سعید بن عبد اللہ حنفی

ویکی شیعہ سے
سعید بن عبد اللہ حنفی
کوائف
نام:سعید بن عبد اللہ حنفی
نسببنی حنفیہ
اصحابامام حسینؑ
سماجی خدماتامام حسینؑ اور کوفہ والوں کے درمیان خطوط کا تبادلہؑ
مذہبشیعہ


سعید یا سعد بن عبداللہ حنفی کا نام ۶۱ ہجری قمری میں واقعہ کربلا کے شہیدوں میں ذکر ہوتا ہے۔ وہ کوفہ کے ان شہدا میں سے تھے کہ جو کوفیوں اور امام حسین کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں خطوط پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ اسی طرح مسلم بن عقیل کا خط امام حسینؑ کو پہنچانے کے بعد وہ امام حسینؑ کے کاروان کے ساتھ ہو گئے۔ سعید نے شب عاشورا امام حسینؑ کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے قسم اٹھا کر کہا: اگر مجھے ستّر مرتبہ مارا جائے اور زندہ کیا جائے تو میں پھر بھی امام حسینؑ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔

نسب

سعید قبیلۂ بنی حنیفہ بن لجیم سے تھے جو قبیلۂ عدنان کی بنی‌ بکر بن وائل کی ذیلی شاخوں میں سے ایک تھی۔[1]سعید کوفہ کے رہنے والے تھے۔اور شجاعت و عبادت میں شہرت رکھتے تھے۔ زیارت الشہدا میں ان کا نام سعد ذکر ہوا ہے۔[2]

واقعہ کربلا

سعید بن عبداللہ اور ہانی بن ہانی سبیعی کوفیوں کی جانب سے تیسرا خط لے کر امام حسین کے پاس گئے۔[3] اس خط کے لکھنے والے شَبَثُ بن رِبعی، حَجّار بن اَبجَر، یزید بن حارث، یزید بن رویم، عزرة بن قیس، عمرو بن حجاج و محمد بن عمیر تھے۔[4] بعض کا خیال ہے کہ سعید کو یہ ذمہ داری سونپنے کا مقصد انکی شخصیت کی وجاہت تھی کہ کوفی امیدوار تھے کہ ان کے ذریعے امام حسین کو کوفے آنے کیلئے قانع کیا جا سکتا ہے۔[5]

امام حسینؑ نے سعید کے ذریعے اس خط کا جواب ارسال کیا اور لکھا:

میں نے مسلم بن عقیل کو اپنے سفیر کے عنوان سے کوفہ روانہ کیا ہے۔ جب مسلم کوفہ پہنچے تو انہوں نے تقریر کی۔ عابس بن ابی شبیب شاکری اور حبیب بن مظاہر نے خطبہ پڑھا۔ ان دو کے بعد سعید بن عبداللہ اٹھے اور قسم کھا کر کہنے لگے: وہ امام حسین کی مدد کیلئے قطعی ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلم نے اس مجمع میں سعید بن عبداللہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ امام کو کوفہ آنے کی دعوت دیں۔ سعید مکہ واپس آئے اور مسلم بن عقیل کا خط امام کو دیا اور خود امام کے قافلے کے ساتھ ہو گئے۔[6]

کربلا میں موجودگی

شب عاشورا امامؑ نے اپنے اصحاب کو خیام کی پشت پر جمع کیا اور اپنی مشہور تقریر میں کہا وہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر اور اس رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے چلے جائیں۔ سعید یہ سن کر اٹھے ہوئے اور کہا:

یا ابن رسول اللہ(ص)! خدا کی قسم! ہم آپ کی نصرت سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے .... بخدا! اگر مجھے قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، مجھے جلایا جائے اور میری خاک ہوا میں اڑا دی جائے لیکن میں پھر بھی آپ کی حمایت اور نصرت سے ہاتھ نہیں کھینچوں گا۔[7]

شہادت

کچھ معتقد ہیں کہ وہ روز عاشورا نماز ظہر کے بعد شہید ہوئے۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک سعید کی شہادت دسویں محرم کے دن زوال آفتاب اور نماز ظہر کے بعد ہوئی۔[8] مندرجہ ذیل رجز ان سے منسوب ہے:

أقدم حسین الیوم تلق أحمدا و شیخک الخیر علیا ذا الندی[9]

عاشورا کے روز جب امام حسینؑ نے نماز خوف ادا کی تو سعید بن عبداللہ امام کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ سامنے سے آنے والے تیروں کو اپنے چہرے، سینے، ہاتھوں اور پہلو پر روکتے رہے تا کہ تیر مبادا امام حسین کو نہ لگیں۔[10] نقل کرتے ہیں کہ جب زخموں سے نڈھال ہو کر زمین پر گرے تو یہ دعا پڑھ رہے تھے:

خدایا! جس طرح تو نے قوم عاد و ثمود پر لعنت کی تھی اسی طرح کوفہ کی سپاہ کو بھی مورد لعن قرار دے۔ خدایا! میرا سلام و درود اپنے پیغمبر کو پہنچا اور جو میں نے اپنے جسم پر زخموں کے بدلے میں درد و رنج جھیلے ہیں انہیں ان تک پہنچا؛ کیونکہ میں پیغمبر کی حمایت و نصرت کی پاداش و اجر کا طلبگار ہوں۔[11]
پھر اپنا رخ امام حسین کی جانب کیا اور کہا: اے فرزند رسول! کیا میں نے اپنے عہد کو نبھایا؟ امام نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہاں کیوں نہیں، تم بہشت میں مجھ سے پہلے موجود ہو گے۔[12] منقول ہے کہ شہادت کے وقت تلوار و نیزوں کے زخموں کے علاوہ ۱۳ تیر ان کے جسم میں پیوست تھے۔[13]

حوالہ جات

  1. .شمس الدین، انصارالحسین، ص۷۶.
  2. مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۷۰.
  3. طبری، تاریخ طبری، ج۴، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۹۷؛ سماوی، ابصار العین، ص۲۱۶.
  4. کمره‌ای، عنصر شجاعت، ج۱، صص۱۵۸-۱۶۰.
  5. کمره‌ای، عنصر شجاعت، ج۱، ص۱۵۸.
  6. سماوی، ابصار العین، ص۲۱۶.
  7. طبری، تاریخ، ج۴، ص۳۱۸؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۱۰۷؛ سماوی، ابصار العین، ص۲۱۶؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۲۸؛ کمره‌ای، عنصر شجاعت، ج۱، ص۱۶۴؛ مقرم، مقتل الحسینؑ، ص۸۹؛ ابی مخنف، وقعۃ الطف، ص۲۲۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۷؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۴۱.
  8. طبری، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۶.
  9. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ج۴، ص۱۱۲.
  10. تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۱۰۷-۱۰۸؛ سماوی، ابصار العین، ص۲۱۷؛ ابی‌ مخنف، وقعۃ الطف، ص۲۶۶؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۴۱.
  11. تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۱۰۷-۱۰۸؛ سماوی، ابصار العین، صص۲۱۷-۲۱۸؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۲۸.
  12. تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۱۰۸؛ سماوی، ابصار العین، ص۲۱۸؛ مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۲۸.
  13. امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۲۴۱.

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق و فهرست یوسف البقاعی، دارالاضواء، ۱۴۲۱ق.
  • ابن طاووس، ساحل خونین: ترجمہ لہوف سید بن طاووس، مترجم محمدجواد مولوی نیا، سرور، قم، ۱۳۷۷ش.
  • ابی‌ مخنف، وقعۃ الطف، تحقیق محمد ہادی یوسفی سماوی، المجمع العالمی لاہل بیت (علیہم السلام)، قم، ۱۴۲۷ق.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۲۱ ق.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، موسسہ نشر الاسلامی، قم، ۱۴۱۴ق.
  • سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ السلام، تحقیق محمد جعفر طبسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لحرس الثورة، ۱۳۷۷ش/۱۴۱۹ق.
  • شمس الدین، محمد مہدی، انصارالحسین، مؤسسہ البعثہ، تہران، ۱۴۰۷ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، معروف بتاریخ الامم و الملوک، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، ۱۸۷۹م.
  • کمره‌ای، خلیل، عنصر شجاعت یا ہفتاد دو تن و یک تن، اصحاب سید الشہداء، دارالعرفان، قم، ۱۳۸۹ش.
  • مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، مطبعہ المرتضویہ، نجف اشرف.
  • موسوی مقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسینؑ و حدیث کربلاء، منشورات الشریف الرضی.