آیت محارم
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | محارم |
سورہ | نساء |
آیت نمبر | 23 |
پارہ | 4 |
شان نزول | زینب بنت جحش کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی شادی۔ |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | فقہی |
مضمون | مَحرَمیت |
مربوط آیات | نور/ 31 |
آیہ مَحارِم، سورہ نساء کی 23ویں آیت ہے کہ جس میں محارم (وہ خواتین جن سے شادی کرنا حرام ہے) کا ذکر ہے۔ اس آیت کے مطابق سات قسم کی خواتین کے ساتھ نسبی محرمیت کی بنا پر، دو قسم کی خواتین کے ساتھ رضاعی محرمیت کی بنا پر اور چار قسم کی خواتین کے ساتھ سببی محرمیت کی بنا پر شادی کرنا حرام ہے۔
اسی طرح سورہ نور کی 31ویں آیت جو آیہ حجاب کے نام سے مشہور ہے، میں بھی بعض محارم کا تذکرہ ہوا ہے۔
متن و ترجمہ
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّہاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّہاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَۃ وَأُمَّہاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِہنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِہنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّـہ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
تمہارے اوپر تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے، تمہاری رضاعی(دودھ شریک) بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد، جن سے تم نے دخول کیا ہے ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں اور دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ہے علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
سورہ نساء: آیت نمبر 23
شأن نزول
شیخ طوسی کی تفسیر التبیان کے مطابق سورہ نساء کی 23ویں آیت کا بعض حصہ («وَحَلائِلُ أَبْنائِکُمُ الَّذِینَ مِنْ أَصْلابِکُمْ؛ اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں») اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اکرمؐ نے جنگ موتہ میں شہید ہونے والے اپنے منہ بولے فرزند زید بن حارثہ کی زوجہ زینب بنت جحش سے شادی کر لی اور مشرکین نے چہ میگوئیاں شروع کر دیں۔[1]
جیسا کہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ وہ تمام احکام جو فرزند حقیقی سے مربوط ہیں وہی تمام احکام منہ بولے فرزند کے حق میں بھی جاری ہوتے ہیں، جیسا کہ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ منہ بولے فرزند کی زوجہ کے ساتھ شادی –اس کے مرنے یا طلاق کے بعد- ایک قبیح عمل ہے۔ اسی فاسد عقیدہ سے مقابلہ کے لئے آنحضرتؐ نے اپنے منہ بولے فرزند زید بن حارثہ کی شہادت کے بعد اس کی زوجہ زینب سے شادی کی تھی۔ [2]
محارم
اسلامی تعلیمات میں بعض خواتین و حضرات ایک دوسرے کے محارم کہلائے جاتے ہیں جن کا ایک دوسرے کو نگاہ کرنا اور ایک دوسرے کے لئے زینتوں کو آشکار کرنا جائز لیکن ان کا آپس میں نکاح کرنا حرام ہوتا ہے۔[3] آیہ محارم میں ان خواتین کی طرف اشارہ ہے جن کے ساتھ نسبی، سببی اور رضاعی رشتہ دار کی بنا پر نکاح حرام ہے:[4]
- نسب: یعنی خونی رشتہ داری جو تولید نسل کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔[5] فقہا نے آیت محارم سے استدلال کرتے ہوئے سات قسم کے رشتہ داروں کا آپس میں نکاح کرنے کو حرام قرار دیا ہے:[6]
- رضاع: محرمیت رضاعی یعنی وہ رشتہ داری جو دودھ پلانے کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔[14] اس آیت میں صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کے ساتھ نکاح حرام ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[15] جبکہ فقہا نے پیغمبر اکرمؐ کی حدیث: «ہر وہ چیز جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہے وہ رضاع کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتی ہے»،[16] کی بنیاد پر کہا ہے کہ وہ تمام عورتیں جن کے ساتھ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہے ان کے ساتھ رضاع کی وجہ سے بھی نکاح حرام ہے۔[17]
- سبب: صیغہ عقد پڑھنے کے ساتھ شوہر و زوجہ کے علاوہ ان دونوں کے بعض رشتہ دار بھی ان دونوں کے لئے محرم ہوجاتے ہیں کہ جنہیں محارم سبَبی کہتے ہیں۔[18] آیہ محارم نے چار طرح کی عورتوں کی طرف اشارہ کیا ہے: زوجہ کی ماں(ساس)، اس بیوی کی بیٹی جس کے ساتھ عقد کے بعد ہمبستری کی ہو، بیٹے کی زوجہ(بہو) اور دو سگی بہنوں کے ساتھ ایک وقت میں نکاح کرنا۔[19]
تفسیری نکات
بعض مفسرین کے مطابق یہ عبارت «وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ؛ دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا حرام ہے مگر یہ کہ جو پہلے گزر چکا ہے۔۔۔» اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں دو بہنوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں نکاح جائز تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جو لوگ پہلے سے اس طرح کا نکاح کئے ہوئے تھے انہیں کسی طرح کی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن دونوں بہنوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور دوسری کو چھوڑ دیں۔۔[20] تفسیر میزان میں علامہ طباطبائی کے مطابق اس بات کا احتمال ہے کہ یہ استثناء جو کیا گیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ دونوں بہنوں کے ساتھ ایک وقت میں نکاح کرنے سے استثناء ہو بلکہ یہ استثناء، آیت میں موجود گذشتہ تمام فقرات کے لئے ہو۔ اس لئے کہ گذشتہ زمانہ میں غیر عرب میں ایسی امتیں بھی تھیں کہ جو آیہ محارم میں موجود بعض عورتوں کے ساتھ نکاح کرتی تھیں، اسلام نے اس استثناء(حکم کو الگ بیان کرنے) کے بعد ان شادیوں (نکاح) کو معتبر جانا اور اس نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد پر حلال زادگی کا حکم لگایا۔[21] البتہ علامہ طباطبائی(رہ)، بطور نتیجہ اس بات کے معتقد ہیں کہ احتمال اول (یعنی اسلام میں دو بہنوں سے ایک ساتھ شادی حرام ہے مگر گذشتہ زمانے میں یہ حکم استثنا تھا) سب سے زیادہ ظاہر ہے۔[22]
آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق آیت کا آخری حصہ «إِنَّ اللَّہ كانَ غَفُوراً رَحِيماً» دوسرے احتمال کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔[23]
تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس آیت میں دو بہنوں کے ساتھ حرمت ازدواج کا فلسفہ یہ ہو کہ ان دونوں کے درمیان سے جذباتی تضاد کو دور کیا جا سکے کیونکہ دونوں بہنیں نسبی اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ میل محبت والی ہوتی ہیں لیکن جب وہ ایک دوسرے کی رقیب ہو جائیں گی تو وہ اس محبت اور عطوفت کو محفوظ نہیں کر پائیں گی اور ان دونوں کے درمیان محبت و رقابت کا جذبہ ہمیشہ کشمکش کا شکار رہے گا۔[24]
مربوطہ آیات
سورہ نور کی 31ویں آیت جو آیہ حجاب کے نام سے مشہور ہے وہ بھی عورتوں کے بعض قوانین کے ذکر کے ساتھ ان کے بعض محارم کی طرف اشارہ کرتی ہے:
متن و ترجمہ
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ... وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَہنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہنَّ أَوْ آبَائِہنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہنَّ أَوْ أَبْنَائِہنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہنَّ أَوْ إِخْوَانِہنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِہنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِہنَّ أَوْ نِسَائہنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُہنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيرِْ أُوْلىِ الْارْبَۃ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْہرُواْ عَلىَ عَوْرَاتِ النِّسَاء
اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ:۔۔۔ اپنی زینت کو اپنے باپ دادا۔شوہر۔ شوہر کے باپ دادا اپنی اولاد اور اپنے شوہر کی اولاد اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد اور بہنوں کی اولاد اور اپنی عورتوں اور اپنے غلام اور کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے اور وہ بچےّ جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں۔
سورہ نساء: آیت نمبر 31
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج۳، ص۱۵۹۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۳۳۰۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۳۸۱ش، ص۲۷۲ ۔
- ↑ مقدس اردبیلی، زبدۃالبیان، المکتبۃ المرتضویۃ، ص۵۲۳-۵۲۴۔
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ھ، ج۲، ص۲۲۵۔
- ↑ مقدس اردبیلی، زبدۃالبیان، المکتبۃ المرتضویۃ، ص۵۲۳-۵۲۴؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۹، ص۲۳۸۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۹، ص۲۳۸۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۲۸۲۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۲۸۳۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۲۸۳۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۲۸۳۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۲۸۳۔
- ↑ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۲۸۳۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۹، ص۲۶۴۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، منشورات المکتبۃ المرتضویۃ، ج۲، ص۱۸۲۔
- ↑ مغربی، دعائمالاسلام، ۱۳۸۵ھ، ج۲، ص۲۴۰۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، منشورات المکتبۃ، ج۲، ص۱۸۲؛ مقدس اردبیلی، زبدۃالبیان، المکتبۃ المرتضویۃ، ص۵۲۴۔
- ↑ شہید ثانی، مسالکالافہام، ۱۴۱۳ھ، ج۷، ص۲۸۱۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، منشورات المکتبۃ المرتضویۃ، ج۲، ص۱۸۴۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۴، ص۲۶۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۳۳۱۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۴، ص۲۶۶۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۴، ص۲۶۶۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۳۳۱۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۳، ص۳۳۱۔
مآخذ
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار الإمام الخمینی، چاپ اول، ۱۴۳۴ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی التفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بے تا۔
- طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، دفتر انتشارات اسلامی، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
- فاضل مقداد، عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، منشورات المکتبۃ المرتضویۃ للإحیاء الآثار الجعفریۃ، بے تا۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
- مشکینی، علی اکبر، مصطلحات الفقہ، قم، نشر الہادی، چاپ سوم، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
- مغربی، قاضی نعمان، دعائم الاسلام، قم، مؤسسہ آل البیت علیہمالسلام، چاپ دوم، ۱۳۸۵ھ۔
- مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی آیات الاحکام، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ اول، بے تا۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
- نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔