تواتر معنوی
تَواتُر معنوی ایک واقعہ یا کسی بات کو متعدد راویوں کی طرف سے مختلف الفاظ میں بیان کرنے کو کہا جاتا ہے جس کا مضمون ایک ہو اور اس مضمون پر یقین حاصل ہوجائے۔ مثال کے طور پر امام علیؑ کی شجاعت کے بارے میں بہت سی روایتیں مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہیں، یہ سب ان کی شجاعت پر دلالت کرتی ہیں۔
شہید ثانی کے مطابق شریعت کے اصولوں میں سے یومیہ نمازوں کی فرضیت، ان کی رکعات کی تعداد، زکوٰۃ اور خمس کے وجوب جیسے اصولوں سے متعلق روایات اور احادیث میں تواتر معنوی ہے۔ معنوی تواتر میں، خبروں اور رپورٹوں کا مضمون ایک ہوتا ہے، لیکن ان کے الفاظ مختلف ہوتے ہیں؛ لیکن لفظی تواتر میں الفاظ بھی ایک جیسے ہوتے ہیں۔
مفہوم شناسی
معنوی تواتر ایک مخصوص واقعہ یا معاملے کے بارے میں متعدد راویوں کی رپورٹ ہے جو مختلف الفاظ کے ساتھ لیکن ایک ہی معنی اور مضمون کو بیان کرتی ہے۔[1] کہا گیا ہے کہ معنوی تواتر میں متعدد روایات ہی کی وجہ سے اس مشترک مضمون پر علم اور یقین حاصل ہوجاتا ہے۔[2]
گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ صاحب معالم اور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ سید محمد باقر صدر کے مطابق معنوی تواتر میں مختلف روایات تضمنی[یادداشت 1] یا التزامی[یادداشت 2] طور پر اس مدلول اور معنی میں مشترک ہیں؛ لیکن دلالت مطابقی[یادداشت 3] کے اعتبار سے یکسان نہیں ہیں؛ جیسا کہ حاتم طائی کی سخاوت کے بارے میں مختلف روایات بیان کی گئی ہیں۔[3]
معنوی تواتر میں الفاظ کا فرق، کبھی ایک واقعہ کی روایت میں ہوتا ہے؛ جیسے کہ جنگ احد میں امام علیؑ کے لڑنے کی خبریں، اور بعض اوقات کئی واقعات میں، جیسے مختلف غزوات میں امام علیؑ کی شجاعت کے بارے میں مختلف روایات۔[4]
علم اصول اور حدیث کی اصطلاح میں تواتر کا مطلب کسی واقعہ کو متعدد راویوں کا بیان کرنا ہے اور بیان کرنے والوں کی تعداد اتنی ہو کہ جھوٹ بولنے پر ان کی ملی بھگت کا کوئی امکان نہ ہو۔[5] صاحب معالم و صاحب فصول نے متواتر کی تعریف یوں کی ہے؛ متعدد راویوں کی طرف سے روایت اور خبر جس کی درستگی پر خود بخود یقین حاصل ہوجائے۔[6]
تواتر لفظی کے ساتھ فرق
تواتر کو لفظی اور معنوی تواتر میں تقسیم کیا گیا ہے؛ دونوں کے درمیان فرق میں، یہ کہا جاتا ہے کہ تواتر لفظی میں، مضمون بیان کرنے والے ایک ہی الفاظ اور عبارت کے ساتھ ایک موضوع کو بیان کرتے ہیں، جیسے کہ حدیث نبوی "إنّما الأعمالُ بالنِّیّات" یا "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ"، لیکن معنوی تواتر میں ایک مشترکہ موضوع کو مختلف الفاظ اور عبارتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔[7]
بعض مثالیں
شہید ثانی کا خیال ہے کہ یومیہ نمازوں کی فرضیت، ان کی رکعتوں کی تعداد، زکوٰۃ اور خمس کے وجوب جیسے شریعت کے اصولوں سے متعلق روایات اور احادیث میں تواتر معنوی ہے۔[8]
کچھ دوسری روایات اور احادیث جن کے معنی مشترک ہیں اور انہیں متواترِ معنوی سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہیں:
- وہ احادیث جو امام علی علیہ السلام کی شجاعت کی نشاندہی کرتی ہیں۔[9] امام علی علیہ السلام کی متعدد جنگوں میں شرکت اور ان کی شجاعت کے بارے میں مختلف حوالوں سے بہت سی خبریں نقل کی گئی ہیں اور ان سب کا مضمون متواتر طور پر آپ کی بہادری پر دلالت کرتا ہے۔[10] شہید ثانی کے مطابق اگرچہ امام علیؑ کی بہادری اور شجاعت پر دلالت کرنے والی ہر روایت خبر واحد ہے، لیکن ان کی قدر مشترک متواتر شمار ہوتی ہے۔[11]
- وہ خبریں جو احادیث کی تصحیح کا ایک معیار ان کو قرآن کریم سے موازنہ کرنے کو متعارف کراتی ہیں۔[12]
- وہ خبر جو حاتم طائی کی سخاوت پر دلالت کرتی ہے۔[13]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ شہید ثانی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، 1408ق، ص66؛ عاملی، معالم الدین، مؤسسہ نشر اسلامی، ص187؛ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص385؛ مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص369۔
- ↑ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص385؛ سبحانی، اصول الحدیث و احکامہ، دار احیاء التراث العربی، ص35۔
- ↑ ملاحظہ کریں: عاملی، معالم الدین، مؤسسہ نشر اسلامی، ص187؛ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص385 - 387؛ صدر، دروس فی علم الاصول، مؤسسہ نشر اسلامی، ج2، ص141؛ سبحانی، اصول الحدیث و احکامہ، دار احیاء التراث العربی، ص35۔
- ↑ سبحانی، اصول الحدیث و احکامہ، دار احیاء التراث العربی، ص35۔
- ↑ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص369؛ سبحانی، اصول الحدیث و احکامہ، دار احیاء التراث العربی، ص25؛ مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص368۔
- ↑ عاملی، معالم الدین، مؤسسہ نشر اسلامی، ص184؛ حائری اصفہانی، الفصول الغرویۃ، 1404ق، ص267۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سبحانی، اصول الحدیث و احکامہ، دار احیاء التراث العربی، ص35۔
- ↑ شہید ثانی، الرعایۃ، 1408ق، ص66۔
- ↑ ملاحظہ کریں: عاملی، معالم الدین، مؤسسہ نشر اسلامی، ص187؛ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص385؛ مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص369۔
- ↑ نگاہ کنید بہ: عاملی، معالم الدین، مؤسسہ نشر اسلامی، ص187؛ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص385؛ مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص369۔
- ↑ شہید ثانی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، 1408ق، ص66۔
- ↑ شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ق، ج1، ص247۔
- ↑ ملاحظہ کریں: عاملی، معالم الدین، مؤسسہ نشر اسلامی، ص187؛ میرزای قمی، قوانین الاصول، 1430ق، ج2، ص385 - 387؛ صدر، دروس فی علم الاصول، مؤسسہ نشر اسلامی، ج2، ص141؛ سبحانی، اصول الحدیث و احکامہ، دار احیاء التراث العربی، ص35۔
یادداشت
- ↑ دلالت تضمنی کسی لفظ کا اپنے معنی کے کسی حصے پر دلالت کرنا ہے۔ جیسے کتاب کا لفظ اس کے صفحہ یا سرورق پر دلالت کرے(مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص458)
- ↑ دلالت التزامی سے مراد کسی لفظ کا کسی ایسی چیز پر دلالت کرنا ہے جو اس کے اصل معنی سے باہر ہو؛ لیکن ذہنی اعتبار سے اس معنی کا لازمہ ہے؛ یعنی جب بھی لفظ کا اصل معنی ذہن میں آتا ہے تو وہ معنی بھی ذہن میں ظاہر ہوتا ہے۔ مثلا جب بھی چھت کا تصور ذہن میں آتا ہے تو اس کے ساتھ دیوار بھی ذہن میں آتی ہے۔(مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص456)
- ↑ دلالت مطابقی سے مراد کسی لفظ کا اپنے پورے معنی پر دلالت کرنا ہے؛ جیسا کہ کتاب کا لفظ اس کے تمام معنی پر دلالت کرتا ہے، جس میں صفحات اور سرورق وغیرہ شامل ہیں۔ اس معنی میں لفظ اور معنی آپس میں یکسان ہیں۔(مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، 1389ش، ص460)
مآخذ
- حائری اصفہانی، محمدحسین، الفصول الغرویۃ فی الاصول الفقہیۃ، قم، دار احیاء العلوم الاسلامیہ، چاپ اول، 1404ھ۔
- سبحانی، جعفر، اصول الحدیث و احکامہ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی تا.
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، تحقیق و تعلیق عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، 1408ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ اول، 1419ھ۔
- صدر، سید محمدباقر، دروس فی علم الاصول، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، بی تا.
- مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
- عاملی، حسن بن زین الدین، معالم الدین، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، بی تا.
- میرزای قمی، ابوالقاسم بن محمدحسن، قوانین الاصول، تحقیق رضا حسین صبح، قم، احیاء الکتب الاسلامیہ، 1430ھ۔