یحیی بن زید

ویکی شیعہ سے
امام زادہ یحیی بن زید (جوزجان افغانستان)
نامیحیی بن زید بن علی بن حسین علیہ السلام
لقبقتیل جوزجان
تاریخ پیدائش107ھ
جائے پیدائشمدینہ
شہادت125ھ
وجہ شہادتشہادت بہ دستور ولید بن یزید
مدفنجوزجان افغانستان
سکونتمدینہ، کوفہ، خراسان
اصحابامام صادقؑ
خدماتبنی امیہ کے خلاف قیام
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


یحیی بن زید امام سجادؑ کے نواسوں میں سے ہیں۔ آپ اپنے والد، زید بن علی کی شہادت کے بعد کوفہ سے خراسان چلے گئے اور وہاں کے لوگوں کو بنی امیہ کے مظالم سے آگاہ کیا اور ان کی مدد سے بنی امیہ کے خلاف قیام کیا۔ ان کا قیام بھی اپنے والد کی طرح ناکام ہوئے اور افغانستان کے شہر جوزجان میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے اور وہیں پر سپرد خاک کئے گئے۔ لیکن ایران کے بعض شہروں مانند گرگان، سبزوار اور ورامین میں بھی ان سے منسوب مزارات پائے جاتے ہیں۔ متوکل بن ہارون کے ساتھ ان کی ملاقات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ امامت کے مدعی نہیں تھے اگرچہ بعض بزرگان نے اس بات میں تردید کی ہیں۔

نسب، کنیت اور لقب

آپ کے والد ماجد زید بن امام سجادؑ ہیں۔ جنہوں نے بنی‌ امیہ کے خلاف قیام کیا اور شہید ہوئے۔ آپ کی والده عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کی بیٹی ریطہ ہیں۔[1] ابن صوفی نسابہ نے ریطہ کو بنی‌ ہاشم کی بافضیلت خواتین میںشمار کیا ہے۔[2]

آپ کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں تاریخی منابع میں کوئی دفیق معلومات موجود نہیں لیکن آپ سنہ 126ھ میں 18 سال کی عمر میں آپ کی واقع ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی ولادت سنہ 107ھ میں ہوئی تھی۔[3]

بیہقی نے آپ کی کنیت ابو طالب ذکر کیا ہے اور چونکہ آپ افغانستان کے شہر جوزجان میں شہید ہوئے[4] اس بنا پر آپ قتیل جوزجان کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

شکل و شمائل

آپ لمبے بال، خوبصورت داڑھی اور و بلند قد کے مالک تھے۔[5] شجاعت، قوت قلب اور پہلوانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں اپنے والد کی طرح تھے۔[6]

مذہب

یحیی بن زید کے مذہب کے باری میں اختلاف ہے بعض نے انہیں شیعہ امامی اور بعض نے زیدی قرار دیا ہے۔ عبداللہ مامقانی آپ کو شیعہ اثنا عشری جانتے ہیں[7] اور علامہ امینی ان کے مذہب کے بارے میں کہتے ہیں:

شیعہ یحیی بن زید کے بارے میں بدگوئی کرنا تو دور کی بات کوئی سخت الفاظ بھی ان کے بارے میں استعمال نہیں کرتے، آپ امام صادقؑ کی امامت کے قائل تھے، امام صادقؑ نے ان کی شہادت پر گریہ کیا اور ان پر خدا کی رحمت کی دعا فرمائی۔[8]

لیکن آیۃ اللہ خویی کہتے ہیں کہ وہ امام صادقؑ کے تابعین میں سے نہیں تھے اور اپنے کام میں وہ خود مستقل تھے۔[9]

اپنے والد زید بن علی سے نقل کردہ ایک حدیث میں وہ بارہ اماموں کی امامت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں سے چار نفر گزر گئے ہیں اور باقی آیندہ آئیں گے۔[10]


متوکل بن ہارون سے ملاقات

اپنے والد زید بن علی کی شہادت کے بعد جب آپ خراسان چلے جاتے ہیں تو وہاں پر تو آپ کی ملاقات متوکل بن ہارون امی شخص سے ہوتی ہے۔ متوکل بن ہاروں چونکہ حج سے واپس آئے تھے لذا آپ مدینہ اور اپنے رشتہ داروں سے متعلق ان سے دریافت کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے آپ اور آپ کے والد زید بن علی سے متعلق امام صادق علیہ‌السلام کی رائے دریافت کرتے ہیں اور اس ملاقات کے آخر میں امام سجادؑ کی کتاب صحیفہ سجادیہ کا ایک حصہ جو ان کے پاس تھی، کو متوکل کے سپرد کرتے ہیں تاکہ وہ اسے مدینہ پہنچا دیں۔[11]

متوکل بن ہاروں کے ساتھ آپ کی ملاقات اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ آپ کو شیعہ اثنا عشری قرار دینے والے[12]اور اس کے مخالفین[13]دونوں اس گفتگو سے استناد کرتے ہیں۔

قیام

تفصیلی مضمون: قیام یحیی بن زید

یحیی بن زید اپنے والد زید بن علی کی شہادت کے بعد شروع میں اپنے والد کے ساتھیوں میں سے 10 افراد کے ساتھ امام حسینؑ کے روضہ مبارکہ کی زیارت کیلئے چلے گئے۔[14] اس کے بعد جب کوفہ کے قریب "جُبّانہ سُبَیع" نامی مقام پر پہنچے تو ان کے والد کے ساتھی ان سے جدا ہو گئے۔ اس کے بعد آپ بین النہرین پھر وہاں سے مدائن چلے گئے جس کے بعد وہاں سے عازم خراسان ہوئے جب وہاں پہنچے تو آپ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔
جیل سے آپ کی رہائی کے بعد خراسانیوں نے جس زنجیر کے ساتھ آپ کو باندھا گیا تھا کو مہنگے دام خرید لیا اور اس کے ہر حلقے کو الگ الگ کر کے اسے انگوٹھی بنا پر پہن لئے۔[15]

شہادت

کئی شہروں کو طے کرنے کے بعد آخر کار آپ افغانستان کے شہر جوزجان پہنچ گئے اور ایک سخت جنگ کے بعد آپ اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کئے گئے۔ آپ کی تاریخ شہادت شعبان کے مہینے میں جمعہ کا دن ذکر کیا گیا ہے۔[16] آپ کے بدن کو سنہ 125 ہجری کو جوزجان کے مین دروازے پر لٹکایا گیا[17] اور آپ کا سر ولید بن عبدالملک کے یہاں بھیجا گیا جسے انہوں نے آپ کی والدہ ریطہ کے یہاں بھیج دیا۔[18]

محل دفن

یحیی بن زید کا بدن سالوں سال تختہ دار پر رکھا گیا یہاں تک کہ ابو مسلم خراسانی نے آپ کے بدن کو تختہ دار سے نیچے اتارا اور نماز جنازہ پڑھ کر آپ کو دفن کروایا دیا اور لوگوں کو آپ کا سوگ منانے کو کہا گیا،[19] یوں آپ اسی شہر میں ہی دفن ہو گئے۔ لوگوں نے سات (7) دن تک ان کا سوگ منایا اور اس سال پیدا ہونے والے اکثر لڑکوں کا نام یحیی رکھا گیا۔[20]

منسوب مزارات

  • میامی مشہد: یہ مزار مشہد - سرخس کے راستے میں مشہد مقدس سے 55 اور میامی سے ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر ایک بلندی پر واقع ہے۔ یہاں پر منصوب کتیبے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مزار یحیی بن حسین (ذوالدمعہ) بن زید یعنی یحیی بن زید بھتیجے سے منسوب ہے۔[21]
  • گرگان: جوزجان اور جرجان میں شباہت اسمی کی وجہ سے یہ مزار آپ سے منسوب ہوا ہے۔[22]
  • کلیدر نیشابور: یہ مزار امام سجادؑ کے نواسوں میں سے یحیی بن محمد سے متعلق ہے جسے اواخر میں یحیی بن زید سے منسوب کیا گیا ہے۔[23]
  • سبزوار: چونکہ یحیی بن زید کچھ مدت سبزوار میں بطور مخفی زندگی گزارتے تھے اس لئے یہ مقام ان سے منسوب ہوا ہے۔[24]
  • ورامین: یہ مزار بھی یحیی بن زید سے منسوب ہے جس کی علت شاید شہر ری کی طرف آپ کا سفر ہو۔[25]

ان کے علاوہ سمنان اور ہمدان وغیرہ میں بھی آپ سے منسوب عمارتیں موجود ہیں ج کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ سب کے سب شباہت اسمی کی وجہ سے آپ سے منسوب کیئے گئے ہیں۔

قیام کے آثار

یحیی زید کی شہادت کے بعد خراسان میں موجود شیعیان اہل بیتؑ بیداری آئی اور روز بروز بیداری کی اس لہر میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے بنی‌ امیہ کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیتؑ پر روا رکھنے والے مظالم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کئے، یہاں نکہ کہ اس خبر سے ملطع نہ ہونے والا کوئی شخص باقی نہ رہا۔[26]ابو مسلم خراسانی بیداری کی اسی لہر پر سوار ہوا اور اس نے بنی امیہ کا قلع قمع کر ڈالا۔[27] آپ کی شہادت سے شہر ری میں موجود محبان اہل بیت بھی متأثر ہوئے اور وہ سورین نامی دیا کے پانی سے استفادہ ­نہیں کرتے تھے چونکہ ان کے بقول جس تلوار سے یحیی بن زید کو شہید کیا گیا تھا اسے اسی دریا کے پانی سے دھویا گیا تھا۔[28]

زوجہ اور اولاد

آپ نے اپے چچا کی بیٹی محبہ بنت عمرو بن علی بن الحسینؑ سے شادی کی۔[29] اکثر مورخین اور علماء نے آپ کے کسی اولاد ذکور کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ آپ جوانی کے عالم میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن حمداللہ مستوفی نامی ایک شخص نے عبداللہ بن یحیی کو آپ کا بیٹا قرار دیا ہے جو طالب الحق کے نام سے مشہور تھے۔[30] ابن جیبر نے زینب بنت یحیی بن زید بن امام سجادؑ کے نام سے ایک بیٹی کو آپ کی اولاد میں شمار کیا ہے۔[31] بعضی مرقد زینب بنت یحیی را در مصر دانستہ‌اند۔[32]

حوالہ جات

  1. منہاج سراج جوزجانی، طبقات ناصری، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۲۵۰۔
  2. ابن صوفی، المجدی، ۱۴۲۲ق، ص۴۲۹۔
  3. قرشی، ص۶۰
  4. بیہقی، لباب الأنساب، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۳۲۷-۳۲۸۔
  5. المَحَلّی، الحدائق الوردیّہ، ۲۰۰۲م، ج۱، ص۲۶۸۔
  6. المَحَلّی، الحدائق الوردیّہ، ۲۰۰۲م، ج۱، ص۲۶۸۔
  7. مامقانی، تنقیح المقال، مطبعہ المرتضویہ، ج۳، ص۳۱۶۔
  8. امینی، نظرہ فی کتاب السنہ و الشیعہ، نشر مشعر، ج۱، ص۲۱۔
  9. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۰۳ق، ج‌۲۰، ص۵۰۔
  10. خزاز رازی، کفایہ الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۳۰۴۔
  11. مقدمہ صحیفہ سجادیہ
  12. مامقانی، تنقیح المقال، مطبعہ المرتضویہ، ج۳، ص۳۱۶؛امینی، نظرہ فی کتاب السنہ و الشیعہ، نشر مشعر، ج۱، ص۲۱۔
  13. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۰۳ق، ج‌۲۰، ص۵۰۔
  14. تاریخ نامہ طبری، ج۴، ص۹۶۳
  15. مقاتل الطالبیین، ص۱۰۵
  16. منہاج سراج جوزجانی، طبقات ناصری، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۳۸۸۔، خراسانی، ص ۳۵۵
  17. ینابیع المودہ، ج۳، ص۱۶۲، مقاتل الطالبیین، ص۱۰۷
  18. شجرہ طوبی، ج۱، ص۲۶۰
  19. الإمام الصادق و المذاہب الأربعۃ، أسد حیدر، ج۱، ص:۱۳۸
  20. الروض المعطار فی خبر الاقطار، النص، ص۱۸۲
  21. سالک، ص۷۰
  22. جلالی، ۲۸۹
  23. جلالی، ص۲۵۳
  24. جلالی، ص۲۷۵
  25. جلالی، ص۳۰۷
  26. یعقوبی، ج۲، ص‌۳۲۶
  27. الروض المعطار فی خبر الاقطار، النص، ص۱۸۲
  28. مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ و البقاع، ج۲، ص ۷۵۴
  29. المَحَلّی، الحدائق الوردیّہ، ۲۰۰۲م، ج۱، ص۲۷۱۔
  30. تاریخگزیدہ،متن،ص:۲۹۲
  31. رحلۃ ابن جبیر، ص ۲۰
  32. الأعلام،ج۳،ص:۶۷

مآخذ

  • ابن صوفی، علی بن محمد، المجدی فی أنساب الطالبیین، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۲۲ق۔
  • اسد حیدر، الإمام الصادق و المذاہب الأربعۃ،‌ دار التعارف، بیروت، ۱۴۲۲ ق۔
  • بلعمی، تاریخ نامہ طبری، جلد دوم، طبع دوم، تہران،۱۳۶۸۔
  • بیہقی، علی بن زید، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، تحقیق مہدی رجایی، قم، کتابخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی(رہ)، ۱۳۸۵ش۔
  • خراسانی، محمد ہاشم، منتخب التواریخ۔ تہران، خیابان بوذر جمہیری، ۱۳۴۷۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، ک‍ف‍ای‍ہ‌ الاث‍ر ف‍ی‌ ال‍ن‍ص‌ ع‍ل‍ی‌ الائ‍م‍ہ‌ الاث‍ن‍ی‌ ع‍ش‍ر، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۰۱ق۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاہ الشہید، الخالد زید بن علی، ماہر، ۱۴۲۹ق۔
  • مستوفی، حمد اللہ بن ابی بکر بن احمد مستوفی قزوینی (نوشتہ در۷۳۰)، تاریخ گزیدہ، تحقیق عبد الحسین نوایی، تہران، امیر کبیر، چ سوم، ۱۳۶۴ش۔
  • رضوی اردکانی، سید ابو فاضل، شخصیت و قیام زید بن علی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ دوم، بیتا۔
  • ابن جبیر، ابوالحسن محمد بن احمد(۶۱۴)، رحلۃ ابن جبیر،‌دار ومکتبۃ الہلال، بیروت، بی‌تا۔
  • الحمیری، محمد بن عبدالمنعم (م۹۰۰) الروض المعطار فی خبر الاقطار، مکتبہ لبنان، بیروت، ۱۹۸۴ ء، چاپ دوم۔
  • بغدادی، صفی الدین عبد المؤمن بن عبد الحق (۷۳۹ ھ)، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ و البقاع،‌دار الجیل، بیروت، ۱۴۱۲ ق، چاپ اول۔
  • ہارونی، یحیی بن حسین، الافادہ فی تاریخ ائمہ الزیدیہ، تحقیق محمد یحیی سالم غرّان، چاپ اول، دار الحکمہ الجانیہ، ۱۴۱۷ ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب بن جعفر بن وہب واضح الکاتب العباسی، (م بعد ۲۹۲)، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا۔
  • منہاج سراج جوزجانی، طبقات ناصری تاریخ ایران و اسلام، تحقیق عبد الحی حبیبی، تہران، دنیای کتاب، چاپ اول، ۱۳۶۳ش۔
  • المَحَلّی، الحمید بن احمد، الحدائق الوَرْدیَّۃ فی مناقب الأئمۃ الزیدیۃ، محقق المرتضی بن زید المَحَطْوَری، صنعاء، مطبوعات مکتبۃ مرکز بدر، ۲۰۰۲ ء۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ط الثامنۃ، ۱۹۸۹ ء۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف الاشرف، مطبعہ المرتضویہ، بی‌تا۔
  • امینی، عبد الحسین، نظرۃ فی کتاب السنۃ و الشیعۃ، تحقیق احمد الکنانی، تہران، نشر مشعر، بی‌تا۔
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، منشورات آیہ اللہ خویی، ۱۴۰۳ق۔
  • سالک بیرجندی، محمد تقی، امام زادہ یحیی بن حسین زید «میامی»، مجلہ وقف جاویدان، بہار۱۳۸۳، شمارہ۴۵، ص۶۶تا۷۵۔
  • محمدی جلالی، محمد مہدی، قیام یحیی بن زید (ع)، وثوق، قم، ۱۳۸۵۔