علمی تفسیر
| اہم تفاسیر | |
|---|---|
| شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
| سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
| تفسیری رجحان | |
| تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
| تفسیری روشیں | |
| تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
| اقسام تفسیر | |
| ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
| اصطلاحات علم تفسیر | |
| اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری | |
علمی تفسیر، قرآن کی تفسیر کے ان طرز فکر میں سے ایک ہے جس میں آیاتِ قرآن کو تجرباتی علوم (سائنس) کی روشنی میں سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تفسیر کے اس شعبے کی مسلمانوں کے درمیان ایک طویل تاریخ ہے، اور چودھویں صدی شمسی میں، علم و دین کے درمیان پائے جانے والے تعارض کے جواب اور قرآن کے علمی اعجاز کو ثابت کرنے کے لیے اس پہلو کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے۔
قرآن کی علمی تفسیر نے تین مراحل طے کیے ہیں؛ پہلا دور پہلی صدی ہجری کے آخر سے پانچویں صدی ہجری تک جاری رہا۔ اس دور میں، پانچویں صدی کے مشہور فلسفی ابن سینا نے قرآن کی آیات کو بطلیموسی فلکیات (Ptolemaic Astronomy) سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ چھٹی صدی ہجری میں غزالی نے تفسیر کے اس دوسرے دور کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ تیسرا دور اٹھارہویں صدی عیسوی کو یورپ میں "حسی تجربے کی اصالت" (Empiricism) کے مکتبِ فکر کے ظہور کے بعد شروع ہوا۔
شیعہ اور اہل سنت علما کے درمیان قرآن کی علمی جامعیت کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں؛ بعض علما کا ماننا ہے کہ قرآن میں تمام علوم موجود ہیں۔ کچھ کے نزدیک، قرآن صرف ہدایت کی کتاب ہے، ایک گروہ نے مختلف علوم کے لحاظ سے تفصیل سے بات کی ہے۔
شیعہ علما کی علمی تفاسیر میں سید ہبۃ الدین شہرستانی کی کتاب "اسلام و الہیئۃ" اور سید محمود طالقانی کی کتاب "پرتوی از قرآن" جبکہ اہلِ سنت تفاسیر میں طنطاوی جوہری کی "الجواہر فی تفسیر القرآن" تفسیرِ علمی کی نمایاں کتابیں شمار ہوتی ہیں۔
مفہوم اور مقام
علمی تفسیر سے مراد یہ ہے کہ قرآنی آیات کو تجرباتی علوم کی روشنی میں تفسیر اور معنی کیا جائے، علوم قرآنی کے محقق محمد علی رضائی اصفہانی کے مطابق، علمی تفسیر کی کئی تعریفیں ہیں، اور ہر مفسر نے اسے اپنے طریقے کے مطابق تعریف کیا ہے۔[1] علمی تفسیر کی اصطلاح میں "علم" سے مراد تجرباتی علوم ہیں۔[2]
قرآن میں متعدد آیات کو "علمی آیات" کہا جاتا ہے، جن کی تعداد تقریباً 750 بتائی گئی ہے۔[3] علمی تفسیر، قدیم الایام سے مسلمانوں کے درمیان ایک شعبے کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے؛ اگرچہ بعض محققین اس تفسیر کی ابتدا کو دوسری صدی ہجری میں مانتے ہیں، لیکن مکتوب شواہد کی بنیاد پر اس کے آثار چوتھی صدی ہجری سے ملتے ہیں۔[4]
چودھویں صدی شمسی میں خاص طور پر مصر، ایران اور ہندوستان میں اس طرزِ تفسیر کو غیر معمولی توجہ حاصل ہوئی۔[5] اور نہ صرف مفسرین قرآن بلکہ سائنسی علوم کے ماہرین نے بھی اس طرز کی تفسیر کی ہے۔[6] یورپ میں جب "علم و دین کے تعارض" کے مسئلے کی وجہ سے یہ بحث شروع ہوئی تھی، تو مسلمانوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ اسلام سائنسی تحقیق کا حامی ہے۔[7]
کہا گیا ہے کہ یہ سلسلہ عیسائیوں کی مقدس کتاب کا سائنسی حقائق کے جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے شروع ہوا اور یہی فکر تدریجی طور پر مسلم دنیا تک بھی پہنچ گئی؛ اور اسی وجہ سے مسلمان دانشوروں نے کوشش کی کہ آیات اور روایات کے ظاہر کو تجرباتی علوم سے تطبیق دے کر روزمرہ علوم کے ساتھ اسلام کی ہم آہنگی کو ثابت کریں۔ کچھ محققین کے نزدیک شیعہ اور اہل سنت کے درمیان علمی تفسیر کے فروغ کی بڑی وجہ قرآن کے علمی اعجاز کو ثابت کرنا تھا۔[8] علوم قرآن کے محقق محمد ہادی معرفت کے مطابق، قرآن کا علمی اعجاز، اعجاز کے پہلوؤں میں سے ایک ہے اور وہ اسے قرآن کے تحدّی کے موارد میں سے شمار کرتے ہیں۔[9]
تفسیری ادوار
کہا جاتا ہے کہ قرآن کی علمی تفسیر نے تین تاریخی ادوار طے کیا ہے؛ پہلا دور پہلی صدی ہجری کے آخر سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک پھیلا ہوا ہے، جو کہ یونانی علوم کے عربی میں ترجمے اور اسلامی فتوحات کے ساتھ شروع ہوا۔ اس زمانے میں ابن سینا جیسے علماء نے کوشش کی کہ قرآن کی آیات کو بطلمیوسی (Ptolemaic) فلکیات کے نظریات کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔[10]
اس اعتبار سے دوسرا دور چھٹی صدی ہجری سے شروع ہوا؛ جب ابو حامد غزالی (متوفی 505ھ)[11] اور بعض دیگر علماء نے یہ نظریہ پیش کیا کہ قرآن میں تمام علوم موجود ہیں اور انہیں آیاتِ قرآن سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ دو نظریات صدیوں تک جاری رہے۔[12] ابو الفتوح رازی (متوفی 556ھ) پہلے شیعہ مفسر سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے قرآن کی علمی تفسیر کی۔[13] اسی دور میں ملا صدرا (متوفی 1050ھ) نے بھی اپنی کتاب تفسیر القرآن العظیم کے کچھ حصوں میں علمی تفسیر کی طرف اشارہ کیا ہے۔[14]
قرآن کی علمی تفسیر کا تیسرا دور یورپ میں حسی تجربے کی اصالت (Empiricism) کے غلبے اور اٹھارویں صدی عیسوی میں مغرب میں سائنسی علوم کے فروغ کے نتیجے میں سامنے آیا۔[15] اس دور میں مسلمانوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دین اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے سائنسی دریافتوں سے قرآن کی علمی اعجاز کو ثابت کیا اور قرآن کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تجرباتی علوم سے مدد لی۔[16]
علمی تفسیر کے بارے میں مختلف آراء
بعض محققین کے مطابق، جب یہ سوال اٹھا کہ "کیا تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں؟" تو اس کے جواب میں تفسیرِ علمی کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے:
پہلا نظریہ: موافقین
یہ گروہ اس بات کا قائل ہے کہ تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں۔ رضائی اصفہانی کے مطابق، پانچویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابو حامد غزالی نے سب سے پہلے اپنی کتابوں "احیاء العلوم" اور "جواہر القرآن" میں اس نظریے کو پیش کیا ہے۔[17] اور شیعہ علما میں اس نظریے کے قائلین میں ابن سینا (متوفی 428ھ)، شیخ طوسی، ابوالفتوح رازی، علامہ مجلسی (متوفی 1111ھ)، ملا صدرا، فیض کاشانی (متوفی 1091ھ)، سید ہبۃ الدین شہرستانی (متوفی 1386ھ)، نیز سید محمود طالقانی (متوفی 1358ھ شمسی)، محمد تقی شریعتی (متوفی 1366ھ شمسی) اور مہدی بازرگان شامل ہیں۔ اہل سنت علما میں سے فخر رازی (متوفی:606ھ) اور طنطاوی جوہری (متولد:1862ء) اس نظریے کے حامی معروف علما ہیں۔[18]
اس گروہ کی دلائل کچھ اس طرح سے ہیں:
- قرآن کی بعض آیات کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن میں ہر چیز موجود ہے؛ جیسے: سورہ نحل آیت نمبر 89 «و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء» (اور ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی جو ہر چیز کی وضاحت کرنے والی ہے)
- بعض آیات جن میں مختلف علوم کی طرف اشارہ ہے، جیسے: سورہ انبیاء آیت نمبر 47: «و کفی بنا حاسبین» (اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں)، اس کو علمِ ریاضی کی طرف اشارہ سمجھا گیا ہے۔[19]
دوسرا نظریہ: مخالفین
یہ گروہ قرآن کو صرف کتابِ ہدایت اور دین سمجھتا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ قرآن تجرباتی مسائل بیان کرنے لئے نازل نہیں ہوا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ نظریہ شیعہ علما میں سے فضل بن حسن طبرسی (متوفی 548ھ) اور مالکی فقیہ ابو اسحاق شاطبی (متوفی 790ھ) کی کتابوں میں بیان ہوا ہے جو غزالی اور دوسروں کے نظرئے کا پہلا مخالف بھی تھا۔[20] شیخ محمود شلتوت (متوفی 1964ء)، محمد حسین ذہبی (متوفی 1397ھ) اور امین الخولی تفسیر علمی قرآن کے اہل سنت مخالفین میں سے تھے۔[21]
اس نظریے کی بعض دلائل درج ذیل ہیں:
- سورہ نحل آیت نمبر 89 میں جو کہا گیا ہے کہ اس"کتاب" میں سب کچھ ہے، یہاں پر کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے، اور قرآن میں عقلی علوم اور نقلی علوم سب نہیں ہیں۔
- قرآن کو سائنسی علوم، جیسے؛ فلکیات، ہیئت اور طبیعیات وغیرہ سے تفسیر کریں تو یہ تکلف اور مشقت کا باعث ہوگا کیونکہ قرآن اُمّی اعراب (بدوؤں) لوگوں پر نازل ہوا تھا، جو ان علوم سے ناآشنا تھے۔

تیسرا نظریہ: تفصیلی نظریہ
اس نظریے کے مطابق، قرآن ایک طرف کتابِ ہدایت ہے اور دوسری طرف اس میں کچھ علمی نکات بھی موجود ہیں۔[23]
شیعہ علما میں علامہ طباطبائی (متوفی 1360ش)،[24] ناصر مکارم شیرازی (متولد 1305ش)،[25] محمدتقی مصباح یزدی (متوفی 1399ش)،[26] محمدہادی معرفت (متوفی 1385ش) اور جعفر سبحانی (متولد 1308ش) اس نظرئے کے حامی تھے جبکہ اہل سنت علما میں زمخشری (متوفی 538ھ)،[27] سید قطب (متوفای 1906ء)، رشید رضا (متوفای 1935ء)[28] و محمد مصطفی المراغی (متوفی: 1945ء) اس نظرئے کے طرفدار تھے۔[29]
اس نظریے کی بعض دلائل درج ذیل ہیں:
- قرآن ہدایت، اخلاق اور تربیت کی کتاب ہے، تاکہ انسانوں کو فضیلت اور خداشناسی کی طرف رہنمائی کرے، اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام تجرباتی علوم کے مسائل بھی اس میں تفصیل سے بیان ہوں۔
- جن آیات کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن مجید میں ہر چیز موجود ہے، وہ قابلِ استناد نہیں ہیں؛ کیونکہ ایک طرف بعض مفسرین نے صراحت کے ساتھ ان آیات کے ظاہری معنی کو رد کیا ہے اور انہیں صرف ہدایتِ انسان سے مخصوص قرار دیا ہے، اور دوسری طرف یہ رائے بدیہیات کے خلاف ہے، جیسا کہ بہت سے طبیعیات اور کیمیا کے فارمولے قرآن میں موجود نہیں ہیں۔
- ان آیات کا مقصد جن میں طبیعی علوم کی طرف اشارہ ہوا ہے، وہ جیومیٹری اور کیمسٹری کے فارمولے بیان کرنا نہیں ہے؛ بلکہ یہ اشارات صرف ضمنی اور مثال کے طور پر بیان ہوئےہیں، نہ کہ تعلیم دینا مقصد ہے۔[30]
تفسیرِ علمی کے طریقے
علمی تفسیر کے کچھ اقسام اور طریقے مندرجہ ذیل ہیں:[31]
قرآن سے تمام علوم کا استخراج
اس طریقے میں بعض مفسرین، قرآن کی آیات کے ظاہر سے ہر علم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔[32] اس گروہ جیسے غزالی اور ابن ابی الفضل المرسی (متوفی 655ھ)،[33] کے مطابق یہ نظریہ اس بات پر استوار ہے کہ ہر چیز قرآن میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر سورہ شعرا کی آیت نمبر 80 «وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِ» (جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے) اس سے علمِ طب کو استخراج کیا ہے۔[34] علوم قرآنی کے محققین کے مطابق اس طرز کے تفسیر میں مفسرین آیت کی تاویل کرتے ہیں۔[35]
علمی نظریات کا قرآن پر انطباق
یہ طریقہ خاص طور پر بیسوی صدی عیسوی میں مصر اور ایران میں مقبول ہوا، جس میں جدید علمی نظریات اور انکشافات کو قرآنی آیات کے ظاہر پر منطبق کیا گیا۔ البتہ اس طرز تفکر کو بعض محققین کی طرف سے تطبیق کے بجائے تحمیل (زبردستی کسی بات کو منوانا) کا نام دیا گیا ہے۔[36] عبدالرزاق نوفل (متوفی: 1984ء) نے سورہ اعراف آیت نمبر 189 (ہُوَ الَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا؛ وہ ذات جس نے تم سب کو میں "نفس" کو "پروٹون" اور "زوج" کو "الیکٹرون" سے تعبیر کیا ہے اور کہا کہ یہ آیت ایٹمی مثبت اور منفی ذرات کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[37] علامہ طباطبائی کے مطابق یہ "تطبیق" (انطباق) ہے، نہ کہ "تفسیر"۔ اور اس طرح سے تفسیر کرناایک ناپسندیدہ عمل ہے۔[38]
قرآن فہمی میں علوم کا استعمال
اس طرزِ تفسیر میں بعض مفسرین مختلف علوم سے استفادہ کر کے قرآن کی آیات کی بہتر تفہیم پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرز میں، علوم کو آیات کے مفاہیم واضح کرنے، معانی کشف کرنے اور آیات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔[39] مثال کے طور پر سورہ یاسین کی آیت نمبر 36 «سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّہَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ»؛ (پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں خواہ (نباتات) ہو جسے زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔) میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔[40]
کہا گیا ہے کہ یہ طریقہ سب سے معتدل، درست اور علمی تفسیر کا حقیقی نمونہ مانا جاتا ہے اور اسے اعتدالی تفسیر بھی کہا جاتا ہے۔[41] اس طریقۂ کار میں مفسر کو ہر قسم کی ناحق تاویل اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرنا چاہیے اور صرف قرآن کے ممکنہ معنی کے بارے میں بات کرنی چاہیے، کیونکہ تجرباتی علوم ظنی اور غیر قطعی ہوتے ہیں۔[42] اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس طریقۂ کار کو استعمال کرکے قرآن کے علمی اعجاز کو بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔[43]

علمی تفسیروں کی مثالیں
بہت ساری تفسیر کی کتابیں علمی تفسیر کے طرز پر لکھی گئی ہیں۔ مکمل طور علمی تفسیر کی صورت میں لکھی گئی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:
- الجواہر فی تفسیر القرآن؛ اس کتاب کو تیونس کے اہل سنت کے عالم دین طنطاوی جوہری نے تالیف کی ہے۔
- القرآن ہو الہدی والفرقان؛ اس کتاب کو برصغیر کے روشن فکر سر سید احمد خان نے لکھی ہے۔[44]
دیگر کچھ کتابیں جو مختلف علوم کے شعبوں میں مونوگراف کی صورت میں تفسیر کی گئی ہیں، یا جنہوں نے اپنے تفسیری مباحث کے دوران علمی موضوعات کو شامل کیا ہے، درج ذیل ہیں:
- تفسیر نمونہ تألیف مکارم شیرازی اس کتاب میں تفسیر علمی کے بہت سارے مسائل درج کئے گئے ہیں
- القرآن و علم الحدیث، بقلم عبدالرحمان نوفل مصری
- اسلام و الہیئہ؛ تالیف سید ہبۃالدین شہرستانی، فلکیات سے مربوط آیات کے بارے میں
- پرتوی از قرآن، تألیف سید محمود طالقانی
- تفسیر نوین بقلم محمدتقی شریعتی
- باد و باران در قرآن، تألیف مہدی بازرگان.[45]
مونوگراف
علمی تفسیر کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: موضوعی کتب دربارہ تفسیر علمی قرآن
1. درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم؛ تالیف، محمدعلی رضایی اصفہانی، انتشارات اسوہ، سنہ 1375شمسی۔ یہ کتاب قرآن کی علمی تفسیر، اس کے معیارات، موافقین اور مخالفین کی دلائل کے بارے میں لکھی گئی ہے۔[46]
2. پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، بقلم محمدعلی رضایی اصفہانی، انتشارات کتاب مبین، سنہ 1383شمسی۔ اس کتاب میں علمی تفسیر کے بارے میں بعض دیباچے اور مقدمے درج کرنے کے بعد تخصصی طور پر قرآنی آیات کے مطابق بعض تجرباتی علوم کے موارد اور مثالیں پیش کرتے ہیں۔[47]
3. سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن، بقلم ناصر رفیعی، اس کتاب کو انتشارات مرکز جہانی علوم اسلامی قم نے سنہ 1386 شمسی نشر کیا۔ اس کتاب میں علمی تفسیر اور شیعہ اور اہل سنت علمی مفسروں کی تاریخ بیان ہوئی ہے اور اس طریقہ کار کے موفقین اور مخالفوں کے دلائل بھی بیان ہوئے ہیں۔[48]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص274۔
- ↑ مؤدب، مبانی تفسیر قرآن، قم، دانشگاہ قم، 1386شمسی، ص244؛ رفیعی محمدی و رضایی اصفہایی، آشنايی با تفسير علمی قرآن، 1381شمسی، ص8۔
- ↑ مظاہری و بہرامی، «سیر تطور تفسیر علمی قرآن کریم در بستر تاریخ»، ص105۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص289۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص28۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص289۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص28۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص282-286۔
- ↑ رضایی اصفہانی، «اعجاز علمی قرآن»، ص575۔
- ↑ مظاہری و بہرامی، «سیر تطور تفسیر علمی قرآن کریم در بستر تاریخ»، ص105؛ رضایی اصفہانی، «اعجاز علمی قرآن»، ص584۔
- ↑ مظاہری و بہرامی، «سیر تطور تفسیر علمی قرآن کریم در بستر تاریخ»، ص105۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص22۔
- ↑ رضایی اصفہانی، «تفسیر علمی قرآن از دیدگاہ مفسران شیعہ»، ص158-160۔
- ↑ رفیعی محمدی، «سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن کریم»، ص38۔
- ↑ رضایی اصفہانی، «اعجاز علمی قرآن»، ص585-586؛ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص22۔
- ↑ مظاہری و بہرامی، «سیر تطور تفسیر علمی قرآن کریم در بستر تاریخ»، ص105؛ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص22-23۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص35۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص36؛ رضایی اصفہانی، «تفسیر علمی قرآن از دیدگاہ مفسران شیعہ»، ص158-160؛ رضایی اصفہانی، «اعجاز علمی قرآن»، ص587-591؛ رفیعی محمدی، سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن، 1386شمسی، ص101-121 و 138 و 187 و 273-286۔
- ↑ قاسمی، «اعجاز تفسیر علمی قرآن کریم»، ص97۔
- ↑ قاسمی، «اعجاز تفسیر علمی قرآن کریم»، ص98۔
- ↑ رضایی اصفہانی، «اعجاز علمی قرآن»، ص593-595۔
- ↑ رفیعی محمدی، سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن، 1386شمسی، ص320۔
- ↑ قاسمی، «اعجاز تفسیر علمی قرآن کریم»، ص98۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1352شمسی، ج12، ص324۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج11، ص361-362۔
- ↑ مصباح یزدی، معارف قرآن، 1368شمسی، ص228-229۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص628؛ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص38۔
- ↑ رشید رضا، تفسیر القرآن الحکیم، 1414ھ، ج7، ص394-395۔
- ↑ رضایی اصفہانی، «اعجاز علمی قرآن»، ص595-600۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص38-39۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص46-47۔
- ↑ رفیعی محمدی و رضایی اصفہایی، آشنايی با تفسير علمی قرآن، 1381شمسی، ص16۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص47۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص47۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص47۔
- ↑ رفیعی محمدی و رضایی اصفہایی، آشنايی با تفسير علمی قرآن، 1381شمسی، ص17۔
- ↑ نوفل، القرآن و العلم الحدیث، 1404ھ، ص156-157۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1352شمسی، ج1، ص6-9۔
- ↑ رفیعی محمدی و رضایی اصفہایی، آشنايی با تفسير علمی قرآن، 1381شمسی، ص18۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص48-49۔
- ↑ رفیعی محمدی و رضایی اصفہایی، آشنايی با تفسير علمی قرآن، 1381شمسی، ص15۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص48۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص105-106۔
- ↑ علوی مہر و جمعی از محققین، نقش شیعہ در تفسیر و علوم قرآنی، 1397شمسی، ص245۔
- ↑ رضایی اصفہانی، «تفسیر علمی قرآن از دیدگاہ مفسران شیعہ»، ص157؛ رضایی، «پژوہشی در تفسیر علمی قرآن(1)»، ص33-34۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، 1375شمسی، ص4۔
- ↑ رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1383شمسی، ج1، ص4-14۔
- ↑ رفیعی محمدی، سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن، 1386شمسی، ص4-13۔
مآخذ
- رشید رضا، محمد، تفسیر القرآن الحکیم: تفسیر المنار)، بیروت، دار المعرفۃ، 1414ھ/ 1993ء۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، «اعجاز علمی قرآن»، در مجلہ معرفت قرآنی، کنگرہ بزرگداشت آیت اللہ معرفت، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، رشت، کتاب مبین، 1383ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، «تفسیر علمی قرآن از دیدگاہ مفسران شیعہ»، در مجلہ شیعہ شناسی، شمارہ 26، تابستان 1388ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، درآمدی بر تفسیر علمی قرآن کریم، [تہران]، اسوہ، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، منطق تفسیر قرآن، قم، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)، 1393ش/ 1436ھ۔
- رضایی، محمدعلی، «پژوہشی در تفسیر علمی قرآن(1)»، در مجلہ پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، شمارہ 1، بہار 1381ہجری شمسی۔
- رفیعی محمدی، ناصر، سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
- رفیعی محمدی، ناصر، «سیر تدوین و تطور تفسیر علمی قرآن کریم»، در گلستان قرآن، شمارہ 93، آذر 1380ہجری شمسی۔
- رفیعی محمدی، ناصر، و محمدعلی رضایی اصفہانی، آشنايی با تفسير علمی قرآن، حسن رضا رضایی، قم، مرکز مطالعات و پژوہش ہای فرہنگی حوزہ علمیہ قم، 1381ہجری شمسی۔
- طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1393ھ/ 1973ء۔
- علوی مہر، حسین، و جمعی از محققین، نقش شیعہ در تفسیر و علوم قرآنی، قم، انتشارات امام علی بن ابی طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
- قاسمی، خادم علی، «اعجاز تفسیر علمی قرآن کریم»، در مجلہ معارف اسلامی و مطالعات اجتماعی، شمارہ 13، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
- زمخشری، الکشاف، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
- مؤدب، رضا، مبانی تفسیر قرآن، قم، دانشگاہ قم، 1386ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمدتقی، معارف قرآن، قم، مؤسسہ در راہ حق، 1368ہجری شمسی۔
- مظاہری، محمدمہدی، و جمیلہ بہرامی، «سیر تطور تفسیر علمی قرآن کریم در بستر تاریخ»، در نشریہ نامہ الہیات، شمارہ 8، خزاں 1388ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- نوفل، عبدالرزاق، القرآن والعلم الحدیث، بیروت، دارالکتاب العربی، 1404ھ/ 1984ء۔