قرب الاسناد (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(قرب الاسناد سے رجوع مکرر)
قرب الاسناد
مشخصات
مصنفعبد اللہ بن جعفر حمیری
موضوعاحادیث شیعہ
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
سنہ اشاعتمؤسسہ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، قم


قُرْبُ الإسْناد، شیعہ امامیہ کی روائی کتب میں قدیمی کتاب شمار ہوتی ہے۔ اس کے مؤلف عبد اللہ بن جعفر حمیری ہیں جو تیسری و چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علما میں سے ہیں۔ اس کتاب کا ہدف ان اسناد کو پیش کرنا ہے کہ جو ائمہ طاہرین سے نہایت کم فاصلہ رکھتی ہیں۔ اس کتاب میں ۱۳۸۷ حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور مؤلف نے اس کتاب میں صرف امام صادق، امام کاظم و امام رضا (ع) کی احادیث نقل کی ہیں۔ کتاب نماز، روزه، زکات و حج کے ابواب پر مشتمل ہے۔ حمیری کی طرف اس کتاب کی نسبت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

مؤلف

عبداللّہ بن جعفر حِمیری قرن سوم و چہارم کے محدّث‌، شیعہ عالم دین ہیں۔ ولادت و وفات کی دقیق تاریخوں کا علم نہیں لیکن اس میں کسی قسم کا تردد نہیں کہ انہوں نے امامت امام ہادی (ع)، امام حسن عسکری (ع) اور غیبت صغری کے زمانے میں زندگی بسر کی۔

انتساب کتاب

مؤلف کتاب کے بارے میں دانشمندوں و کتاب‌ شناسوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ طوسی نے الفہرست[1] نجاشی نے رجال[2]علامہ مجلسی نے بحارالانوار[3] ابن شہر آشوب نے معالم العلماء[4] شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ[5] آقا بزرگ تہرانی نے الذریعہ[6] آیت اللہ خوئی نے معجم رجال الحدیث[7] عبد اللہ حمیری کی کتاب کہا ہے نیز ان جیسے بہت سے علما اسے عبد اللہ حمیری کی کتاب سمجھتے ہیں۔

اسکے مقابلے میں محققین کے ایک گروہ اس کا مؤلف عبدالله بن جعفر حمیری کے بیٹے محمد بن عبد اللہ حمیری کو کہتے ہیں البتہ وہ روایات کو اپنے والد سے نقل کرتے ہیں۔ اس قول کو اختیار کرنے والوں میں سے ابن ادریس مولف کتاب المستطرفات السرائر بھی ہیں۔

ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ روایات کا مجموعہ محمد اپنے والد سے روایات کرتے ہیں؛ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کتاب کے حقیقی مؤلف والد (عبدالله بن جعفر) ہیں اور بیٹا محمد اپنے والد عبد اللہ حمیری سے روایات نقل کرتا ہے۔ [8]

مضامین کتاب

قرب الاسناد ( جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ) ایسے اثر کو کہا جاتا ہے کہ جس میں محدّث امام معصوم سے مختصر ترین اسناد کے ساتھ روایات ذکر کرتا ہے۔ علی بن ابراہیم، محمد بن عیسی یقطینی اور علی بن بابویہ بھی قرب الاسناد رکھتے تھے لیکن اس وقت عبد اللہ حمیری کی قرب الاسناد ہماری پاس موجود ہے۔ [9] ایسی احادیث کے انتخاب کی روش امام معصوم سے کم واسطوں کی بنا پر زیادہ قابل توجہ ہے کیونکہ زیادہ واسطوں پر مشتمل احادیث اگرچہ مورد اعتماد و مُوَثَّق ہی کیوں نہ ہوں، میں حدیث کے نقل کرنے میں اشتباہ کے احتمال کی تقویت ہوتی ہے۔ حمیری کا ہدف بھی کمترین واسطے کے ذریعے امام معصوم سے روایات نقل ہے۔

قرب الاسناد ۱۳۸۷ احادیث کو شامل ہے جبکہ اس سے پہلی چاپ میں تعداد احادیث ۱۴۰۴ ذکر ہوئی ہے[10] کہ جو تین حصوں میں ترتیب دی گئی:

۱- قرب الاسناد عن الإمام الصاّدق علیہ السلام، (روایات امام صادق) دو بابوں پر مشتمل ہے:

  • پہلا باب : دعا کے متعلق امام صادق (ع) کی روایات (۲۷ روایت)
  • دوسرا باب : متفرق روایات کہ جو فقہی، تاریخی اور بعض اخلاق مسائل سے متعلق ہیں۔ (روایت شماره ۲۷ تا ۶۴۵)

۲- قرب الاسناد عن الإمام الکاظم علیہ السلام (روایات امام کاظم) کہ دو حصوں پر مشتمل ہے:

  • پہلا حصہ: فقہی کتابوں کی بنیاد پر روایات مذکور ہیں۔ اس حصے میں وہ سوال مذکور ہیں جو علی بن جعفر (ع) نے اپنے بھائی امام موسی بن جعفر(ع) سے پوچھے تھے۔ (روایت شماره ۶۴۶ تا ۱۲۲۹)
  • دوسرا حصہ: متفرق روایات امام کاظم (ع) سے منقول ہیں۔( حدیث ۱۲۳۰ تا ۱۲۴۸)

۳- قرب الاسناد عن الإمام الرضا علیہ السلام (روایات امام رضا)

  • اس حصے میں روایات امام رضا (ع) کسی ترتیب اور باب بندی کے بغیر ذکر ہیں۔ اس حصے میں اکثر روایات فقہی روایات جیسے ارث، نکاح، جہاد، حج، خراج، غنا وغیرہ ہیں نیز کچھ تاریخی روایات نظیر بعض آیات کے شأن نزول، احوال حضرت ابراہیم و آدم(ع)، احوال زمان، حضور امام زمان اور کچھ مسائل اخلاقی سے مربوط ہیں۔ (روایت شماره ۱۲۴۹ تا آخر).[11]

اس کتاب کا بیشتر حصہ احادیث فقہى پر مشتمل ہے۔ علامہ مجلسی نے بحار الانوار اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں اس کتاب کی احادیث ذکر کی ہیں۔

کتاب کی دسترسی

نسخہ های قرب الإسناد اگرچہ تمام نسخے قدیمی نہیں ہیں لیکن ان کا ریشہ محمد بن عبد اللہ حمیری کے نسخے تک پہنچتا ہے۔ یہ امر اجازه روایت سے ظاپر ہوتا ہے کہ جو نسخوں میں مذکور ہے۔[12]

پہلی صدیوں می یہ کتاب چندان مشہور نہ تھی جبکہ شیخ صدوق حمیری سے متعدد طرق رکھتے تھے، ان میں سے ان کے باپ کا حمیری کا شاگرد ہونا ہے نیز کتاب عیون اخبار الرضا میں شیخ صدوق نے خود قرب الإسناد کی احادیث کا ایک حصہ امام رضا سے روایت کیا ہے لیکن اسکے باوجود اس سے کوئی چیز نقل نہیں کی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا یہ متن بہت محدود تعداد میں رائج تھا اور بہت سے افراد کی دسترسی میں نہیں تھا۔ البتہ عصر صفوی سے پہلے کے مؤلفین کم و بیش ابن طاووس اور ان سے پہلے ابن ادریس حلی کیلئے شناختہ شدہ تھا۔[13]

خطی نسخے

  • کتابخانۂ آستان قدس رضوی کا نسخہ
  • کتابخانۂ آیت الله مرعشی نجفی کا نسخہ جو ابن ادریس کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ تاریخ استنساخ: ۱۰۶۶ه‍.ق اس میں خود حمیری کا اجازه روایت موجود ہے۔
  • اسی کتابخانے کا ایک اور نسخہ جو ایک واسطے سے ابن ادریس کے نسخے سے استنساخ کیا گیا ہے۔ تاریخ استنساخ: ۱۰۵۶ق
  • اسی کتابخانے کا ایک اور نسخہ جو ابن ادریس کے نسخے سے استنساخ شدہ ہے اور حر عاملی کے ذریعے اس کا مقائسہ ہوا ہے۔ تاریخ استنساخ: ۹۸۳ق
  • اسی کتابخانے کا ایک اور نسخہ، تاریخ استنساخ: ۱۳۰۸.[14]

آقا بزرگ تہرانی نے اسکے تین خطی نسخے ذکر کئے ہیں:

طباعت

کتاب قرب الإسناد کو مؤسسہ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث قم نے ۱۴۱۳ ق میں تحقیق کی اور ۳۰۰۰ کی تعداد میں طبع کیا۔ کتاب کے ۵۴۳ صفحات ہیں کہ جس کے ۳۹۵ صفحات پر احادیث کتاب ہیں بقیہ صفحات میں آیات، احادیث قدسی، احادیث، آثار، اَعلام، ایام و وقائع، ... تا، لباس و زینت، حیوانات اور منابع کی فہرستیں مذکور ہیں۔

اس سے پہلے یہ کتاب تین جلدوں میں توسط کتاب‌ فروشی نینوا تہران منتشر ہوئی۔[16]

حوالہ جات

  1. طوسی، الفہرست، ص۱۶۸.
  2. نجاشی، رجال نجاشی، ص۲۱۹.
  3. مجلسی، بحارالانوار، ج۱، ص۷.
  4. ابن شہر آشوب، معالم العلماء، ص۱۰۸.
  5. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۲۰.
  6. الذریعہ،ج۱۷، ص۶۷.
  7. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱۱، ص۱۴۹.
  8. مقدمہ محقق. ص۱۱-۱۸.
  9. افق حوزه - شماره ۲۹۶ - ۲۲ دی‌ ماه ۱۳۸۹.
  10. تہران، کتاب‌ فروشی نینوا، بی‌ تا
  11. کتابخانہ دیجیتال نور.
  12. حسن انصاری، ماہيّت متن کنونی کتاب قرب الاسناد
  13. حسن انصاری، ماہيّت متن کنونی کتاب قرب الاسناد
  14. سبک‌ شناخت، معرفی کتاب قرب الاسناد.
  15. تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۶۷.
  16. کتابخانہ دیجیتال نور.

منابع

  • انصاری، حسن، ماہيّت متن کنونی کتاب قرب الاسناد
  • حمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الاسناد، قم، آل البیت، ۱۴۱۳ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، مؤسسۃ نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ق.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دارالاضواء.
  • خوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ق.
  • نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق.
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، معالم العلماء، نجف، الحیدریہ.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، آل البیت.