ستون توبہ

ویکی شیعہ سے
مسجد نبوی میں ستون توبہ

ستون توبہ یعنی توبہ کا ستون؛ (عربی میں اسے اُسطُوانَةُ التَّوْبَة کہتے ہیں) مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون کا نام ہے۔ ابولبابہ نے اپنی ایک خطا سے توبہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس ستون سے باندھ لیا اور اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کی اور اسے بخش دیا۔ اسی وجہ سے اس ستون کو خاص مقام اور فضیلت حاصل ہے۔ ابولبابہ پیغمبر اسلامؐ کے صحابی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس جاکر مسلمانوں سے متعلق ایک راز کو فاش کیا تھا؛ پھر وہ اپنے اس گناہ پر پشیمان ہوئے اور گناہ کی تلافی کرنے کے لیے مسجد نبوی میں جاکر ایک ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لیا اور اللہ تعالیٰ سے طلب مغفرت کیا، کچھ ہی مدت کے بعد اس کی توبہ قبول ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابولبابہ کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے غزوہ تبوک میں شرکت کرنے سے انکار کیا تھا، اس پر پشیمان ہوکر توبہ کی۔ ستون توبہ کو ستون ابولبابہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ستون کو اللہ نے خاص مقام و منزلت عطا کی ہے۔ اس کے نزدیک کچھ اعمال؛ منجملہ نماز اور استغفار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

تعارف اور تاریخی پس منظر

تاریخی مآخذ میں یہ ماجرا اس طرح بیان ہوا ہے کہ پیغمبر خداؐ کے اصحاب میں سے ایک صحابی بشیر بن عبد المنذر انصاری جو کہ ابولبابہ کے نام سے مشہور تھا؛ نے اپنے ایک گناہ کی تلافی کی خاطر مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لیا۔ ایک عرصہ کے بعد اس کی توبہ قبول ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد یہ ستون، ستون توبہ یا ستون ابولبابہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔[1]

محل وقوع کے لحاظ سے یہ ستون مسجد نبوی میں منبر رسول کی طرف سے چوتھا ستون، روضہ رسول کی جانب سے دوسرا ستون جبکہ قبلہ کی جانب سے تیسرا ستون بنتا ہے۔[2] پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں یہ ستون لکڑی سے بنا ہوا تھا اور عربی زبان میں اسے "اُسطُوانَةُ التَّوْبَة" یا "اُسطُوانَةُ ابی‌لُبابَة" کہتے ہیں۔[3] کہا گیا ہے کہ ابولبابہ کا یہ عمل اس کی ایک خطا کی تلافی اور اس کی سزا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور آپؐ کے اصحاب کے عہد میں عام طور پر اخلاقی کمال کا ایسا انداز اپنایا جاتا تھا۔[4]

توبہ ابولبابہ کی وجہ

سیرت نگاروں اور محدثین کے مابین ابولبابہ کے گناہ کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ علما کا خیال ہے کہ ابولبابہ نے جنگ تبوک میں شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو گنہگار شمار کیا؛[5] جبکہ بعض سیرت نگاروں کے مطابق ابولبابہ کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس جاکر مسلمانوں سے متعلق ایک راز فاش کیا تھا۔[6]

ابولبابہ کی یہودیان بنی قریظہ کو دی گئی خبر

ابولبابہ کا گناہ اور ان کی خطا پانچویں صدی ہجری میں جنگ خندق کے بعد بنو قریظہ کے یہودیوں کو ایک خبر کی اطلاع دینا تھی۔ جنگ خندق کے خاتمے کے بعد رسول خداؐ نے بنی قریظہ کا محاصرہ کر لیا۔ ابولبابہ رسول خداؐ کے نمائندے کے طور پر بنی قریظہ کے پاس گئے اور لاپرواہی میں انہیں بتایا کہ چونکہ وہ اپنا وعدہ توڑ چکے ہیں اس لیے موت ان کی منتظر ہے۔[7]

ابولبابہ کی یہ بات بنی قریظہ کو دفاع پر مجبور کر سکتی تھی۔ ابولبابہ نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے بنی قریظہ کے قلعے سے نکل کر مسجد نبوی میں جا کر اپنے آپ کو ایک ستون کے ساتھ باندھ کر رونا شروع کیا؛ انہوں نے یہاں نماز پڑھی اور طلب مغفرت کیا۔[8] اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی؛ تب سے یہ ستون، ستون توبہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔[9] ابن ہشام اور ابن اسحاق نے اس روایت کی تصدیق کی ہے[10] اور واقدی نے المغازی میں اس ماجرا کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔[11]

کہا جاتا ہے کہ سورہ انفال کی آیت 27 ابولبابہ کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[12] اس آیت کے شان نزول میں آیا ہے کہ ابولبابہ نے بنی قریظہ کے یہودیوں کے معاملے میں رسول خداؐ کے ساتھ خیانت کی۔[13] سیرت کی کتابوں میں آیا ہے کہ سورہ انفال کی آیت 27 جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ خدا اور رسول سے خیانت نہ کریں، ابولبابہ کے بارے میں ہے۔ اگرچہ اس میں شک و تردید کی گنجائش موجود ہے؛ کیونکہ سورہ انفال دوسری صدی ہجری اور غزوہ بدر سے متعلق ہے۔[14]

جنگ تبوک میں شرکت کرنے سے انکار

بعض مورخین داستان ابولبابہ کو غزوہ تبوک سے متعلق سمجھتے ہیں جس میں انہوں نے پیغمبر خداؐ کے حکم کی مخالفت کی تھی۔ اس روایت کے مطابق ابولبابہ اپنے اس عمل سے پشیمان ہوئے، نتیجتا مسجد نبوی میں جاکر اپنے آپ کو ایک ستون کے ساتھ باندھ لیا اور قسم کھائی کہ جب تک ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی یا موت واقع نہیں ہوتی کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے گا۔ اس ماجرا کے سات دن بعد اللہ نے ابولبابہ کی دعا قبول کرلی۔ پیغمبر خداؐ نے رسی کھول دی اور انہیں نوید سنا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا سے درگذر کیا ہے۔[15] کہا جاتا ہے کہ سورہ توبہ کی آیت102ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے جنگ تبوک میں شرکت کرنے سے گریز کیا تھا اور ابولبابہ انہی لوگوں میں سے تھا۔[16]

بعض مفسرین کے مطابق سورہ توبہ کی آیت102 کا شان نزول ماجرائے ابولبابہ انصاری ہے۔ ابوحمزه ثمالی کہتے ہیں کہ گروہ انصار میں سے ابولبابہ نام کے تین لوگ ابولبابہ بن عبد المنذر، ثعلبہ ودیعہ اور اوس بن حذام نے پیغمبر خداؐ کے ساتھ جنگ تبوک میں شرکت کرنے سے گریز کیا۔ جب ان لوگوں نے قرآن کی آیت ان کے بارے میں نازل ہونے کا واقعہ سنا تو سب اپنے کیے پر پشیمان ہوئے اور مسجد نبوی میں جاکر اپنے آپ کو مسجد ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ امام محمد باقرؑ سے منقول روایت کے مطابق یہ آیت ابولبابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ دوسری صدی ہجری کے فقیہ اور محدث "زہری" کے عقیدے کے مطابق بھی یہ آیت ابولبابہ کےبارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے پیغمبر خداؐ کے ساتھ جنگ تبوک میں شرکت کرنے سے گریز کیا تھا۔[17]

فضیلت اور اعمال

بعض روایات میں اس ستون کے پاس دو رکعت نماز، کچھ مخصوص دعائیں پڑھنے، طلب حاجات اور استغفار کرنے کی سفارش ہوئی ہے۔[18] ایک روایت کے مطابق نبی اکرمؐ اپنے روز مرہ نوافل کا زیادہ تر حصہ ستون توبہ کے پاس پڑھتے تھے اور صبح کی نماز کے بعد بھی اس کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔ مسکین، ضرورت مند اور وہ لوگ جن کے پاس مسجد کے علاوہ کوئی جگہ نہیں تھی؛ اسی ستون کے نزدیک آپؐ کے پاس جمع ہوتے تھے اور طلوع آفتاب تک ان کے ساتھ وقت گزارتے اور رات کو نازل شدہ آیات اُن کو سناتے تھے۔[19]

مسافر شخص کے لیے مسجد النبی میں اعتکاف کرنا مستحب ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ تین دن روزہ رکھے۔ اس کا طریقہ یوں ہے: بدھ کے دن اور شب بدھ ستون توبہ کے پاس، جمعرات کا دن اور اس کی رات ستون توبہ کی دوسری طرف اور جمعہ کے دن اور رات اس ستون کے پاس بیٹھے جو محراب کی طرف سے پیغمبر کے مقام نماز ہے۔ یہاں بیٹھ کر مذکورہ تین دن نمازیں پڑھی جائے۔[20] امام صادقؑ سے روایت منقول ہے کہ مسافر بدھ کے دن روزہ رکھ کر ستون توبہ کے پاس بیٹھ جائے اور شب بدھ ستون توبہ کے پاس بیٹھ کر مستحب نماز پڑھ لے۔[21]


حوالہ جات

  1. مُهری، احسن القصص، 1391ہجری شمسی، ص469.
  2. شُراب، فرهنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیره نبوی، 1383ہجری شمسی، ص41.
  3. مطهری، آزادی معنوی، 1390ہجری شمسی، ص149.
  4. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1377ہجری شمسی، ج1، ص262.
  5. شُراب، فرهنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیره نبوی، 1383ہجری شمسی، ص41.
  6. مُهری، احسن القصص، 1391ہجری شمسی، ص469.
  7. الخیاری، تاریخ معالم المدینة المنورة قدیماً و حدیثاً، 1419ھ، ص94.
  8. جعفریان، آثار اسلامی مکّه و مدینه، 1390ہجری شمسی، ص225.
  9. جعفریان، آثار اسلامی مکّه و مدینه، 1390ہجری شمسی، ص225.
  10. شُراب، فرهنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیره نبوی، 1383ہجری شمسی، ص41.
  11. واقدی، المغازی، 1409ق، ج2، ص508.
  12. شُراب، فرهنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیره نبوی، 1383ہجری شمسی، ص42.
  13. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج3، ص: 300.
  14. جعفریان، آثار اسلامی مکّه و مدینه، 1390ہجری شمسی، ص225.
  15. گلپایگانی، آداب و احکام حج، 1413ھ، 559 تا 561.
  16. میبدی، کشف الاسرار و عدة الابرار، 1371ہجری شمسی، ج4، ص207.
  17. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1372ہجری شمسی، ج5، ص101.
  18. گلپایگانی، آداب و احکام حج، 1413ھ، 559 تا 561.
  19. شُراب، فرهنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیره نبوی، 1383ہجری شمسی، ص42.
  20. هاشمی شاهرودی، فرهنگ فقه فارسی، ج4، ص390. 1382ہجری شمسی؛ بروجردی، جامع أحادیث الشیعة، 1373ہجری شمسی، ج12، ص279.
  21. محمدی ری‌شهری، حج و عمره در قرآن و حدیث، 1386ہجری شمسی، ص607.

مآخذ

  • بروجردی، سید محمدحسین، قم، جامع أحادیث الشیعة، نشر الصحف، 1373ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکّه و مدینه، تهران، مشعر، 1390ہجری شمسی.
  • خیاری، أحمد یاسین، تاریخ معالم المدینة المنورة قدیماً و حدیثاً، ریاض، المملکة العربیة السعودیة. الأمانة العامة للإحتفال بمرور مائة عام علی تأسیس المملکة، 1419ھ.
  • شُراب، محمد محمدحسن، فرهنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیره نبوی (ترجمه المعالم الأثیره فی السنة و السیرة)، ترجمه حمید رضا شیخی، تهران، مشعر، 1383ہجری شمسی.
  • طبرسی، فضل بن حسن‏، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تهران، مرکز فرهنگی درس‌هایی از قرآن‏، چاپ اول، 1388ہجری شمسی.
  • گلپایگانی، سید محمدرضا، آداب و احکام حج، قم، دار القرآن الکریم، چاپ اول، 1413ھ.
  • محمدی ری‌شهری، محمد، حج و عمره در قرآن و حدیث، ترجمه جواد محدثی، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دار الحدیث، 1386ہجری شمسی، چاپ سوم.
  • مطهری، مرتضی، آزادی معنوی، تهران صدرا، 1390ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسه الامام علی بن ابی طالب (ع)، چاپ اول، 1377ہجری شمسی.
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدة الابرار، تهران، امیرکبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی.
  • مُهری، محمد جواد، احسن القصص، قم، انتشارات آیین دانش، چاپ دوم، 1391ہجری شمسی.
  • هاشمی شاهرودی، محمود، فرهنگ فقه فارسی، مؤسسه دائرة المعارف الفقه الاسلامی، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی.
  • واقدی، محمدبن عمر، مغازی، به کوشش مارسدن جونز، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1409ھ.