ثعلبیہ
ثعلبیہ کوفہ اور مکہ کے درمیان راستے میں خزیمیہ اور زرود کے بعد ایک منزل کا نام ہے ۔ کربلا سے متعلق واقعات میں ابو ہرہ ازدی نے امام حسین ؑ سے اس مقام پر گفتگو کی تھی۔بعض نے لکھا ہے کہ اس مقام پر امام کو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تھی۔نیز بزرگ تہرانی نے ابن اعلم علوی حسینی کی شہادت بھی اسی جگہ ذکر کی ہے ۔
محل وقوع اور نام گذاری
ثعلبی ثعلب کا اسم منسوب ہے ۔ مکہ سے کوفہ کے راستے میں خزیمیہ کے بعد اور شقوق سے پہلے ثعلبیہ آتا ہے ۔اس سے نیچے کی جانب پانی کا مقام ہے جسے "ضویجعۃ" کہتے ہیں ۔اس کے ساتھ "برک حمد السبیل" پھر "رمل" ہے جو "خزیمیہ" سے متصل ہے[1] ۔اسکی نام گذاری میں درج ذیل دو وجہیں بیان ہوئی ہیں :
- ثعلبہ بن عمرو کے رہنے کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ۔
- ثعلبہ بن دودان بن اسد پہلا شخص تھا جس نے یہاں پڑاؤ ڈالا اور کنواں کھودا ۔اس وجہ سے ثعلبیہ کہلانے لگا[2]۔
ثعلبیہ سے بطان تک کا فاصلہ 29 اور خزیمیہ تک کا فاصلہ 32 میل ہے [3]۔نیز مکہ سے کوفے کے راستے کے ثلث پر واقع ہے [4]۔۔عبد الاعلی بن عامر ثعلبی اسی جگہ سے منسوب ہے وہ محمد بن حنفیہ اور سعید بن جبیر سے روایت نقل کرتا ہے اور إسرائيل ،أبو عُوَانة اور شريك اس سے روایت کرتے ہیں [5]۔۔
واقعات
ابن اعثم کوفی کے مطابق امام حسین ؑ نے اس مقام پر خواب دیکھا ۔ آنکھ کھلی تو کلمۂ استرجاع کی تلاوت کی اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے قتل ہونے کی خبر دی ۔حضرت علی اکبر کا معروف جملہ :
- فَإِنَّنَا إِذاً لَا نُبَالِی أَنْ نَمُوتَ مُحِقِّین
- جب حق پر ہیں تو ہمیں موت سے کسی قسم کا خوف دامن گیر نہیں
اسی جگہ پر منقول ہے [6]۔دیگر مقاتل میں یہ خواب ،حضرت امام حسین ؑ اور علی اکبر کی باہمی گفتگو قصر بنی مقاتل کی جگہ سے منقول ہوئی ہے [7]۔
بعض مآخذوں کے مطابق امام حسین ؑ اسی جگہ مسلم بن عقیل کی شہادت سے با خبر ہوئے [8]۔لیکن دوسرے بعض مآخذوں میں مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر زرود[9]،قادسیہ[10] یا قطقطانہ[11] میں پہنچی ۔
بعض مؤلفین ابن اعلم علوی حسینی کی وفات کو حج سے واپسی کے موقع پر 375ق میں اسی مقام پر نقل کرتے ہیں[12] لیکن قفطی نے "عسیلہ" کے مقام پر اس کی وفات کو نقل کرتا ہے [13] ۔
امام حسین اور ابو ہرہ ازدی
ابو ہرہ ازدی: فرزند رسول! کیوں خانۂ خدا اور اپنے جد کے حرم سے باہر آئے ہیں؟
حسین بن علی: اے ابا ہرہ! بنی امیہ نے میرا مال لے لیا اور مجھے تہی دست کر دیا۔ انہوں نے میری عزت سے کھیلا میرے باپ اور ماں کو دشنام دیا میں نے صبر کیا۔ لیکن انہوں نے پھر بھی مجھ سے ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ میرے قتل کے در پے ہیں اس لئے نکل آیا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! یہ جماعت مجھے قتل کرے گی اور خدا انہیں ذلت کے ایسے لباس سے آراستہ کرے گا کہ تیز دھار تلواریں اور ایسی جماعت ان پر مسلط کرے گا کہ یہ سب سے زیادہ ذلیل ہونگے۔ عورت ان پر مسلط ہوگی اور وہ ان کی جان و مال پر حکم لگائے گی اور انہیں مجبورا حکم ماننا پڑے گا۔[14] ۔
حوالہ جات
- ↑ حموی، معجمالبلدان، ج۲، ۷۸.
- ↑ حموی، معجمالبلدان، ج۲، ۷۸.
- ↑ مقدسی، احسنالتقاسیم، ص۲۵۱.
- ↑ حموی، معجمالبلدان، ج۲، ۷۸.
- ↑ حموی، معجمالبلدان، ج۲، ۷۸.
- ↑ ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۷۰-۷۱.
- ↑ شیخ مفید، ارشاد، ج۲، ص۸۲
- ↑ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۴۲؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۳۹۷؛ شیخ مفید، ارشاد، ج۲، ص۷۵.
- ↑ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۶؛ طبری، ج۵، ص۳۹۷.
- ↑ مسعودی، مروجالذهب، ج۳، ص۶۰-۶۱
- ↑ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۳.
- ↑ آقابزرگ، الذریعہ، ج۱۲، ص۸۱.
- ↑ قفطی، اخبارالحکماء، ص۱۵۷.
- ↑ ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۷۱. بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۶۷-۳۶۸.
مآخذ
- شیخ مفید، الإرشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ ق.
- ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، کتاب الفتوح، تحقیق: علی شیری، دارالأضواء، بیروت، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م.
- دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، تحقیق: عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، منشورات الرضی، قم، ۱۳۶۸ش.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
- ابن اثیر، علی بن ابی کرم، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، بیروت، بیتا.
- مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، دارالہجرة، قم، ۱۴۰۹ق.
- قفطی، علی، اخبارالحکماء، قاہره، ۱۳۲۶ق /۱۹۰۸م.
- آقا بزرگ، الذریعہ إلی تصانیف الشیعہ، اسماعیلیان، قم، ۱۴۰۸ ق.
- حموی بغدادی، یاقوت، معجم البلدان، دارصادر، بیروت، ۱۹۹۵م.
- مقدسی، محمد بن احمد، أحسن التقاسیم فی معرفۃ الأقالیم، مکتبہ مدبولی، القاہره، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م.