مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
|style="text-align: center;"|'''قرآن'''
|style="text-align: center;"|'''قرآن'''
|-
|-
|[[ملف:قرآن منسوب به امام علی(ع).JPG|250px|thumbnail|left|<center>[[امیرالمؤمنین|حضرت امام علی(ع)]] سے منسوب [[قرآن کریم|قرآنی]] نسخہ]]</center>
|[[ملف:قرآن منسوب به امام علیؑ.JPG|250px|thumbnail|left|<center>[[امیرالمؤمنین|حضرت امام علیؑ]] سے منسوب [[قرآن کریم|قرآنی]] نسخہ]]</center>
<center><span style="color:black">'''معلومات'''</span></center>
<center><span style="color:black">'''معلومات'''</span></center>
'''عنوان''': <span style="color:black">کتاب مقدس  دین [[اسلام]]</span>
'''عنوان''': <span style="color:black">کتاب مقدس  دین [[اسلام]]</span>
سطر 15: سطر 15:
|}
|}
{{اسلام-عمودی}}
{{اسلام-عمودی}}
'''قرآن کریم''' یا '''قرآن''' [عربی میں '''القرآن الکریم'''] دین [[اسلام]] کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ [[وحی]]، [[جبرائیل]] کے ذریعے [[حضرت محمد(ص)]] پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپ(ص) کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔  
'''قرآن کریم''' یا '''قرآن''' [عربی میں '''القرآن الکریم'''] دین [[اسلام]] کی مقدس کتاب ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے جسے فرشتہ [[وحی]]، [[جبرائیل]] کے ذریعے [[حضرت محمدؐ]] پر نازل کیا گیا ہے۔ مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐؐ کے زمانے میں قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔  


قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں  قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو ۱۱۴ [[سورہ|سورتوں]]، تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]]، تیس [[جزء|سپاروں]] اور ۱۲۰ [[حزب|احزاب]] میں تقسیم کیا گیا ہے۔
قرآن کے متعدد اسامی ذکر کئے گئے ہیں جن میں  قرآن، فرقان، الکتاب اور مُصحَف زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن کو ۱۱۴ [[سورہ|سورتوں]]، تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]]، تیس [[جزء|سپاروں]] اور ۱۲۰ [[حزب|احزاب]] میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سطر 25: سطر 25:
اس وقت قرآن سے متعلق مختلف علوم مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں جن میں [[تفسیر قرآن]]، تاریخ قرآن، علم لغات قرآن، علم اِعراب  و بلاغت قرآن، [[قصص القرآن]] اور [[اعجاز القرآن]] وغیرہ شامل ہیں۔
اس وقت قرآن سے متعلق مختلف علوم مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں جن میں [[تفسیر قرآن]]، تاریخ قرآن، علم لغات قرآن، علم اِعراب  و بلاغت قرآن، [[قصص القرآن]] اور [[اعجاز القرآن]] وغیرہ شامل ہیں۔


[[ختم قرآن]] پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا [[شب قدر]] کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خود خدا، قرآن اور معصومین (ع) کا واسطہ دے کر خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔
[[ختم قرآن]] پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے درمیان رائج سنتوں میں سے ہے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ قرآن سر پر اٹھانا [[شب قدر]] کے اعمال میں سے ایک ہے جس میں قرآن کو سروں پر اٹھا کر خود خدا، قرآن اور معصومین ؑ کا واسطہ دے کر خدا سے گناہوں کی مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے۔
== کلام خدا ==
== کلام خدا ==
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے [[پیغمبر اسلام(ص)]] پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔<ref>مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۱۵-۱۲۲.</ref> تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۴۴؛ مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۲۳.</ref>
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعے [[پیغمبر اسلامؐ]] پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔<ref>مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۱۵-۱۲۲.</ref> تمام مسلمان قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کو خدا کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں۔<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۴۴؛ مصباح یزدی،  قرآن‌شناسی،  ۱۳۸۹، ج۱، ص۱۲۳.</ref>


قرآن پہلی بار [[غار حراء]] میں پیغمبر اکرم(ص) پر [[وحی]] ہوا۔ <ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۷.</ref> کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہونے والی پہلی آیات [[سورہ علق]] کی ابتدائی آیات تھیں اور پہلی بار مکمل طور پر نازل ہونے والا سوره، [[سورہ فاتحہ]] ہے۔ <ref>معرفت، التمIید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۷.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ [[پیغمبر اسلام]] آخری نبی اور قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ۱۵۳.</ref>
قرآن پہلی بار [[غار حراء]] میں پیغمبر اکرمؐ پر [[وحی]] ہوا۔ <ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۷.</ref> کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی پہلی آیات [[سورہ علق]] کی ابتدائی آیات تھیں اور پہلی بار مکمل طور پر نازل ہونے والا سوره، [[سورہ فاتحہ]] ہے۔ <ref>معرفت، التمIید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۲۷.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ [[پیغمبر اسلام]] آخری نبی اور قرآن آخری آسمانی کتاب ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ۱۵۳.</ref>


=== کیفیت دریافت ===
=== کیفیت دریافت ===
قرآن میں [[انبیاء]] پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔<ref>قرآن، سورہ شورا، آیت۵۱.</ref> بعض سورہ بقرہ کی آیت <font color=green>{{حدیث|قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ|ترجمہ= اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔}}</font><ref>قرآن، بقره، ۹۷.</ref> سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف "جبرئیل" کے ذریعے انجام پایا ہے؛<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۷.</ref> لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمد(ص) کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۴۶؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ص۵۵و۵۶.</ref>
قرآن میں [[انبیاء]] پر ہونے والی وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں: الہام، پردے کے پیچھے سے اور فرشتوں کے ذریعے۔<ref>قرآن، سورہ شورا، آیت۵۱.</ref> بعض سورہ بقرہ کی آیت <font color=green>{{حدیث|قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ|ترجمہ= اے رسول کہہ دیجئے کہ جو شخص بھی جبریل کا دشمن ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبریل نے آپ کے دل پر قرآن حکم خدا سے اتارا ہے۔}}</font><ref>قرآن، بقره، ۹۷.</ref> سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کا نزول صرف اور صرف "جبرئیل" کے ذریعے انجام پایا ہے؛<ref>میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، ۱۳۶۳ش، ص۷.</ref> لیکن مشہور نظریہ کے مطابق دوسرے طریقوں منجملہ براہ راست حضرت محمدؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۴۶؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ص۵۵و۵۶.</ref>


=== کیفیت نزول ===
=== کیفیت نزول ===
سطر 43: سطر 43:
===کتابت اور تدوین===
===کتابت اور تدوین===
[[File:قرآن خطی کتابت قرن 3ق.jpg|thumb|350 px]]
[[File:قرآن خطی کتابت قرن 3ق.jpg|thumb|350 px]]
[[پیغمبر اسلام(ص)]] قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ بعثت کے ابتدائی سالوں میں پڑھے لکھے افراد کی کمی اور کتابت کی سہولیات با آسانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مبادا قرآن میں کوئی کلمہ بھول جائے یا اسے غلط محفوظ کیا جائے، قرآن کی [[آیت|آیات]] کو صحیح حفظ اور قرائت کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۲۱و۲۲۲.</ref> آپ(ص) جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو [[کاتبان وحی]] کو بلا کر یہ آیت ان کے سامنے تلاوت فرماتے اور اسے لکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۵۷.</ref> قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپ(ص) کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ <ref>معرفت، التمهید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۰و۲۸۱.</ref>
[[پیغمبر اسلامؐ]] قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ بعثت کے ابتدائی سالوں میں پڑھے لکھے افراد کی کمی اور کتابت کی سہولیات با آسانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے مبادا قرآن میں کوئی کلمہ بھول جائے یا اسے غلط محفوظ کیا جائے، قرآن کی [[آیت|آیات]] کو صحیح حفظ اور قرائت کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۲۱و۲۲۲.</ref> آپؐ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو [[کاتبان وحی]] کو بلا کر یہ آیت ان کے سامنے تلاوت فرماتے اور اسے لکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۵۷.</ref> قرآن کی [[آیت|آیتیں]] مختلف چیزوں جیسے حیوانات کی کھال، کھجور کی شاخیں، کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر جدا جدا طور پر لکھی ہوئی تھیں جنہیں آپؐ کے بعد [[صحابہ]] نے اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دے دی۔ <ref>معرفت، التمهید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۰و۲۸۱.</ref>


پیغمبر اکرم(ص) خود قرآن کی کتابت کی نگرانی فرماتے تھے۔ آپ(ص) کاتبان وحی کے سامنے آیتوں کی تلاوت فرمانے اور لکھنے کے بعد ان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ لکھنے میں کوئی غلطی یا اشتباہ ہوئی ہو تو اسے رفع کیا جا سکے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۶۰.</ref>
پیغمبر اکرمؐ خود قرآن کی کتابت کی نگرانی فرماتے تھے۔ آپؐ کاتبان وحی کے سامنے آیتوں کی تلاوت فرمانے اور لکھنے کے بعد ان سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ لکھنے میں کوئی غلطی یا اشتباہ ہوئی ہو تو اسے رفع کیا جا سکے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۲۶۰.</ref>
سیوطی لکھتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن اکھٹے اور سوروں کی ترتیب وغیرہ مشخص نهیں تھا۔ <ref>سیوطی، الإتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۰۲؛ سیوطی، ترجمہ الأتقان، ج۱، ص۲۰۱.</ref>
سیوطی لکھتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی پورا قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن اکھٹے اور سوروں کی ترتیب وغیرہ مشخص نهیں تھا۔ <ref>سیوطی، الإتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۰۲؛ سیوطی، ترجمہ الأتقان، ج۱، ص۲۰۱.</ref>


پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں قرآن موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ کتاب التمہید کے مطابق آپ(ص) کے زمانے میں قرآن کی آیات اور سورتوں کا نام آپ(ص) کے توسط سے ہی معین ہوئے تھے لیکن اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دینا اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ آپ(ص) کی وفات کے بعد [[صحابہ]] کرام کی صوابدید پر انجام پایا ہے۔ <ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۷۲-۲۸۲.</ref>
پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں قرآن موجودہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ کتاب التمہید کے مطابق آپؐ کے زمانے میں قرآن کی آیات اور سورتوں کا نام آپؐ کے توسط سے ہی معین ہوئے تھے لیکن اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دینا اور سورتوں کی ترتیب وغیرہ آپؐ کی وفات کے بعد [[صحابہ]] کرام کی صوابدید پر انجام پایا ہے۔ <ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۷۲-۲۸۲.</ref>
اس کتاب کے مطابق پہلی شخصیت جس نے قرآن کی تدوین کی، [[امام علی(ع)]] تھے۔ آپ(ع) نے قرآن کی سورتوں کو ان کی تاریخ نزول کے مطابق ترتیب دے کر قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔ <ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۱.</ref>
اس کتاب کے مطابق پہلی شخصیت جس نے قرآن کی تدوین کی، [[امام علیؑ]] تھے۔ آپؑ نے قرآن کی سورتوں کو ان کی تاریخ نزول کے مطابق ترتیب دے کر قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔ <ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۸۱.</ref>


===مختلف نسخوں کو یکساں کرنا===
===مختلف نسخوں کو یکساں کرنا===
پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد آپ کے نامور [[اصحاب]] میں سے ہر ایک نے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا یوں قرآن کے مختلف نسخے مختلف قرائت اور سورتوں کی مختلف ترتیب کے ساتھ تدوین ہوئے۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴.</ref> اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے سے متعلق نسخے کو صحیح اور دوسرے نسخوں کو غلط اور اشتباہ سمجھنے لگا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴-۳۳۷.</ref>
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد آپ کے نامور [[اصحاب]] میں سے ہر ایک نے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا یوں قرآن کے مختلف نسخے مختلف قرائت اور سورتوں کی مختلف ترتیب کے ساتھ تدوین ہوئے۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴.</ref> اس کے نتیجے میں ہر گروہ اپنے سے متعلق نسخے کو صحیح اور دوسرے نسخوں کو غلط اور اشتباہ سمجھنے لگا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۴-۳۳۷.</ref>


اس صورتحال کے پیش نظر [[حذیفۃ بن یمان]] کی تجویز پر [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے قرآن کے مختلف نسخوں کو یکساں کرنے کیلئے ایک گروہ تشکیل دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹.</ref> اس مقصد کیلئے اس نے مختلف گوشہ و کنار سے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کرکے انہیں یکساں کرنے کے بعد بقیہ نسخوں کو محو کرنے کا حکم دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۶.</ref>
اس صورتحال کے پیش نظر [[حذیفۃ بن یمان]] کی تجویز پر [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے قرآن کے مختلف نسخوں کو یکساں کرنے کیلئے ایک گروہ تشکیل دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹.</ref> اس مقصد کیلئے اس نے مختلف گوشہ و کنار سے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کرکے انہیں یکساں کرنے کے بعد بقیہ نسخوں کو محو کرنے کا حکم دیا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۶.</ref>
سطر 58: سطر 58:


===ائمہ معصومین اور موجودہ قرآن نسخہ ===
===ائمہ معصومین اور موجودہ قرآن نسخہ ===
[[احادیث]] کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ [[ائمہ معصومین]] قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے اور پوری اسلامی حکومت میں قرآن کے ایک ہی نسخے کو ترویج دینے کے ساتھ موافق تھے۔ سیوطی نے [[امام علی (ع)]] سے نقل کیا ہے کہ عثمان نے اس حوالے سے آپ(ع) سے مشورہ کیا جس پر آپ(ع) نے اپنی مواففت کا اعلان فرمایا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱.</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ [[امام صادق(ع)]] نے آپ کے سامنے موجودہ قرآن کے برخلاف قرائت کرنے پر ایک شخص کو منع کیا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۸۲۱.</ref>
[[احادیث]] کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ [[ائمہ معصومین]] قرآنی نسخوں کو یکساں کرنے اور پوری اسلامی حکومت میں قرآن کے ایک ہی نسخے کو ترویج دینے کے ساتھ موافق تھے۔ سیوطی نے [[امام علی ؑ]] سے نقل کیا ہے کہ عثمان نے اس حوالے سے آپؑ سے مشورہ کیا جس پر آپؑ نے اپنی مواففت کا اعلان فرمایا۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱.</ref> اسی طرح نقل ہوا ہے کہ [[امام صادقؑ]] نے آپ کے سامنے موجودہ قرآن کے برخلاف قرائت کرنے پر ایک شخص کو منع کیا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۸۲۱.</ref>
کتاب التمہید کے مطابق تمام [[شیعہ]] قرآن کے موجودہ نسخے کو صحیح اور کامل ماننتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲.</ref>
کتاب التمہید کے مطابق تمام [[شیعہ]] قرآن کے موجودہ نسخے کو صحیح اور کامل ماننتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲.</ref>


سطر 89: سطر 89:


== قرآنی کریم کی ساخت ==
== قرآنی کریم کی ساخت ==
قرآن ۱۱۴ [[سورہ|سورتوں]] اور تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]] پر مشتمل ہے۔ قرآن کی آیتوں کی دقیق تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے امام علی(ع) سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی ۶۲۳۶ آیت ہیں۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۳۲.</ref> قرآن 30 پاروں اور 120 احزاب میں تقسیم ہوا ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.</ref>
قرآن ۱۱۴ [[سورہ|سورتوں]] اور تقریبا چھ ہزار [[آیت|آیتوں]] پر مشتمل ہے۔ قرآن کی آیتوں کی دقیق تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے امام علیؑ سے نقل کیا ہے کہ قرآن کی ۶۲۳۶ آیت ہیں۔<ref>یوسفی غروی، علوم قرآنی، ۱۳۹۳ش، ص۳۲.</ref> قرآن 30 پاروں اور 120 احزاب میں تقسیم ہوا ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.</ref>
===سورہ===
===سورہ===
{{اصلی|سورہ}}
{{اصلی|سورہ}}
سطر 105: سطر 105:


===حزب اور پارہ===
===حزب اور پارہ===
حزب اور پارہ بھی قرآن کی تقسیم بندی کے دو معیار ہیں جو مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ احتمال دیا جاتا ہے کہ اس کام کو مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور اسے حفظ کرنے میں آسانی کی خاطر انجام دئے ہیں۔ اس طرح کی تقسیمات فردی سلیقوں کی بنیاد پر انجام دیجاتی تھی اس بنا پر ہر زمانے میں ان کی کمیت اور کیفیت میں تبدیلی نظر آتی ہیں۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۸، ۲۲۹.</ref> مثلا کہا جاتا ہے کہ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے دور میں قرآن سات احزاب پر مشتمل تھا اور ہر حزب کئی سوروں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں قرآن کو دو یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قرآن کو تیس پاروں اور ہر پارے کو چار احزاب میں تقسیم کرنا رائج اور مرسوم ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.</ref>
حزب اور پارہ بھی قرآن کی تقسیم بندی کے دو معیار ہیں جو مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ احتمال دیا جاتا ہے کہ اس کام کو مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت اور اسے حفظ کرنے میں آسانی کی خاطر انجام دئے ہیں۔ اس طرح کی تقسیمات فردی سلیقوں کی بنیاد پر انجام دیجاتی تھی اس بنا پر ہر زمانے میں ان کی کمیت اور کیفیت میں تبدیلی نظر آتی ہیں۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۸، ۲۲۹.</ref> مثلا کہا جاتا ہے کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے دور میں قرآن سات احزاب پر مشتمل تھا اور ہر حزب کئی سوروں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح مختلف زمانوں میں قرآن کو دو یا دس حصوں میں تقسیم کرنے کے شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قرآن کو تیس پاروں اور ہر پارے کو چار احزاب میں تقسیم کرنا رائج اور مرسوم ہے۔<ref>مستفید، «جزء»، ص۲۲۹، ۲۳۰.</ref>


== قرآن کے مضامین==
== قرآن کے مضامین==
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرم(ص) کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرمؐ کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>


==تحریف ناپذیری قرآن==
==تحریف ناپذیری قرآن==
سطر 116: سطر 116:
== قرآن کا چیلنج ==
== قرآن کا چیلنج ==
{{اصلی|قرآن کا چیلنج}}
{{اصلی|قرآن کا چیلنج}}
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرم(ص) کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرم(ص) کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت ۳۴.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.</ref>
قرآن کی مختلف آیتوں میں [[پیغمبر اکرمؐ]] کے مخالفین سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم پیغمبر اکرمؐ کو خدا کا حقیقی پیغمبر نہیں مانتے تو قرآن جیسا کوئی کتاب یا دس سورتیں یا کم از کم ایک سورہ قرآن کی مانند لا کر دکھاؤ۔<ref>سورہ اسراء، آیت ۸۸؛ سورہ ہود، آیت ۱۳؛ سورہ یونس، آیت ۳۸.</ref> مسلمان اس مسئلے کو قرآن کی چیلنج کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ پہلی مرتبہ تیسری صدی ہجری میں علم کلام کی کتابوں میں قرآن کے چیلنجز کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔<ref>معموری، تحدی، ۱۳۸۵ش، ص۵۹۹.</ref> مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا کوئی فرد قرآن کی مثل نہیں لا سکتا جو قرآن کے معجزہ ہونے اور پیغمبر اکرمؐ کی نبوت پر بہترین دلیل ہے۔ خود قرآن نے بھی بار بار اس بات کی تاکید کی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی مثل لانا کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔<ref>سورہ طور، آیت ۳۴.</ref> اعجاز القرآن، [[قرآنی علوم]] کی ایک شاخ ہے جس میں قرآن کے معجزہ ہونے پر بحث کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، اعجاز القرآن، ۱۳۷۹ش، ج۹، ص۳۶۳.</ref>


== اعجاز القرآن ==
== اعجاز القرآن ==
سطر 130: سطر 130:
# قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات کے تناظر میں نازل ہوا ہے۔
# قرآنی بیان استقامت و استواری کا حامل ہے اور اس میں تضاد اور اختلاف نہيں ہے، حالانکہ قرآن 23 سالہ عرصے میں بہت سارے حوادث و واقعات کے تناظر میں نازل ہوا ہے۔
# یہ قول کہ "خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے۔ ([[نظریہ صرفہ]])
# یہ قول کہ "خداوند متعال نے مخالفین کے دلوں اور ہمتوں کو مثل قرآن لانے سے منصرف کردیا ہے۔ ([[نظریہ صرفہ]])
سابقہ [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] کے [[معجرہ|معجزات]] زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو [[اسلام]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|ہمارے پیغمبر(ص)]] کے زمان ےمیں قوم [[عرب]] کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ(ص)]] کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638-1639۔</ref>
سابقہ [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء]] کے [[معجرہ|معجزات]] زيادہ تر حسّی تھے جبکہ قرآن ـ جو [[اسلام]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کا زندہ جاوید اور ابدی معجزہ ـ ایک عقلی، علمی و سائنسی اور ثقافتی و تہذیبی معجزہ ہے۔ ایک مشہور قول کے مطابق ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے اپنے زمانے کی ترقی وپیشرفت سے مطابقت رکھتا تھا، اور چونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|ہمارے پیغمبرؐ]] کے زمان ےمیں قوم [[عرب]] کے درمیان شعر و ادب اعلی فن و ہنر سمجھتا جاتا تھا، خداوند متعال نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپؐ]] کے لئے ایک زبانی و ادبی معجزہ منتخب فرمایا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638-1639۔</ref>


==قرآن سے مرتبط علوم==
==قرآن سے مرتبط علوم==
سطر 136: سطر 136:
===تفسیر===
===تفسیر===
{{اصلی|تفسیر}}
{{اصلی|تفسیر}}
تفسیر سے مراد وہ علم ہے جس میں قرآن کی آیات کی شرح و تبیین ہوتی ہے۔<ref>عباسی، تفسیر، ۱۳۸۲ش، ج۷، ص۶۱۹.</ref> قرآن کی تفسیر پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے خود آپ(ص) کے توسط سے ہی شروع ہوا ہے۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۷۴.</ref> [[امام علی(ع)]]، [[ابن عباس]]، [[عبدالله بن مسعود]] اور اُبیّ بن کعب پیغمبر اکرم(ص) کے بعد سب سے پہلے مفسرین شمار ہوتے ہیں۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۲۱۰و۲۱۱.</ref>
تفسیر سے مراد وہ علم ہے جس میں قرآن کی آیات کی شرح و تبیین ہوتی ہے۔<ref>عباسی، تفسیر، ۱۳۸۲ش، ج۷، ص۶۱۹.</ref> قرآن کی تفسیر پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے خود آپؐ کے توسط سے ہی شروع ہوا ہے۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۷۴.</ref> [[امام علیؑ]]، [[ابن عباس]]، [[عبدالله بن مسعود]] اور اُبیّ بن کعب پیغمبر اکرمؐ کے بعد سب سے پہلے مفسرین شمار ہوتے ہیں۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۲۱۰و۲۱۱.</ref>
قرآن کی مختلف طریقوں اور روشوں سے تفسیر ہوئی ہے۔ تفسیر کی بعض روشیں کچھ یوں ہیں: [[تفسیر موضوعی]]، [[تفسیر ترتیبی]]، [[قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر]]، [[تفسیر روایی]]، [[تفسیر علمی]]،  [[تفسیر فقہی]]، [[تفسیر فلسفی]] اور [[تفسیر عرفانی]]۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۴تا۲۰، ۲۲، ۲۵، ۳۵۴، ۴۴۳، ۵۲۶.</ref>
قرآن کی مختلف طریقوں اور روشوں سے تفسیر ہوئی ہے۔ تفسیر کی بعض روشیں کچھ یوں ہیں: [[تفسیر موضوعی]]، [[تفسیر ترتیبی]]، [[قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر]]، [[تفسیر روایی]]، [[تفسیر علمی]]،  [[تفسیر فقہی]]، [[تفسیر فلسفی]] اور [[تفسیر عرفانی]]۔<ref>معرفت، التفسیر والمفسرون، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۴تا۲۰، ۲۲، ۲۵، ۳۵۴، ۴۴۳، ۵۲۶.</ref>


سطر 166: سطر 166:


==قرآن مستشرقین کی نظر میں==
==قرآن مستشرقین کی نظر میں==
بہت سارے غیر مسلم دانشورں نے قرآن کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بعض مستشرقین قرآن کو پیغمبر اکرم(ص) کا کلام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کے مطالب کو [[یہودیت|یہودیوں]] اور [[مسیحیت|عیسائیوں]] کے مآخذ اور [[زمان جاہلیت]] کے اشعار سے اقتباس کیا ہے۔ بعض محققین اگرچہ صراحت کے ساتھ قرآن کو وحی نہیں مانتے لیکن اسے انسانی کلام سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص۳۵. </ref>
بہت سارے غیر مسلم دانشورں نے قرآن کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بعض مستشرقین قرآن کو پیغمبر اکرمؐ کا کلام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: قرآن کے مطالب کو [[یہودیت|یہودیوں]] اور [[مسیحیت|عیسائیوں]] کے مآخذ اور [[زمان جاہلیت]] کے اشعار سے اقتباس کیا ہے۔ بعض محققین اگرچہ صراحت کے ساتھ قرآن کو وحی نہیں مانتے لیکن اسے انسانی کلام سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص۳۵. </ref>


ریجارڈ بل قرآن کے ادبیات میں تکرار اور تشبیہ کے طریقہ کار کو یہودیوں اور عیسائیوں کے "حُنَفاء" نامی رسم سے اقتباس شدہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں نولدکھ قرآن کی سورتوں خاص کر مکی سورتوں کو ادبی لحاظ سے معجز نما قرار دیتے ہوئے قرآنی آیات کو فرشتوں کی نغمہ سرایی قرار دیتے ہیں جو مؤمن کو وجد میں لاتی ہیں۔ موریس بوکای، [[اعجاز علمی قرآن]] کو مد نظر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن کی بعض آیات جدید سائنسی ایجادات سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ آخرکار وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن منشأ الہی کا حامل ہے۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص۳۵. </ref>
ریجارڈ بل قرآن کے ادبیات میں تکرار اور تشبیہ کے طریقہ کار کو یہودیوں اور عیسائیوں کے "حُنَفاء" نامی رسم سے اقتباس شدہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں نولدکھ قرآن کی سورتوں خاص کر مکی سورتوں کو ادبی لحاظ سے معجز نما قرار دیتے ہوئے قرآنی آیات کو فرشتوں کی نغمہ سرایی قرار دیتے ہیں جو مؤمن کو وجد میں لاتی ہیں۔ موریس بوکای، [[اعجاز علمی قرآن]] کو مد نظر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: قرآن کی بعض آیات جدید سائنسی ایجادات سے مکمل طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ آخرکار وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن منشأ الہی کا حامل ہے۔<ref>کریمی، «مستشرقان و قرآن»، ص۳۵. </ref>
سطر 176: سطر 176:
ملف:قرآن آبی. قرن سوم هجری.jpg|تیسری صدی ہجری سے متعلق نیلے رنگ کا قرآنی نسخہ
ملف:قرآن آبی. قرن سوم هجری.jpg|تیسری صدی ہجری سے متعلق نیلے رنگ کا قرآنی نسخہ
ملف:قرآن. قرن اول هجری.لندن.jpg|لندن کے عجائب گھر میں موجود پہلی صدی ہجری سے متعلق قرآنی نسخہ
ملف:قرآن. قرن اول هجری.لندن.jpg|لندن کے عجائب گھر میں موجود پہلی صدی ہجری سے متعلق قرآنی نسخہ
ملف:نسخه قرآن.دانشگاه بیرمنگام.قرن اول هجری.jpg|قرآن کا قدیمی نسخہ جس کے بارے میں احتمال دیا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کا ہے
ملف:نسخه قرآن.دانشگاه بیرمنگام.قرن اول هجری.jpg|قرآن کا قدیمی نسخہ جس کے بارے میں احتمال دیا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے کا ہے
ملف:قرآن کریستالی.jpg|کریسٹل قرآن
ملف:قرآن کریستالی.jpg|کریسٹل قرآن
</gallery>
</gallery>
سطر 183: سطر 183:
== متعلقہ صفحات==
== متعلقہ صفحات==
{{ستون آ|1}}
{{ستون آ|1}}
* [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلام(ص)]]
* [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلامؐ]]
* [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]]
* [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]]
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


سطر 225: سطر 225:
*مصباح یزدی، محمدتقی،  قرآن‌شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ سوم، ۱۳۸۹ش.
*مصباح یزدی، محمدتقی،  قرآن‌شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ سوم، ۱۳۸۹ش.
*مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ پانزدہم، ۱۳۸۹ش،  
*مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ پانزدہم، ۱۳۸۹ش،  
*معارف، مجید، «گزارشی از آموزش قرآن در سیرہ رسول خدا (ص)»، پژوہش دینی، ش۳. ۱۳۸۰ش.
*معارف، مجید، «گزارشی از آموزش قرآن در سیرہ رسول خدا ؑ»، پژوہش دینی، ش۳. ۱۳۸۰ش.
*معرفت، محمدہادی، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، در سایت دانشنامہ موضوعی قرآن، تاریخ دسترسی(۱۳ اسفند ۱۳۹۵).
*معرفت، محمدہادی، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، در سایت دانشنامہ موضوعی قرآن، تاریخ دسترسی(۱۳ اسفند ۱۳۹۵).
*معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، ۱۴۱۸ق.
*معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، ۱۴۱۸ق.
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,901

ترامیم