سید حامد حسین موسوی

ویکی شیعہ سے
(میر حامد حسین ہندی سے رجوع مکرر)
میر حامد حسین ہندی کا مزار، لکھنو (ہندوستان)
سید حامد حسین موسوی
مکمل نامسيد حامد حسين معروف بنام سید مہدی بن سید محمد قلی موسوی نيشابورى
کنیتابو ظفر
دلیل شہرتعبقات الانوار
تاریخ ولادت5 محرم 1246 ھ
محل ولادتلکھنؤ ہندوستان
محل زندگیہندوستان
نسبموسوی
اساتیدسید محمد قلی (والد) سيد محمد عباس تسترى، سيد محمد بن دلدار على، سيد حسين بن دلدار على
آثارعبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار

افحام اہل المین فی رد ازالۃ الغین الشریعۃ الغرّاء شوارق النصوص

اسفار الانوار عن حقایق افضل الاسفار
مشہور رشتے دارجد: سید اللہ کرم موسوی

والد: سید محمد قلی

فرزند: سید ناصر حسین

سید مہدی ابو ظفر (1246-1306 ھ)، میر حامد حسین ہندی کے نام سے مشہور، تیرہویں صدی ہجری کے ہندوستان کے سادات اور شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ نے تشیع کے دفاع اور شیعوں کے خلاف لکھی گئی کئی کتابوں کے جوابات لکھے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب عبقات الانوار چند جلدوں کا مجموعہ ہے کہ جسے انہوں نے امام علی (ع) کی امامت و ولایت کے اثبات اور دفاع میں لکھا۔ مختلف علمی محافل میں آپ کی بہت توصیف بیان ہوئی ہے اور چہ بسا آپ کو شیعہ علماء میں کم نظیر جانا گیا ہے۔

زندگی نامہ

سيد مير حامد حسين بن سید محمد قلی موسوی ہندى نيشابورى شیعہ متكلّمین میں سے ہیں۔ آپ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں 5 محرم 1246 ھ کو پیدا ہوئے۔[1] آپ کا نام سید مہدی رکھا گیا اور کنیت ابو ظفر تھی۔ ایک رات آ پ کے والد سید محمد قلی نے خواب میں اپنے جد امجد سید حامد حسین کو دیکھا۔ پھر بیدار ہوئے تو آپ کو بیٹے کی ولادت کی خبر ملی۔ آپ نے اس خواب کے پیش نظر آپ کو سید حامد حسین کے نام سے شہرت دی۔[2] 15 سال کی عمر میں آپ کے والد میرٹھ سے لکھنو آ گئے۔

والد کی جانب سے آپ کا شجره نسب 27 پشتوں میں امام موسی کاظم(ع) سے ملتا ہے۔ آپ اہل علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے اجداد ایران کے شہر نیشابور کے رہنے والے تھے اور ساتویں صدی ہجری میں مغولوں کے ایران پر حملے کی وجہ سے آپ کے اجداد نے ہندوستان ہجرت کی اور وہیں قیام پذیر ہوئے۔[3]

نیشابوری بادشاہوں کے دور میں مشہد اور نیشاپور سمیت ایران کے کئی شہروں سے لوگوں کی کثیر تعداد نے ہندوستان ہجرت کی اور اس کے مختلف شہروں میں آباد ہوئے۔ اس وقت کے ہندوستان کے حکومتی دربار کی مذہبی اور سیاسی شخصیات خراسانی تھیں۔ نیشاپور کے نقوی سادات اودھ کے بادشاہوں کے دور میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ سید میر حامد حسین نیشابوری صاحب عبقات الانوار انہی بادشاہوں کے ماتحت اپنی فعالیتیں انجام دیتے تھے۔[4]

آپ نے چھ سال کی عمر میں مقامی مدرسے میں شیخ کرم علی کے ہاں تعلیم شروع کیا۔ لیکن کچھ مدت بعد آپ کے والد نے آپ کی کی تعلیمی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی اور 14 سال کی عمر تک آپ نے مقدمات اور علم کلام کی تعلیم حاصل کی۔[5] مير حامد حسين 15 سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے کیلئے دیگر اساتید کے ہاں گئے۔

مقامات حريرى اور ديوان متنبى نامی کتابوں کو مولوى سيد بركت على اور نہج البلاغہ کو مفتی سید محمد عباس شوشتری کے ہاں پڑھی۔ علوم شرعيہ کو ہندوستان کی معروف ترین شخصیات سلطان العلماء سيد محمد بن دلدار على اور اان کے بھائی سيد العلماء سيد حسين بن دلدار على پڑھے اور علوم عقليہ سيد العلماء سيد مرتضى کے فرزند، ملقب بہ خلاصۃ العلماء کے پاس پڑھے۔

اس زمانے میں مناہج التدقيق نامی کتاب جو اپنے استاد سيد العلماء سيد حسين بن دلدار على کی تصنیفات میں سے تھی، کو ان سے لے کر اس پر حاشیہ لکھا۔ کئی سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ تحقیق اور ریسرچ کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ ابتداء میں اپنے پدر سيد محمد قلى کی تصانیف رسالہ تقيّہ اور تشييد المطاعن کی تصحيح، نقد اور اس کتاب کے متن کا اصلی منابع کے متن سے مقائسہ شروع کیا۔

مولوى حيدر على فيض‏ آبادى کی شیعوں کے خلاف لکھی گئی كتاب منتہى الكلام کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کے جواب میں آپ نے "استقصاء الافحام" نامی کتاب لکھی۔ ایک طرف مخالفين یہ دعوا کر رہے تھے کہ شيعہ اس کتاب کے مطالب کا جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے یہاں تک کہ کتاب کے مؤلف کے بقول اگر شیعوں کے اولین ور آخرین بھی جمع ہونگے تو بھی میری کتاب کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ دوسری طرف سے ہندوستان کے یزرگ علماء جیسے سلطان العلماء، سيد العلماء، مفتی سید محمد عباس شوشتری وغیرہ خاص حکومتی حالات کے پیش نظر اس طرح کی کتابوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے ایسے میں سید میر حامد حسین صاحب کا جواب نہایت ہی تعریف کے لائق قرار پایا۔

اس کے بعد كتاب شوارق النصوص پھر عظیم المرتبت جلدوں پر مشتمل مجموعہ عبقات الانوار کی تألیف میں مشغول ہوگئے اور عمر کے آخر تک اسی طرح تحقیق و تصنیف میں مصروف رہے۔

سنہ 1282 ھ میں حج اور اس کے بعد عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حرمین شریفین سے نادر کتابوں سے کچھ نمونہ برداری کی اور عراق میں علماء کی عملی محافل میں شرکت کی جہاں آپ کی نہایت قدردانی کی گئی اور آپ کو شاندار خراج تحسین پیش کی گئی۔ ان مسافرتوں سے واپس آکر ان مسافرتوں میں انجام دینے والے علمی کارناموں کو "اسفار الانوار عین وقایع افضل الاسفار" نامی کتاب میں جمع کیا۔

مير حامد حسين نہایت ہی پر تلاش، زمان شناس اور اسلامی شناس عالم دین تھے۔ اپنی ساری زندگی دینی اعتقادات میں تحقیق و تصنیف اور دین اور اعتقادات کی دفاع میں صرف کیا۔ زیادہ لکھنے کی وجہ سے آپ کا دائیں ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیا اور عمر کے آخری ایام میں بائیں ہاتھ سے لکھنے لگے۔[6] اور بعض اوقات آپ بولتے تھے اور دوسرے لکھتے تھے۔[7]

عمر کے آخری ایام تک کار و تلاش جاری رکھا یہاں تک کہ مریض ہو گئے جس کی بنا پر بیٹھا بھی ممکن نہیں تھا اور آپ پشت کے لیٹے رہتے تھے اور اسی حالت میں بھی اپنے سینے پر کتاب رکھ کر مطالعہ اور لکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سینے پر کتاب رکھ کر زیادہ مطالعہ کرنے کی وجہ سے کتاب کا اثر آپ کے سینے پر رہ گیا تھا۔[8]

ماہ صفر 1306 ھ کی 18 تاریخ کو آپ کی وفات واقع ہوئی اور آپ کو آپ کے حسینیہ میں ہی دفن کیا گیا۔ آپ کے وفات کی خبر کے بعد عراق میں مختلف مقامات پر آپ کے سوگ میں مجالس متعقد ہوئی۔

لکھنو میں آپ کی لائبریری میں شیعہ اور غیر شیعہ کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ سید محسن امین صاحب اعیان الشیعہ اس لائبریری کی کتابوں کی تعداد کو 30 ہزار سے زیادہ خطی اور مطبوعہ کتابیں ذکر کرتے ہیں۔[9]

خاندان

صاحب عبقات کے خاندان میں کئی اور علماء بھی دیکھنے کو ملتے ہیں:

  • صاحب عبقات کے جد، سید محمد حسین جو سید اللہ کرم موسوی (م 1181 ھ) کے نام سے معروف ہے، بارہویں صدی ہجری کے علماء اور زاہدوں میں سے تھے۔ آپ قرآن اور نفیس کتابوں کی استنساخ کا اہتمام کرتے تھے۔ کتابخانہ ناصریہ لکھنو میں موجود قرآن، حق الیقین، تحفۃ الزائر اور جامع عباسی ان کے دستخط سے لکھی ہوئی ہے۔[10]
  • آپ کے والد سید محمد قلی بن سید محمد حسین سنہ 1188 ھ میں پیدا ہوئے اور سید دلدار علی نقوی کے شاگردوں اور ملازمین میں سے تھے۔ آپ نے بہت زیادہ کتابیں کتابیں تحریر کی ہیں۔ عبد العزیز دہلوی کی شیعوں کے خلاف لکھی گئی کتاب التحفۃ الاثنی عشریہ کے جواب میں لکھی گئی کتاب تشیید المطاعن آپ کی مشہور ترین کتاب ہے۔[11] آیات الاحکام کی تفسیر میں لکھی گئی کتاب تقریب الافھام بھی آپ کی تحریر ہے۔[12] آپ نے محرم الحرام سنہ 1260 میں وفات پائی۔ [13]
  • آپ کے بھائی سید سراج حسین، آپ کے بڑے بھائی نے علوم عقلیہ کو سید حسین بن سید دلدار کے یہاں پڑھی اور ریاضیات کو انہوں نے یورپ میں پڑھی ہیں ریاضیات میں کئی تألیفات بھی رکھتے ہیں۔ آپ نے سنہ 1282 ھ میں وفات پائی۔[14]
  • آپ کے بھائی سید اعجاز حسین، نے فقہ، اصول، کلام اور حدیث میں تعلیم حاصل کیا۔ آپ نے مختلف تألیفات بالاخص "استقصاء الافحام" کی تدوین میں اپنے بھائی میر حامد حسین کی مدد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کشف الحجب و الاستار عن وجه الکتب و الاسفار، شذور العقیان فی تراجم الاعیان، رسالۃ فی مناظرتہ مع المولی جان محمد اللاہوری، القول السدید فی رد الفاضل الرشید جیسی کتابوں کو تألیف کیا ہے۔ آپ نے 17 شوال سنہ 1286 ھ میں وفات پائی۔[15][16]
  • آپ کے بیٹے سید ناصر حسین، سنہ 1284 ھ میں پیدا ہوئے۔ سید محسن امین ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
"آپ علم رجال و حدیث میں صاحب نظر ہونے کے ساتھ بہت پرتلاش، کافی معلومات کے مالک اور نہایت قوی حافظہ کے مالک تھے۔ سوالات کے جواب میں کتابوں کے صفحات تک ذکر کر کے جواب دیتے تھے۔ آپ ہندوستان کے مؤمنین کیلئے ایک مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ لوگوں میں بہت ہی محبوب اور اپنے خالق کے حضور نہایت ہی خاضع اور خاشع تھے۔ فارسی اور عربی ادب میں ماہر تھے اور ان زبانوں کے استاد مانے جاتے تھے۔ آپ نہایت ہی فصیح و بلیغ گفتار کے مالک تھے اور شعر و شاعری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔[17] اثبات رد الشمس، اسباغ النائل بتحقیق المسائل ، افحام الاعداء، الخصوم اور نفحات الازہار فی فضائل الائمۃ الاطہار 16 جلد ان کی تصانیف ہیں۔[18] آپ نے 25 ذی الحجہ سنہ 1361 میں وفات پائی۔[19]
  • سید محمد سعید فرزند سید ناصر حسین اور میر حامد حسین کے پوتے سنہ 1352 ھ کو نجف اشرف چلے گئے۔ نجف سے واپسی کے بعد اپنے آبائی شہر میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتے رہے آپ بھی اپنے زمانے کے علماء و مجتہدین میں شمار ہوتے تھے۔ آپ مختلف تصانیف کے مالک تھے اور اپنے پدر کی تألیفات کی نشر و اشاعت میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے آپ نے سنہ 1361 ھ میں وفات پائی اور مقبرہ قاضی نور اللہ شوشتری میں مدفون ہیں۔

قلمی آثار

میر حامد حسین ہندی مختلف موضوعات میں کئی تألیفات کے مالک تھے۔ آپ کی بعض کتابیں مذہب تشیع کے خلاف لکھی گئی کتابوں کے رد میں لکھی گئی ہے۔ آپ نے کلام، فقہ، سفرنامہ، شعر وغرہ میں کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی سب سے زیادہ مشہور کتاب "عبقات الانوار" ہے۔ آپ کی کتابوں فہرست درج ذیل ہے:

  • افحام اہل المین فی رد ازالۃ الغین؛ حیدر علی فیض آبادی
  • العشرۃ الکاملۃ، دس مشکل مسئلوں کا حل
  • اسفار الانوار عن حقایق افضل الاسفار، مکہ و مدینہ اور عتبات عالیات میں ائمہ اطہار کی زیارتی سفرنامہ
  • کشف المعضلات فی حل المشکلات
  • النجم الثاقب فی مسألۃ الارث
  • الدرر السنیۃ فی المکاتیب و المنشأت العربیۃ
  • الذرایع فی شرح الشرایع،
  • شوارق النصوص فی تکذیب فضائل اللصوص (شوارق النصوص ) یہ کتاب پانچ جلدوں میں لکھی گئی۔
  • زین المسائل الی تحقیق المسائل، فقہی اور متفرق مسائل میں
  • درۃ التحقیق
  • الغصب البتار فی مبحث آیت الغار[21][22]

علماء کی نگاہ میں

بہت سارے معاصر علماء نے "میر حامد حسین" کی تمجید کی ہے۔

میرزا شیرازی عبقات کی تقریظ میں لکھتے ہیں:

ذی الفضل الغزیر و القدر الخطیر و الفاضل النحریر و الفائق التحریر و الرائق التعبیر، العدیم النظیر المولوی حامد حسین۔"

آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:

میر حامد حسین عالمی پرتلاش، زمان شناس اور دین شناس عالم دین تھے۔ آپ اپنی تلاش اور علمی مقام میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ معاصرین بلکہ متاخرین میں سے بھی کوئی بھی ان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دینی اعتقادات میں تحقیق و تفحص اور سچے دین کی حفاظت اور اور اس کی دفاع میں صرف کی ہے ...."[23]

علامہ امینی نے مختلف موارد میں "میر حامد حسین" اور آپ کی کتاب "عبقات الانوار" کے بارے میں گفتگو کی ہے۔[24] الغدیر کی پہلی جلد، فصل المولفون فی حدیث الغدیر میں "عبقات الانوار" کا ذکر کرتے ہیں:

یہ سید بزرگوار اپنے والد ماجد کی طرح دشمنوں کے سر پر خدا کی ایک تیز دھار تلوار دین مبین کا محافظ اور خدا کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک ہے۔ آپ کی کتاب "عبقات الانوار" جس کی نسیم حیات بخش نے دنیا کو معطر کیا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں پھیل گیا جس نے بھی اس کتاب کو دیکھا وہ اس کے حق و حقیقت کو روشن کرنے میں اس کے معجز آسا ہونے اور کسی باطل کو اس میں راہ نہ ہونے کا اعتراف کیا۔[25]

اعیان الشیعہ آپ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

«کان من اکابر المتکلمین الباحثین عن اسرار الدیانة و الذابین عن بیضة الشریعة و حوزة الدین الحنیف علامة نحریرا ماهرا بصناعة الکلام و الجدل محیطا بالاخبار و الآثار واسع الاطلاع کثیر التتبع دائم المطالعة لم یر مثله فی صناعة الکلام و الاحاطة بالاخبار و الاثار فی عصره بل و قبل عصره بزمان طویل و بعد عصره حتی الیوم و لو قلنا انه لم ینبغ مثله فی ذلک بین الامامیة بعد عصر المفید و المرتضی لم نکن مبالغین. »[26]

کتاب ریحانۃ الادب کے مؤلف آپ کے بارے میں "صاحب عبقات الانوار" کے ذیل میں لکھتے ہیں:

«میر حامد حسین موسوی ہندی ... فقاہت کے علاوہ دیگر علوم دینیہ جیسے علم حدیث، اخبار و آثار، معرفت و احوال رجال فریقین، علم کلام، خصوصاً امامت کی بحث میں نہایت بلند علمی مقام کے مالک تھے۔ آپ کی علمی قابلیت کے مسلمان و غیر مسلم، عرب و عجم اور عامہ و خاصہ سب قائل تھے۔ اسلام ناب اور مذہب حقہ کی دفاع میں پوری زندگی صرف کی یہاں تک کہ دائیں ہاتھ نے ساتھ دینا چھوڑ دیا اور عمر کے آخری ایام میں بائیں ہاتھ کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہو گئے۔ آپ کی کتاب "عبقات" کے مطالعے سے بخوبی آشکار ہو جاتا ہے کہ صدر اسلام سے عصر حاضر تک علم کلام خصوصا "امامت" کی بحث میں انکی طرح کسی نے بھی بحث و گفتگو نہیں کی ہے.[27]

حوالہ جات

  1. مجلہ عشاق اہل بیت جلد اول محرم ، صفر ،ربیع الاول1415ھ ق شمارہ2 ص 26،ادارہ تبلیغات و ارشاد اسلامی ،قم،ایران
  2. مجلہ عشاق اہل بیت جلد اول محرم ، صفر ،ربیع الاول1415ھ ق شمارہ2 ص 25، ادارہ تبلیغات و ارشاد اسلامی، قم، ایران
  3. مصطفی سلیمی زارع، عبقات الانوار و علامہ میر حامد حسین، مجلہ حدیث اندیشہ، شمارہ ۸و۹، پاییز ۸۸
  4. مرتضی مطہری، خدمات متقابل ایران و اسلام، از مجموعہ آثار شہید مطہری، ج۱۴، ص۳۴۸
  5. آقا بزرگ تہرانی، نقباء البشر، ج۱، ص ۳۴۷
  6. مدرسی تبریزی، ریحانۃ الادب
  7. نجوم السماء،
  8. مرتضی مطہری، آشنایی با قرآن، ج۱۴، از مجموعہ آثار شہید مطہری. ج۲۸، ص:۷۶۲
  9. محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص ۳۸۱
  10. عبقات الانوار، ج۱، مقدمہ، ص ۱۹
  11. السید علی المیلانی، السید حامد حسین و کتابہ العبقات فی الذکری المئویہ لوفاتہ، تراثنا، السنۃ الاولی، رجب و شعبان و رمضان ۱۴۰۶، العدد ۴
  12. عبقات الانوار، ج۱، مقدمہ، ص ۲۰
  13. عبقات الانوار، ج۱، مقدمہ، ص ۲۰
  14. عبقات الانوار، ج۱، مقدمہ، ص ۲۰
  15. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، قسم الکرام البررۃ، ج۲، ص ۱۴۹
  16. عبقات الانوار، ج۱، مقدمہ، ص ۱۸
  17. اعیان الشیعہ، ج۸، ص ۱۰۷
  18. عبقات الانوار، ج ۱، مقدمہ، ص ۳۹
  19. عبقات الانوار، ج ۱، مقدم، ص ۳۹
  20. محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص ۳۸۱
  21. السید علی المیلانی، السید حامد حسین و کتابہ العبقا: فی الذکری المئویہ لوفاتہ، تراثنا، السنۃ الاولی، رجب و شعبان و رمضان ۱۴۰۶، العدد ۴
  22. مصطفی سلیمی زارع، عبقات الانوار و علامہ میر حامد حسین، مجلہ حدیث اندیشہ، شمارہ ۸و۹، پاییز ۸۸
  23. آقا بزرگ تہرانی، نقباء البشر، ج۱، ص ۳۴۸-۳۵۰
  24. سید جواد موسوی، بازخوانی حیات علمی علامہ میر حامد حسین ہندی کتاب الدرر السنیہ، مجلہ سفینہ، سال ہشتم، شمارہ ۲۶، بہار ۱۳۸۹
  25. عبد الحسین امینی، الغدیر، ج۱، ص ۱۵۶-۱۵۷
  26. محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص ۳۸۱
  27. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج۲، ص۴۳۳

مآخذ