قبیلہ کندہ
عمومی معلومات | |
---|---|
دیگر اسامی | بنی کندہ |
نسب | ثور(کنده) بن عفیر بن عدی، کہلان بن سبا کی نسل سے |
قومیت | قحطانی عرب |
منشعب از | بنی کہلان |
سربراہ | کندہ بن عفیر |
آغاز | تقریباً پانچویں صدی عیسوی |
عصر | قبل و بعد از اسلام |
انشعابات | بنی معاویہ، بنی وہب، بنی بداء، بنی رائش، سکسک، سکون، تجیب، بنی عدی و بنی سعد |
مذہب | شیعہ |
اسلام لانا | صدر اسلام |
محل سکونت | یمن، کوفہ |
خصوصیات | یمن میں قحطانی عرب کا بڑا قبیلہ |
واقعات | اس قبیلے کے بعض افراد نے امام علیؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ دیا |
خاتمہ | اسلام سے پہلے |
حکومت | |
وسعت | یمن اور حجاز کے بعض علاقے |
حکمران | آکل المرار |
شخصیات | |
راویان | یقطین بن موسی بغدادی، علی بن یقطین، قاسم بن حسن |
مشاہیر | حجر بن عدی، اشعث بن قیس، |شریح قاضی |
علماء | ابو یوسف کندی |
قبیلہ كِنْدَہ یمنی بڑے اور مشہور شیعہ قبائل سے تھا جنہوں نے صدر اسلام کے واقعات میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام سے پہلے، ان کا یمن کے دیگر قبائل میں بہت اثر و رسوخ تھا اور انہوں نے یمن اور حجاز کے بعض علاقوں پر کچھ عرصہ حکومت کی۔
کندیوں نے رسول خداؐ کی طرف سے جنگ میں بھیجے گئے اصحاب کے ہاتھوں نیز مدینہ میں ان کے نمائندوں کی موجودگی کے ذریعے اسلام قبول کیا۔ پیغمبر خداؐ کی رحلت کے بعد کندہ قبائل کے بعض افراد مرتد ہو گئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔
کوفہ شہر کے قیام کے بعد ان کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کی طرف ہجرت کی اور اسلامی فتوحات میں پیش پیش رہے۔ امام علیؑ کی ظاہری خلافت کے دوران کندہ قبیلہ نے امام علیؑ کا ساتھ دیتے ہوئے جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں شرکت کی۔ اس قبیلہ کے بعض افراد؛ جیسے اشعث بن قیس وغیرہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جنگ صفین میں حکمیت کا مسئلہ اٹھایا اور اور اسے امام علیؑ پر مسلط کیا۔
واقعہ کربلا میں دونوں طرف کندیوں کی فعال موجودگی رہی۔ شہدائے کربلا کی ایک تعداد کا تعلق اسی قبیلے سے تھا؛ چنانکہ عبید اللہ بن زیاد کے لشکر میں بھی اس قبیلہ کے متعدد افراد کی موجودگی کا ذکر ملتا ہے۔
حجر بن عدی، اشعث بن قیس، امرؤ القیس ابن عباس، شریح قاضی اور حصین بن نمیر اس قبیلے کے مشہور افراد میں سے ہیں۔
مقام
کندہ قبیلہ یا بنی کندہ[1] کو یمن کے علاقے میں مشہور شیعہ قبائل[2] میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[3] انہیں عرب کے قحطانی قبائل میں سے ایک[4] اور ثور (کندہ) ابن عفیر ابن عدی کی اولاد میں شمار کیا جاتا ہے، جو کہلان ابن سبا کی نسل سے ہیں۔ اس قبیلے کو کندہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[5]
کندہ کو یمنی علاقے کے سب سے بڑے اور اہم ترین قبائل میں شمار کیا جاتا ہے۔[6] اس علاقے کے قبائل کے مابین ان کا قبیلہ خاص مقام و مرتبے کا حامل تھا[7] اور اپنی بڑی آبادی اور ممتاز شخصیات کی وجہ سے آغاز اسلام کے واقعات میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔[8] مسلمانوں کے خلیفہ اول، خلیفہ سوم کے ساتھ ساتھ امام حسنؑ کے ساتھ کندیوں کی رشتہ داری ان کے مقتدر طبقہ بننے کا سبب بنی۔[9]
ایک روایت کے مطابق رسول خداؐ نے کندہ قبیلے کو سبا کی نیک نسلوں کے طور پر متعارف کرایا۔[10] نیز آپؐ نے کچھ دیگر قبیلوں کے ساتھ کندہ قبیلہ کی بھی تعریف کی۔[11] علامات ظہور امام مہدی(عج) سے متعلق منابع تاریخی کے مطابق خراسان میں کندہ قبیلے کے لوگوں کا پرچم اٹھانا ظہورکی نشانیوں میں سے ایک ہے۔[12]
اسلام سے پہلے
ظہور اسلام سے پہلے کندہ قبیلہ بت پرست تھے اور دو مشہور بتوں ذرّیح[13] اور الجلسد[14] کی پوجا کرتے تھے۔[15] بعض تاریخی منابع میں اس قبیلےمیں دین یہودیت[16] اور عیسائیت[17] کے اثر و نفوذ کا بھی ذکر ملتا ہے۔[18] اسلام سے پہلے قبیلہ کندہ یمن اور حجاز کے بعض عرب قبائل[19] پر حکومت کرتا تھا۔[20]
قبول اسلام
تاریخی اطلاعات کے مطابق، کندہ قبیلے نے رسول خداؐ کے بھیجے گئے سریے[21] اور مدینہ میں اپنے نمائندوں کی موجودگی[22] کے بموجب اسلام قبول کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ ان قبیلوں میں سے تھا جنہیں رسول خداؐ نے اپنے ایک سفر کے دوران اسلام کی دعوت دی تھی، لیکن ان کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا[23] یا ان کے سرداروں میں سے کسی ایک کی طرف سے مخالفت کی گئی۔[24]
روانگی سریہ
سنہ 9 ہجری میں جنگ تبوک کے دوران پیغمبر خداؐ نے خالد بن ولید کو دومۃ الجندل کے علاقے میں بھیجا جہاں پر کندیوں کی حکمرانی تھی؛ خالد انہیں شکست دے کر ان کے حاکم کو گرفتار کر کے بکثرت مال غنیمت لے کر واپس آیا۔[25] اس کے بعد رسول خداؐ کی طرف سے اہالیان دومۃ الجندل کے نام ایک خط لکھا گیا۔[26] مذکورہ خط ان خطوط کی طرح تھا جنہیں پیغمبر خداؐ مختلف قبائل کے وفود کے نام لکھتے تھے۔ اس خط میں اقامہ نماز اور ادائیگی زکوٰۃپر مشتمل دیگر تعلیمات دینی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔[27]
مدینہ کی جانب نمایندوں کی روانگی
سنہ 10 ہجری میں کندیوں کے ساٹھ[28] یا اسّی لوگ[29] اشعث بن قیس کے ساتھ رسول خداؐ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا۔[30] یہ واقعہ تاریخ میں "وفد کندی" کے نام سے مشہور ہے۔[31] متعدد ذرائع میں اس قبیلے کے دیگر وفود کی مدینہ [32] کی طرف روانگی کا تذکرہ ملتا ہے، جن میں تجیب[33] کا وفد بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قبیلے کا ایک گروہ رسول خداؐ کے پاس آیا اور اپنے اسلام قبول کرنے کو پیغمبر خداؐ کے بعد آپؐ کی جانشینی سے مشروط کر دیا، جس کی ان کو آپؐ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔[34] بعض تاریخی منابع میں واقعہ مباہلہ میں اس قبیلے کے ایک شخص کی نجرانیوں کے نمائندے کے طور پر موجودگی کا ذکر ملتا ہے۔[35]
کندیوں کا مرتد ہونا
پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد کندہ قبائل دو گروہوں میں بٹ گئے۔ کچھ قبائل دین اسلام پر ثابت قدم رہے، جبکہ کچھ نے دینی تعلیمات کی نافرمانی کرتے ہوئے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔[36] کہا جاتا ہے کہ ان کا دو گروہوں میں بٹ جانے کا مسئلہ اس وقت پید اہوا جب اشعث بن قیس اور امرء القیس کے درمیان دین اسلام پر باقی رہنے یا نہ رہنے کے سلسلے میں تنازعہ ہوا تھا۔[37] اشعث نے کندہ قبائل کے ارتداد اور ان کی قیادت میں اسلام کے خلاف مقابلہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔[38] کندیوں کے ارتداد کافتنہ اشعث بن قیس کی شکست اور اس کی اسیری کے ساتھ ختم ہوا۔ ابوبکر نے اسے معاف کر دیا اور اپنی بہن ام فروہ کا اس سے نکاح کر دیا۔[39]
کوفہ کی طرف ہجرت اور فتوحات میں شرکت
سنہ 17 ہجری میں کوفہ شہر کے قیام کے بعد[40] یمنیوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر کندیوں نے آہستہ آہستہ اس شہر کی طرف ہجرت کی۔[41] کندہ کے مختلف قبائل کوفہ کی آبادی کا ایک اہم حصہ تھے؛ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ سنہ 50 ہجری میں کندہ قبائل ربیعہ قبائل کے ساتھ مل کر کوفہ کی آبادی کے ایک چوتھائی حصے پر قابض تھے۔[42] مسجد کوفہ کے دروازوں میں سے ایک دروازہ باب کندہ کہلاتا تھا، جو ابتدائے اسلام میں بعض اہم واقعات کی نشاندہی کرتا ہے۔[43]
اشعث بن قیس کی قیادت میں کندیوں نے کوفہ میں ایک مقام حاصل کیا۔ انہوں نے کئی مساجد تعمیر کیں جن میں اشعث ابن قیس نامی مسجد بھی شامل ہے[44] جسے بعض روایات میں مساجد ملعونہ میں سے قرار دیا گیا ہے۔[45] ایک روایت میں امام علیؑ نے لوگوں کو وہاں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔[46] امام محمد باقرؑ کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ مسجد ان مساجد میں سے ایک تھی جو امام حسینؑ کی شہادت کے بعد لشکر کوفہ کی فتح کے شکرانے میں دوبارہ تعمیر کی گئی تھی۔[47]
کندہ قبائل اسلامی فتوحات میں وسیع پیمانے پر موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قبیلہ کندہ کے تقریباً 2,300 افراد اشعث بن قیس کی سربراہی میں[48] جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے تھے۔[49] اس قبیلے کے متعدد افراد نے جنگ یرموک، [50] جنگ مدائن، جنگ جلولا اور جنگ نہاوند میں حصہ لیا۔[51] اشعث جنگ نہاوند میں دائیں بازو کے سپہ سالار تھا[52] اور اصفہان کی فتح میں بھی حصہ لیا تھا۔[53]
امام علیؑ کی ہمراہی
کندہ قبیلے کے لوگوں نے امام علیؑ کے دور خلافت کے واقعات میں ایک موثر کردار ادا کیا۔ امام علیؑ منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد کندہ کے "تجیب" و "سکون" جیسے متعدد قبائل شام چلے گئے؛ تاہم، ان میں سے بہت سے لوگ امامؑ کے زیر پرچم آگئے؛ جمل،[54] صفین،[55] اور نہروان[56] کی جنگوں میں امام علیؑ کی مدد کی اور اسی دوران خالص شیعوں کا ایک ابتدائی مرکز تشکیل دیا۔[57] تاریخی منابع نے معاویہ کی فوج میں کندیوں کی موجودگی اور امام علیؑ کی حمایت کرنے والے کندیوں کے ساتھ ان کے تصادم کا بھی ذکر کیا ہے، ان موارد میں سے ایک حجر ابن عدی اور حجر ابن یزید کے درمیان تقابل و تصادم تھا،[58] جو کہ تاریخ میں تصادم "حجر خیر" اور "حجر شر" کے نام سے مشہور ہے۔[59] اس قبیلے کے بعض افراد جیسے اشعث بن قیس کندی نے حکمیت کے مسئلے میں اہم کردار ادا کیا اور اسی نے امام علیؑ پر حکمیت مسلط کی۔[60] جنگ نہروان کے بعد امام علیؑ کی مخالفت کرنے اور اپنی فوجوں کو کوفہ واپس بھیجنے کے بعد امامؑ کی طرف سے اشعث پر لعنت کی گئی۔[61]
کہا جاتا ہے کہ امام حسنؑ کی فوج کو توڑنے میں کندیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی کردار ادا کیا۔ امام حسنؑ نے کندہ قبیلے کے ایک شخص کو چار ہزار لوگوں کے ساتھ معاویہ کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا، لیکن اس نے امامؑ سے غداری کی اور معاویہ کی فوج میں شامل ہوگیا۔ اس واقعہ کے رد عمل میں امام حسنؑ نے ایک خطبہ دیا جس میں امامؑ نے اس کی مذمت کی۔[62]
واقعہ کربلا میں کردار
کوفہ میں مسلم ابن عقیل کے قیام کے دوران کندہ قبائل نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔[63] مسلم بن عقیل کوفہ شہر میں داخل ہونے کے بعد کندہ قبیلے کے ہاں روپوش ہوگئے[64] اور آخر کار اس قبیلے کے ہاں پناہ لی اور کندہ قبیلہ کے کسی گھر میں مخفی ہوگئے۔[65]
واقعہ کربلا میں دونوں طرف کندیاں موجود تھے۔ کربلا کے کئی شہداء کا تعلق کندیوں سے تھا: جندب بن حجیر جو کہ کوفہ کے ایک ممتاز اور معروف شیعہ تھے،[66] یزید بن زیاد بن مہاصرکندی، بشیر بن عمرو بن احدوث حضرمی کندی،[67] ابوشعثاء کندی بہدلی،[68] حارث بن امرء القیس کندی اور زاہر بن عمرو کندی۔[69]
کندہ قبیلہ کے کچھ افراد لشکر ابن زیاد میں بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قبیلہ کے مالک بن نسیر نامی شخص نے امام حسینؑ کے سر پر تلوار ماری اور امامؑ نے اس پر لعنت کی۔[70] عاشورہ کے واقعہ کے بعد کندہ قبیلہ کے کئی افراد بعض شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ لے گئے۔[71] تاریخی منابع نے قیام مختار اور ابراہیم بن مالک اشتر کے لشکر میں بھی کندیوں کی موجودگی کا تذکرہ کیا ہے۔[72]
مشہور افراد
- حجر بن عدی؛ حجر قبیلہ کندہ کی بزرگ شخصیت[73] اور لشکر امام علیؑ کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔ انہوں نے مسئلہ صلح امام حسنؑ کے سلسلے میں مخالفت کی، لیکن وہ ہمیشہ اہل بیتؑ کے محافظ اور عقیدت مند رہے ہیں۔[74]
- اشعث بن قیس کندی؛ اشعث کندہ قبیلے کا سردار،[75] امام علیؑ کا سپہ سالار اور امام علیؑ پر حکمیت مسلط کرنے والوں میں سے تھا۔[76] محمد، قیس اور امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ اشعث کی اولادوں میں سے ہیں۔
- امرء القیس بن عابس کندی؛ امرء القیس کا کوفہ کے شعراء میں نام ملتا ہے۔[77] انہوں نے اسلامی فتوحات میں حصہ لیا تھا اور جنگ یرموک کی جنگ میں بھی شریک تھا۔[78]
- شریح بن حارث کندی؛ تاریخ میں وہ شُریح قاضی کے نام سے مشہور ہیں۔[79]
- ثعلبہ بن ابی مالک؛ جنہیں عبد اللہ بن سام بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ان یہودیوں میں سے تھا جنہوں نے مدینہ میں قبیلہ بنی قریظہ میں شمولیت اختیار کی اور یہودی علماء میں قرار پایا؛ اس طرح کہ وہ بنو قریظہ کے امام مانے جاتے تھے۔[80] اسلام کے بعد اس نے عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان سے احادیث نقل کی ہیں۔[81]
- معاویہ بن حدیج؛ یہ لشکر معاویہ کا سپہ سالار اور محمد ابن ابی بکر کا قاتل تھا۔[82]
- حُصَین بن نُمیر؛ حصین لشکر معاویہ کا سپہ سالارتھا[83] کندہ کے "سکون" قبیلے سے اس کا تعلق تھا۔[84] کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ آل علیؑ کا دشمن رہا۔[85]
- ابویوسف کندی؛ اسے عرب کا فلسفہ دان لقب ملا تھا اور امرؤ القیس کی نسل سے تھا۔ وہ فلسفہ، منطق، ہندسہ، ریاضیات، موسیقی اور نجوم جیسے مختلف علوم میں مہارت رکھتا تھا اور انہی موضوعات پر بہت سی کتابیں تحریر کیں۔[86]
قیس بن فہدان؛ قیس مشہور شیعہ شاعر تھا،[87] سائب بن یزید کندی یاران عمر بن خطاب میں سے تھا،[88] عبد اللہ بن یحیی اباضی مذہب اور طالب حق کے نام سے معروف تھا،[89] ابن ملجم مرادی[90][یادداشت 1] حوی بن ماتع بن زرعہ جو کہعمار یاسر کے قاتلوں میں سے تھا،[91] جبریل بن یسار جو کہ حجاج بن یوسف کے بعد بصرہ کا حاکم تھا،[92] حرملۃ بن عمرو تجیبی جو کہ قبیلہ تجیب کی بزرگ شخصیات میں سے تھا اور امام شافعی کا ہمنشین تھا،[93] شرحبیل بن حسنہ[94] اور عدی بن فروہ[95] وغیرہ اس قبیلے کے دیگر افراد سمجھے جاتے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعۃ، تہران، ج6، ص275۔
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، محسن الأمین، 1403ھ، ج2، ص514-515۔
- ↑ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص666؛ شوقی ضیف، تاریخ الادب العربی العصر الجاہلی، بیروت، ج1، ص232۔
- ↑ عبدی، «قبیلہ کندہ قبل از اسلام»۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج14، ص243؛ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص666؛ ابنعدیم، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب، بیروت، ج4، ص1896۔
- ↑ عبدی، «قبیلہ کندہ قبل از اسلام»۔
- ↑ محمدی، «قبیلہ کندہ و نقش آن در مہمترین رویدادہای عصر جاہلی و صدر اسلام»، ص111۔
- ↑ محمدی، «قبیلہ کندہ و نقش آن در مہمترین رویدادہای عصر جاہلی و صدر اسلام»، ص124۔
- ↑ محمدی، «قبیلہ کندہ و نقش آن در مہمترین رویدادہای عصر جاہلی و صدر اسلام»، ص128۔
- ↑ سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج1، ص19۔
- ↑ متقی ہندی، کنز العمال، 1401ھ، ج12، ص90۔
- ↑ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375شمسی، ج2، ص262؛ قمی، الأنوار البہیۃ، قم، ج1، ص377؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج2، ص457۔
- ↑ ابنحبیب، المحبر، بیروت، ص318؛ ابنحزم، جمہرۃ أنساب العرب، 1403ھ، ص493۔
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج2، ص151، کحالہ، معجم قبائل العرب، 1388شمسی، ج3، ص1000۔
- ↑ زرکلی، الأعلام، 1989ء، ج5، ص234۔
- ↑ ابنقتیبہ، المعارف، 1992ء، ص621، ابنحزم، جمہرۃ أنساب العرب، 1403ھ، ص491۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص126؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص250۔
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص212۔
- ↑ ابناعثم کوفی، الفتوح، ترجمہ، پاورقی محقق، 1372شمسی، ص930۔
- ↑ کحالہ، معجم قبائل العرب، 1388شمسی، ج3، ص998۔
- ↑ مسعودی، التنبیہ و الإشراف، قاہرہ، ص236۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص138۔
- ↑ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج3، ص16۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویہ، بیروت، ج1، ص424۔
- ↑ مسعودی، التنبیہ و الإشراف، قاہرہ، ص236؛ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص126؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص250۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص220۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص652۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص138۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویہ، بیروت، ج2، ص585؛ حجری یمانی، مجموع بلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص666۔
- ↑ بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص370۔
- ↑ رجوع کیجیے: ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص248؛ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص133۔
- ↑ ابنحجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج2، ص35۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص244-245۔
- ↑ پیشوایی، تاریخ اسلام، 1382شمسی، ص185-186۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص267؛ ابنحجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج3، ص196۔
- ↑ ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج1، ص46۔
- ↑ رجوع کیجیے: ابناعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج1، ص45-53۔
- ↑ مزید تفصیلات کے لیے رجوع کیجیے: ابناعثم الکوفی، الفتوح، ج1، ص45-68؛ بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص105-106۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص105-106۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج4، ص40۔
- ↑ جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، 1380ھ، ص128-131؛ کحالہ، معجم قبائل العرب، 1388شمسی، ج3، ص999۔
- ↑ ماسینیون، خطط الکوفۃ و شرح خریطتہا، 2009ء، ص28۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج14، ص20۔
- ↑ صفری فروشانی، کوفہ از پیدایش تا عاشورا، 1391شمسی، ص144-137۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص490؛ شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص301؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج3، ص250۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص490؛ شیخ مفید، کتاب المزار، 1413ھ، ص88۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص490.
- ↑ دینوری، الأخبار الطوال، 1368شمسی، ص122۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص563۔
- ↑ ابنحبیب، المحبر، بیروت، ص261۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج11، ص544۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص298۔
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1506۔
- ↑ شیخ مفید، الجمل، 1413ھ، ص320۔
- ↑ امین، سیرہ معصومان، 1376شمسی، ج4، ص589۔
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص329۔
- ↑ محمدی، «قبیلہ کندہ و نقش آن در مہمترین رویدادہای عصر جاہلی و صدر اسلام»، ص127۔
- ↑ امین، سیرہ معصومان، 1376شمسی، ج4، ص602۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: منقری، وقعۃ صفین، 1413ھ، ص243؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج1، ص486۔
- ↑ ابناثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج1، ص118۔
- ↑ سیدرضی، نہج البلاغہ، ص20۔
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص158۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: سماوی، سلحشوران طف، 1381ھ، ص101۔
- ↑ یوسفی غروی، نخستین گزارش مستند از نہضت عاشورا، 1380شمسی، ص68۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، خامسۃ1، ص461؛ دینوری، الأخبار الطوال، 1368شمسی، ص239۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، 1385شمسی، ص126۔
- ↑ سماوی، سلحشوران طف، 1381ھ، ص214۔
- ↑ سماوی، سلحشوران طف، 1381ھ، ص211۔
- ↑ سماوی، سلحشوران طف، 1381ھ، ص213؛ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1417ھ، ص193۔
- ↑ ابومخنف کوفی، وقعۃ الطف، 1417ھ، ص250۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج5، ص468؛ دینوری، الأخبار الطوال، 1368شمسی، ص259 ؛ ابنجوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص341۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج6، ص81۔
- ↑ ابراہیمی ورکیانی، تاریخ تحلیلی اسلام از آغاز تا واقعہ طف، 1390شمسی، ص294۔
- ↑ منتظرالقائم، تاریخ امامت، 1386شمسی، ص126۔
- ↑ ابنعبداللہ بن عمر، خلاصہ سیرت رسول اللہ(ص)، 1382شمسی، ص185؛ امین، سیرہ معصومان، 1376شمسی، ج4، ص671 ؛ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص133۔
- ↑ ابناثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج1، ص118۔
- ↑ ابناثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج1، ص118۔
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج9، ص246۔
- ↑ ابنقتیبہ، المعارف، 1992ء، ص433؛ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص182۔
- ↑ ابناثیر، أسد الغابۃ، 1409ھ، ج1، ص292۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص58؛ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج1، ص212۔
- ↑ ابنفضلاللہ عمری، مسالک الأبصار فی ممالک الأمصار، 1424ھ، ج4، ص264؛ ابنقانع بغدادی، معجم الصحابۃ، 1424ھ، ج13، ص4801، محقق
- ↑ ابنفضلاللہ عمری، مسالک الأبصار فی ممالک الأمصار، 1424ھ، ج4، ص264۔
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج14، ص382-389۔
- ↑ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1417ھ، ص152۔
- ↑ پایندہ، تاریخ سیاسی اسلام، 1376شمسی، ج3، ص690؛ شہرزوری، تاریخ الحکماء قبل ظہور الإسلام و بعدہ، پاریس، ص410۔
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، محسن الأمین، 1403ھ، ج2، ص514-515۔
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج20، ص106-122۔
- ↑ بامطرف، الجامع، بغداد، ج2، ص766۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج5، ص144۔
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص171۔
- ↑ ابنحزم، جمہرۃ أنساب العرب، 1403ھ، ص432۔
- ↑ ابناثیر، اللباب فی تہذیب الأنساب، 1414ھ، ج1، ص207۔
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج2، ص698۔
- ↑ ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1060۔
نوٹ
- ↑ بعض نے اسے قبیلہ مراد مذحج میں سے قرار دیا ہے(مقریزی، المقفی الکبیر، 1427ھ، ج4، ص44؛ ابناثیر، اللباب فی تہذیب الأنساب، 1414ھ، ج3، ص188۔)
مآخذ
- ابراہیمی ورکیانی، محمد، تاریخ تحلیلی اسلام از آغاز تا واقعہ طف، قم، دفتر نشر معارف، 1390ہجری شمسی۔
- ابناثیر، علی بن محمد، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
- ابناثیر، علی بن محمد، اللباب فی تہذیب الأنساب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
- ابناعثم کوفی، احمد، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، 1411ھ۔
- ابنجوزی، علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1412ھ۔
- ابنحبیب، محمد، کتاب المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت، دارالآفاق الجدیدۃ، بیتا۔
- ابنحجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
- ابنحزم، جمہرۃ أنساب العرب، تحقیق لجنۃ من العلماء، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1403ھ۔
- ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
- ابنعبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
- ابنعبداللہ بن عمر، محمد، خلاصہ سیرت رسول اللہ(ص)، تہران، علمی و فرہنگی، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
- ابنعدیم، عمر بن احمد، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب، بیروت، دارالفکر، بیتا۔
- ابنعساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الأماثل أو اجتاز بنواحیہا من واردیہا و أہلہا، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
- ابنفضلاللہ عمری، احمد بن یحیی، مسالک الأبصار فی ممالک الأمصار، ابوظبی، المجمع الثقافی، 1424ھ۔
- ابنقانع بغدادی، عبدالباقی، معجم الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1424ھ۔
- ابنقتیبہ، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، قاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم، 1992ء۔
- ابنہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔
- ابومخنف کوفی، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، قم، جامعہ مدرسین، چاپ سوم، 1417ھ۔
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
- امین، محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- امین، سید محسن، سیرہ معصومان، ترجمہ علی حجتی کرمانی، تہران، سروش، چاپ دوم، 1376ہجری شمسی۔
- بامطرف، محمد عبدالقادر، الجامع(جامع شمل أعلام المہاجرین المنتسبین إلی الیمن و قبائلہم)، بغداد، دارالرشید للنشر، بیتا۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1988ء۔
- بیہقی، ابوبکر، دلائلالنبوۃ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1405ھ۔
- پایندہ، ابوالقاسم، تاریخ سیاسی اسلام(ترجمہ)، تہران، جاویدان، چاپ نہم، 1376ہجری شمسی۔
- پیشوایی، مہدی، تاریخ اسلام (از جاہلیت تا رحلت پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، قم، دفتر نشر معارف، 1382ہجری شمسی۔
- جعفری، حسینمحمد، تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ محمدتقی آیتاللہی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1380ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، سیرہ رسول خدا(ص)، قم، دلیل ما، 1383ہجری شمسی۔
- جمعی از نویسندگان، پژوہشی پیرامون شہدای کربلا، قم، زمزم ہدایت، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
- حجری یمانی، محمد بن احمد، مجموع بلدان الیمن و قبائلہا، صنعا، دارالحکمہ الیمانیہ، چاپ دوم، 1416ھ۔
- دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
- زرکلی، خیرالدین، زرکلی، الأعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
- سماوی، محمد بن طاہر، سلحشوران طف، ترجمہ عباس جلالی، قم، زائر، 1381ھ۔
- سمعانی، عبدالکریم بن محمد، الأنساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، 1382ھ۔
- سید رضی، نہج البلاغۃ، قم، مشہور، 1379ہجری شمسی۔
- شہرزوری، محمد بن محمود، تاریخ الحکماء قبل ظہور الإسلام و بعدہ، پاریس، بیبلیون، بیتا۔
- شوقی ضیف، عبدالسلام، تاریخ الادب العربی العصر الجاہلی، بیروت، دارالمعارف، بیتا۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، تحقیق علیاکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الأحکام (تحقیق خرسان)، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الجمل و النصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، کتاب المزار- مناسک المزار، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- صفری فروشانی، نعمتاللہ، کوفہ از پیدایش تا عاشورا، تہران، نشر مشعر، 1391ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
- عبدی، سیاوش، «قبیلہ کندہ قبل از اسلام»، مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ 28، 1385ہجری شمسی۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، 1375ہجری شمسی۔
- قمی، شیخ عباس، الأنوار البہیۃ فی تواریخ الحجج الالہیۃ، قم، مؤسسۃ الإسلامی، بیتا۔
- کحالہ، عمر رضا، معجم قبائل العرب، بیروت، دارالعلم للملایین، 1388ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- ماسینیون، لویی، خطط الکوفۃ و شرح خریطتہا، بیروت، بیت الورق، 2009ء۔
- متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، چاپ پنجم، 1401ھ۔
- مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، چاپ دوم، 1406ھ۔
- محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، چاپ دوم، 1417ھ۔
- محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ در ترجمہ دانشمندان بانوان شیعہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، بیتا۔
- محمدی، رمضان، «قبیلہ کندہ و نقش آن در مہمترین رویدادہای عصر جاہلی و صدر اسلام»، مجلہ تاریخ اسلام، شمار مسلسل 63، پاییز 1394ہجری شمسی۔
- مسعودی، علی بن الحسین، التنبیہ و الإشراف، قاہرہ، دارالصاوی، بیتا۔
- مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
- مقریزی، أحمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
- مقریزی، احمد بن علی، المقفی الکبیر، بیروت، دارالغرب الإسلامی، چاپ دوم، 1427ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
- منتظرالقائم، اصغر، تاریخ امامت، قم، دفتر نشر معارف، 1386ہجری شمسی۔
- منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، 1995ء۔
- یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، البلدان، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1422ھ۔
- یعقوبی، احمد بن أبی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بیتا۔
- یوسفی غروی، محمدہادی، نخستین گزارش مستند از نہضت عاشورا، ترجمہ جواد سلیمانی، قم، مؤسسہ امام خمینی، چاپ دوم، 1380ہجری شمسی۔