) شرح نہج البلاغۃ، ج۱۱، بیروت: الأمیرۃ.
  • ابن خلدون، عبد الرحمن (۲۰۰۱م) مقدمۃ ابن خلدون، بیروت:‌دار الفکر.
  • ابن عبد ربہ (۱۹۹۰) العقد الفرید، ج۵، بیروت: مطبعۃ علی شیری.
  • ابن عساکر (۲۰۰۱) تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۲، بیروت: مطبعۃ علی شیری.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر (۱۹۸۸) البدایۃ والنہایۃ، ج۹، بیروت:‌دار إحیاء التراث العربی.
  • ابن منظور، محمد بن مکرم (۱۴۱۴ہـ) لسان العرب، ج۲، بیروت:‌دار صادر.
  • ابن نباتۃ، (۱۹۶۴) سرح العیون فی شرح رسالۃ ابن زیدون، القاہرۃ: مطبعۃ محمد أبو الفضل.
  • الأزرقی، محمد بن عبد اللہ (۱۹۸۳) أخبار مکۃ وما جاء فیہا من الآثار، ج۲، بیروت: رشدی صالح.
  • بلاذری، أحمد بن یحیی (۱۹۹۲) فتوح البلدان، فرانکفورت: دخویہ.
  • بلاذری، أحمد بن یحیی (۲۰۰۰) أنساب الشرف، ج۶، دمشق: محمود فردوس العظم.
  • جاحظ، عمرو بن عمر (۱۹۴۸) البیان والتبیین، ج۲، بیروت: مطبعۃ عبد السلام.
  • جاحظ، عمرو بن عمر (۱۹۶۹) الحیوان، ج۳، القاہرۃ: مطبعۃ عبد السلام.
  • جہشیاری، محمد بن عبدوس (۱۹۳۸) الوزراء والکتاب، القاہرۃ: مطبعۃ عبد اللہ اسماعیل الصاوی.
  • دمشقی، أبو زرعۃ (د.ت) تاریخ أبی زرعۃ الدمشقی، ج۲، دمشق: مطبعۃ شکر اللہ قوجانی.
  • دینوری، إبن قتیبۃ (۱۹۲۵) عیون الأخبار، ج۲، القاہرۃ:‌دار الکتب المصریۃ.
  • دینوری، ابن قتیبۃ (۱۹۶۰) المعارف، القاہرۃ: ثروت عکاشۃ.
  • طبری، محمد بن جریر (۱۹۷۱) تاریخ الطبری، ج۵، مصر:‌دار المعارف.
  • عسقلانی، ابن حجر (۱۹۹۵) تہذیب التہذیب، بیروت: صدقی جمیل العطار.
  • عمد، إحسان صدقی (۱۹۷۲) الحجاج بن یوسف الثقفی، بیروت: د.ن.
  • مبرد، محمد بن یزید (د.ت.) الکامل، ج۲، القاہرۃ: مطبعۃ محمد أبو فاضل إبراہیم.
  • مسعودی، ابی الحسن (۲۰۰۵) مروج الذہب، ج۳، بیروت: المکتبۃ العصریۃ.
  • مغنیۃ، محمد جواد (۲۰۰۰) الشیعۃ والحاکمون، بیروت:‌دار الجواد.
  • یعقوبی، أحمد (۲۰۱۰) تاریخ الیعقوبی، ج۲، بیروت: شرکۃ الأعلمی للمطبوعات.


بیرونی روابط