مندرجات کا رخ کریں

تجوید

ویکی شیعہ سے

تجوید سے مراد قرآن کے حروف کو فطری اور درست انداز میں اس طرح ادا کرنا ہے کہ ہر حرف اپنے صحیح مخرج سے ادا ہو۔ اگرچہ "تجوید" کا لفظ علم تجوید کے ابتدائی متون میں مستعمل نہیں ملتا ہے لیکن بعد کے ادوار میں یہ اصطلاح ابن مجاہد کی کتاب السبعۃ فی القراءات اور علی بن جعفر سعیدی کی کتاب "التنبیہ" میں استعمال ہوئی ہے۔

شروع میں علم تجوید کے مباحث علم قراءات کی کتابوں میں پراکندہ اور ضمنی انداز میں میں بیان کیے جاتے تھے لیکن چوتھی صدی ہجری کے بعد تجوید کو ایک مستقل علم کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اس علم میں مخارج اور صفات حروف، نونِ ساکن، میم ساکن، لام، مد و قصر، وقف و ابتدا، غنہ اور قلقلہ کے احکام جیسے موضوعات زیر بحث آتے ہیں:

قصیدۂ ابومزاحم خاقانی، مکی ابن ابی طالب کی کتاب "الرعایہ لتجوید القراءۃ" اور ابو عمر دانی کی کتاب "التحدید فی الإتقان والتجوید" علم تجوید کے سلسلے میں لکھی گئی ابتدائی اور مستقل کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ شرعی حکم کے مطابق، اگر تجوید کے اصول کی خلاف ورزی سے قرآن کے معنی میں تبدیلی واقع ہو تو نماز میں تجوید کا لحاظ رکھنا واجب ہے۔ نیز حج کی تلبیہ میں بھی اذکار کا صحیح تلفظ کرنا ضروری ہے۔

تعریف اور اہمیت

تجوید کا مطلب ہے قرآن کے حروف کو درست تلفظ کے ساتھ اس طرح ادا کرنا کہ ہر حرف اپنے مخرج سے ادا ہو اور اس کی ادائیگی بغیر افراط کے مکمل درستگی کے ساتھ ہو تاکہ قرآن کے الفاظ خوبصورت اور صحیح طریقے سے پڑھے جا سکیں۔[1]

تحقیقات کے مطابق، اگرچہ ابو مزاحم (وفات: 325ھ) کے قصیدہ خاقانیہ کو تجوید کے موضوع پر پہلا مستقل علمی کام مانا جاتا ہے، لیکن اس میں "تجوید" کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ "تجوید" کا لفظ پہلی بار ابن مجاہد (وفات: 324ھ) کی کتاب السبعۃ فی القراءات میں اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد علی بن جعفر سعیدی (وفات: تقریباً 410ھ) نے اپنی کتاب التنبیہ علی اللحن الجلی واللحن الخفی میں اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔[2]

اس سے پہلے کہ تجوید کو ایک مستقل علم کی حیثیت حاصل ہو، اس کے مباحث کبھی علم قراءت کے تحت اور کبھی لغت کی کتابوں میں بیان کیے جاتے تھے۔ لیکن چوتھی صدی ہجری سے تجوید کو ایک مستقل علم کی حیثیت حاصل ہوگئی۔[3] علم تجوید میں زیرِ بحث آنے والے بعض اہم موضوعات یہ ہیں: حروف کے مخارج اور صفات، نون ساکن اور تنوین کے احکام، میم ساکن کے احکام، لام کے احکام، مد اور قصر، وقف اور ابتدا، غُنہ اور قلقلہ۔[4]

علمِ تجوید کے ابتدائی آثار

اس سے پہلے کہ تجویدِ قرآن پر مستقل کتابیں لکھی جاتیں، یہ علم قراءتِ قرآن سے متعلق کتابوں میں پراکندہ صورت میں بیان کیا جاتا تھا۔[5] تاہم، تجوید کے موضوع پر تحریر کی گئی مستقل تصانیف درج ذیل ہیں:

  1. قصیدہ ابومزاحم خاقانی (وفات: 325ھ)، عبد العزیز عبد الفتاح کے بقول، یہ قرآنِ کریم کی تجوید پر سب سے پہلی، پرانی اور مستقل تصنیف ہے، جو چوتھی صدی ہجری میں نظم کی صورت میں لکھی گئی۔[6]
  2. قصیدہ علم‌ الدین سخاوی (وفات: 643ھ)، جس کا عنوان ہے: عمدۃ المفید وعدۃ المجید في معرفۃ التجوید۔[7]
  3. الرعايۃ لتجويد القراءۃ و تحقیق لفظ التلاوۃ، یہ کتاب ابومحمد مکی بن ابی‌ طالب القیسی القیروانی القرطبی (وفات: 437ھ) کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ متقدّمین کی کتابوں میں تجوید کے حوالے سے سب سے اہم مرجع مانی جاتی ہے اور اس میدان میں مفصل ترین کتابوں میں سے ہے، جو تقریباً 420 ھ کے آس پاس لکھی گئی۔[8]
  4. کتاب التحدید في الإتقان والتجويد، مصنف: ابوعمرو الدانی (وفات: 444ھ)۔ یہ کتاب تقریباً اسی دور میں لکھی گئی جس میں مکی بن ابی‌ طالب کی تصنیف سامنے آئی اور دونوں کو علمِ تجوید کے قدیم ترین مصادر میں سے شمار کیا جاتا ہے۔[9]

فقہی احکام

شیعہ فقہاء نماز کی قراءت کو صحیح عربی زبان میں پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں؛[10] تاہم، نماز میں تجوید کے قواعد کی پابندی صرف اس صورت میں واجب ہے جب ان کی خلاف ورزی سے الفاظ کا معنی بدل جائے۔[11] اہل سنت فقہاء کے نزدیک بھی نماز کی درست قراءت ضروری ہے، مگر اتنی حد تک کہ وہ انسان کو سختی یا مشقت میں نہ ڈالے۔ اسی بنیاد پر وہ حروف جیسے "ضاد" اور "ظاء" میں فرق کو لازم نہیں سمجھتے۔[12]

اسی طرح تلبیہ (لبیک کہنا)؛ جو کہ عمرہ تمتّع، حج تمتّع، حج افراد اور عمرہ مفردہ کے احرام کا ایک جزو ہے؛ کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اس کے اذکار کو صحیح طریقے سے ادا کرنا ضروری ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. ابن‌جزری، غایۃ النہایۃ، 1361، ج1، ص212؛ تہانوی، موسوعۃ کشاف اصطلاحات، 1996، ج1، ص386۔
  2. محمدی، «تاریخ و علل پیدایش تجوید»، ص75؛ قدوری حمد، «درآمدی بر علم تجوید قرآن کریم»، ص200-201۔
  3. محمدی، «تاریخ و علل پیدایش تجوید»، ص75۔
  4. بسۃ المصری، العمید فی علم التجوید، 1425ھ، ص198۔
  5. مفلح القضاۃ و دیگران، مقدمات في علم القراءات، 1422ھ، ص186۔
  6. مفلح القضاۃ و دیگران، مقدمات في علم القراءات، 1422ھ، ص186۔
  7. مفلح القضاۃ و دیگران، مقدمات في علم القراءات، 1422ھ، ص186۔
  8. «الرعايۃ لتجويد القراءۃ وتحقيق لفظ التلاوۃ»، سایت الموسوعۃ القرآنیۃ؛ قدوری، ابحاث فی علم التجوید، 1422، ص57۔
  9. قدوری، ابحاث فی علم التجوید، 1422ھ، ص57۔
  10. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1421ھ، ج1، ص166؛ گلپایگانی، توضیح المسائل، 1413ھ، ص165، 168، 179، 191۔
  11. بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج8، ص173؛ ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1425ھ، ج12، ص105-106؛ اعرج، کنز الفوائد، 1416ھ، ج1، ص115۔
  12. فخر رازی، التفسیر الکبیر، دار احیاء التراث، ج1، ص69؛ عظیم‌ آبادی، عون المعبود، 1415ھ، ج11، ص29؛ ابن‌ عابدین، رد المحتار، 1415ھ، ج1، ص682۔
  13. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج4، ص664؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1421ھ، ج1، ص380۔

مآخذ

  • ابن‌ جزری، محمد بن محمد، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، تہران، دارالکتب العلمیہ، 1361۔
  • ابن‌عابدین، محمدامین، رد المحتار علی الدر المختار: شرح تنویر الابصار، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
  • اعرج، عبدالمطلب بن محمد، کنز الفوائد فی حل مشکلات القواعد، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1416ھ۔
  • «الرعايۃ لتجويد القراءۃ وتحقيق لفظ التلاوۃ»، سایت الموسوعۃ القرآنیۃ، تاریخ بازدید: 1 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1421ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1405ھ۔
  • بسۃ المصری، محمود بن علی، العمید فی علم التجوید، تحقیق محمد الصادق القمحاوی، اسکندریہ، دار العقیدہ، 1425ھ/ 2004ء۔
  • تہانوی، محمدعلی، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، بیروت، مکتبۃ لبنان ناشرون، 1996ء۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
  • عظیم‌آبادی، محمد شمس‌الحق، عون المعبود، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • قدوری حمد، غانم، «درآمدی بر علم تجوید قرآن کریم»، ترجمہ حسین علینقیان، در مجلہ الہیات و حقوق دانشگاہ رضوی (آموزہ‌ہای قرآنی)، سال چہارم، بہار 1383، ش4.
  • قدوری، غانم، ابحاث فی علم التجوید، عمان، دار عمار، 1422ھ/ 2002ء۔
  • گلپایگانی، سید محمدرضا، توضیح المسائل (فارسی)، قم، دارالقرآن الکریم، 1413ھ۔
  • محمدی، محمدعلی، «تاریخ و علل پیدایش تجوید»، در مجلہ معرفت، سال بیست‌وہفتم، شمارہ چہارم، تیر 1397۔
  • مفلح القضاۃ، محمد، و احمد خالد شکری و محمد خالد منصور، مقدمات فی علم القراءات، عمان، دار عمار، 1422ھ/ 2001ء۔
  • ہمدانی، رضا بن محمد، مصباح الفقیہ، ج12، تحقیق المؤسسۃ الجعفریۃ لاحیاء التراث، قم، برگ طوبی، 1425ھ۔