زینب بنت رسول اللہ

ویکی شیعہ سے
زینب بنت رسول اللہ
کوائف
مکمل نامزینب بنت رسول اللہ
جائے پیدائشمکہ
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسب/قبیلہقریش
اقاربپیغمبر اکرمؐحضرت خدیجہابوالعاص بن ربیعامامہ بنت ابوالعاص
وفات
سبب وفاتمشرکین کے حملے میں سقط جنین کی وجہ سے
مدفنبقیع
دینی معلومات
اسلام لانابعثت کے ابتدائی ایام میں
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ کی بیٹی


زینب بنت رسول اللہؐ (متوفی 8 ھ) اکثر مسلمان مورخین کے مطابق آپ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کی سب سے بڑے صاحبزادی تھیں۔ آپ بعثت سے پہلے ابوالعاص بن ربیع کی زوجیت میں تھیں۔ ظہور اسلام کے بعد اپنے شوہر کے برخلاف اسلام لے آئیں؛ لیکن ابو العاص آپ کی مدینے کی طرف ہجرت میں مانع ہوئے۔

آپ نے جنگ بدر کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ سنہ 7 ہجری کو ابوالعاص نے بھی اسلام قبول کیا اور مدینہ اپنی زوجہ کے پاس چلے گئے۔ اکثر مآخذ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اسلام سے پہلے والے عقد کو باقی رکھتے ہوئے زینب کو اپنے شوہر کے پاس بھیج دیا۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس وقت تک مسلمان عورتوں کے کفار پر حرام ہونے کی آیت یعنی آیہ محارم نازل نہیں ہوئی تھی۔

سید جعفر مرتضی عاملی (1364-1441 ھ) کہتے ہیں کہ چودہویں صدی کے مورخین کے مطابق آپ رسول خداؐ اور حضرت خدیجہ کی حقیقی بیٹی نہیں بلکہ لے پالک تھیں۔ آپ نے میں وفات پائی اور قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔

پیغمبر سے نسبت


زینب پیغمبر اسلامؐ اور حصرت خدیجہ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔[1] مورخین کے مطابق جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت پیغمبر اکرمؐ کی عمر 30 سال تھی۔[2] آپ سنہ 30 عام الفیل میں پیدا ہوئیں۔[3]

شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ عالم ابو القاسم کوفی اس بات کے معتقد ہیں کہ زینب، رقیہ اور ام کلثوم آنحضرتؐ اور حضرت خدیجہ کی حقیقی بیٹی نہیں بلکہ لے پاک بیٹیاں تھیں۔[4] انہوں نے اپنی کتاب "بنات النبی اَم رَبائبُہ؟ اسی مطلب کے اثبات میں لکھی ہے۔[5]

ابوالعاص سے شادی

مسلمان مورخین کے مطابق زینب بعثت سے پہلے[6] ابوالعاص بن ربیع سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں۔[7] ابوالعاص حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کا بیٹا تھا۔[8] بعثت کے بعد حضرت خدیجہ اور پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں کے برخلاف ابوالعاص نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اسی بنا پر قریش نے ان سے زینب کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا؛ لیکن ابوالعاص نے اسے قبول نہیں کیا؛[9] جبکہ ابو لہب کے دو بیٹوں عُتبۃ اور عُتَیبۃ نے قریش کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے رقیہ اور ام‌ کلثوم کو طلاق دے دی۔[10]

زینب کو ابوالعاص سے امامہ اور علی نام کے دو اولاد ہوئیں۔[11] علی بچپنے میں فوت ہوا؛[12] لیکن امامہ حضرت فاطمہ کی شہادت کے بعد امام علیؑ کی زوجیت میں آ گئی اور آپ کی شہادت کے بعد مغیرۃ بن نوفل سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔[13]

مدینہ کی طرف ہجرت

تخریب بقیع سے ائمہ بقیع کے قبول کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹوں کے قبور

عباسی دور خلافت کے تاریخ نگار مطہر بن طاہر مقدسی لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے مدینہ ہجرت کے بعد اپنی بیٹیوں کو مدینہ لانے کے لئے ابو رافع اور زید بن حارثہ کو مکہ بھیجا؛ لیکن ابوالعاص نے زینب کو مدینہ بھیجنے سے انکار کیا۔[14] جنگ بدر کے بعد زینب بھی اصحاب پیغمبرؐ کے ساتھ مدینہ پہنچ گئی؛[15] کیونکہ ابوالعاص جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوا[16] اور پیغمبر کو یہ وعدہ دیا تھا کہ آزادی کے بعد وہ زینب اپنی مرضی کے مطابق رہنے دے گا۔[17] البتہ ایک حدیث کے مطابق زینب نے بھی پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مدینہ مہاجرت کی تھی۔[18]

ابوالعاص کو پناہ دینا

مورخین کے مطابق زینب نے سنہ 6 ھ کو ابوالعاص کو پناہ دی جس کے بعد ابوالعاص نے اسلام قبول کیا۔[19] ابوالعاص سنہ 6 ھ کو جمادی‌ الاول کے مہینے میں قریش کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام چلا گیا۔[20] واپسی پر قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ابوالعاص وہاں سے فرار ہو کر مدینہ پہنچے اور زینب کی پناہ لی۔ زینب نے پیغمبر اکرمؐ کو اس بات کی اطلاع دی جس پر پیغمبر اکرمؐ نے اسے قبول فرمایا؛ لیکن فرمایا کہ جب تک ابوالعاص مسلمان نہ ہو تم اس پر حلال نہیں ہے۔ ابوالعاص دوبارہ مکہ واپس چلا گیا اور وہاں جا کر انہوں نے اعلان کیا کہ اس نے مدینہ میں اسلام کیا ہے۔[21]

قبرستان بقیع میں زینب بنت پیغمبرؐ کی قبر کا نقشہ

ابوالعاص کچھ عرصہ بعد مدینہ واپس آئے تو پیغمبر اکرمؐ نے سنہ 7 ھ محرم کے مہنے میں زینب کو دوبارہ ابوالعاص کی زوجیت میں دے دیا؛[22] کیونکہ اس وقت تک مسلمان عورتوں کا کفار پر حرام ہونے کی آیت[23] نازل نہیں ہوئی تھی۔[24] البتہ بعض کہتے ہیں کہ زینب نئے نکاح کے ساتھ ابوالعاص کے ساتھ رشتہ ازدواچ میں منسلک ہو گئی تھیں۔[25]

وفات

بتایا جاتا ہے کہ آپ کی وفات 8 ھ میں ہوئی تھی۔[26] سودہ بنت زمعۃ بن قیس اور ام ایمن نے انہیں غسل دیا۔[27] تیسری صدی ہجری کے مسلمان مورخ بلاذری کے مطابق زینب کو دفن کرتے وقت پیغمبر اکرمؐ ان کی قبر کے اندر اترے اور ان کے لئے دعا فرمائی۔[28]

تاریخی منابع میں زینب کی وفات کی کیفیت کے بارے میں آیا ہے کہ جس وقت زینب مدینہ کی طرف ہجرت کر رہی تھی مشرکین میں سے ہبّار بن اَسود اور ایک اور شخص نے انہیں دیکھا۔ ہبار نے ا­نہیں دھکا دیا جس کی وجہ سے آپ کسی پتھر کے ساتھ جا ٹکرائی۔ زینب کے پیٹ میں موجود بچہ سقط ہوا اور خود ان کی حالت اس وقت سے خراب رہی یہاں تک کہ وفات پائی۔[29]

تاریخی منابع میں زینب کی جائے دفن کے بارے میں کوئی تصریح نہیں ہوئی؛ لیکن ایک حدیث کے مطابق جب زینب کی وفات ہوئی تو پیغمبر نے فرمایا: "انہیں ہمارے سلف صالحین یعنی عثمان بن مظعون کے ساتھ ملحق کریں۔"[30] اس بنا پر ان کی جائے دفن بقیع کو قرار دیتے ہیں۔[31] چونکہ عثمان بن مظعون وہ پہلے مہاجر صحابی تھے جو بقیع میں دفن ہوئے ہیں۔[32] اسی طرح تخریب بقیع سے پہلے زینب اور پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیٹیوں سے منسوب قبور قبرستان بقیع میں موجود تھے۔[33] مذکورہ قبور پر ضریح بھی بنی ہوئی تھی،[34] یہ قبور بقیع میں موجود دوسرے قبور کے ساتھ وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوئے۔[35]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن ‌اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۳۰.
  2. ابن‌ اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۳۰.
  3. ابن‌ عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۳۹، ۱۸۵۳.
  4. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۱۸؛ عاملی، بنات النبی اَم ربائبہ؟، ۱۴۱۳ق، ص۷۷-۷۹؛ کوفی الاستغاثہ، ج۱، ص۶۸.
  5. ملاحظہ کریں: عاملی، بنات النبی اَم ربائبہ؟، ۱۴۱۳ق.
  6. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۵.
  7. ابن‌ اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۲۲؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷.
  8. بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷.
  9. بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷.
  10. بلاذری، انساب ‌الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۱.
  11. ابن ‌اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۳۰.
  12. بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۰.
  13. ابن ‌اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۴۷۳.
  14. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ج۵، ص۱۸.
  15. بلاذری، انساب ‌الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷.
  16. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۳۹.
  17. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۳۰-۱۳۱.
  18. ملاحظہ کریں: ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۶.
  19. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۳و۵۵۴.
  20. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۳؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۷۷، ۳۹۸.
  21. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۳و۵۵۴.
  22. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۵۴؛ ابن ‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج۱، ص۶۵۹؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۷؛ ابن‌اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۲۲.
  23. سورہ ممتحنہ، آیت۱۰.
  24. مبارکفوری، تحفۃ الاحوذی، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۲۵۰.
  25. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۲۲.
  26. ابن‌ عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۵۳؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۰۔
  27. ابن ‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۲۸۔
  28. بلاذری، انساب‌ الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۰۔
  29. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۵۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۱۱، ص۴۹۴۔
  30. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۵۴؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۲۱۰۔
  31. المدنی البرزنجی، نزہۃ الناظرین، ۱۴۱۶ق، ص۳۱۲-۳۱۳۔
  32. ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۸۲۔
  33. موسوی اصفہانی، روزنامہ سفر مشہد، مکہ و عتبات ۱۳۱۵-۱۳۱۶ق، ۱۳۹۲ش۔ ص۱۹۸۔
  34. جعفریان، «رسالہ مفرحۃ الأنام فی تأسیس بیت اللہ الحرام»، ص۱۱۸۔
  35. جمعی از نویسندگان، بقیع در آینہ تاریخ، ۱۳۹۴ش، ص۲۲۰۔

مآخذ

  • ابن ‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء۔
  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ء۔
  • ابن‌ عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌ دارالجیل، چاپ اول، ۱۴۱۲/۱۹۹۲ھ۔
  • ابن‌ ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بہ‌کوشش مصطفی سقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷/۱۹۹۶ھ۔
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش۔
  • جعفریان، رسول، ««رسالہ مفرحۃ الأنام فی تأسیس بیت اللہ الحرام»، میقات حج، شمارہ۵، ۱۳۷۲ش۔
  • جمعی از نویسندگان پژوہشکدہ حج و زیارت، بقیع در آینہ تاریخ، تہران، مشعر، ۱۳۹۴ش۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق عبدالقادر عطا، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۰ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت،‌ دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷/۱۹۶۷ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، بنات النبی ام ربائبہ؟، مرکزالجواد، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ء۔
  • کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ فی بدع الثلاثہ، بی‌نا، بی‌تا۔
  • مبارک فوری، محمد عبدالرحمن بن عبدالرحیم، تحفۃ الاحوذی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰ء۔
  • المدنی البرزنجی، نزہۃ الناظرین فی مسجد سید الاولین و الآخرین، تحقیق احمد سعید بن سلیم، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۵ء۔
  • مقدسی، البدء و التاریخ، مطہر بن طاہر، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا۔
  • موسوی اصفہانی، حسن، روزنامہ سفر مشہد، مکہ و عتبات ۱۳۱۵-۱۳۱۶ق، بہ‌کوشش رسول جعفریان، تہران، نشر مشعر، ۱۳۹۲ش۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃالاعلمی، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء۔