روز عاشورا کے واقعات

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


سنہ 61 ہجری "روز عاشورا کے واقعات" میں امام حسینؑ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت، لشکر عمر سعد کی طرف سے خیموں کو آگ لگانا اور غارت کرنا اور اسیران کربلا کی اسیری شامل ہیں۔

تاریخی نقل کے مطابق دونوں طرف کی فوج صبح کی نماز کے بعد نبرد آزمائی کے لیے تیار ہوئی۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے امام حسینؑ اور بُرَیر نے دشمن کی فوج کو وعظ و نصیحت کی۔ امامؑ نے اپنے ساتھیوں کو جنگ میں پہل کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اس بنا پر پہلا تیر عمر سعد نے امام کی فوج کی طرف پھینکا۔ شروع میں حملے گروہ کی شکل میں تھے اور ان حملوں میں امام حسینؑ کے بہت سارے ساتھی شہید ہو گئے۔ اس کے بعد امامؑ کے ساتھی ایک ایک ہو کر میدان میں چلے گئے۔ ظہر کے وقت امامؑ نے ظہر کی نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو زہیر بن قین اور سعید بن عبد اللہ حنفی امام اور ان کے ساتھیوں کے محافظ بنے اور سعید بن عبداللہ نے جام شہادت نوش کیا۔

مزید جنگ جاری رہی اور بنی ہاشم میں پہلا شہید علی اکبر تھے اور ابوالفضل العباسؑ کی ذمہ داری خیموں میں پانی لانا تھا اور فرات پر موجود پہرہ داروں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ جب امام حسینؑ نے شیخوار طفل علی‌اصغر کو ہاتھوں پر اٹھایا اور اپنے نونہال کی تشنگی کی شکایت کی تو دشمن نے علی اصغر کے حلقوم کو تیر کا نشانہ بنالیا۔

امام کے تمام انصار اور بنی‌ہاشم کے تمام جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسینؑ خود میدان کو نکلے۔ شمر کی سربراہی میں موجود پیدل فوج نے امام کو گھیرے میں ڈالا لیکن آگے نہ آسکے اور شمر ان کی تشویق کر رہا تھا۔ دشمن کی فوج نے امام کو تیروں کی زد پر لیا اور شمر اور اس کی فوج نے امام حسینؑ پر حملہ کیا اور شہید کردیا۔ جب امام حسین میدان کی طرف جا رہے تھے تو امام سجادؑ نے بھی میدان کی طرف جانے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن بیماری کی وجہ سے نہ جاسکے۔ جب دشمن نے خیموں کا تاراج کیا تو شمر امام زین العابدینؑ کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن حضرت زینب مانع بنی۔

دشمنوں نے امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کو بھیجا اور بدن پر گھوڑے دوڑایے۔ عمر سعد فوج کے بعض افراد کے ساتھ اس رات کربلا میں رکا اور اگلے دن ظہر کے قریب اپنی فوج کے جنازوں کو دفن کرنے کے بعد اسراء اہل بیتؑ کے ساتھ کوفہ کی طرف نکلا۔

صبح عاشورا

عمر سعد کی فوج نویں محرم کو جنگ کے لیے تیار تھی،[1] لیکن امام حسینؑ کی طرف سے مہلت مانگنے پر جنگ کو ایک دن بعد کے لیے موکول کیا۔ [2]

جنگی تیاری اور سپہ سالاروں کا انتخاب

معرکہ کربلا کی عکاسی

امام حسینؑ نے عاشورا کے دن صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کی ،[3] اپنی فوج کی صفیں بنا لیں جس میں 32 سوار، 40 پیدل تھے۔ [4] امام حسینؑ نے زُہَیر بن قَین کو میمنہ پر اور حبیب بن مُظاہِر کو میسرہ پر معین کیا اور جنگ کے علم کو اپنے بھائی عباسؑ کے ہاتھوں تھما دیا۔.[5] اصحاب نے امام کے حکم کے مطابق خیموں کو پیچھے کی سمت لے گئے [6] اور اس کے اطراف میں خندق کھود کر اس میں لکڑی سے بھر دیا اور آگ لگا دی تاکہ دشمن پیچھے کی طرف سے خیمگاہ تک نہ پہنچ پائیں۔.[7]

میدان کے دوسرے طرف عمر بن سعد نے بھی نماز صبح پڑھی اور مشہور قول کے مطابق اپنی تیس ہزار فوج کے سپہ سالاروں [8] کو معین کیا کرد؛ اس نے عَمرو بن حَجّاج زُبَیدی کو میمنہ، شمر بن ذی الجوشن کو میسرہ، عُزْرَۃِ بْن قَیس اَحْمَسی کو سواری لشکر، اور شَبَث بن رِبعِی پیدل فوج کا سپہ سالار معین کیا۔[9]

اسی طرح عمر سعد عبداللہ بن زہیر اسدی کو کوفہ والوں کا، عبدالرحمن بن ابی سبرہ کو مذحج اور بنی اسد قبیلے کا، قیس بن اشعث بن قیس کو ربیعہ و کندہ قبیلے کا، حر بن یزید ریاحی کو بنی تمیم اور ہَمْدان قبیلے کا امیر معین کیا اور پرچم کو اپنے غلام زوید (درید) کے سپرد کیا۔[10] اور امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔

جب امام حسینؑ کی نظر دشمن کی اس وسیع فوج پر پڑی تو ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کیا اور فرمایا:

«اَللّہُمَّ أَنْتَ ثِقَتي في كُلِّ كَرْب، وأَنْتَ رَجائي في كُلِّ شِدَّة، وأَنْتَ لي في كُلِّ أَمْر نَزَلَ بِي ثِقَة وعُدَّة، كَمْ مِنْ ہَمٍّ يُضَعِّفُ فيہِ الْفُؤادُ وتَقِلُّ فيہِ الْحيلَة، ويَخْذِلُ فيہِ الصَّديقُ ويَشْمِتُ فيہِ الْعَدُوُّ، أَنْزَلْتُہُ بِكَ وشَكَوْتُہُ إِلَيْكَ، رَغْبَة مِنِّي إِلَيْكَ عَمَّنْ سِواكَ، فَفَرَّجْتَہُ عَنّي وكَشَفْتَہُ، فَأَنْتَ وَلِىُّ كُلِّ نِعْمَة، وصاحِبُ كُلِّ حَسَنَة ومُنْتَہى كُلِّ رَغْبَة» ترجمہ: خدایا ہر سختی میں میرے تکیہ گاہ تم ہو، اور ہر مشکل میں میری امید تم ہو، کتنے ایسے غم تھے جو دل سے صبر چھین لیتے تھے اور ان کو دور کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں تھا، کتنے ایسے غم تھے جس میں دوست ہمراہی چھوڑتے تھے اور دشمن برا بھلا کہتے تھے لیکن میں دوسروں سے منہ پھیرتے ہوئے تمہاری طرف رغبت کی وجہ سے تمہارے پاس شکایت لے آیا ہوں۔ تم مجھے اس سے نجات دی اور تم نے ہی میرے لیے راہ ہموار کی۔ پس ہر نعمت کے ولی تم ہو اور نیکی اور خوبی کا صاحب تم ہو اور ہر مقصود کی انتہا تم ہو۔ [11]

صبح سویرے سے ہی یا کچھ دیر بعد سے بعض اصحاب خیموں پر پہرہ دے رہے تھے تاکہ دشمن نزدیک نہ ہو پائے اور کوفی فوج کے بعض افراد وہاں پر مارے بھی گئے۔[12]

امام حسینؑ اور ساتھیوں کا خطاب

امام حسینؑ جنگ سے پہلے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور چند ساتھیوں کے ساتھ دشمن کی لشکر کی جانب بڑھے۔ کوفہ کا مشہور قاری بُرَیر بن خُضَیر امام حسینؑ کے آگے تھا۔ امامؑ نے ان سے کہا: «اے بریر ان کی نصیحت کرو»[13] بریر دشمن کی فوج کو واعظ و نصیحت کرنے لگا۔[14]

فَإنّی لاأری المَوتَ إلاّ سعادۃً، و لاالحیاۃَ مَعَ الظّالمینَ إلاّ بَرَماً. (ترجمہ: میں موت کو شہادت اور ظالم کے سائے تلے زندہ رہنے کو ذلت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا)

امام حسینؑ، تاریخ امام حسین علیہ‌السلام، ج۲، ص۴۶۲.

امام حسینؑ دشمن کے سامنے بلند آواز سے عمر بن سعد کی فوج سے مخاطب ہوا اور سب آپ کی واز سن رہے تھے۔ آپ نے ان کو عدل و انصاف کی دعوت کی؛ اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد پہلے اپنا تعارف کرایا اور خود کو بنت پیغمبرؐ، رسو اللہ کے وصی اور چچیرے بھائی علیؑ کا بیٹا معرفی کیا اور حمزہ سیدالشہداء اور جعفر طیار کے اپنے چچے کہاـ پھر امام حسینؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «حسنؑ اور حسینؑ اہل بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں»، اور پیغمبرؐ کے اصحاب میں سے جو اب تک زندہ تھے جیسے؛ جابر بن عبداللہ انصاری، ابوسعید خُدری، سہل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک کو گواہ قرار دیا۔ آپؑ نے خطاب کرتے ہوئے شَبَث بن رِبْعی کی کمان میں موجود کوفہ کی فوج میں سے حجار بن ابجر، قیس بن اشعث بن قیس، یزید بن حارث کو ان کے خطوط اور خطوط کے مضمون کو یاد دلایا تو سب نے انکار کیا اور تسلیم ہونے کی باتیں کی۔ امام حسینؑ نے جواب میں فرمایا: «ہرگز نہیں،خدا کی قسم کبھی اپنا ہاتھ ذلت کی طرف نہیں بڑھاؤں گا۔»[15]

امامؑ کے خطاب کے بعد زہیر بن قین کھڑے ہوئے اور کوفہ والوں سے مخاطب ہوکر امام حسینؑ کی فضیلتوں کو بیان کیا اور نصیحت کی۔[16]

امام حسینؑ خطاب کے دوران شمر نے شور مچاتے ہوئے کہا: ان باتون سے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اور زہیر کے خطاب کو بری باتوں سے جواب دیا۔ [17]

امام کی جنگ شروع کرنے کی مخالفت

عمر بن سعد کی فوج امام حسینؑ سے جنگ کے لئے تیار ہوگئی تو امام حسینؑ نے اپنی فوج کو خیموں کے پیچھے موجود جھاڑیوں اور لکڑیوں پر آگ لگانے کا حکم دیا۔ اس وقت شمر بن ذی الجوشن ایک گروہ کے ہمراہ خیموں کے پیچھے سے قریب ہوا؛ لیکن جب خندق اور آگ کے شعلوں پر نظر پڑی تو شمر امام حسینؑ کو برا بھلا کہنے لگا۔ مسلم بن عوسجہ شمر کے قریب گیا اور اپنے آپ کو تیر اندازی کے لیے تیار ہونے کا اعلان کیا؛ لیکن امام حسینؑ مانع بنے اور فرمایا: «میں نہیں چاہتا کہ جنگ میں شروع کروں»۔[18]

حُر بن یزید ریاحی کا توبہ

عاشورا کی صبح جب امام حسینؑ جب ندای استغاثہ بلند کی، «کیا میری مدد کرنے کیلیے کو ناصر و مددگار ہے؟»، جب یہ ندا حر بن یزید ریاحی نے سنی اور دیکھا کہ کوفہ والے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو اس نے کوفہ کی فوج سے نکل کر امام حسینؑ کے ساتھ شامل ہوئے۔[19] کہا گیا ہے کہ حر نے امام حسینؑ سے اجازت مانگی کہ امام کے ساتھیوں میں سے پہلے وہ جاکر سپاہ یزید پر حملہ کرے۔ امام حسینؑ نے اجازت دی اور حر نے حملہ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ حر عاشورا کے دن کے درمیانی وقت میں شہید ہوا ہے۔ [20]

عمر سعد اور جنگ کا آغاز

جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب عمر سعد نے اپنا غلام درید (ذوید) کو آواز دی اور کہا: «اے درید پرچم کو آگے لے آو»۔ اس نے پرچم سامنے لے آیا۔ پھر عمرابن سعد نے ایک تیر کمان میں رکھ کر تیر پھینکا اور کہا: «امیر کے پاس تم لوگ گواہ رہنا کہ میں وہ شخص ہوں جس نے سب سے پہلے تیر چلایا ہے۔» [21] اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے بھی تیر چلانا شروع کیا۔ [22]

عاشورا کے دن شروع میں جنگ گروہی شکل میں تھی اور اسی ابتدائی حملے میں ہی امام حسینؑ کے بہت سارے یار و انصار شہید ہوئے۔ یہ پہلا حملہ «حملہ اُولی» سے مشہور ہے اور بعض تاریخی روایات کے مطابق امام حسینؑ کے پچاس تک اصحاب اس حملے میں شہید ہوئے۔ اس کے بعد امام حسینؑ کے اصحاب ایک ایک یا دو دو ہوکر میدان میں چلے جاتے تھے۔[23]

مسلم بن عوسجہ کی شہادت اور عبداللہ بن عمیر کی جنگ

عَمرو بن حَجّاج نے امام حسینؑ کی فوج کے دائیں جانب حملہ کیا تو امام کے ساتھیوں نے اس کی پیش قدمی روک دی۔ اور یوں عمرو بن حجاج کی سواری فوج اپنی جگہ واپس چلی گئی اور عقب نشینی کی۔ عقب نشینی کے دوران امامؑ کی فوج نے ان کو اپنے تیروں کی زد میں لیا اور بعض کو مارا اور بعض زخمی ہوئے۔[24]

کوفہ کے بعض سپاہیوں کو تن بہ دن کی لڑائی میں مارنے کے بعد عمر بن سعد نے تن بہ تن کی لڑائی کے لیے آگے جانے سے سب کو منع کیا۔ [25]

عمرو بن حجاج نے ایک بار پھر سے فرات کی جانب سے امام حسینؑ کی فوج پر حملہ کیا اور کچھ عرصہ لڑتے رہے لیکن امام حسینؑ کی فوج کی ثابت قدمی کی وجہ سے ایک بار پھر سے عمرو بن حجاج کی فوج عقب نشینی پر مجبور ہوگئی۔ اس لڑائی میں مسلم بن عوسجہ اسدی شہید ہوگئے۔ [26] کہا جاتا ہے امام حسینؑ کے ساتھیوں میں سے پہلا شہید، مسلم بن عوسجہ تھے۔[27]

تیر اندازی ختم ہونے کے بعد زیاد بن ابیہ کا غلام یسار اور عبیداللہ بن زیاد) کا غلام سالم آگے آکر مبارز طلب کیا تو حبیب بن مظاہر اور بُرَیر بن خُضَیر اپنی جگہے سے کھڑے ہوکر میدان جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن امام حسینؑ نے انہیں اجازت نہیں دی اور عبداللہ بن عُمَیر کَلبی کو میدان جانے کی اجازت دی۔

شمر اور جنگ کا شوق

عَمرو بن حَجّاج کے حملے کے کچھ دیر بعد شمر بن ذی الجوشن نے عمر بن سعد کی فوج کے میمنہ کی لشکر کے ساتھ امام حسینؑ کی میسرہ کی لشکر پر حملہ کیا اور اسے بھی امام حسینؑ کے فوج کی ثابت قدمی کا سامنا کرنا ہوا۔[28]

کوفی فوج کے سپہ سالاروں میں شمر کی طرح بہت ہی کم لوگ دیکھے جاتے تھے جنہیں جنگ کا اتنا شوق ہو۔ اس نے امامؑ کے ہوتے ہوئے آپؑ کے خیموں پر آگ لگانے اور خواتین کو قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں کیا۔[29]

گھمسان کی لڑائی

عاشورا کے دن ظہر سے پہلے دشمن نے امام حسینؑ کی فوج پر ہر طرف سے حملہ کیا۔ امام حسینؑ کی سواری فوج جس میں 32 سے زیادہ جنگجو نہیں تھے اس قدر دفاع کر رہی تھی کہ عمر سعد کی سواری لشکر کے کمانڈر عُزْرَۃِ بْن قَیْس نے عمرسعد سے دوبارہ فوج مانگی۔[30] اس درخواست پر عمر سعد نے حُصَین بن نُمَیر کو بلایا اور زرہ پوش گھوڑوں والی فوج اور پانچ سو تیرانداز کو عزرۃ بن قیس کی مدد کے لیے بھیجا۔ وہ لوگ جب امام کی فوج کے قریب پہنچے تو امامؑ کی فوج پر تیراندازی شروع کی۔[31]

امام حسینؑ کے ساتھی تین تین اور چار چار کے گروپ مین خیموں کے درمیان منتشر ہوگئے اور خیموں کا دفاع کرنے لگے۔ اسی اثناء عمر سعد نے خیموں پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور کوفیوں نے خیموں پر حملہ کیا۔ انہی حملوں میں سے کسی ایک میں شمر نے خیموں کے پیچھے سے اپنے آپ کو امام حسینؑ کے خیموں تک پہنچا دیا زُہَیر بن قَین نے امام حسینؑ کے ساتھیوں میں سے دس نفر کے ساتھ انہیں خیموں سے بھگا دیا۔[32]

ظہر تک جنگ بڑی شدت کے ساتھ جاری رہی۔ [33] اس عرصے میں امام حسینؑ کے بہت سارے ساتھی شہید ہوگئے۔ اس حملے میں مسلم بن عوسجہ کے علاوہ عبداللہ بن عمیر کلبی (جو میسرہ کی لشکر میں تھا)، ہانی بن ثبیت حضرمی اور بکیر بن حی تیمی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ [34] اسی طرح عمرو بن خالد صیداوی، جابر بن حارث سلمانی، عمرو بن خالد کا غلام سعد، مجمع بن عبداللہ عائذی اور اس کا بیٹا عائذ بن مجمع بھی اس حملے میں شہید ہوگئے۔ [35] امامؑ کے بعض دیگر ساتھی جن کی تعداد مورخوں نے پچاس نفر سے زیادہ بتائی ہے وہ بھی اس عرصے میں شہید ہوئے۔ [36]

ظہر عاشورا کے واقعات

وقت نماز اور حبیب کی شہادت

نماز ظہر کا وقت ہوتے ہی اَبوثُمامہ صائِدی نے امامؑ کو نماز کا وقت ہونے کی یاد دہانی کرائی۔ امامؑ نے سر آسمانی کی طرف اٹھایا اور اس کے حق میں دعا کی۔سیدالشہدا نے کہا: «ان سے کہو کہ ہمیں نماز پڑھنے کی مہلت دیں»۔[37]اس وقت ابن سعد کی فوج میں سے حُصَین بن نُمَیر نامی شخص نے بلند آواز سے کہا: حسین کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ حَبیب بن مُظاہِر کو اس بات پر غصہ آیا اور چلایا اور کہا: «تم یہ خیال کرتے ہوئے کہ آل رسولؐ کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تم گدھے کی نماز قبول ہوگی؟» حصین اور اس کے دوست احباب یہ سن کر حبیب ابن مظاہر کی طرف حملہ آور ہوئے اور اس سے لڑنے لگے۔[38] یوں بُدَیل بن صُریم اور حصین بن تمیم نے حبیب کو شہید کیا۔[39]

عاشورا کی نماز ظہر

امام حسینؑ اور اصحاب نماز ظہر ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور یہ طے پایا کہ زہیر بن قین اور سعید بن عبد اللہ حنفی امام حسینؑ اور اصحاب کے سامن سپر بن کر کھڑے ہونگے اور نمازیوں کی حفاظت کرینگے، نماز شروع ہوتے ہی[40]عمر سعد کی فوج نے امام حسین(ع) اور دیگر نمازیوں پر تیر برسانے لگی؛ لیکن زہیر اور سعید نے خود کو سپر بنا لیا اور یوں تیر ان کو لگے۔[41]نماز ختم ہونے کے بعد سعید بن عبد اللہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوئے۔[42]

زہیر بن قین، بریر بن خضیر ہمدانی، نافع بن ہلال جملی، عابس بن ابی شبیب شاکری، حنظلہ بن اسعد شبامی اور... نماز ظہر کے بعد یکے پس از دیگرے میدان کو گئے اور شہید ہوگئے۔[43]

عصر عاشورا کے واقعات

امام رضاؑ میوزم میں موجودکربلا کی عکاسی کرنے والا سب سے بڑا پردہ۔

بنی ہاشم کی شہادت

اصحاب امام حسین کی شہادت کے بعد آپ کے رشتہ دار جنگ کے لیے آگے بڑھے۔ بنی ہاشم میں سب سے پہلا شہید، علی بن حسین، علی اکبر تھے۔[44] علی اکبر امام سے اجازت لینے کے بعد میدان کو چلے اور امام حسینؑ نے ایک دعا میں انہیں ہر حوالے سے پیغمبر اکرمؐ کا شبیہ قرار دیا۔[45]

علی اکبر کی شہادت کے بعد امام حسینؑ کے دوسرے بھائی عباس بن علی سے پہلے شہید ہوئے۔[46]بنی ہاشم کے دوسرے افراد بھی ایک کے بعد دوسرا میدان کو گئے اور شہید ہوئے جن میں عبداللہ بن مسلم بن عقیل، عدی بن عبداللہ بن جعفر طیار، قاسم بن حسن اور ان کا بھائی ابوبکر، ابوالفضل عباس کے بھائی؛ عبداللہ، عثمان و جعفر شامل ہیں۔[47]لیکن ابوالفضل العباس، (فوج کا علمدار اور خیموں کا محافظ) جن کی ذمہ داری پانی لانا تھی اور شریعہ فرات پر مامور پہرہ داروں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔»[48] منقول ہے کہ امام یار و انصار میں سب سے آخری شہید، سُوَید بن عمرو خَثْعَمی تھے۔[49]

امام سجادؑ اور میدان جنگ

تمام یار و انصار کی شہادت کے بعد ابا عبداللہؑ میدان کو گئے اور اس وقت اہل حرم بہت بےچین تھیں۔ اور اس بے چینی کی وجہ سے امام حسینؑ پریشان تھے اور کوفیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

«کیا کوئی ہے جو رسول خداؐ کی حرم کا دفاع کرے؟ اور کیا کوئی خداپرست تم میں نہیں ہے جو ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرے؟ کیا اللہ کے لئے ہماری فریاد سننے والا ہے؟ کیا اللہ کی خاطر ہماری مدد کرنے والا کوئی ہے؟»[50]

کوفیوں کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو امام حسینؑ نے شہدا کی طرف رخ کر کے ان سے کہا:

«اے حبیب بن مظاہر، اے زہیر بن قین اور اے مسلم بن عوسجہ! اے جنگ کے دلیرو اور ماہر جنگجو، میں تمہیں پکار رہا ہوں کیوں تم لوگ میرا جواب نہیں دیتے؟ تمہیں بلا رہا ہوں جواب کیوں نہیں دیتے؟ تم سوئے ہوئے ہو لیکن مجھے امید ہے کہ تم بیدار ہوجاؤ، یہ آل رسول کی حرم ہیں جن کے لیے تمہارے بعد کوئی مددگار نہیں ہے۔ بیدار ہوجاو اے کریم لوگو! ان گناہگار اور ظالم لوگوں سے آل رسول کا دفاع کرو۔».

امام حسینؑ کی آواز سن کر آہ و فریاد بلند ہوا۔ نقل ہوا ہے کہ اس وقت امام سجّادؑ ایک عصا پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے والد کی آواز سن کر خیمے سے باہر آئے؛ لیکن اتنی طاقت نہ تھی کہ تلوار اٹھا سکے۔ امام حسینؑ، امام سجادؑ کی طرف متوجہ ہوئے؛ اور پھر ام کلثوم سے مخاطب ہو کر فرمایا: «انہیں واپس لے جاؤ کہیں زمین محمدؐ کی نسل سے خالی نہ ہوجائے۔»[51]

اہل حرم سے وداع

امام حسینؑ خیمگاہ لوٹے اور اہل حرم کو صبر کی تلقین کی، خواتین، عورتیں، بہنیں، بیٹیوں اور بچوں سے وداع کیا۔ آپ کے لیے ایک قمیص لائی گئی اسے کئی جگہوں سے پھاڑ کر زیب تن کیا تاکہ عمر سعد کی فوج کی غارت گری سے محفوظ رہے اور پھر اسے کپڑوں کے نیچے پہن لیا؛ لیکن یہی قمیص بھی غارت ہوئی![52]

شہادت علی اصغر

امام حسینؑ نے جب شیر خوار علی اصغر کو دیکھا کہ پیاس کی وجہ سے بہت بےتابی کر رہا ہے تو آپ نے اسے اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر دشمنوں کی طرف لے گیا اور کہا: «اے لوگو! اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے ہو تو اس شیرخوار بچے پر تو رحم کرو!»۔ تو فوج کے درمیان سے حرملۃ بن کاہل اسدی نے ایک تیر بچے کے گردن پر مارا اور یوں بچے کی گود میں شہید ہوگیا۔[53]

سیدالشہدا کی جنگ اور شہادت

جنگ

اگرچہ یار و انصار کی شہادت کے بعد امام حسین(ع) اکیلے رہ گئے تھے، لیکن کوئی بھی امامؑ کے مقابلے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ ایک بار امامؑ نے پانی پینے کا قصد کیا تو کسی نے آپ کے دہان مبارک پر ایک تیر مارا اور کہا گیا ہے کہ جب آپ نے اپنی سواری کو شریعہ فرات کی جانب بڑھایا تو دشمنوں نے آپ کو روکا۔[54]امام حسین(ع) اگرچہ اکیلے تھے اور بدن اور سر پر شدید زخم آئے تھے لیکن اس کے باوجود پوری شجاعت کے ساتھ تلوار چلا رہے تھے۔[55] حمید بن مسلم ازدی کہتا ہے: « خدا کی قسم ایسے کسی مصیبت زدہ شخص کو نہیں دیکھا تھا جس کے بیٹے اور خاندان اور دوست احباب مارے گئے ہوں اور اس طرح شجاعت کے ساتھ لڑے۔ پیدل فوج ہر طرف سے آپ پر وار کرتی تھی اور پھر دائیں بائیں اس طرح سے بھاگ جاتے تھے جس طرح سے بھیڑ بکریاں بھیڑئے سے بھاگتی ہیں۔»[56] سید بن طاووس نے بھی نقل کیا ہے کہ جب امام حسینؑ نے دشمنوں کی صفوں پر حملہ کیا تو ایک ہی دفعے میں پوری تیس ہزار کی لشکر پیچھے چلی گئی اور ٹڈی کی طرح منتشر ہوگئی۔[57]

کچھ عرصہ لڑنے کے بعد، امام حسینؑ اہل حرم کی طرف واپس آئے اور خواتین کو صبر کی تلقین کی۔[58]پھر اہل حرم کی ایک ایک خواتین سے خداحافظی کیا۔[59]پھر امام سجّاد(ع) کے سرہانے گئے۔[60]جب امامؑ اہل حرم سے واع کرنے میں مشغول تھے تو عمر بن سعد کے حکم سے کوفیوں نے خیموں پر حملہ کیا اور تیر اندازی کی جس کی وجہ سے بعض خیمے بھی پھٹ گئے اور اہل حرم میں خوف و ہراس پھیل گیا۔[61]

امامؑ نے عاشورا کے دن خیموں کے قریب اپنے لیے ایک جگہ معین کیا تھا جہاں سے دشمن میں حملہ کرنے کے بعد واپس وہیں آتے تھے اور بلند آواز سے «لاحول و لاقوۃ الا باللہ العلی العظیم» پڑھتے تھے تاکہ اہل حرم سن سکے اور ان سے خوف کم ہوجائے۔[62] کئی مرتبہ حملہ کرنے اور واپس آںے کے بعد، شمر بن ذی الجوشن آپؑ اور خیموں کے درمیان حائل ہوا۔ حسین بن علیؑ نے جب یہ دیکھا تو ندا بلند کی: واے ہو تم پر اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو کم از کم اپنی دنیا میں تو آزاد جیو۔[63]

شہادت

شمر کی کمانڈ میں پیدل فوج نے امام حسینؑ کو گھیرے میں ڈالا لیکن آگے بڑھنے کی کسی میں جرائت نہیں تھی اور شمر بار بار انہیں حملہ کرنے پر اگساتا تھا۔[64]شمر بن ذی الجوشن نے تیر اندازوں کو امام حسینؑ پر تیر باران کرنے کا حکم دیا۔ تیروں کی کثرت سے امامؑ کا بدن تیروں سے بھر گیا۔[65] امام حسینؑ کچھ پیچھے ہٹے تو دشمن نے آپؑ کے مقابلے میں صفیں باندھ لیں۔[66]جنگ کی تھکاوٹ اور جراحات کی وجہ سے امامؑ میں اب طاقت نہ رہی تھی اس لئے کچھ آرام کی غرض سے رک گیا اور اسی لمحے آپ کی پیشانی پر ایک پتھر آ لگا اور خون جاری ہوا۔ دامن سے چہرے کا خون صاف کرنا چاہا تو ایک سہ شعبہ زہر آلود تیر آپ کے دل پر اصابت کر گیا اور خون جاری ہوا۔[67] مالک بن نُسَیر نے تلوار سے امام حسینؑ کے سر پر ایک وار کیا اور امام کی جنگی خود کا بند ٹوٹ گیا۔[68] زرعۃ بن شریک تمیمی نے آپ کے بائیں کاندھے پر ایک ضربت لگائی اور سَنان بن اَنَس نے آپ کے حلق مبارک پر ایک تیر مارا۔ پھر صالح بن وہب جعفی (ایک نقل کے مطابق سنان بن انس) سامنے آیا اور آپ کے پہلو پر پر وار کیا جس سے آپ دائیں جانب سواری کی زین سے زمین پر آگئے۔[69]

شمر بن ذی الجوشن عمر سعد کی فوج کے ایک گروپ کے ساتھ جس میں ابوالجنوب عبدالرحمن بن زیاد، قشعم بن عمرو بن یزید ہردوان جعفی، صالح بن وہب یزنی، سنان بن انس نخعی اور خولی بن یزید اصبحی شامل تھے؛ امام حسین کی سمت آئے اور شمر نے انہیں امام حسینؑ کا کام ختم کرنے پر اگسایا؛[70] لیکن کوئی نہیں مان رہا تھا۔ اس نے خولی بن یزید سے کو امام حسین کا سر جدا کرنے کا حکم دیا۔ جب خولی قتلگاہ کی گودی میں پہنچا تو ہاتھ کانپا اور بدن لرزنے لگا اور انجام نہ دے پایا۔ شمر[71] یا این قول کے مطابق سنان بن انس[72] گھوڑے سے اترا اور امام حسینؑ کے سر کو جدا کیا اور خولی کے سپرد کیا۔ [73]

حسین بن علیؑ کی شہادت کے وقت بدن پر تلوار کی ۳۳ اور نیزوں کی ۳۴ نیزوں کے زخم تھے۔ [74] اور شہادت کے بعد کپڑے اور دیگر چیزوں کو غارت کیا اور بدن برہنہ کردیا۔

استاد فرشچیان کی عصر عاشور کی منظر کشی

عبداللہ بن حسن کی شہادت

جب امام حسینؑ نرغہ اعداء میں اپنی عمر کے آخری لحظات گزار رہے تھے تو عبداللہ بن حسن کے نام سے ایک بچہ اس حادثے کو دیکھ کر، حضرت زینب کی منع کرنے کے باوجود خیمے سے باہر آیا اور دوڑتا ہوا اپنے چچا کی طرف بڑھا۔ جب بحر(ابجر) بن کعب-یا ایک قول کے مطابق حرملۃ بن کاہل اسدی- نے تلوار سے امام حسینؑ پر وار کیا، عبداللہ نے اپنا ہاتھ کو امام کے لیے سپر کردیا تو تلوار کی وار سے ہاتھ کٹ گیا۔[75]

امام حسینؑ کی شہادت کے بعد

خیموں کا تاراج

امام حسینؑ کی شہادت کے بعد فوج اشقیا نے خیموں پر حملہ کیا اور گھوڑے، اونٹ، سامان، کپڑے اور خواتین کی زیورات کو چھین لیا۔ اور ایک دوسرے سے سبقت لی۔[76] شمر، امام سجادؑ کو قتل کرنے کی قصد سے ایک گروہ کے ہمراہ خیموں میں آگیا تو جناب زینب اس کام سے مانع بنی۔ یا ایک اور نقل کے مطابق عمر سعد کی فوج کے میں سے بعض افراد نے اس کام پر اعتراض کیا۔ [77] عمر سعد نے خواتین کو ایک خیمے میں جمع کیا اور بعض کو ان کی حفاظت پر مامور کیا۔ [78]

امام حسینؑ کے بدن پر گھوڑے دوڑانا اور شہداے کربلا کے سروں کو جدا کرنا

عمر بن سعد نے اسی دن امام حسینؑ کے سر کو خولی بن یزید اصبحی اور حُمَید بن مسلم ازدی کے ساتھ عبیداللہ بن زیاد کی طرف بھیجا۔ اس نے شہدای کربلا کے سروں کو بھی جدا کرنے کا حکم دیا اور 72 سروں کو شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث اور عَمرو بن حَجّاج کے ساتھ کوفہ روانہ کر دیا۔ [79]

ابن زیاد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عمر سعد کی حکم سے کوفی فوج کے دس افراد جن میں اِسحاق بن حَیوَہ اور اَخنَس بن مَرثَد بھی تھے، نے امام حسینؑ کے بدن پر گھوڑے دوڑائے اور بدن کو پامال کیا۔ُ[80]

عاشورا کی شام اور اسراے کربلا

دشمن کی فوج نے عاشورا کی شام خواتین کو خیموں سے نکال دیا اور خیموں پر آگ لگا دیا۔ [81] اس وقت خواتین فریاد کرتی تھی اور جب اپنے مردوں کی بدن پر نظر پڑتی تو اپنے چہرے پر طمانچے مار کر فریاد کرتی تھیں۔ [82] عمر بن سعد نے امام حسینؑ اور ان کے سروں کو ابن زیاد کے پاس بھیجنے[83] کے بعد خود اپنی فوج کے بعض افراد کے ہمراہ اس رات کربلا میں رہا اور اگلے دن اپنے مردوں کو دفن کرنے کے بعد ظہر کے قریب امام حسینؑ کے اہل حرم کے ساتھ کوفہ کی جانب نکلا۔ [84] نقل ہوا ہے کہ گیارہ محرم کی رات شام غریبان تھی۔ حضرت زینبؑ نے نماز شب ترک نہیں کی؛ لیکن کمزوری کی وجہ سے اس رات نماز بیٹھ کر پڑھی۔ [85]

مربوط مطالب

حوالہ جات

  1. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۷۹م، ص۱۸۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۱۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۹. خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۱، ص۲۴۹؛ طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدی، ج۱، ص۴۵۴.
  2. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۱۷؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۱؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ص۵۷.
  3. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۳
  4. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۲؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۶، ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۵، ص۱۰۱؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۵، ص۵۹
  5. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۲؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج۲، ص۹۵؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۹
  6. شیخ مفید؛ الارشاد، ج۲، ص۹۶
  7. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵-۳۹۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۳-۴۲۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۶
  8. شیخ صدوق، الامالی، مجلس ۲۴، ص۱۷۷، ح ۳ و مجلس ۷۰، ص۵۴۷، ح ۱۰. سید ابن طاووس، اللہوف، ص۷۰
  9. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵-۳۹۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۲-۴۲۶
  10. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵-۳۹۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۲؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، صص۹۵-۹۶؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص.۶۰
  11. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۶؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، ج۴، صص۶۰-۶۱
  12. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۴
  13. خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸
  14. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج۵، ص۱۰۰؛ خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ مقرم، مقتل الحسین(ع)، صص۲۳۲-۲۳۳
  15. طبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۴-۴۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۵-۳۹۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۶–۹۸
  16. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۴-۴۲۷
  17. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۵-۴۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۷
  18. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۳-۴۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۳-۳۹۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۸
  19. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۷؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۲، ص۹.
  20. شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۴.
  21. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۹؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۱
  22. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۹۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۱
  23. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰
  24. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۰-۴۳۶.
  25. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۰-۴۳۷.
  26. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، صص۴۳۵-۴۳۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، صص۱۰۳-۱۰۴
  27. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۰
  28. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۶-۴۳۸
  29. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص ۴۳۸-۴۳۹.
  30. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۷-۴۳۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۴
  31. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۶ـ۴۳۷.
  32. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۷-۴۳۹؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۵.
  33. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، صص۴۳۷- ۴۳۸
  34. محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۷ و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۸
  35. محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۶
  36. ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج۵، ص۱۰۱
  37. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۳۸-۴۳۹؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۰.
  38. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، صص۴۳۹.
  39. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، صص۴۳۹-۴۴۰.
  40. خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۲، ص۱۷؛ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص۱۱۰-۱۱۱.
  41. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۱؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج۲، ص۱۰۵.
  42. سید بن طاوس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص۱۱۱.
  43. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۱؛ خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۲، ص۲۰.
  44. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۶؛ ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸؛ ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص۴۹
  45. ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۱۱۵-۱۱۶
  46. ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۰-۸۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹
  47. ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۹-۹۵؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن سعد، ج۶، ص۴۴۰-۴۴۲؛ دینوری، ص۲۵۶-۲۵۷
  48. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۱۰۸
  49. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، صص۴۴۶، ۴۵۳
  50. خوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج۲، ص۳۲؛ سید بن طاوس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص۱۱۶؛ ابن نما، مثیر الاحزان، ص۷۰
  51. خوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج۲، ص۳۲.
  52. سید بن طاوس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص۱۲۳؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۹؛ الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۱-۴۵۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱
  53. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۸؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۹۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۸
  54. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۷؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۹-۴۵۰؛ ابن سعد، الطبقات الکبیر، ج۶، ص۴۴۰؛ دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۸
  55. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۲؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، ج۲، ص۸۰ و ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷
  56. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۲؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، ج۲، ص۸۰؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷
  57. سید بن طاوس؛ اللہوف، ص۱۱۹؛ موسوی مقرم، مقتل الحسین(ع)، ص۲۷۶
  58. محمد باقر مجلسی، جلاء العیون، ص۴۰۸؛ عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص۲۷۶-۲۷۸
  59. ابن شہرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ص۱۰۹؛ عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص۲۷۷
  60. المسعودی، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابیطالب(ع)، ص۱۷۷-۱۷۸
  61. عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص۲۷۷-۲۷۸
  62. سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۱۹
  63. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۷؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۰؛ محمد ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، ج۶، ص۴۴۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۱۸
  64. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۷- ۴۰۸
  65. شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱-۱۱۲؛ خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۲، ص۳۵؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ص۱۱۱
  66. شیخ مفید، الارشاد، ج۲، صص۱۱۱-۱۱۲
  67. خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۲، ص۳۴؛ سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۲۰
  68. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۰۳؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۴۸؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۰.
  69. دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۵۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۷-۴۰۹؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۲.
  70. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۷-۴۰۹؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۰؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۸۷
  71. شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۲؛ خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج۲، ص۳۶؛ طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدی، ج۱، ص۴۶۹
  72. طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۰- ۴۵۳؛ ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، ج۶، ص۴۴۱؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۱۸؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۲۵۸؛ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۲؛ سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۲۶
  73. ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، ج۶، ص۴۴۱ و ج۳، ص۴۰۹؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۳؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص۱۱۸؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۲۵۸
  74. مسعودی، مروج الذہب، ج۳، صص۲۵۸ـ۲۵۹
  75. شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۰؛ سید بن طاوس، اللہوف، صص۱۲۲-۱۲۳ و طبرسی؛ اعلام الوری بأعلام الہدی، ج۱، صص۴۶۷-۴۶۸
  76. قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹
  77. قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰
  78. قمی، نفس المہموم، ص۴۸۲
  79. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۱۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۵؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۲۵۹
  80. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۱۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج۵، ص۴۵۵؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۲۵۹.
  81. مراجعہ کریں: الوان ساز خویی، وقایع الأیام، ج۲، ص۱۳۵و۱۵۱
  82. مراجعہ کریں: رسولی، زینب عقیلہ بنی‌ہاشم، ج۱، ص۵۵
  83. مراجعہ کریں: قمی، در کربلا چہہ گذشت؟ (ترجمہ نفس المہموم)، ص۴۸۶
  84. رسولی، زینب عقیلہ بنی‌ہاشم، ج۱، ص۶۱و۶۲
  85. محسن زادہ، سر نینوا زینب کبری(س)، ص۱۵۸

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر-داربیروت، ۱۹۶۵.
  • ابن اعثم الکوفی، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، ۱۹۹۱.
  • ابن الدمشقی، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی(ع)، تحقیق محمد باقر المحمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۴۱۶.
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۹۹۲.
  • ابن شداد، عزالدین ابی عبداللّہ، الاعلاق الخطیرہ فی ذاکر امراء الشام و الجزیرہ، تحقیق سامی الدہان، دمشق ۱۳۸۲ / ۱۹۶۲.
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، قم، علامہ، ۱۳۷۹ق.
  • ابن طیفور، احمد، بلاغات النساء، قم، بی‌تا.
  • ابن عبدربہ، العقد الفرید، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۰۴.
  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵.
  • ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۹۸۶.
  • ابن منظور، لسان العرب، بیروت، دارصادر، چاپ سوم، ۱۴۱۴، ج۱۵.
  • ابن نما حلی، مثیر الاحزان، قم، مدرسہ امام مہدی(عج)، ۱۴۰۶.
  • ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران، سروش، چاپ دوم، ۱۳۷۹ش.
  • ابومخنف ازدی، مقتل الحسین(ع)، تحقیق و تعلیق حسین الغفاری، قم، مطبعۃ العلمیہ، بی‌تا.
  • اصفہانی، علی ابوالفرج، مقاتل الطالبین، بہ کوشش احمد صقر، قاہرہ، ۱۳۶۸ق/ ۱۹۴۹م.
  • اصفہانی، علی ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا، ۱۹۹۲م.
  • الوان‌ساز خویی، محمد، وقایع الأیام فی تتمۃ محرم الحرام، محقق علی تبریزی خیابانی، قم، غرفۃ الإسلام، ۱۳۸۶.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ؛ تحقیق حسن الامین، بیروت، دارالتعارف، بی‌تا.
  • بحرانی، عبداللہ، العوالم الامام الحسین(ع)، تحقیق مدرسہ الامام المہدی(عج)، قم، مدرسہ الامام المہدی(عج)، چاپ اول، ۱۴۰۷.
  • بَلاذُری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، ۱۴۱۷ق، ۱۹۹۶م.
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس عظم، دمشق ۱۹۹۶ـ۲۰۰۰.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق احسان عباس، بیروت، جمیعۃ المتشرقین الامانیہ، ۱۹۷۹م.
  • تاریخ امام حسین علیہ‌السلام: موسوعۃ الإمام الحسین علیہ‌السلام، سازمان پژوہش و برنامہ ریزی آموزشی، دفتر انتشارات کمک آموزشی، تہران، ۱۳۷۸ش.
  • ثقفی کوفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تحقیق: السید جلال الدین الحسینی الارموی المحدث، تہران: سلسلہ انتشارات انجمن آثار ملی، ۲۵۳۵.
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین(ع)، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم، مکتبۃ المفید، بی‌تا.
  • دایرۃ المعارف تشیع، زیر نظر احمد صدر، کامران فانی، بہاءالدین خرمشاہی، تہران، مؤسسہ انتشاراتی حکمت، چ اول، ۱۳۹۰ ش/ ۱۴۳۲ ق.
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ دہخدا، ج۶، تہران: ۱۳۷۷ش.
  • دینوری، ابوحنیفہ احمد بن داوود، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات رضی، ۱۳۶۸ش.
  • راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی(عج)، چاپ اول، ۱۴۱۵.
  • رسولی، ہاشم، زینب عقیلہ بنی‌ہاشم، تہران، مشعر.
  • سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین، تحقیق محمد جعفر الطبسی، مرکز الدرسات الاسلامیہ لممثلی الولی الفقیہ فی حرس الثورۃ الاسلامیہ، چاپ اول.
  • سید بن طاوس، اللہوف فی قتلی الطفوف، قم، انوار الہدی، چاپ اول، ۱۴۱۷.
  • سید بن طاوس؛ اللہوف علی قتلی الطفوف، نجف، ۱۳۶۹ ق.
  • سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، چاپ مہدی رجائی، قم، ۱۴۰۵.
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی فاطمہ زہرا(ع)، تہران ۱۳۶۴ش.
  • شیخ صدوق، الامالی، کتابخانہ اسلامیہ، ۱۳۶۲ش.
  • شیخ مفید، الارشاد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.
  • طبرانی، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید السلفی، بی‌جا،‌دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، ۱۴۰۳.
  • طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، چاپ سوم، ۱۳۹۰ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷ق.
  • قرمانی، احمد بن یوسف، اخبار الدول، تحقیق فہمی سعد و احمد حطیط، بیروت، عالم الکتب، چاپ اول، ۱۹۹۲.
  • قمی، عباس، نفس المہموم؛در کربلا چہ گذشت، ترجمہ محمدباقر کمرہ‌ای، مسجد جمکران، قم، چاپ ہشتم، ۱۳۸۱ ش.
  • قندوزی؛ ینابیع المودہ لذوی القربی، تحقیق سیدعلی جمال اشرف حسینی،‌دار الاسوہ، چاپ اول، ۱۴۱۶ق.
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، مشہد، دانشگاہ مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال. تحقیق محیی الدین المامقانی و محمدرضا المامقانی، قم، آل البیت(ع)، لاحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۳۰.
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار الجامعۃ لدرر اخبار الأئمۃ الاطہار، تہران، اسلامیہ، بی‌تا.
  • مجلسی، محمد باقر، جلاء العیون، جاویدان، بی‌تا.
  • محسن‌زادہ، محمدعلی، سر نینوا، زینب کبری علیہا السلام، جلد۱، تہران، مشعر، ۱۳۸۸.
  • محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیہ فی مناقب الائمۃ الزیدیہ، صنعاء، مکتبۃ بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳.
  • محمد بن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، بہ کوشش علی محمد عمر، قاہرہ، ۱۴۲۱ ق، ۲۰۰۱ م.
  • محمد بن سعد؛ الطبقات الکبری، تحقیق محمد بن صامل السلمی، طائف، مکتبۃ الصدیق، چاپ اول، ۱۹۹۳، خامسہ۱.
  • مسعودی، علی بن الحسین، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابیطالب(ع)، بیروت،‌دار الاضواء، چاپ دوم، ۱۹۸۸.
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرہ، چاپ دوم، ۱۴۰۹.
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب، بہ کوشش شارل پلا، بیروت، ۱۹۷۴ م.
  • مفید، محمدبن محمدبن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّہ علی العباد، قم ۱۴۱۳.
  • موسوی المقرم، عبد الرزاق، مقتل الحسین(ع)، بیروت، دارالکتاب الاسلامیہ، چاپ پنجم.
  • میدانی، ابوالفضل احمد بن محمد، مجمع الأمثال، تعلیق نعیم حسین زرزور، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۹۸۸.
  • ہیثمی؛ مجمع الزوائد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۸۸.
  • یعقوبی، احمد، تاریخ، نجف، ۱۳۵۸ ق.