تکتف
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
تَکَتُّف، نماز میں ہاتھ باندھنے کو کہا جاتا ہے جس میں دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے پیشت پر رکھ کر پھر دونوں ہاتھون کو ناف کے اوپر یا سینے پر ہاتھ رکھا جاتا ہے۔
شیعہ فقہاء تکتف کو حرام اور نماز باطل ہونے کا سبب قرار دیتے ہیں۔ اپنے مدعا کی حقانیت کے لئے وہ ایسے احادیث سے استناد کرتے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کو ہاتھباندھے بغیر نماز پڑھنے کی روایت کی گئی ہے۔ اسی طرح اہل بیتؑ سے منقول احادیث میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ شیعہ فقہاء تقیہ کی حالت میں تکتف کو جائز قرار دیتے ہیں۔
اکثر اہل سنت علماء کی نظر میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا مستحب ہے۔ جبکہ ان میں سے بعض اسے واجب اور بعض مکروہ سمجھتے ہیں۔ ہاتھ باندھنے کی نوعیت، وقت اور حالت تکتف میں ہاتھوں کو رکھنے کی جگہ کے بارے میں اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
تکتف کی استحباب پر اہل سنت علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہیں جن میں تکتف کو جائز قرار دیا گیا ہے، لیکن شیعہ فقہا ان احادیث میں سے بعض کی سند اور بعض کے مضمون کو قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں۔
شیعہ اور سنیوں کے نزدیک تکتف کی تعریف اور اہمیت
تکتف نماز کی حالت میں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر ان کو چھاتی یا پیٹ پر رکھنے کو کہا جاتا ہے۔[1] اس عمل کو تَکتِیف،[2] تکفیر،[3] قَبض[4] اور وَضع بھی کہا جاتا ہے۔[5] تکتف کے مقابلے میں "ارسال" یا "اِسدال" یا "سَدل" ہے جس کے معنی نماز کی حالت میں ہاتھوں کو کھول کر رکھنے کے ہیں۔[6]
تکتف مذہب شیعہ اور دیگر اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ہے۔[7] اکثر اہل سنت تکتف کو نماز کے مستحب آداب میں سے قرار دیتے ہیں۔[8]
کیفیت
اہل سنت فقہاء میں سے عینی کے مطابق دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھنا کہ ہاتھ کی کلائی ہتھیلی کے درمیان میں آجائے، تکتف کہلاتا ہے، لیکن بعض دیگر اہل سنت علماء دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں کی پیشت یا بازو پر رکھنے کو تکتف قرار دیتے ہیں۔[9] اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو اس طرح پکڑ لیں کہ بائیں ہاتھ کا انگوٹھا اور چھوٹی انگلی دائیں ہاتھ میں قرار پائیں۔[10]
تکتف میں ہاتھوں کو رکھنے کی جگہ
تکتف میں ہاتھ رکھنے کی جگہ کے بارے میں اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا ہے۔ اس سلسلے میں بعض کہتے ہیں ہاتھوں کو زیرناف رکھنا چاہئے[11] بعض کے مطابق چھاتی کے اوپر اور بعض کے مطابق چھاتی کے نیچے رکھنا چاہئے۔[12] حنفی اور حنبلی مذاہب میں تکتف کی حالت میں ہاتھوں کو زیرناف جبکہ شافعیوں کے نزدیک چھاتی کے نیچے رکھنا مستحب ہے۔[13] وہابی عالم دین بِنباز کے مطابق تکتف کی حالت میں ہاتھوں کو چھاتی پر رکھنا ضروری ہے۔[14]
اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ مردوں کو زیر ناف اور عورتوں کو چھاتی کے اوپر رکھنا چاہئے۔[15]
نماز میں تکتف کی جگہ
اہلسنت عالم دین عینی کے مطابق ابوحنیفہ اور ابویوسف تکتف کو قیام کی حالت میں جبکہ بعض اسے قرائت کے وقت مستحب مانتے ہیں۔ عینی کے مطابق قیام کی حالت میں"مأثورہ" اذکار پڑھتے وقت تکتف مستحب ہے۔ ان کے مطابق اہل سنت کے بعض علماء شیعوں کی مخالفت میں تکتف کو ہر قیام میں سنت مانتے ہیں[16]اس بنا پر رکوع کے بعد، قنوت کی حالت میں، نماز میت اور نماز عیدین کی تکبیروں کے درمیان تکتف کرنے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[17]
نقل ہوا ہے کہ حنفی اور شافعی رکوع کے بعد ہاتھوں کو سینے پر رکھنے کو بدعت سمجھتے ہیں۔ مذہب حنابلہ کے پیشواء احمد بن حنبل اس سلسلے میں مختلف نظریات کے حامل ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان نماز کی حالت میں تکتف انجام دینے اور نہ دینے میں مختار ہے۔[18]
شیعہ نطقہ نگاہ سے تکتف کی شرعی حیثیت
شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق تکتف حرام اور نماز کی بطلان کا سبب ہے۔[19] سید مرتضی[20] اور شیخ طوسی اس سلسلے میں اجماع کے مدعی ہیں۔[21] بعض شیعہ فقہاء کے مطابق تکتف صرف حرام ہے موجب بطلان نماز نہیں ہے۔[22] صاحب جواہر اپنی کتاب جواہر الکلام میں کہتے ہیں کہ ابوالصلاح حلبی تکتف کو مکروہ اور اسکافی اسے ترک کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔[23]
اس حکم میں شیعہ فقہاء کی دلیل وه احادیث ہیں جن کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اپنی نمازوں کو تکتف کے بغیر ادا کرتے تھے۔[24] من جملہ ان میں یہ حدیث ہے جسے ابوحمید ساعدی نے نقل کی ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کی نماز پڑھنے کی حالت بیان ہوئی ہے لیکن اس میں تکتف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔[25] اسی طرح شیعہ ائمہ معصومین سے نقل شدہ احادیث میں نماز کی حالت میں تکتف اور تکفیر سے منع کی گئی ہے۔[26] امام علیؑ[27] اور امام باقرؑ سے نقل ہوا ہے کہ تکتف مَجوسیت کی رسومات میں سے ہے۔[28] صاحبْ جواہر اس بات کے معتقد ہیں کہ اس بدعت کو عمر بن خطاب نے ایرانی اسیروں کی دیکھا دیکھی میں رائج کی ہے۔[29]
تقیہ کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا حکم
شیعہ فقہاء جیسے شہید ثانی اور شیخ مرتضی انصاری نے تقیہ کی حالت میں ہاتھ باندھنے کو جائز بلکہ واجب قرار دیا ہے۔[30] البتہ شیعہ مرجع تقلید اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق دور حاضر میں ہاتھ باندھنا، تقیہ کے موارد میں سے نہیں ہے اس بنا پر صرف مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔[31]
اہل سنت نقطہ نگاہ سے تکتف کی شرعی حیثیت
اہل سنت علماء تکتف کو خشوع و خضوع اور تعظیم کی علامت قرار دیتے ہیں۔[32] اس کے باوجود اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
- استحباب: اہل سنت عالم دین عینی (762-855ھ) کے مطابق حنفی، شافعی، حنبلی علماء اور عام اہل سنت تکتف کو مستحب جانتے ہیں۔[33]
- استحباب تخییری: اوزاعی (707–774ء)[34] اور ابن عبدالبر (368–463ھ) تکتف اور ارسال کے استحباب تخییری کے قائل ہیں۔[35]
- وجوب: اَلبانی (1333-1420ء) اور شوکانی (1173-1250ھ) تکتف کے واجب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔[36]
- کراہت: مالکیمذہب کے مفسر قرطبی کے مطابق مالک بن انس تکتف کو واجب نماز میں مکروہ جبکہ مستحب نمازوں میں مستحب سمجھتے ہیں۔[37] کہا جاتا ہے کہ عبداللہ بن زبیر اور حسن بصری بھی اسی عقیدہ کے قائل تھے۔[38]
- بعض اہل سنت فقہاء تکتف کو صرف اس وقت کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں جب نمازی طولانی قیام کی وجہ سے تھک جائے۔[39]
اہل سنت کے نزدیک تکتف کی دلیل
اہل سنت تکتف کے جواز پر بعض احادیث سے استناد کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں:[40]
- حدیث سہل بن سعد: اس حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں کو نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں بازو پر رکھنے کا حکم دیا جاتا تھا۔[41]
- حدیث وائِل بْن حُجْر: وائل نقل کرتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ تکبیرۃ الاحرام کے بعد اپنے ہاتھوں کو آستین سے نکال کر پیراہن کے نیچے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا کرتے تھے۔[42]
- حدیث عبداللہ بن مسعود: ابنمسعود نے نماز کی حالت میں اپنا بائیں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھا ہوا تھا جس پر پیغمبر اکرمؐ نے ان کے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔[43]
- حدیث ابنعباس: ابنعباس نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبروں کو نماز کی حالت میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔[44]
- امام علیؑ سے منقول حدیث: اس حدیث کے مطابق نماز کے مستحبات میں سے ایک ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھنا ہے۔[45]
شیعوں کے اعتراضات
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ مذکورہ احادیث میں سے بعض کی سند میں خدشہ ہے کیونکہ ان کے سلسلہ اسناد میں بعض ایسے راوی بھی ہیں جو خود اہل سنت کی نظر میں بھی قابل اعتماد نہیں ہیں۔[46] جبکہ بعض احادیث کے مضمون سے تکتف کا واجب یا مستحب ہونا استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔[47]
مونوگرافی
بعض کتابیں جن میں تکتف کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کی گئی ہیں، درج ذیل ہیں:
- الاِرسالُ و التَّکفیر بینَ السُّنۃِ و البِدعَہ: نجمالدین طبسی کی کتاب جو مجموعہ بینَ السُّنۃِ و البِدعَہ کا ایک جز ہے جس میں شیعہ و سنی اختلافی مسائل جیسے متعہ وغیرہ پر تحقیق کی گئی ہے۔[48] یہ مجموعہ ایک کتاب کی شکل میں دراساتٌ فِقہیَّہ فی مسائلَ خِلافِیَّہ کے نام سے شایع ہوئی ہے۔[49]
- توضیحُ المَقال فی الضَّمّ و الاِرسال: محمد یحیی سالم عزّان کی کتاب ہے جسے دارُ التُّراثِ الیُمنیٰ نے صنعا سے شایع کیا ہے۔[50]
- القولُ الفَصل فی تأییدِ سُنَّۃِ السَّدْل، محمد عابد کی کتاب جو تکتف کی نقد و بررسی اور مالک بن انس کے مطابق نماز میں ہاتھ کھول کر پڑھنے کو ثابت کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔[51]
- رسالۃٌ مُختَصَرۃٍ فی السَّدْل، عبدالحمید مبارک آلشیخ کی تحریر ہے۔[52]
- رسالۃٌ فی حکم سَدْلِ الیَدَین فی الصَّلاۃ علی مذہبِ الامام مالک، محمد بن محمد المغربی معروف بہ شنقیطی کی تحریر ہے جسے مرکز نشر دارالفضیلہ نےشایع کیا ہے۔[53]
- القَبضُ فی الصَّلاہ: یہ کتاب مجمع جہانی اہلبیت کے توسط سے تیار کر کے شایع کیا گیا ہے۔[54]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص15؛ زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دارالفکر، ج2، ص873۔
- ↑ ابنعربی، الفتوحات المکیہ، دارالصادر، ج1، ص419۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص15۔
- ↑ طبسی، دراسات فہقیہ فی مسائل خلافیہ، 1387ہجری شمسی، ج1، ص195۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسہ، 1421ھ، ج1، ص110۔
- ↑ مبارکفوری، تحفۃالاحوذی، 1410ھ، ج2، ص73؛۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہلالبیت، 1426ھ، ج21، ص11۔
- ↑ ابنجبرین، شرح عمدۃ الاحکام، ج13، ص47۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 142ھ، ج2، ص181۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص181۔
- ↑ بنباز، مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ، رئاسۃ ادارۃ البحوث العلميۃ و الاِفتاء بالمملكۃ العربيۃ السعوديۃ، ج29، ص240۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص181۔
- ↑ الطیار و دیگران، الفقہ المیسر، 1433ھ، ج1، ص283۔
- ↑ بنباز، مجموع فتاوی و مقالات متنوعہ، رئاسۃ ادارۃ البحوث العلميۃ و الافتاء بالمملكۃ العربيۃ السعوديۃ، ج29، ص240۔
- ↑ حنفی رازی، تحفۃالملوک، 1417ھ، ص69۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص183۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص183۔
- ↑ عطیہ، شرح بلوغ المرام، ج61، ص6۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہلالبیت، 1426ھ، ج21، ص12۔
- ↑ سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1421ھ، ج1، ص219۔
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، ص322
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسہ، 1421ھ، ج1، ص111۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص15۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہل البیت، 1426ھ، ج21، ص22۔
- ↑ ترمذی، الجامع الصحیح، دارالحدیث، ج2، ص84۔
- ↑ حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ، ص208؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج2، ص84۔
- ↑ شیخ صدوق، الخصال، 1362ہجری شمسی، ج2، ص622۔
- ↑ حر عاملی، وسائلالشیعہ، 1409ھ، ج7، ص265۔
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص19۔
- ↑ شہید ثانی، روضالجنان، ج2، ص423؛ سبزواری، مہذبالاحکام، 1388ہجری شمسی، ج2، ص391؛ شیخ انصاری، رسائل فقہیہ، 1414ھ، ج1، ص96۔
- ↑ خامنہای، اجوبہ الاستفتائات، 1388ہجری شمسی، ج1، ص160۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص183۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص180۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص180۔
- ↑ سراوی، القطوف الدانیہ، 1997ء، ج2، ص37۔
- ↑ عوایشہ، الموسوعۃ الفقہیہ المیسرہ، 1423ھ، ج2، ص9؛ شوکانی، نیلالاوطار، 1413ھ، ج2، ص217۔
- ↑ قرطبی، بدایۃ المتجتہد و نہایہ المقتصد، 1425ھ، ج1، ص146۔
- ↑ نووی، المجموع شرح المہذب، دارالفکر، ج3، ص311۔
- ↑ عینی، البنایہ شرح الہدایہ، 1420ھ، ج2، ص181۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہل البیت، 1426ھ، ج21، ص15۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1311ھ، ج1، ص148۔
- ↑ نیشابوری، صحیح مسلم، 1374ھ، ج1، ص301؛ ملا ہروی، مرقاۃالجنان فی شرح مشکاۃالمصابیح، 1422ھ، ج2، ص657۔
- ↑ ابوداود، سنن ابیداود، صیدا، ج1، ص200۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، قاہرہ، ج11، ص199۔
- ↑ دارالقطنی، سنن الدار القطنی، 1424ھ، ج2، ص34۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہل البیت، 1426ھ، ج21، ص21۔
- ↑ جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہلالبیت، 1426ھ، ج21، ص16، 19؛ سبحانی، الاعتصام بالکتاب و السنہ، 1375ش، ص67۔
- ↑ «إرسال التکفیر بین السنۃ و البدعۃ - نسخہ متنی»، کتابخانہ دیجیتال تبیان۔
- ↑ «دراسات فقہیہ فی مسائل خلافیہ»، کتابخوان قائمیہ۔
- ↑ «توضيح المقال في الضم والارسال»، وبگاہ دار المقتبس۔
- ↑ «القول الفصل في تأييد سنۃ السدل على مذہب مالك بن أنس»، وبگاہ کتابخانہ عین الجامعہ۔
- ↑ «رسالۃ مختصرۃ في السدل»، وبگاہ کتابخانہ عین الجامعہ۔
- ↑ «رسالۃ في حكم سدل اليدين في الصلاۃ على مذہب الأمام مالك بالشنقيطي»، وبگاہ آرشیو اینترنت۔
- ↑ «فی رحاب أہل البیت علیہم السلام - 21 - القبض فی الصلاۃ التکتف»، وبگاہ مجمع جہانی اہلبیت۔
مآخذ
- ابوداود، سلیمان بن اشعث، سنن ابیداود، صیدا، المکتبۃ العصریہ، بیتا۔
- ابنجبرین، عبداللہ بن عبدالرحمن، شرح عمدۃ الاحکام، بیجا، بینا، بیتا۔
- ابنحجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیبالہذیب، بیروت، دارالصادر، بیتا۔
- ابنعربی، محیالدین، الفتوحات المکیہ، بیروت، دارالصادر، بیتا۔
- «إرسال التکفیر بین السنۃ و البدعۃ - نسخہ متنی»، کتابخانہ دیجیتال تبیان، تاریخ بازدید: 18 خرداد 1402ہجری شمسی۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیحالبخاری، بولاق، المطبعۃ الکبری الامیریہ، 1311ھ۔
- بنباز، عبدالعزیز بن عبداللہ، مجموع فتاوی و مقالات متنوعہ، بیجا، رئاسۃ ادارۃ البحوث العلميۃ و الافتاء بالمملكۃ العربيۃ السعوديۃ، بیتا۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح، قاہرہ، دارالحدیث، بیتا۔
- «توضيح المقال في الضم والارسال»، وبگاہ دار المقتبس، تاریخ بازدید: 5 تیر 1402ہجری شمسی۔
- دارالقطنی، علی بن عمر، سنن الدار القطنی، تحقیق شیعب الارنؤوط، بیروت، مؤسسۃالرسالہ، چاپ اول، 1424ھ۔
- جزیری، عبدالرحمن بن محمد، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ دوم، 1424ھ۔
- جمعی از نویسندگان، فی رحاب اہل البیت، قم، المجمع العالمی لاہل البیت، چاپ دوم، 1426ھ۔
- حمیری، عبداللہ بن جعفر، قربالاسناد، قم، مؤسسہ آلالبیت علیہمالسلام، چاپ اول، 1413ھ۔
- حنفی رازی، محمد بن ابیبکر، تحفۃالملوک، بیروت، دار البشائر الاسلامیہ، چاپ اول، 1417ھ۔
- خامنہای، اجوبۃالاستفتئات، ترجمہ احمدرضا حسینی، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ پنجاہ و یکم، 1388ہجری شمسی۔
- «دراسات فقیہ فی مسائل خلافیہ»، کتابخوان قائمیہ، تاریخ بازدید: 18 خرداد 1402ہجری شمسی۔
- «رسالۃ فی حکم سدل اليدين في الصلاۃ على مذہب الامام مالك بالشنقیطی»، وبگاہ آرشیو اینترنت، تاریخ بازدید: 5 تیر 1402ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، الاعتصام بالکتاب و السنہ، تہران، رابطۃ الثقافہ و العلاقات الاسلامیہ، 1375ہجری شمسی۔
- سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام فی بیان الحلال و الحرام، قم، دارالتفسیر، چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، کتابخانہ عمومی آیتاللہ مرعشی نجفی، 1421ھ۔
- شوکانی، محمد بن علی، نیل الاوطار، مصر، دارالحدیث، چاپ اول، 1413ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، روض الجنان فی شرح ارشاد الاذہان، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، چاپ اول، 1422ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی، رسائل فقہیہ، قم، کنگرہ جہانی شیخ انصاری، 1414ھ۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آلالبیت علیہمالسلام، چاپ اول، 1409ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تحقیق علیاکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1407ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیبالاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، قاہرہ، مکتبۃ ابنتیمیہ، چاپ دوم، بیتا۔
- طبسی، نجمالدین، دراسات فقہیہ فی مسائل خلافیہ، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، چاپ دوم، 1387ہجری شمسی۔
- طیار، عبداللہ بن محمد، و دیگران، الفقہ المیسر، ریاض، مدار الوطن للنشر، چاپ دوم، 1433ھ۔
- عطیہ، ابنمحمدسالم، شرح بلوغ المرام، بیجا، بینا، بیتا۔
- عوایشہ، حسین بن عودہ، الموسوعۃ الفقہیہ المیسرہ فی فقہ الکتاب و السنۃ المطہرہ، دار ابنحزم، بیروت، چاپ اول، 1423ھ۔
- عینی، محمود بن احمد، البنایہ شرح الہدایہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1420ھ۔
- قرطبی، محمد بن احمد، بدایۃ المجتہد و نہایہ المقتصد، قاہرہ، دارالحدیث، 1425ھ۔
- «فی رحاب أہل البیت علیہم السلام - 21 - القبض فی الصلاۃ التکتف»، وبگاہ مجمع جہانی اہلبیت، تاریخ بازدید: 3 تیر 1402ہجری شمسی۔
- «القول الفصل في تأييد سنۃ السدل على مذہب مالك بن أنس»، وبگاہ کتابخانہ عین الجامعہ، تاریخ بازدید: 5 تیر 1402ہجری شمسی۔
- مبارکفوری، محمد بن عبدالرحیم، تحفۃالاحوذی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1410ھ۔
- مغنیہ، محمدجواد، الفقہ علی المذاہب الخمسہ، بیروت، دار التیار الجدید، 1421ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
- نووی، یحیی بن شرف، المجموع شرح المہذب، بیروت، دارالفکر، بیتا۔
- نیشابوری، مسلم، صحیح مسلم، قاہرہ، مطبعۃ عیسی البابی الحلبی و شرکاہ، 1374ھ۔