بیضہ

ویکی شیعہ سے

بیضہ کا مقام مکہ اور کوفہ کے قدیمی راستے کے درمیان واقع ہے جو بنی یربوع بن حنظلہ کی زمین میں واقع ہے اور واقصہ اور عذیب الہجانات کے نزدیک ہے [1]۔حضرت امام حسین ؑ کے اس جگہ پر پڑاؤڈالنے کی وجہ سے اہل شیعہ کے نزدیک اہمیت کا مقام ہے ۔

خطبۂ امام حسین ؑ

حضرت امام حسین ؑ نے کربلا جاتے ہوئے ذو حسم سے بیضہ پہنچے تو وہاں اپنے اصحاب اور حر بن یزید ریاحی کے سپاہیوں کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر اس کے بعد عذیب الہجانات کی طرف سفر شروع کیا[2] ۔ابن اعثم کوفی اور خوارزمی نے اس خطبے کو ایک خط کی صورت میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام نے کوفہ کے اشراف کیلئے عذیب الہجانات سے یہ خط لکھا تھا[3]۔

خطبہ

خدا کی حمد و سپاس کے بعد آپ نے فرمایا:

أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) قالَ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ».
ألا وَ إِنَّ هؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَةَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَ اللّهِ، وَ أَنَا أَحَقُّ مَنْ غَیَّرَ. قَدْ أَتَتْنی کُتُبُکُمْ، وَ قَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ بِبَیْعَتِکُمْ أَنَّکُمْ لا تُسَلِّمُونی وَ لا تَخْذُلُونی، فَاِنْ تَمَمْتُمْ عَلى بَیْعَتِکُمْ تُصیبُوا رُشْدَکم۔
فَأَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِىٍّ، وَابْنُ فاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّهِ(صلى الله علیه وآله)، نَفْسی مَعَ أَنْفُسِکُمْ، وَ أَهْلی مَعَ أَهْلیکُمْ، فَلَکُمْ فِىَّ أُسْوَةٌ، وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ نَقَضْتُمْ عَهْدَکُمْ، وَخَلَّعْتُمْ بَیْعَتی مِنْ أَعْناقِکُمْ فَلَعَمْری ما هِىَ لَکُمْ بِنُکْر، لَقَدْ فَعَلْتُمُوها بِأَبی وَ أَخی وَابْنِ عَمِّی مُسْلِم! وَالْمَغْرُورُ مَنِ اغْتَرَّ بِکُمْ، فَحَظُّکُمْ أَخْطَأْتُمْ، وَ نَصیبُکُمْ ضَیَّعْتُمْ (فَمَنْ نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَى نَفْسِهِ) وَ سَیُغْنِى اللّهُ عَنْکُمْ، وَ السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکاتُهُ[4]
لوگو... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوشخص کسی ایسے بادشاہ کو دیکھتا ہے جو ظالم و جابر ہےجو اللہ رب العزت کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کررہاہے ، خدا سے کیئے ہوئے عہد کو توڑ رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تہس نہس کر رہا ہے، خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کررہا ہے اور پھر بھی اس شخص کو غیرت نہ آئے وہ نہ زبان سے وہ اس ظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے نہ عملی طور پر ظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو خدا کو یہ حق ہے کہ وہ اس ظالم بادشاہ کی جگہ اس شخص کو دوزخ کی آگ میں جھونک دے۔
لوگو... خبر دار ہوجاؤ یہ لوگ شیطان کی اطاعت قبول کر چکے ہیں۔ اور رحمان کی اطاعت سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں نے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیا ہے حدود اللہ کو پامال کردیا ہے۔ مال غنیمت میں سے اپنے لئے زیادہ وصول کرنے لگے ہیں ، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر لیا ہے اور حلال چیزوں کو حرام کر دیا ہے۔اس لئے میں حق بجانب ہوں کہ مجحے غیرت آئے۔تمہارے خطوط میرے پاس آئے ،تمہارے قاصدین اس بات پر تمہاری بیعت کی خبر لے کر آئے کہ تم مجھے تنہا نیں چھوڑو گے،پس اگر تم نے اپنی وعدۂ بیعت کو پورا کیا تو تم رشد و کمال کو پاؤ گے۔
میں علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ کا بیٹا حسین ہوں ،میں تمہارے ساتھ ہوں ،میرے اہل خانہ تمہارے اہل خانہ کے ساتھ ہیں ۔میں تمہارے لئے تمہارے لئے اسوہ ہوں؛ اگر تم نے نہ کیا ، تم نے اپنے عہد کو توڑا اور میری بیعت سے اپنی گردنوں کو آزاد کیا تو خدا کی قسم !تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ تم نے اس سے پہلے میرے باپ ، میرے بھائی اور میرے بھتیجے کے ساتھ ایسا ہی کیا ۔اس نے دھوکہ کھایا ہے جس نے تم سے دھوکہ کھایا ہے ،تم نے اپنی سعادت میں خطا کی اور تم ہی ہو جس نے اپنا حصہ ضائع کیا جس نے (اپنے) عہد کو توڑا تو اس نے اپنے نفس کا نقصان کیا ۔جلدی خدا مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا ۔تم پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکات نازل ہوں ۔

حوالہ جات

  1. حموی، معجم‌البلدن، ج۱، ص۵۳۲.
  2. طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۰۳-۴۰۴
  3. مقتل جامع امام حسین(ع)، ج1، ص666، تعلیقہ 3
  4. طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۰۳.

مآخذ

  • حموی بغدادی، یاقوت، معجم البلدان، دارصادر، بیروت، ۱۹۹۵ م.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.

٭مقتل جامع امام حسین(ع)