کربلا

تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(کربلائے معلی سے رجوع مکرر)
کربلا
عمومی معلومات
عمومی معلومات۳۲°۲۲′ شمالی ۴۴°۰۱′ شرقی / ۳۲٫۳۷° شمالی ۴۴٫۰۲° شرقی / 32.37; 44.02
ملکعراق
صوبہکربلا
رقبہ52856 مربع کیلومٹر
آبادی1 میلین
نامکربلا
زبانعربی عراقی
قومیتعربی
ادیاناسلام
مذہبشیعہ
تاریخی خصوصیات
قدیمی نامنینوا، غاضریہ، طف، نوانویس
سال تأسیسسن 2 ہجری
تاریخقبل از اسلام عصر بابلی
اہم واقعاتواقعہ کربلا، تخریب حرم امام حسینؑ، انتفاضہ شعبانیہ، وہابیوں کا کربلا پر حملہ، نجیب پاشا کا واقعہ
تاریخی مقاماتقلعہ الأخیضر، خان الربع مسافر خانہ(النخیلہ)
اماکن
زیارتگاہیںحرم امام حسینؑ، حرم حضرت عباسؑ، خیمہ گاہ، تل زینبیہ، مرقد حر بن یزید ریاحی، کف‌العباس، قتلگاہ، مقام امام زمان(عج)، مقام امام صادقؑ۔
مساجدمسجد رأس الحسین، مسجد عمران‌ بن شاہین، مسجد سردار حسن‌خان، مسجد ناصری، مسجد آقا باقر بہبہانی، مسجد صاحب حدائق۔
امام بارگاہیںحسینیہ تہرانیہا، حسینیہ محمد صالح، حسینیہ اسکویی حائری، حسینیہ مازندرانی۔


کربلا یا کربلائے معلی عراق میں شیعوں کے زیارتی شہروں میں سے ایک ہے جہاں امام حسینؑ اور آپ کے بھائی عباس علمدار کے روضے سمیت کئی دیگر زیارتی مقامات پائے جاتے ہیں۔ یہ شہر شیعوں کے یہاں ایک خاص تقدس کا حامل ہے جسکی اصلی وجہ سنہ 61ھ 10محرم الحرام کو واقعۂ عاشورا میں امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت ہے۔

کربلا کی قدمت اسلام سے پہلے بابلی دور کی طرف پلٹتی ہے۔ اسلامی فتوحات کے بعد کربلا کے اطراف میں فرات کے کنارے بعض قبیلے بستے تھے۔ دس محرم کو کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت اور آپ کے وہاں دفن ہونے کے بعد لوگ آپ کی زیارت کے لیے وہاں آنے لگے یوں امام حسین اور شہدائے کربلا کی زیارت کی اہمیت کے پیش نظر کربلا شیعوں کی بسنے کی جگہ قرار پائی۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے بعد خاص کر آل بویہ کے دور میں کربلا کے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئی جو صفویوں اور قاجاریوں کے دور میں اپنی عروج کو جا پہنچی۔

شہر کی ترقی اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیسری صدی ہجری میں یہاں دینی درسگاہوں کا قیام عمل میں آیا اور کربلا کے حوزہ علمیہ نے تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز دیکھے۔ کربلا میں دینی مدرسے کے قیام کے بعد بہت سارے شیعہ خاندان دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے کربلا میں سکونت پذیر ہوئے جن میں آل طعمۃ، آل‌ نقیب، بہبہانی، شہرستانی اور شیرازی قابل ذکر ہیں۔

آخری دو صدیوں میں کربلا میں بہت سارے حادثے رونما ہوئے۔ وہابیوں کا کربلا پر حملہ، عثمانی حکومت کے گورنر نجیب پاشا کا حملہ، 1920 ء کا انقلاب اور انتفاضہ شعبانیہ ان دو صدیوں کے حادثات میں سے ہیں۔ بیسویں صدی میں عثمانی حکومت کے خاتمے اور برطانیہ کے تسلط کے بعد بہت ساری سیاسی پارٹیاں اور سماجی اور ثقافتی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں عراق کی خود مختاری کے بعد مزید اضافہ ہوا۔

ہر سال پوری دنیا سے مختلف مواقع پر اہل تشیع زیارت کے لئے کربلا کا رخ کرتے ہیں۔ اس سفر کا عروج محرم اور صفر خاص طور پر اربعین کے مراسم میں نمایاں ہوتا ہے جس میں دنیا جہاں سے کئی لاکھ لوگ زیارت اربعین کے لئے کربلائے معلی کا رخ کرتے ہیں جو گذشتہ سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی مذہبی مناسبتوں میں تبدیل ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2015 اور 2016 میں زائرین کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔

تاریخ میں کربلا کے بعض دوسرے نام بھی مذکور ہیں: غاضریہ، نینوا، طَفّ، عقر، حائر اور نواویس انہی ناموں میں سے ہیں۔

تعارف

کربلا کی ہوائی تصویر؛ 2003ء کو بعثی حکومت نابود ہونے کے بعد کربلا میں تعمیراتی کام شروع ہوئے ہیں۔

کربلا کا شہر، عراق میں شیعہ زیارتی اور مقدس شہروں میں سے ایک ہے۔[1] یہ شہر صوبہ کربلا کا دارالخلافہ ہے۔ اور عراق کے جنوبی حصے میں بغداد سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[2]

امام حسینؑ اور ان کے باوفا ساتھیوں کی واقعہ کربلا میں شہادت اور حرم امام حسین اور حرم حضرت عباس اور دیگر زیارتی مقامات کے ہونے نے کربلا شہر کو خاص کر محرم اور اربعین کے ایام میں شیعوں کی سب سے زیادہ تعداد میں زائرین کے رفت و آمد کا شہر قرار دیا ہے۔[3] 1914ء کو عثمانی امپراطوری اور 2003ء کو صدام کی حکومت ختم ہونے کے بعد عراق میں کربلا کے لیے ایک خاص مقام حاصل ہوا۔ شیعہ مجتہد آیت اللہ محمد تقی شیرازی کا برطانیہ کے خلاف جہاد کا فتوی دینے اور 1920ء میں برطانیہ کے عراق میں حضور کے خلاف عراقی عوام کی تحریک کی سرپرستی اس شہر کے معاصر عراق کی تاریخ میں سیاسی کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔[4]صدام کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی نماز جمعہ کے خطبوں میں شیعہ مجتہدوں کا عراق اور عالمی سیاسی موقف بیان کیا جاتا ہے۔ آیت اللہ سیستانی کا داعش کے خلاف جہاد کا فتوی کا اس شہر کے نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان ہونا اس کی ایک مثال ہے۔[5]

۲۰۱۵ کی مردم شماری کے مطابق کربلا شہر کی آبادی سات لاکھ کے لگ بھگ تھی۔[6] تاریخ میں کربلا کے بعض دوسرے نام بھی تھے: غاضریہ، نینوا، طَفّ، عقر، حائر اور نواویس انہی ناموں میں سے ہیں۔.[7]

تاریخ کے آئینے میں

اگرچہ سنہ 61 ہجری قمری عاشورا کے دن امام حسینؑ کی شہادت کے بعد سے کربلا شیعوں کے ہاں ایک زیارتی اور مذہبی شہر بن گیا اور امام عالی مقام سے عشق و محبت رکھنے والے دور دراز سے آپ کی زیارت کی خاطر یہاں آتے ہیں لیکن یہ شہر اس واقعے کے کئی سال بعد سکونت اور محل زندگی قرار پایا۔ بعض تاریخی منابع نے کربلا کی قِدمت کو اسلام سے پہلے بابلی زمانے سے قرار دیا ہے۔[حوالہ درکار] بعض نے کربلا کو فتوحات اسلامی سے پہلے مسیحیوں کا قبرستان اور بعض نے اسے مجوسیوں کے آتشکدوں کا مرکز جانا ہے۔[حوالہ درکار] قدیم الایام سے کربلا کے اطراف خاص طور پر دریائے فرات کے کنارے میں بہت سارے گاوں آباد تھے۔[8] اس کے علاوہ بعض گزارشات کے مطابق بعض انبیاء کا وہاں آنا خاص کر بعض اولوالعزم انبیاء جیسے حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ کا کربلا میں آنے کے بارے میں روایات پائی جاتی ہیں۔[9] مسلمانوں کے ہاتھوں عراق اور بین‌النہرین کی فتح کے بعد مورخوں نے واقعہ عاشورا سے پہلے کے بعض واقعات نقل کئے ہیں۔ ایک گزارش میں ذکر ہوا ہے کہ سنہ 12 ہجریی کو حیرہ کی جنگ میں حیرہ (حالیہ نجف کے نزدیک) کو اپنے کنٹرول میں لینے کے بعد کربلا میں پڑاؤ ڈالا۔[10]اور بعض نے امام علیؑ کی جنگ صفین سے واپسی پر کربلا سے گزرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ امام، نماز اور استراحت کی غرض سے وہاں رک گئے اور مستقبل میں اپنے بیٹے امام حسینؑ، ان کے ساتھی اور گھر والوں کے ساتھ پیش آنے والے باقی واقعات کی پیشگوئی کی۔[11]

کربلا میں رونما ہونے والے واقعات میں سب سے اہم عاشورا کا واقعہ ہے جس کی وجہ سے کربلا مشہور ہوئی اور شیعوں کے ہاں اس کی بہت اہمیت ہوئی۔اس واقعے میں امام حسینؑ کی طرف سے یزید کی بیعت سے انکار اور کوفہ والوں کی طرف سے ان کی بیعت کرنے لیے خطوط[12] لکھنے کے بعد آپ مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔[13]کوفہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کے حکم سے کوفہ کے راستے میں حر بن یزید ریاحی کے ذریعے امام حسینؑ کا کاروان روکنے کے بعد[14] امام کے کاروان نے کربلا میں پڑاؤ ڈالا۔[15]چند دن وہاں رکنے کے بعد اکسٹھ ہجری کی دس محرم، عاشورا کے دن امام حسینؑ کی فوج اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئی[16] اور امامؑ اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ اس دن شہید ہوگئے اور جو زندہ رہے تھے ان میں اکثر خواتین اور بچے تھے؛ اسیر ہوکر پہلے کوفہ پھر وہاں سے شام لے جائے گئے۔[17]

شیعہ اماموں کی طرف سے حرم امام حسین کی زیارت کرنے کی تاکید اور شیعوں کی طرف سے اس پر زیادہ توجہ کی وجہ سے بنی‌امیہ اور بنی‌عباس کے دور میں امام حسینؑ کی قبر پر عمارت بنی، پھر اس کو توسیع دی گئی اور زائرین کی سہولت کے لیے حرم کے اطراف میں مختلف عمارتیں بنیں۔[18]واقعہ کربلا کے بعد شیعہ تحریکیں بھی شیعوں کو امام حسینؑ کے حرم کی طرف جلب کرنے میں موثر تھیں۔ توابین نے اپنی تحریک میں جب نخیلہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں امام حسینؑ کے قبر کی زیارت کی۔[19]اور امام حسینؑ کے راستے پر چلنے اور خود کو اس راستے پر گامزن رہنے کا اعلان کیا۔[20] مختار کے قیام میں بھی کربلا اور امام حسینؑ کے قبر کی زیارت پر خاصی توجہ دی گئی۔ مختار ثقفی ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے امام حسینؑ کی قبر پر عمارت، مسجد اور چھوٹے سے گاوں بنوایا[21] جس میں بعض عمارتیں تھیں جو مٹی، در خرما کے پتے اور تنوں سے بنایا تھا۔[22] اسلام سے پہلے کربلا کے بارے میں کوئی خاص معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن کربلا کو اگر لفظ "کور بابل" یعنی بابل کا دیہات، سے ماخوذ قرار دیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کربلا "بابلیوں" کے دور میں محل سکونت تھی اور لوگ یہاں زندگی گزارتے تھے۔ اسی طرح اس سرزمین کو "نواویس" یعنی مسیحیوں کا قبرستان، بھی کہا جاتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے پہلے کسی زمانے میں یہاں مسیحی بستے تھے۔

زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بعض مسلمانوں کا امام حسینؑ کے مرقد کے جوار میں سکونت پذیر ہونے کے اور اسی وقت بنی بنی‌امیہ کمزور پڑنے اور بنی عباس کی حکومت بنتے وقت کربلا کو آباد کرنے میں رونق آگئی اور حرم کے جوار میں نئے مضبوط مکانات بنے۔[23]

یہ کام بنی عباس کے خلیفوں کے لیے شیعوں کی طرف سے ایک خطرہ شمار ہوتا تھا۔اسی لئے بعض خلفاء جیسے؛ ہارون‌الرشید اور مُتَوکِّل عَبّاسی نے اپنے دور حکومت میں امام حسینؑ کے حرم اور اس کے جوار میں موجود مکانات کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔[24]اس کے باوجود شیعوں کو وہاں پر رہنے اور کربلا کو شیعوں کا مسکن بننے سے نہ روک پائے۔ ہارون کے بعد ان کا بیٹا مأمون عباسی کے دور میں امام حسینؑ کا مرقد اور اطراف کی عمارتوں کی مرمت ہوئی اور کربلا پھر سے آباد ہونے لگا۔[25]متوکل کی طرف سے کی جانے والی ویرانی بھی ختم ہونے لگی اور کربلا آباد ہونے لگا اور مسمار شدہ عمارتوں اور حرم کے علاوہ کربلا کے بازار کی بھی تاسیس ہوئی۔[26]عباسیوں کے دور میں کربلا میں بعض علمی محفلیں بھی منعقد ہوئیں جنہیں کربلا میں حوزہ کربلا کا پہلا دور سے یاد کیا جاتا ہے۔[27] آل‌بویہ کے دور میں کربلا کی معماری میں نئی طرز آگئی[28] جسے بعض نے کربلا کی معماری کی ترقی کا دور سمجھا ہے۔[29]بویہ کے حکمرانوں نے زیارت امام حسین(ع) کے ساتھ ساتھ مرقد کی عمارت کو دوبارہ سے وسعت دے کر بنانے کے علاوہ کربلا شہر کو میں بھی وسعت دیا۔ اور کربلا میں پہلا قلعہ، کاروانسرا، نیا بازار، دینی مدرسے جیسے عضدیہ اور مسجد راس الحسین جو عَضُدُالدولہ دیلمی کے حکم سے 372ھ کو بن گئے۔[30]

صفوی اور قاجاری بادشاہوں کی طرف سے عتبات عالیات عراق پر خاص توجہ کے پیش نظر دسویں صدی سے تیرھویں صدی ہجری تک وسیع پیمانے پر ایرانی وہاں بسنے لگے اور یوں معماری کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس دور میں حرم امام حسینؑ کی توسیع کے علاوہ حرم حضرت عباسؑ اور دیگر کربلا کی زیارتگاہوں کی رونق ، دینی مدرسے، مسجدیں اور لائبریریوں کی تاسیس میں کربلا میں مقیم ایرانیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ سیاح اور جغرافیا کے ماہرین جیسے؛ کارِستِن نِیبُور، جان اشر نے اس دور میں کربلا کا سفر کر کے عثمانیوں کے دور میں شہر کی پیشرفت اور تعمیرات کی خبر اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔[31] آمریکہ کا سیاح اور قدیمی چیزوں کا ماہر جان پیترز نے بھی 1890ء کو کربلا کے سفر کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے قدیم شہر کربلا کے حدود سے باہر جو شہر ایجاد ہوا ہے اس میں یورپ کی طرف وسیع اور کشادہ سڑکیں بنی ہیں۔[32]

زیارتگاہیں

کربلا میں حرم حضرت عباسؑ اور حرم امام حسینؑ کا ایک منظر

حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کی وجہ سے کربلا کا شہر شیعوں کی اہم زیارتی شہروں میں سے قرار پائی ہے۔[33] امام حسینؑ کا حرم، ان کا اور بنی‌ہاشم اور امام کے انصار میں سے بعض کا مدفن ہے جو واقعہ کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔[34]امام حسینؑ کے حرم کی زیارت کرنا ہمیشہ سے شیعوں کے لیے اہمیت کا حامل رہا ہے۔اور بعض مخصوص دنوں جیسے عاشورا[35]، اربعین[36] و پندرہ شعبان[37] میں امام حسینؑ کی زیارت پڑھنے کی تاکید کی وجہ سے زائرین کی زیادہ تعداد انہی دنوں آتے ہیں۔[38] شیعہ فقہ میں امام حسین کے حرم اور تربت کے بعض مخصوص احکام ہیں۔[39]

امام حسینؑ کا حرم کئی مرتبہ شیعہ مخالفین خاص کر عباسی خلیفوں اور وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوا۔ ابتدائی تخریب میں متوکل عباسی کے دور میں حرم کو مسمار کرنا بھی شامل ہے۔[40]اور آخری بار 1411 ہجری کو عراق کی بعثی حکومت کے ہاتھوں انتفاضہ شعبانیہ میں ہوا۔[41]

حضرت عباسؑ کا حرم بھی امام حسینؑ کے حرم سے 378 میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق کی طرف واقع ہے۔ اور زائرین امام حسینؑ کی حرم کے علاوہ حضرت عباس کے حرم کی بھی زیارت کرتے ہیں۔[42] نو محرم؛ روز تاسوعا کو شیعہ حضرت عباس کے حرم میں ماتم داری کرتے ہیں۔ اور عزاداری کے کلینڈر میں نو محرم اکثر جگہوں پر حضرت عباسؑ سے منسوب ہے۔[43]

کربلا میں امام حسین اور حضرت عباس کے حرم کے علاوہ بعض دیگر زیارتی مقامات بھی ہیں جن میں سے اکثر واقعہ کربلا سے مربوط ہیں۔ خیمہ‌گاہ، تل زینبیہ و مرقد حر بن یزید ریاحی انہی مقامات میں سے ہیں۔ امام حسینؑ کی حرم کے قریب مقام امام صادقؑ اور مقام امام زمانؑ بھی ہیں جو شیعہ تہذیب میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔[44]

کربلا میں مقامِ امام زمان

آخری دو صدیوں کے سیاسی اور سماجی واقعات

آخری دو صدیوں میں کربلا میں بہت ساری سیاسی اور سماجی تبدیلیاں آگئیں۔

وہابیوں کا حملہ

18 ذی الحجہ سنہ 1216 ہجری میں وہابی، عبدالعزیز بن سعود کی سرپرستی میں حجاز سے عراق میں وارد ہوئے اور کربلا پر حملہ کیا۔ وہ خیمگاہ محلے سے کربلا میں داخل ہوئے اور قتل عام کیا اور لوگوں کے مال کو غارت کیا۔ حرم امام حسین سے قیمتی اشیاء کو غارت کیا۔ اس دن کربلا کے اکثر لوگ ان کی دیرینہ سنت کے تحت عید غدیر منانے نجف میں حرم امام علیؑ گئے ہوئے تھے اور کربلا میں مزاحمت کے لیے کوئی نہیں تھا۔ تاریخی کتابوں میں اس حادثے میں مرنے والوں کی تعداد کو ہزار سے چار ہزار تک بتایا گیا ہے۔ اس سانحے میں حرم امام حسینؑ کو بڑا نقصان پہنچا۔[45]

نجیب پاشا کا حملہ

1285ھ میں جب کربلا کی عوام نے عثمانی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تو عثمانی حکومت کے عراق کے حاکم نجیب پاشا نے کربلا کے باسیوں کو عثمانی حکومت کے سامنے تسلیم ہونے کے لیے چند دنوں کی مہلت دی۔ عثمانیوں کے شہر کے اندر حملوں کی روک تھام اور عراق کے عوام کی طرف سے تسلیم نہ ہونے پر شیخیہ کے عالم اور دوسرے رہبر سید کاظم رشتی کی طرف سے میانجگری شکست سے دوچار ہونے کے بعد نجیب پاشا نے کربلا پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور عثمانی حملہ آور سواے حرم امام حسینؑ، حرمِ حضرت عباسؑ اور سید کاظم رشتی کے علاوہ باقی تمام جگہوں پر حملہ کرنے کے مجاز تھے۔

کربلا کے بعض لوگ اپنے کو دشمنوں کی گزند سے بچانے کے لیے حرم حضرت ابوالفضل میں پناہ لی۔ لیکن اس کے باوجود یہ مکان بھی عثمانیوں کے حملے سے محفوظ نہیں رہا اور بعض گزارشات کے مطابق اس حادثے میں تقریبا دس ہزار لوگ مارے گئے۔ اور یہ سانحہ واقعۃ غدیر الدم(ترجمہ: خونی غدیر) سے مشہور ہوا[46]

استعمار کے خلاف مقابلہ

1917ء کو عراق میں عثمانی شہنشاہیت کی شکست اور برطانیہ کے حضور کے دوران کربلا برطانیہ کے خلاف جنگ کا مرکز سمجھی جاتی تھی۔ عراق کی 1920 کی تحریک جو بعد میں ثورۃ العشرین سے مشہور ہوئی کربلا سے شیعہ مرجعیت محمدتقی شیرازی کی سرپرستی میں تشکیل پائی۔ اور یہ تحریک برطانیہ کا عراق سے نہ جانے اور عراق کے استقلال کے پیش نظر وجود میں آئی۔[47]

انتفاضہ شعبانیہ کو سرکوب کرنے کے بعد بعثی فوج کی کثیر تعداد حضرت عباسؑ کے حرم کے دروازے پر

انتفاضہ شعبانیہ

صدام حسین کی بعثی حکومت کے خلاف 1411 ہجری کو لوگوں کے قیام کے اصلی مراکز میں سے ایک کربلا تھا۔ انتفاضہ شعبانیہ میں باقی 13 صوبوں کی طرح کربلا بھی عوام کے ہاتھ آیا۔[48]لیکن آخر کار یہ تحریک صدام کی فوج کے ذریعے ناکام کرائی گئی۔ اور اسی دوران بعثی فوج کے ذریعے حرم امام حسینؑ کو بھی نقصان پہنچا۔ بعض گزارشات کے مطابق تین سے پانچ لاکھ کے درمیان لوگ اس حادثے میں مارے گئے اور بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگ بےگھر ہوگئے۔[49]

صدام کے سقوط کے بعد امریکہ کی فوج سے نبرد آزمائی

2003ء عراق پر امریکی حملے کے بعد امریکی سپاہی حضرت عباس کے حرم کی جانب جانے والی سڑک پر خودکش دھماکے میں استعمال شدہ گاڑی کے ساتھ کھڑا ہے۔

سنہ 2003ء میں عراق پر چڑھائی کے بعد امریکی فوجیوں کو کربلا میں حرم امام حسین اور حضرت عباس(ع) کی جانب جانے والی سڑکوں پر عوامی مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اسی طرح 2004ء کو صدر پارٹی سے وابستہ جیش المہدی نے نجف، بصرہ، شہرک صدر بغداد وغیرہ میں امریکی فوج سے لڑائی شروع کی اور ان حملوں کو روکنے کے لیے امریکی فوج پوری نظامی طاقت کے ساتھ کربلا میں داخل ہوئی اور صدر پارٹی کے دفتر پر حملہ کرنے کے بعد حرم کے اطراف کو بند کردیا۔ اس لڑائی کی اصل وجہ امریکی فوج کی عراق پر قبضہ کرنا بتایا گیا ہے۔[50]2007ء کو بھی کربلا میں جیش‌المہدی کے طرفدار، امریکی فوج سے مقابلے پر اترے اس فرق کے ساتھ کہ جیش المہدی کے مقابلے میں عراق کی پلیس تھی اور امریکی فوج ان کی مدد کے لیے کربلا میں پہنچ گئی۔[51]

کربلا میں دہشتگردی کے حملے

عراق میں بعثی حکومت ختم ہونے کے بعد حزب بعث کے بعض افسروں کی تعاون سے القاعدہ سے وابستہ بعض دہشتگرد اور تکفیری گروہوں نے کربلا میں متعدد حملے کئے۔[52] دہشتگردی کے حملے عراق کے دوسرے شہروں میں بھی ہوتے تھے اور اس سے مالی اور جانی بڑا نقصان ہوا۔ اور کربلا میں اکثر دہشتگردی کے حملے محرم کے ایام میں عزاداری امام حسین اور اربعین کے وقت ہوتے تھے۔[53]

سیاسی اور سماجی پارٹیاں

آخری دو صدیوں میں مراجع تقلید کا کربلا میں رہنے اور حوزہ علمیہ میں پیشرفت کی وجہ سے کربلا کا عراق کے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں میں بڑا کردار رہا۔ کربلا کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں عراق اور کبھی ایران کی سیاسی حالات پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ نجف اور کربلا میں مقیم علما کا ایران میں مشروطہ تحریک پر عکس العمل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تحریکِ مشروطہ نے جہاں نجف حوزہ کے علما کو متحرک کردیا اسی طرح کربلا پر بھی اثر انداز ہوا صرف اس فرق کے ساتھ کہ کربلا والے "مشروطہ" کے مخالف نظریہ رکھتے تھے۔[54]

بیسویں صدی میں، خاص کر عراق پر برطانیہ کے قبضے کے دوران بھی بعض پارٹیاں اور تحریکیں وجود میں آئیں یا موجودہ پارٹیوں کے بعض گروپ بن گئے۔ کربلا میں موجود مراجع تقلید اور حوزہ علمیہ بھی بعض پارٹیوں کی سیاسی اور سماجی تعاون کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے پہلے حصے میں تحریکوں کا اصل مقصد برطانیہ کو عراق سے خارج کرنا تھا۔ جمعیۃ الإتحاد و الترقی و الجمعیۃ الوطنیۃالإسلامیۃ انہی میں سے ایک تھی۔[55] جمعیۃ الوطنیہ کربلا میں مرجعیت شیعہ محمدتقی شیرازی کے بیٹے محمدرضا شیرازی اور بعض دیگر شیعہ علما کی سرپرستی میں برطانیہ کے خلاف 1917ء کو قیام پذیر ہوا۔ یہ ساری تحریکیں میزاے شیرازی کا جہاد کے فتوے کے بعد 1920ء کے انقلاب کے قیام میں کلیدی کردار کے حامل تھے۔[56]

کمیونسٹ چھوٹے گروہوں کے وجود میں آنے کے بعد عراق کے استقلال کے زیر سایہ کمیونسٹی پارٹی بنام «حزب الشیوعی» نے نجف اور کربلا میں کام شروع کیا اور بہت سارے جوانوں کو اپنی طرف جلب کیا۔[57] حوزہ اور مرجعیت، نجف اور کربلا میں کمیونسٹوں کا اسلام کے لیے خطرے کا احساس کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں منظم پروگرام کا سوچا۔[58]یہ تنظیم حزبُ الدّعوَۃِ الاسلامیۃ کے نام سے 1956ء کو وجود میں آیی۔ جزب الدعوہ کی سب سے پہلی میٹنگوں میں سے ایک کربلا میں منعقد ہوئی۔[59]اس پارٹی کے بعض سربراہ جیسے؛ ابراہیم جعفری اور نوری مالکی بھی کربلا سے تھے۔[60] حزب الدعوہ کے بعد ۱۹۶۲ء کو شیرازی خاندان سے وابستہ سازمان عمل اسلامی کربلا میں تشکیل پائی۔[61]

صدام اور بعثی حکومت کے دوران بھی عراق کے بعض شیعہ علما نے مجلس اعلی اسلامی عراق کو بنایا۔[62]صدام کے سقوط کے بعد بہت ساری شیعہ تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں سے اکثر نے کربلا میں اپنا شعبہ کھولا اور سیاسی اور سماجی فعالیت شروع کی ان تنظیموں میں سازمان بدر عراق اور صدر پارٹی کا نام لیا جاسکتا ہے۔

رسومات

واقعہ کربلا اور قیامِ امام حسینؑ کا شیعہ ثقافت اور تہذیب میں بڑا اثر تھا اور خاص کر کربلا بہت سارے رسومات کا منبع رہا ہے جو واقعہ عاشورا سے متاثر ہوکر ایجاد ہوئے ہیں۔ کربلا میں شیعہ رسومات جیسے طویریج عزاداری، زیارت اربعین و اربعین کے لیے پیدل سفر، امام بارگاہوں کی تعمیر، تربت کربلا سے سجدہ گاہ اور تسبیح بنانا اور تعزیے بنانا انہی رسومات میں سے شمار ہوتے ہیں۔

طویریج

طویریج کربلا سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک شہر کا نام ہے جہاں سے عصر عاشورا کو کربلا کے شیعوں کا جلوس نکلتا ہے جسے دستہ عزاداری طویریج کہا جاتا ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر روز عاشورا کو جو مراسم وہاں انجام پاتے ہیں اس کی طرف اشارہ ہے۔ کربلا کے شیعہ عصر عاشورا کو طویریج شہر سے امام حسینؑ اور حضرت عباس کے حرم کی جانب جلوس کی شکل میں نکلتے ہیں اور جب امام حسینؑ کے حرم کے قریب پہنچتے ہیں تو بین‌الحرمین سے حرم تک کا راستہ اونچے قدموں میں سرو سینہ زنی کرتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ یہ رسم اکسٹھ ہجری کو وہاں کے لوگوں کا امام حسینؑ کی مدد کو دیر سے پہنچنے کی یاد میں مناتے ہیں۔[63]

زیارت اربعین

شیعہ مذہبی مراسم میں سے ایک کربلا میں زیارت اربعین ہے۔ ابتدائی صدیوں میں ہی شیعہ ائمہ کی تاکید سے اربعین کی زیارت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔[64]بہت سارے شیعہ مختلف ممالک سے اربعین کی زیارت کے لیے عراق جاتے ہیں اور نجف سے کربلا تک کا سفر پیدل طے کرتے ہیں اور یہ اربعین پیدل مارچ سے مشہور ہے۔ اربعین کے دن عراق کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک سے عزاداروں کی کثیر تعداد کربلا میں جمع ہوتی ہے۔[65]

تربت کربلا

تربت کربلا یا تربت امام حسین وہ مٹی ہے جو امام حسینؑ کی قبر کے اطراف سے لی جاتی ہے اور روایات میں ذکر شدہ فضیلت کی وجہ سے شیعہ اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔[66] شیعہ تربت کربلا سے نماز کے لیے سجدہ گاہ اور تسبیح بناتے ہیں۔[67] نماز میں سجدہ، تربت کربلا پر کرنے کو فقہی کتابوں میں مستحب قرار دیا گیا ہے۔[68]

زائرین کی سکونت کے لیے امام بارگاہوں کا قیام

اصفہانی قدیم امام بارگاہ سے منسوب عمارت جو القبلہ روڑ کربلا میں واقع ہے؛ یہ تصور 1956ء کو لی گئی ہے۔

زائرین کی سکونت کے پیش نظر امام بارگاہوں کا قیام گزشتہ صدیوں میں انجام دئے جانے والے کاموں میں سے ہیں۔ کربلا میں امام بارگاہ بنانے کی تاریخ گیارھویں صدی ہجری کی ہے۔ عراق میں زیارتگاہوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ قاجاریہ دور میں عثمانی حکومت کا عراق میں مقیم حاکم نے ۱۱۲۷ھ کو کربلا کے زائرین کی سہولت کے لیے ایک امام بارگاہ بنایا۔[69]پھر ۱۳۶۸ھ کو بعض ایرانی تاجروں نے اس مکان عراق کی وزارت اوقاف سے خرید کر بعض عراقی اور کویتی تاجروں کے ساتھ ملکر اس حسینیہ کی مرمت کی اور اس کے بعد تہرانی حسینیہ کا نام لگا اور بعد میں نام تبدیل کر کے حسینیہ حیدریہ رکھا گیا۔[70]اس تاریخ سے پہلے امام بارگاہ یا حسینیہ کے نام سے کوئی عمارت کا وجود نہیں ملتا ہے۔ اس کے بعد کربلا کی مشہور امام بارگاہیں چودھویں صدی کے دوسری اور تیسری دہائی میں تاسیس ہوئی ہیں۔[71]ان امام بارگاہوں میں سے بعض ایرانی اور ہندوستانی شیعہ علما اور تاجروں نے بنایا ہے۔[72]بعثی حکومت کی نابودی کے بعد امام بارگا اور زائر سرا بنانے میں تیزی آگئی اور ہوٹلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی حسینیہ اور امام بارگاہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روک نہ سکے۔[73]

تعزیہ اور شبیہ خوانی

تعزیہ ایک مذہبی نمایش کے عنوان سے کربلا سمیت عراق کے بہت سارے شہروں میں رائج ہے۔ اور تعزیہ کا موجودہ طریقہ ایران میں قاجاریہ دور میں رائج ہونے کے بعد تقریبا بیسویں صدی عیسوی کو عراق میں پہنچ گئی۔[74]یہ مراسم کربلا اور نجف میں تعزیہ کے علاوہ تشابیہ یا مسرح الحسینی کے نام سے بھی پہچانی جاتی ہے۔[75]بعثی حکومت نے عراق پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد شیعہ دیگر مراسم کی طرح یہ رسم بھی کم رنگ ہوگئی اور آخرکار اسے ممنوع قرار دیا گیا۔[76]صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد 2003ء میں شبیہ خوانی کے مراسم عراق کے مختلف شہروں میں پھر سے شروع ہوگئے۔

کربلا کے شعرا

عراق کی تاریخی اور ادبی منابع کے مطابق کربلا کے شاعروں نے عراق کی ادبی اور سیاسی تحریک میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ان کی بعض ادبی، سماجی اور سیاسی فعالیتیں کربلا اور عراق کے دیگر شہروں میں انجمن شعر و ادب کے نام سے ہوئیں۔ جمعیۃ الندوۃ الشباب العربی، ندوۃ الخمیس العربی، المنتدی الثقافی اور جمعیۃ الشعراء الشعبیین کربلا کی ادبی انجمنوں میں سے ہیں۔[77]ان انجمنوں میں سے بعض اب بھی کام کر رہی ہیں۔[78] اس دوران شعر کے مختلف سبک کے ساتھ کربلا میں شعرِ آئینی بھی رائج تھا۔ اشعار کا یہ طرز اور سبک حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کی تعاون سے عراق کے جوانوں کے درمیان بہت محبوب ہے۔

حوزہ‌ علمیہ اور علمی مراکز

کربلا میں حوزہ علمیہ کا قیام ابتدائی صدی میں شیعہ ائمہ معصومین کے بعض صحابی اور روایوں کی توسط ہوا ہے۔ وہ لوگ اس عرصے شاگردوں کی تربیت کرتے رہے۔ عبداللہ بن جعفر حمیری، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے ساتھی تھے جو کربلا میں حوزہ علمیہ کے ابتدائی اساتذہ میں سے شمار ہوتے ہیں۔[79]امام زمانؑ کی غیبت کے دوران بھی بعض فقہاء جیسے؛ نجاشی، سیدبن طاووس، شہید اول اور ابن‌فہد حلی نے حوزہ علمیہ کربلا سے تعلیم حاصل کی ہے۔[80]کربلا کے حوزہ علمیہ میں اس قدر رونق آگئی کہ بعض دیگر مکاتب اجتہادی شیعہ کے مقابلے میں ایک خاص مکتب شمار ہوتا تھا۔[81]

حوزہ علمیہ کربلا میں دو مکتب اخباری اور اصولی فعال تھیں لیکن اخباری مکتب کے خریدار زیادہ نہیں تھے۔[82]صفوی دور میں اخباری مکتب محمدامین استرآبادی کے توسط احیا ہوئی۔ اور صفویوں کے سقوط کے بعد، سنی افغانیوں کی ظلم و ستم اور نادرشاہ کے دباؤ سے ایرانی علما عراق خاص کر کربلا کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور اس دوران کربلا میں اخباری مکتب عروج پر تھی اور بعض ایرانی علماء کے بھی اخباری افکار رکھتے تھے۔ اس کے باوجود بعض اسباب کی بنا پر اخباری مکتب نے زوال کی طرف سفر شروع کیا۔[83]

تیروھویں صدی کو ایران کے علما کا نجف کی طرف ہجرت یا ایران واپس لوٹنے کی وجہ سے کربلا کے حوزہ علمیہ کی رونق میں کمی آگئی اور محمدتقی شیرازی نے سامرا سے کاظمین اور آخرکار کربلا کی طرف ہجرت کی۔ اور ان کی طرف سے برطانیہ کے خلاف قیام میں رہبری اور بعض علما اور طلاب حوزہ علمیہ کربلا کا برطانیہ کے خلاف ہونے والی تحریکوں میں شرکت کی وجہ سے حوزہ علمیہ کربلا میں پھر سے جان آگئی۔[84]

کربلا میں مختلف صدیوں میں مختلف دینی مدرسے بنے ان میں سے بہت سارے مدرسے عراق میں مقیم ایرانی علما نے بنایا اور مدرسہ سید مجاہد، مدرسہ صدر اعظم نوری اور مدرسہ خوئی انہی مدارس میں سے ہیں۔[85]دینی مدارس کے علاوہ کربلا میں بہت ساری لائبریریاں بھی بنیں اور ان میں سے بعض قلمی نسخوں کی وجہ سے شیعہ محققین کے ہاں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔[86]بعض نے کربلا کی لائبریریوں کی تعداد 78 تک بتایا ہے جن میں سے بعض کربلا میں مقیم علما نے بنایا ہے۔[87]دینی مدرسوں کے ساتھ ساتھ کربلا یونیورسیٹی، اہل‌البیت یونیورسیٹی اور حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ سے وابستہ تعلیمی اداروں نے بھی بعثی حکومت ختم ہونے کے بعد تشیع کے بارے میں بہت ساری علمی اور تحقیقی خدمات انجام دی ہیں۔ [88]

خاندان‌ اور شخصیات‌

ابتدائی صدیوں سے اب تک بہت سارے خاندان کربلا کے شہر میں بسے ہیں جن میں سے بعض ابتدائی صدیوں سے ہی کربلا میں مقیم تھے؛ جیسے آل طعمۃ و آل‌نقیب خاندان۔ آل طعمۃ کا نسب ابراہیم مجاب تک پہنچتا ہے جو کربلا میں سکونت اختیار کرنے والے علویوں میں سب سے پہلے ہیں۔ یہ خاندان تیسری صدی ہجری میں کربلا میں آئے ہیں اور علویوں میں سب سے قدیمی خاندان ہیں۔[89] آل‌نقیب جو کہ امام کاظمؑ سے منسوب ہیں وہ پانچویں صدی ہجری کو کربلا میں بسے ہیں۔[90]سب سے زیادہ وہ خاندان مشہور ہیں جو حصول علم کے غرض سے عراق کے دیگر شہر، ایران، خلیجی ممالک اور ہندوستان سے یہاں آکر بسے ہیں۔ بعض علما کے گھرانے دینی علم حاصل کرنے اور اجتہاد تک پہنچنے کے بعد یا ابتدائی دروس کو دینی مدارس میں حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک لوٹتے تھے۔[91] خاندانِ بہبہانی، صدر شیرازی، شہرستانی، کشمیری، رشتی، مرعشی وغیرہ کربلا کی بعض مشہور خاندان ہیں۔[92]

ایران اور عراق میں موجودہ دور کی بعض شیعہ شخصیات بھی کربلا کی ہیں۔ ابراہیم جعفری اور نوری مالکی عراق کی سیاسی شخصیات اور علی‌اکبر صالحی ایران کی سیاسی شخصیت کی پیدائش کربلا کی ہے۔[93]

تجارت اور زراعت

موجودہ صدی میں کربلا کے باسیوں کے اصلی پیشوں میں سے زراعت اور تجارت ہے۔ ابتدائی دہائیوں میں عراق میں عربی قوم پرستی اہل سنت کے فائدے میں رہی۔ شیعہ مرجعیت تقلید کی طرف عراقی بادشاہت میں کام کرنے کو حرام قرار دینے کے بعد کربلا اور دیگر شہروں کے شیعہ، حکومتی ملازمت کے بجائے زراعت اور تجارت میں لگ گئے۔[94]اس کے علاوہ پانی کی فراوانی خاص کر حسینیہ کے نام سے مشہور نہر جو فرات سے کربلا تک کو پانی فراہم کرتی تھی اسی وجہ سے کربلا میں زراعت کے لیے مناسب موقع فراہم تھا۔[95]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. «راہنمای سفر بہ کربلای معلی».
  2. «کربلا».
  3. «کربلا».
  4. آل طعمۃ، میراث کربلا، ۱۳۷۳ش، ص۸۴-۱۸۶.
  5. «اعلام جہاد علمای شیعہ و سنی».
  6. «Major Cities».
  7. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۳۱-۳۶.
  8. آل طعمۃ، میراث کربلا، ۱۳۷۳ش، ص۲۰-۲۱.
  9. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۴، ص۳۰۱.
  10. خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسۃ، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۹۷.
  11. دینوری، أخبار الطوال، ۱۳۷۱ش، ص۲۹۸.
  12. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۹۷۷م، ج۳، ص۱۵۷-۱۵۸؛مفید، الارشاد، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۳۶-۳۷.
  13. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۳۸۱.
  14. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۰۱.
  15. مقرم، مقتل الحسین(ع)، ۱۴۲۶ق، ص۱۹۲.
  16. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۷؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۹۱.
  17. مفید، الارشاد، ۱۳۸۸ش، ص۵۰۹-۵۲۳.
  18. آل طعمۃ، میراث کربلا، ۱۳۷۳ش، ص۳۱ و ۳۲.
  19. ابن أثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۶ق، ج۴، ص۱۷۸.
  20. طبری، تاریخ طبری، ۱۴۰۳ق، ج ۴، ص۴۵۶ و ۴۵۷.
  21. الصدر، نزہۃ اہل الحرمین فی عمارۃ المشہدین، ۱۳۸۴ق، ۲۱، ۲۳ و ۲۶.
  22. انصاری، عمارۃ کربلاء، ۲۰۰۵م، ص۹۵.
  23. کلیدار، تاریخ کربلاء المعلی، ۱۳۴۹ق، ص۱۹؛ انصاری، عمارۃ کربلاء، ۲۰۰۵م، ص۹۶.
  24. آل طعمۃ، میراث کربلا، ۱۳۷۳ش، ص۳۲ و ۳۳.
  25. جمعی از نویسندگان، نگاہی نو بہ جریان عاشورا، ۱۳۸۷ش، ص۴۲۰-۴۲۱.
  26. انصاری، عمارۃ کربلاء؛ ۲۰۰۵م، ص۹۶ و ۹۷.
  27. سیدکباری، حوزہ‌ہای علمیہ شیعہ در گسترہ جہان، ۱۳۷۸ش، ص۲۵۶.
  28. امین، دائرۃ المعارف الإسلامیۃ الشیعیۃ، ۱۴۱۳ق، ج۱۱، ص۳۵۶.
  29. انصاری، عمارۃ کربلاء، ۲۰۰۵م، ص۹۹.
  30. موسوی زنجانی، جولۃ فی الأماکن المقدسۃ، ۱۴۰۵ق، ص۸۳.
  31. انصاری، عمارۃ کربلاء، ۲۰۰۵م، ص۶۱-۷۰.
  32. . John punnett: Nippuar or Explorations and Avcentures on the Euphrates 1880 - 1890, page: 331, Volume II - second compaign 1897.peters
  33. اصلانی، «شہرہای مقدس شیعہ».
  34. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفہ، ص۱۱۸.
  35. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۱۷۳.
  36. شیخ مفید، کتاب المزار، ۱۴۱۳ق، ص۵۳.
  37. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۱۸۱.
  38. «عاشورا کے لیے 30 لاکھ زائرین کا کربلا پہنچنا».؛«تعداد زائران امام حسین(ع) از مرز ۲۶ میلیون نفر گذشت».
  39. برای نمونہ رجوع کنید بہ: فلاح‌زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی عتبات، مرکز تحقیقات حج، ص۱۴، ۱۷، ۱۸ و ۳۶.
  40. آل طعمۃ، کربلا و حرم‌ہای مطہر، ۱۳۸۸ش، ص۹۵ و ۹۴.
  41. «روایتی از روزہای جسارت صدام بہ کربلا».
  42. «کربلا بدون حرم و زیارت حضرت ابالفضل(ع)، کربلا نمی‌شود».؛ «زیارت حرم حضرت عباس(ع)».
  43. «حرم حضرت ابوالفضل(ع) در روز تاسوعا».
  44. قمی، اماکن زیارتی سیاحتی در عراق، ۱۳۸۰ش، ص۴۵-۵۴.
  45. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۱۱۶-۱۲۱.
  46. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۱۲۵-۱۳۲؛«گزارش یک کشتار؛ روایتی مستند از قتل‌ عام ۱۰ ہزار نفری شیعیان در حملہ بہ کربلا».
  47. زمیزم، کربلاء و الحرکۃ الوطنیۃ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۶۳-۹۵.
  48. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ، ۱۳۹۱ش، ص۲۳۰.
  49. «ماجرای انتفاضہ شعبانیہ چیست؟»
  50. «حضور تانک‌ہای آمریکایی در کربلا».
  51. «درگیری نیروہای آمریكایی با شبہ‌نظامیان ارتش مہدی در کربلا».
  52. «آمریکا چگونہ القاعدہ‌ای‌ہا را تکفیری کرد؟/ افسر اطلاعاتی رژیم بعث چگونہ داعش را بوجود آورد؟»
  53. «یادداشت‌ہای یک ایرانی از عاشورای خونین در کربلا».
  54. «رفتارشناسی سیاسی حوزہ کربلا در قرن اخیر».
  55. زمیزم، کربلا و الحرکۃ الوطنیہ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۱۰-۱۶.
  56. زمیزم، کربلا و الحرکۃ الوطنیہ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۶۳-۹۵.
  57. زمیزم، کربلا و الحرکۃ الوطنیہ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۲۹-۳۰.
  58. ابوزید عاملی، محمدباقر الصدر: السیرۃ و المسیرۃ فی حقائق و وثائق، ۱۴۲۷ – ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۴۰ -۲۴۲.
  59. مؤمن، سنوات الجمر: مسیرۃ الحرکۃ الاسلامیۃ فی العراق، ۱۹۵۷–۱۹۸۶، ۲۰۰۴م، ص۳۵، ۱۶۹، ۲۰۰، ۲۵۵ و ۲۵۶.
  60. زمیزم، کربلا و الحرکۃ الوطنیہ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۳۳.
  61. زمیزم، کربلا و الحرکۃ الوطنیہ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۳۷-۳۹.
  62. زمیزم، کربلا و الحرکۃ الوطنیہ فی القرن العشرین، ۱۴۳۶ق، ص۴۵-۴۶.
  63. «داستان دستہ طویریج چیست؟»
  64. طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۵۲.
  65. «چرا پیادہ‌روی اربعین ثواب دارد».
  66. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۸، ص۱۲۸ و۱۳۲.
  67. «ساخت مہر، تسبیح و انگشتری‌ہای عقیق در شہرہای مذہبی».
  68. «فضیلت تربت امام حسین(ع) و آداب استفادہ از آن».
  69. نوینی، اضواء علی معالم محافظۃ کربلا، ۱۳۹۱ق، ص۸۳.
  70. «الحسینیۃ الحیدریۃ (الطہرانیۃ سابقاً)».
  71. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۳۹۱-۳۹۳.
  72. «الحسینیات».
  73. «مسیر نجف - کربلا، جادہ حسینیہ‌ہا».؛«حسینیہ قزوینی‌ہا در کربلا ساختہ می‌شود».
  74. «مسرح "التعزیۃ"، أحد طقوس عاشوراء».
  75. لطیف، «فصول من تاریخ المسرح العراقی؛ کربلاء و تشابیہ المقتل و التعازی الحسینیۃ فی عاشوراء».
  76. «الطاغیۃ صدام و محاربۃ الشعائر الحسینیۃ».
  77. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۴۵۶-۴۶۰.
  78. «نویسندہ‌ای کہ کربلا را مثل کف دستش می‌شناسد».
  79. سید کباری، حوزہ‌ہای علمیہ شیعہ در گسترہ جہان، ۱۳۷۸ش، ص۲۵۶.
  80. سید کباری، حوزہ‌ہای علمیہ شیعہ در گسترہ جہان، ۱۳۷۸ش، ص۲۶۱-۲۵۸.
  81. «آشنایی با مہم‌ترین مکاتب و دورہ‌ہای فقہی شیعہ».
  82. «بررسی جمعیت‌ شناختی علمای نجف و کربلا».
  83. «بررسی جمعیت‌شناختی علمای نجف و کربلا».
  84. «رفتارشناسی سیاسی حوزہ کربلا در قرن اخیر».؛«بررسی جمعیت‌شناختی علمای نجف و کربلا».
  85. انصاری، معماری کربلا در گذر تاریخ، ۱۳۸۹ش، ص۱۶۹-۱۶۱.
  86. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۴۱۴.
  87. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۴۱۴-۴۴۰.
  88. «دانشکدہ علوم اسلامی دانشگاہ اہل‌بیت کربلا».؛«مرکز کربلاء للدراسات و البحوث».؛ «دانشکدہ علوم اسلامی کربلاء»
  89. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۳۰۶-۳۰۸.
  90. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۳۱۳-۳۱۵.
  91. بررسی جمعیت‌شناختی علمای نجف و کربلا.
  92. آل طعمۃ، تراث کربلا، ۱۴۳۵ق، ص۲۹۵-۳۶۳.
  93. «زندگینامہ دکتر علی‌اکبر صالحی».؛«آشنایی با نوری مالکی».؛«زندگینامہ ابراہیم جعفری وزیر خارجہ عراق».
  94. نادری‌دوست، شیعیان عراق، ۱۳۸۶ش،ص۱۰۱-۱۰۳.
  95. نادری‌دوست، شیعیان عراق، ۱۳۸۶ش، ص۵۹.

مآخذ