التبیان فی تفسیر القرآن (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | شیخ طوسی (متوفی460ھ) |
موضوع | تفسیر قرآن |
طرز تحریر | کلام |
تعداد جلد | 10 جلد |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | دار احیاء التراث العربی |
مقام اشاعت | بیروت |
التبیان فی تفسیر القرآن قرآن مجید کی تفسیر ہے جس کے مولف شیخ طوسی (385-460 ھ) ہیں۔ یہ تفسیر شیعہ تفاسیر میں پہلی تفسیر ہے جو مکمل قرآن کی تفسیر پر مشتمل ہےالتبیان نے شیعہ تفسیر کی بہت مدد کی۔ شیعہ مفسرین نے اس سے سرمشق لیا ہے۔
یہ کتاب قرآن مجید کی تمام آیتوں کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ اس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس تفسیر میں جامع نظر رکھی گئی ہے اور قرآن کی تفسیر میں مختلف علوم سے استفادہ کیا ہے۔ شیخ طوسی نے اس کتاب میں دوسری مذہب کے مفسرین اور متکلمین کی رائے کو بیان کرنے کے بعد اس کو نقد کیا ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے شیعہ علما ابن ادریس حلی اور ابن کال نے اس کتاب کو تَلخیصُالتِّبیان کے نام سے خلاصہ کیا ہے۔
مؤلف
شیخ طوسی کے نام سے مشہور محمد بن حسن بن علی بن حسن(385-460 ھ) پانچویں صدی ہجری کے شیعہ مایہ ناز فقیہ ہیں۔[1] سید مرتضی کی وفات کے بعد آپ شیعہ مذہب کے دینی پیشوا سمجھے جاتے تھے۔ آپ نے مختلف شاگردوں کی تربیت کی اور دسیوں کتابیں تالیف کی۔[2]
شیخ طوسی کتب اربعہ میں سے دو کتابوں، التہذیب الاحکام اور الاستبصار کے مؤلف ہیں۔ [3]
تألیف کا مقصد
کتاب کے مقدمے میں خود شیخ طوسی کے بقول اس وقت تک کی تفاسیر یا تو پورے قرآن مجید کی تفسیر پر مشتمل نہیں تھیں یا مختلف علوم کے تناظر میں تفسیر کرنے کے بجائے صرف ایک علم کو مدنظر رکھ کر تفسیر کی گئی تھیں۔ بعض تفاسیر میں صرف روایات کو ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا تھااور روایات کی تشریح اور تحلیل نہیں ہوتی تھی۔[4]جو تفاسیر پورے قرآن پر مشتمل تھیں وہ کچھ زیاد تفصیلی تھیں جن میں غیر مربوط مطالب زیاد تھے۔[5]
وہ لکھتے ہیں کہ ان کوتاہیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی تفسیر لکھنا مقصود تھا جس میں قرآن فہمی کے تمام علوم سے استفادہ کیا گیا ہو؛ جیسے قرائت، معانی، اِعراب، کلام، اور دیگر مذاہب کی طرف سے پیش کردہ کلامی شبہات کا جواب۔ نیز ایک درمیانی کتاب ہو جو نہ تو زیادہ تفصیلی ہو اور پڑھنے والا بوریت کا احساس کرے اور نہ ہی زیادہ مختصر ہو جس سے صحیح طرح سے معنی ہی واضح نہ ہو۔[6]
تفسیر التبیان کی اہمیت
التبیان کو پہلی شیعہ جامع تفسیر سمجھا جاتا ہے۔[7] محمد ہادی معرفت کا کہنا ہے کہ التبیان اپنے عصر کی بہترین تفسیر ہے؛ کیونکہ دیگر تفاسیر کی طرح اس میں بھی ایک ہی پہلو پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اپنے سے پہلے کے مفسروں کے نظریات کو بھی بیان کیا ہے۔[8] وہ اس تفسیر کو ایک متوسط اور جامع و کامل تفسیر سمجھتے ہیں جو سابقہ تفاسیر کی خوبیوں پر بھی مشتمل ہے۔[9] بعض نے تفسیر مجمع البیان اور التبیان کا موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ التبیان پہلی شیعہ اجتہادی تفسیر ہے جس میں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کی عقل گرائی دیکھی جاسکتی ہے۔[10] کہا جاتا ہے کہ شیخ طوسی نے اس تفسیر میں شیعہ اور سنی مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔[11] ایران کے ایک ماہر قرآنیات کا کہنا ہے کہ التبیان نے اپنے سے بعد کے مفسروں پر بڑا اچھا اثر ڈالا جیسا کہ طبرسی اس کتاب کی تعریف کی ہے اور اپنی کتاب مجمع البیان کی تفسیری روش اور طریقے کو التبیان کی طرز پر لکھنے کا کہا ہے۔[12]
خصوصیات
اہم تفاسیر | |
---|---|
شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
تفسیری رجحان | |
تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
تفسیری روشیں | |
تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
اقسام تفسیر | |
ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
اصطلاحات علم تفسیر | |
اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری |
شیخ طوسی نے التبیان میں تفسیر کےلئے مختلف علوم قرآن کے مختلف موضوعات؛ جیسے زبان شناسی،قرائت، اِعراب، اسباب نزول، سورتوں کا مکی اور مدنی ہونے کو تفسیر میں استعمال کیا ہے۔ اسی طرح تفسیر، تاویل، محکم و متشابہ اور اعجاز قرآن کی اقسام اور قرآن اور سورتوں کے نام کی بھی تحقیق کی ہے۔[13]
قرآن کی تفسیر کو قرآن سے کرنا،[14] ضعیف روایات کو چھوڑ کر صرف ان صحیح روایات کا استفادہ کرنا جو قرآن اور عقل کے مخالف نہیں،[15] نیز کلامی مباحث کو مفصل طور پر بحث کرنا[16] اس کتاب کی اہم خصوصیات میں سے ہیں۔
اس کتاب میں ہر آیت کو بیان کرنے کے بعد پہلے اس کے مشکل الفاظ کی توضیح اور اس کی مختلف قرائتیں بیان ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اس کی تفسیر کے بارے میں مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں۔ پھر مختصر عبارت میں پورے معانی کو بیان کیا گیا ہے۔ نیز آیت کا سبب نزول اور اس سے مربوط کلامی اور فقہی مطالب کو بھی بیان کیا ہے۔ مخالفین کے نظریات کو بھی بیان کرنے کے بعد بڑے ادب سے نقد کیا ہے۔[17]
تفسیر تبیان کے خلاصے
شیعہ مشہور کتاب شناس آقابزرگ تہرانی (متوفی 1389ھ) اپنی کتاب الذریعہ میں «مُختَصَرُالتّبیان» کے نام سے دو شیعہ علما کی کتابیں ذکر کی ہیں جو التبیان کا خلاصہ ہیں: ان میں سے ایک ابن ادریس حلی (متوفی 548ھ) کی ہے۔[18] اور دوسری کتاب ابوعبداللہ محمد بن ہارون، المعروف محمد بن محمد ہارون بزاز حلی|ابن کال]] (متوفی 597ھ) کی لکھی ہوئی ہے۔[19]
خطی نسخے اور پہلا چھاپ
آقا بزرگ تہرانی کا کہنا ہے کہ پوری التبیان کا خطی نسخہ کسی بھی لائبریری میں موجود نہیں ہے۔ مختلف خطی نسخے مختلف کتابخانوں میں موجود ہیں جو ہر ایک کسی ایک حصے پر مشتمل ہیں۔[20] مہدوی راد کے مطابق پہلی بار سید محمد حجت کوہ کمری (متوفی:1372ھ) کے توسط اس کے منتشر مختلف حصوں کو چھاپنے کی غرض سے جمع کیا گیا۔[21]
پہلی بار سنگی طباعت دو جلدوں میں جس کا اہتمام مرزا علی آقا شیرازی اور سید عبد الرسول روغنی زادہ اصفہانی نے سنہ 1365 ھ میں کیاجس کی پہلی جلد 1362ھ میں جبکہ دوسری جلد 1365ھ میں چھپ کر منظر عام پر آگئی۔[22] دوسرا مطبوع نسخہ 1376ھ سے 1382ھ کے درمیان نجف میں دس جلدوں میں انجام پایا جس کی تصحیح اور تحقیق «احمد حبیب قصیر» نے انجام دی۔[23]
حوالہ جات
- ↑ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1392ش، ص181.
- ↑ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ص183۔
- ↑ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1379ش، ص185.
- ↑ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص1.
- ↑ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص1-2.
- ↑ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص2.
- ↑ کریمینیا، «شیخ طوسی و منابع تفسیری وی در التبیان»، ص82؛ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ج2، ص247.
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ج2، ص247.
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ج2، ص248.
- ↑ موسوی درہبیدی و احمدنژاد، «بررسی رویکرد تقریبی دو تفسیر التبیان و مجمعالبیان در نقل روایات اہلبیت(ع)»، ص342.
- ↑ موسوی درہبیدی و احمدنژاد، «بررسی رویکرد تقریبی دو تفسیر التبیان و مجمعالبیان در نقل روایات اہلبیت(ع)»، ص342.
- ↑ مہدوی راد «التبیان فی تفسیر القرآن»، ص186-187.
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ق، ص248.
- ↑ ایرانی، روش شیخ طوسی در تفسیر تبیان، 1371ش، ص93.
- ↑ ایرانی، روش شیخ طوسی در تفسیر تبیان، 1371ش، ص127-128.
- ↑ ایرانی، روش شیخ طوسی در تفسیر تبیان، 1371ش، ص159.
- ↑ معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ش، ص248.
- ↑ تہرانی، الذریعہ، 1403ق، ج20، ص184.
- ↑ تہرانی، الذریعہ، 1403ق، ج20، ص 185.
- ↑ تہرانی، الذریعہ، 1403ق، ج3، ص329.
- ↑ مہدوی راد، «التبیان فی تفسیر القرآن»، ص187.
- ↑ ایرانی، روش شیخ طوسی در تفسیر تبیان، 1371ش، ص39-40.
- ↑ ایرانی، روش شیخ طوسی در تفسیر تبیان، 1371ش، ص40.
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1403ھ۔
- ایرانی، اکبر، روش شیخ طوسی در تفسیر تبیان، تہران، سازمان تیبلیغات اسلامی، 1371ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
- کریمینیا، مرتضی، «شیخ طوسی و منابع تفسیری وی در التبیان»، در فصلنامہ دانشکدہ الہیات و معارف مشہد، شمارہ 74، 1385ہجری شمسی۔
- گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، سمت، چاپ سیزدہم، 1379ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، تفسیر و مفسران، ترجمہ گروہی از محققان، قم، مؤسسہ فرہنگیانتشاراتی التمہید، 1379ہجری شمسی۔
- موسوی درہبیدی، سید حسین و امیر احمدنژاد، «بررسی رویکرد تقریبی دو تفسیر التبیان و مجمعالبیان در نقل روایات اہلبیت(ع)»، پژوہش ہای تفسیر تطبیقی، شمارہ15، فروردین 1401ہجری شمسی۔
- مہدوی راد، محمدعلی، «التبیان فی تفسیر القرآن»، در بینات، شمارہ 3، 1373ہجری شمسی۔