قاعدہ نفی سبیل
قاعدہ نَفی سَبیل فقہی اصول میں سے ایک ہے جس کے مطابق کافر کو مسلمان پر کسی طرح کا تسلط حاصل نہیں ہے۔ یہ قاعدہ فقہی قواعد میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے اہم اور ثانوی احکام میں شمار ہوتا ہے اور ابتدائی احکام پر مقدم ہوتا ہے؛ یعنی ہر وہ ابتدائی حکم جو اس حکم کے ساتھ منافات رکھتا ہو وہ باطل شمار ہو گا۔
فقہاء کے مطابق نفی سبیل کا قاعدہ انسان کے فردی اور اجتماعی دونوں امور میں لاگو ہوگا۔ فقہاء اسی قاعدے سے استناد کرتے ہوئے مسلمان عورت کا کافر مرد کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ یہ چیز مسلمان پر کافر کو تسلط حاصل ہونے کا سبب بنتا ہے۔
قاعدہ نفی سبیل پر سب سے اہم قرآنی دلیل آیت نفی سبیل ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے: "اور اللہ کبھی کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔" اسی طرح اس قاعدے کی اثبات کے لئے ایک حدیث سے بھی استناد کیا جاتا ہے جس کے مطابق اسلام ہر چیزی پر افضلیت اور برتر رکھتا ہے۔
تعریف اور فقہی اہمیت
نفی سبیل کا قاعدہ ایک فقہی اصول ہے جس کے مطابق خدا نے کوئی ایسا حکم صادر نہیں فرمایا جس کے تحت کافر کو مسلمان پر تسلط حاصل ہو۔[1] دوسرے لفظوں میں دین میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو کافر کو مسلمان پر تسلط حاصل ہونے کا موجب ہو۔[2]
فقہاء فقہ کے مختلف ابواب میں اس قاعدہ سے اسنتاد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ انصاری اس قاعدے سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان غلام یا کنیز کو کسی کافر کے ہاتھوں فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔[3] عمید زنجانی کے مطابق یہ قاعدہ اہم اور مشہور فقہی قواعد میں سے ہے خاص کر فقہ اقتصاد اور فقہ سیاست میں تمام فردی اور اجتماعی امور میں یہ قاعدہ ایک کلی قانون کے طور پر مورد استناد واقع ہوتا ہے۔[4] شیخ انصاری لکھتے ہیں کہ یہ قاعدہ بہت سارے دیگر فقہی قواعد پر مقدم ہوتا ہے۔[5]
مستندات
آیت نفی سبیل اور وہ حدیث جس میں اسلام کی افضیت اور برتری کی بات آئی ہے، قاعدہ نفی سبیل کے اثبات کے اہم دلائل میں سے ہیں۔[6] البتہ اس سلسلے میں اجماع اور عقل سے بھی استناد کیا گیا ہے۔[7]
آیت نفی سبیل میں ارشاد ہوتا ہے: لَنْ يَجْعَلَ اللَّہُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا (ترجمہ: اور اللہ کبھی کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔)[؟–؟][8] اس آیت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے: کافروں کو مؤمنین پر غلبہ حاصل ہونا ایک ایسا امر ہے جو واقع ہوا ہے اور قرآن میں بھی اس کا تذکرہ آیا ہے۔ لہذا اس آیت میں اس چیز کی نفی نہیں کی جا رہی بلکہ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو کافر کو مسلمان پر مسلط ہونے کا موجب بنے۔[9]
شیخ صدوق نے پیغمبر اسلامؐ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَ لَا يُعْلَىٰ عَلَيْهِ وَ الْكُفَّارُ بِمَنْزِلَةِ الْمَوْتَى لَا يَحْجُبُونَ وَ لَا يَرِثُونَ (ترجمہ: اسلام کو برتری حاصل ہے اور کسی چیز کو اسلام پر برتری حاصل نہیں ہے، کافر مردوں کی طرح ہیں؛ جو دوسروں کو ارث ملنے میں مانع نہیں بن سکتے لیکن خود ان کو ارث نہیں ملے گا)۔[10]
شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ فاضل لنکرانی کے مطابق اس حدیث کے ذیلی جملے میں یہ خبر نہیں دی جا رہی کہ کسی کافر کو کسی مسلمان پر کبھی بھی برتری حاصل نہیں ہو گی، بلکہ اس سے مراد یہ ہے که اسلام میں کوئی ایسا حکم صادر نہیں ہوا جو کافر کو مسلمان پر برتری کا موجب بنے؛ یعنی دین کے تمام احکام میں کافروں پر مسلمانوں کو فوقیت دی جائے گی۔[11]
نفی سبیل ایک ثانوی حکم ہے
قاعدہ نفی سبیل کو اسلام کے ثانوی احکام میں شمار کیا جاتا ہے۔[12] اس بنا پر کہتے ہیں کہ یہ قاعدہ ابتدائی احکام پر مقدم ہوتا ہے؛ یعنی ہر وہ ابتدائی حکم جو اس قانون کے ساتھ منافات رکھتا ہو وہ باطل ہو گا۔[13] مثال کے طور پر احل الله البیع کے قانون کے مطابق مسلمان غلام اور کنیز کو کافر کے ہاتھوں فروخت کرنا جائز ہے؛ لیکن یہ معاملہ کافر کا مسلمان پر مسلط ہونے کا موجب بنا ہے اس بنا پر قاعدہ نفی سبیل کے مطابق یہ معاملہ باطل ہے۔ اسی طرح مسلمان عورت کا کافر مرد کے ساتھ نکاح کرنا فی نفسہ حرام نہیں ہے، لیکن اس قاعدے کے مطابق یہ نکاح باطل ہے؛ کیونکہ یہ چیز کافر مرد کو مسلمان عورت پر تسلط حاصل ہونے کا موجب بنتی ہے۔[14]
فقہی اور سیاسی استعمال
قاعدہ نفی سبیل کا استعمال فقہ میں بہت زیادہ ہے اور فقہاء بہت سارے موارد میں اس قانون کے مطابق فتوا دیتے ہیں۔[15] من جملہ یہ کہ کہا جاتا ہے کہ اس قانون کے مطابق چونکہ غیر مسلمان کا مسلمان کے اوپر تسلط جائز نہیں ہے اسی لئے مسلمان غلام یا کنیز کو غیر مسلمان کے ہاتھ فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح فقہاء نے فتوا دیا ہے ہے کہ کوئی غیر مسلمان کسی مسلمان بچے کا سرپرست نہیں بن سکتا۔[16]
بعض فقہاء اس قاعدے سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں سیاسی، نظامی، اقتصادی اور ثقافتی کسی بھی شعبے میں غیر مسلمانوں کا نفوذ کو روکنا ضروری ہے۔ اس قاعدے میں مثبت اور منفی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں اس کا سلبی اور منفی پہلو کے مطابق مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی تقدیر پر بیگانوں کو مسلط نہ ہونے دینا اور اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بحیثیت مسلمانان ہمیں سیاسی اور سماجی طور پر اپنی استقلال اور آزادی کی حفاظت کرتے ہوئے دوسروں کی وابستگی اور غلامی سے آزاد ہونا چاہئے۔[17]
قاعدے کے تحت حکم کا اجرا
شیعہ فقہا اور مراجع نے قاعدہ نفی سبیل کی بنا پر کافروں کے مسلمانوں پر تسلط کے خلاف حکم بھی دیا ہے جن میں مرزائے شیرازی کا تحریم تنباکو کا فتوا[18]اور امام خمینی کی طرف سے کپیٹلیشن کے خلاف دیا جانے والا فتوا[19] شامل ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۸۷-۱۸۸۔
- ↑ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۳۔
- ↑ بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۸۷۔
- ↑ عمید زنجانی، قواعد فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۳، ص۲۴۔
- ↑ شیخ انصاری، مکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۱۴۲۔
- ↑ علیدوست، «قاعدہ نفیسبیل»، ص۲۳۳؛ بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۸۷؛ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۸۔
- ↑ عمید زنجانی، قواعد فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۳، ص۲۶۔
- ↑ سورہ نساء، آیہ ۱۴۱۔
- ↑ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۴۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۳۳۴۔
- ↑ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۷-۲۳۸۔
- ↑ زنگنہ شہرکی، «قاعدہ «نفی سبیل» در آرای فقہی و مواضع سیاسی صاحبعروہ»، ص۱۴۹؛ ناظری و حسینی، «تأثیر قاعدہ فقہی نفیسبیل بر روابط بینالمللی مسلمانان»، ص۱۶۰۔
- ↑ علیدوست، «قاعدہ نفیسبیل»، ص۲۴۹؛ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۴۔
- ↑ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۴۔
- ↑ بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۸۷؛ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۳۔
- ↑ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۳-۲۵۲۔
- ↑ زینویوند و محمدی، «قاعدہ نفی سبیل در اندیشہ اسلامی و سیاست خارجی جمہوری اسلامی ایران»، ص۱۶۹۔
- ↑ کامران و امیریفرد، «قاعده نفی سبیل و تطبیقات آن»ص۱۱۰.
- ↑ کامران و امیریفرد، «قاعده نفی سبیل و تطبیقات آن»، ص۱۱۰-۱۱۱.
مآخذ
- بجنوردی، سیدحسن، القواعد الفقہیہ، تحقیق مہدی مہریزی و محمدحسن درایتی، قم، الہادی، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
- زنگنہ شہرکی، جعفر، قاعدہ «نفی سبیل» در آرای فقہی و مواضع سیاسی صاحب عروہ، در فصلنامہ فقہ، شمارہ ۳، ۱۳۹۱ش۔
- زینویوند علی و کیمیا محمدی، «قاعدہ نفی سبیل در اندیشہ اسلامی و سیاست خارجی جمہوری اسلامی ایران»، در فصلنامہ مطالعات انقلاب اسلامی، شمارہ ۳۶، ۱۳۹۳ش۔
- شیخ انصاری، مرتضی، کتابالمکاسب، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
- علیدوست، «قاعدہ نفیسبیل»، در مقالات و بررسیہا، شمارہ ۷۶، ۱۳۸۳ش۔
- عمید زنجانی، عباسعلی، قواعد فقہ، تہران، سمت، چاپ اول، ۱۳۹۲ش۔
- فاضل لنکرانی، محمد، القواعد الفقہیہ، قم، مرکز فقہ ائمہ اطہار، ۱۳۸۳ش۔
- «قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، وبگاہ مرکز پژوہشہای مجلس شواری اسلامی، تاریخ بازدید: ۳ شہرویر ۱۳۹۸۔
- ناظری و حسینی، «تأثیر قاعدہ فقہی نفیسبیل بر روابط بینالمللی مسلمانان»، در معارف فقہ علوی، شمارہ ۳، ۱۳۹۵ش۔