بصائر الدرجات (کتاب)

ویکی شیعہ سے
بصائر الدرجات
مشخصات
مصنفمحمد بن حسن صفار قمی
موضوعائمہ اطہار
زبانعربی
تعداد جلد1


بَصائِرُ الدَّرَجاتِ الکُبْری فی فَضائلِ آلِ مُحمّد، بصائر الدرجات کے نام سے مشہور شیعہ منابع حدیث میں سے ہے۔ اس کے مؤلف ابوجعفر محمد بن حسن بن فروخ صفار، صفار قمی (متوفی 290 ھ) کے نام سے مشہور، اصحاب امام حسن عسکریؑ اور تیسری صدی ہجری کے معروف علما میں سے ہیں۔ یہ کلامی طرز کی روائی کتاب ہے جس میں مسئلۂ امامت، شناخت امام و ائمہ اطہارؑ کے فضائل سے متعلق احادیث کی جمع آوری کی گئی ہے۔ بہت سے بزرگان اور علما نے اس کی توثیق کی ہے اور اسے اپنی کتابوں میں مصادر کی حیثیت سے جگہ دی ہے۔

مؤلف

محمد بن حسن بن فروخ صفار امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے جانی پہچانی شخصیت اور احادیث کے راویوں میں تھے۔ انہیں تیسری صدی ہجری کے بزرگ علما میں سے شمار کیا جا سکتا ہے۔

کتاب

صفار قمی کے ہمعصر سعد بن عبداللہ قمی محدث کی بھی اسی نام سے ایک کتاب تھی عام طور پر اسے صفار کی تالیف سے مختلف سمجھا جاتا ہے۔[1] شیخ طوسی کے مطابق یہ کتاب چار اجزا پر مشتمل تھی[2] جس کا خلاصہ حسن بن سلمان الحلی نے بنام مختصر بصائر‌ الدرجات لکھا جو چھپ چکا ہے۔

بعض محققین معتقد ہیں کہ محمد بن حسن صفار سے منسوب کتاب بصائر الدرجات حقیقت میں سعد بن عبداللہ قمی کی بصائر الدرجات کی روایت ہے۔ اس مفروضے کی بنا پر محمد بن یحیی عطار کہ جو سعد بن عبداللہ کے معاصرین میں سے تھے، نے کتاب بصائر الدرجات کی احادیث کے ایک مجموعے کو جدید متن کے عنوان سے استخراج کیا اور درمیان میں سے احادیث کے واسطے یعنی سعد بن عبداللہ کو حذف کر دیا البتہ کچھ روایات میں اس نام کو ذکر کیا ہے۔ روایات کے شروع میں محمد بن حسن صفار کا نام اس لحاظ سے آیا ہے کہ محمد بن یحیی نے اس کتاب میں بہت سی احادیث کو محمد بن حسن صفار کے طریق سے نقل کیا ہے اور حقیقت میں سعد کی روایات کو اپنے استاد محمد بن حسن صفار کے طریق سے نقل کیا ہے۔[3]

دوسری جانب بعض معتقد ہیں کہ اصل کتاب بصائر الدرجات محمد بن حسن صفار کی ہے کہ جسے سعد بن عبداللہ اشعری نے اسے مختصر کیا اور شیخ حسن بن سلیمان نے نیز اس مختصر کے بعض حصوں کا انتخاب کیا اور بعض جگہوں پر مزید روایات کا اضافہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی بہت سی روایات صفار کی بصائر الدرجات کی روایات سے ہم آہنگ ہیں۔[4]

دسترس میں موجود روایات کے مطابق ظاہری طور پر شروع میں بصائر الدرجات حجم میں کم تھی، مؤلف نے دیگر نسخے میں اسکے حجم کا اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بصائر الدرجات کے دو نسخے موجود تھے جن میں سے ایک بصائر الدرجات صغری اور دوسرا بصائر الدرجات کبری کے نام سے مشہور تھے۔ اس وقت چاپ شدہ نسخہ بصائر الدرجات کبری کا ہے۔[5]

کتاب کی بناوٹ

بصائر الدرجات ۱۸۸۱ حدیثوں پر مشتمل ہے اور اسکے دس اصلی اجزا ہیں۔ ہر جز ۱۰ تا ۲۴ ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب کی اکثر احادیث مکمل ہیں۔ اسناد میں تعلیق یا ارسال موجود نہیں ہے۔[6] شیخ حر عاملی اس کتاب کے دو نسخے چھوٹا اور بڑا سمجھتے ہیں اور انکے نزدیک دونوں نسخے فروخ صفار سے منسوب ہیں۔[7]

روش تالیف

قدیمی کتاب ہونے کے باوجود اچھی فصل بندی پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے ابواب کیلئے متعدد عناوین منتخب کئے ہیں اور بعض مقامات پر کسی عنوان کے بغیر راویات کو نوادر کے عنوان کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔ مؤلف کا کتاب کی تمام روایات کو مکمل ذکر کرنا اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے۔ کسی بھی جگہ مصنف نے اظہار نظر نہیں کیا بلکہ صرف روایات کی نقل پر اکتفا کیا ہے۔

مضامین کتاب

یہ کتاب حدیثی منابع میں کلامی عنوان کے ذیل میں سمجھی جاتی ہے۔ طلب علم کا ضروری ہونا، ثواب عالم و متعلّم اور علما کی برتری سے باب علم آغاز ہو کر آل محمد(ص) سے احادیث، علم و فضیلت اور ائمہ طاہرینؑ کی ولایت کی احادیث کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ جن مطالب کے متعلق زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں:

  • رسول اللہ کے اہل بیت کی اطاعت کا وجوب اور ان سے محبت رکھنا۔
  • ائمہ اطہارؑ کا مفاتیح حکمت اور معدن علم ہونا۔
  • ائمہ اطہار کا حجت خداوند اور امر الہی کا متولی ہونا۔
  • ائمہ اطہار کا وارث علم انبیا ہونا۔
  • ائمہ اطہار کا تفسیر اور تأویل قرآن سے آگاہ ہونا اور زمین کا امام سے خالی نہ ہونا۔[8]

راوی اور کتاب کا اعتبار

بصائر الدرجات شیعوں کی معتبر اور مورد اعتماد کتب میں سے ہے۔ کلینی نے کافی میں روایات نقل کی ہیں۔[9] علامہ مجلسی نے بحار الانوار[10] اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ[11] میں روایات نقل کرنے ضمن میں اس کتاب کو معتبر جانا اور اسے اپنے مصادر اور منابع سے قرار دیا ہے۔ مدرس تبریزی اس کتاب کو ایک عظیم کتاب کہا ہے۔[12]

طباعت

کافی سالوں تک اس کتاب کا ایک ہی مطبوعہ نسخہ رہا۔ گذشتہ کچھ سالوں میں اس کی دیگر اشاعت منظر عام پر آئی اور وہ سب اسی ایک ہی نسخے سے طبع ہوئے۔ ان میں سے ایک طباعت مرزا محسن کوچہ باغی کے توسط سے انتشارات اعلمی تہران سے منظر عام پر آئی اور ایک ۱۴۰۴ ھ میں کتابخانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی قم سے طبع ہوا۔

حوالہ جات

  1. صفار قمی، مقدمہ، ص ۴
  2. طوسی، الفہرست، ص ۷۵
  3. انصاری، ص۴۶
  4. جباری، ص ۲۸۳
  5. جباری، ص ۲۷۷
  6. مہدیہ دہقانی، نگاہی بہ کتاب بصائر الدرجات.
  7. اثبات الهداه، ج ۱، ص ۴۹.
  8. مہدیہ دہقانی، نگاہی بہ کتاب بصائر الدرجات
  9. کافی، ج ۱، ص ۱۷۷، ۲۲۹، ۲۳۵ و ...
  10. بحار الانوار، ج ۱، ص ۲۶ و ۲۷.
  11. وسائل الشیعہ، ج ۲۰، ص ۳۹.
  12. ریحانۃ الادب، ج ۳، ص ۴۵۳.

منابع

  • انصاری، حسن، تبار شناسی کتاب بصائر الدرجات و نویسنده آن، کتاب ماه دین، شہریور۱۳۸۸، شماره ۱۴۳
  • جباری، محمد رضا، مکتب حدیثی قم، قم، کنگره بزرگداشت شخصیت حضرت فاطمہ معصومہ و مکانت فرہنگی قم، ۱۳۸۴ش.
  • حر عاملی محمد بن حسن، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، بیروت، موسسہ الاعلمی، ۱۴۲۵ ه.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، آل البیت، ۱۴۱۴ ه.
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ ه.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ ش.
  • محمد علی مدرس، محمد علی، ریحانۃ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ و اللقب، تہران، خیام، ۱۳۶۹ ش.