ابو الصلاح حلبی

ویکی شیعہ سے
(ابوالصلاح حلبی سے رجوع مکرر)
ابو الصلاح حلبی
کوائف
مکمل نامتقی‌ الدین بن نجم‌ الدین
تاریخ ولادت374 ھ، حلب
آبائی شہرحلب
تاریخ وفات447 ھ،
مدفنرملہ، فلسطین
علمی معلومات
اساتذہسید مرتضی، شیخ طوسی۔
شاگردابن براج و محمد بن علی کراجکی۔
تالیفاتالکافی فی الفقہ، تقریب المعارف ...
خدمات
سماجیفقیہ، متکلم


تقی الدین بن نجم الدین (374-447 ھ)، ابو الصلاح حلبی کے نام سے مشہور چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم ہیں۔ آپ سید مرتضی اور شیخ طوسی کے شاگرد تھے۔ آپ کے مشہور شاگردوں میں ابن براج اور محمد بن علی کراجکی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

حلبی کے فقہی نظریے کافی حد تک مکتب بغداد کے نزدیک اور سید مرتضی کے نظریوں سے متاثر ہیں۔ حلبی کے مطابق ائمہ معصومینؑ اور ان کے نائب ہی قضاوت کی صلاحیت رکھتے ہیں اور امام معصومؑ کے ایسے نائب جو قضاوت کی صلاحیت رکھتے ہیں ان میں درج ذیل خصوصیات ہونی چاہیے: عقل، بصیرت، ورع، عدالت، صبر اور احکام کو جاری کرنے کا محکم ارادہ۔ حلبی کے مشہور آثار الکافی فی الفقہ اور تقریب المعارف ہیں۔

ولادت اور وفات

ابو الصلاح سنہ 374 ھ میں حلب میں پیدا ہوئے۔[1] بعض مآخذ [2] میں آپ کی ولادت سنہ 347 ھ ذکر کی گئی ہے جو احتمالاً تصحیف سے منسلک ہے۔[3]

آپ نے ظاہراً اپنی تعلیم کا آغاز اپنے آبائی شہر سے ہی کیا ہے۔ حلبی شام کے وہ عالم جن میں وثاقت، زہد اور صبر جیسی خصوصیات پائی جاتی تھیں اور آپ کو طب اور فقہ کے علوم میں مہارت حاصل تھی۔

سنہ 447 ھ میں حج کے سفر سے واپسی پر، فلسطین کے شہر رملہ میں وفات پائی۔[4]

اساتید

ابو الصلاح حلبی حلب سے بغداد چلے گئے اور وہاں پر سید مرتضی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ آپ سید مرتضی کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ بعد میں سید مرتضی نے حلب کے لوگوں کے سوالوں کے جوابات آپ کے سپرد کئے اور حلبی حلب میں سید مرتضی کے نمائندہ تھے۔[5]

آپ کے دوسرے استاد شیخ طوسی تھے جنہوں نے کتاب رجال میں [6] حلبی کو اپنے شاگرد کے نام سے ذکر کیا۔ بعض نے حمزہ بن عبد العزیز سلار دیلمی کو بھی حلبی کا استاد کہا ہے۔[7]

شاگرد

ابو الصلاح فقہ اور دوسرے علوم حاصل کرنے کے بعد، حلب واپس لوٹ آئے اور وہاں پر تدریس شروع کر دی۔ آپ نے مدرسے میں بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔ آپ کے بعض شاگرد اور حدیث کے راوی درج ذیل ہیں:

  • ثابت بن اسلم حلبی، جنہوں نے حلبی کی وفات کے بعد آپ کی جگہ لے لی
  • قاضی عبد العزیز ابن براج
  • عبد الرحمان بن احمد مفید نیشابوری
  • محمد بن علی کراجکی
  • ابو محمد ریحان بن عبداللہ حبشی [8]

فقہی نظریے

حلبی کے فقہی نظریے کافی حد تک مکتب بغداد کے نزدیک اور آپ کے استاد سید مرتضی کے نظریوں سے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر خبر واحد کا حجت نہ ہونا [9] اس کے باوجود، ان دونوں کے نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے، جنہیں ابو الفتح کراجکی نے "غایۃالانصاف فی مسائل الخلاف" میں ذکر کیا ہے اور سید مرتضی کے نظریے کا دفاع کیا ہے۔[10]

اگرچہ حلبی کے فقہی نظریے مشہور نظریے سے کافی حد تک سازگاری رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی بعض جگہ پر آپ کے نظریے مشہور نظریوں کے خلاف ہیں۔[11]

حلبی کے نظریے کے مطابق،[12] قضاوت صرف آئمہ معصومینؑ اور آپ کے نائب سے متعلق ہے اور امام معصومؑ کے وہ نائب جو قضاوت کی صلاحیت رکھتے ہیں ان میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے: عقل، بصیرت، ورع، عدالت، صبر اور احکام کو جاری کرنے کا محکم ارادہ۔

آثار

قبرستان جبل الجوشن، ان کا مدفن

حلبی کے بعض فقہی اور کلامی آثار موجود ہیں۔

  • آپ کا مشہور اور اہم اثر "کتاب الکافی فی الفقہ" جو ایک جامع فقہ ہے اور اس میں بعض کلامی مباحث بھی ذکر ہوئی ہیں. آپ نے اس اثر میں پہلے ہر مسئلے کے مختلف پہلو کو کلی طور پر اور پھر ان کی تفصیل بیان کی ہے اور اپنے نظریے کو دلیل کے ساتھ بیان کیا ہے. شیعہ فقہاء کتاب الکافی پر تکیہ کرتے ہیں اور اس سے استفادہ کرتے ہیں، من جملہ ابن ادریس حلی [13] نے اسے ایک اچھی اور محققانہ تالیف کہا ہے۔
  • حلبی کو دوسری تالیف، تقریب المعارف ہے جو کلامی مباحث بالخصوص توحید، نبوت، امامت اور عدل کے متعلق ہے۔

اس اثر کی خصوصیات ایسے مآخذ کی وجہ سے ہے جو آج کل ہمارے پاس موجود نہیں ہیں، جیسے تاریخ ثقفی اور تاریخ واقدی۔

  • البدایۃ فی الفقہ
  • العمدۃ و اللوامع
  • الکافیۃ
  • الشکافیۃ
  • شرح بر الذخیرہ سید مرتضی
  • شبہ الملاحدۃ
  • منتخب المعارف
  • المعراج (حدیث میں)
  • البرہان علی ثبوت الایمان۔[14]

حوالہ جات

  1. ابن‌ حجر عسقلانی، ج ۲، ص ۷۱
  2. امین، ج ۳، ص ۶۳۴؛ مدرس‌ تبریزی، ج ۷، ص ۱۶۱
  3. ابو الصلاح حلبی، ۱۳۶۲ش، مقدمہ استادی، ص ۵
  4. منتجب‌الدین رازی؛ ابن‌ شہرآشوب؛ ذہبی، قس ابن‌ حجر عسقلانی، محل وفات کو حلب کہا ہے۔
  5. منتجب‌ الدین رازی، ص ۴۴؛ ابن‌ شہر آشوب، ص ۲۹؛ مجلسی، ج ۱۰۵، ص ۱۵۸ـ۱۵۹
  6. طوسی ص ۴۵۷
  7. طریحی، ذیل «سلار» ؛ كاظمی تستری، ص ۸
  8. ابن‌ حجر عسقلانی، ج ۵، ص ۳۰۰؛ حرّ عاملی، قسم ۲، ص ۱۲۰، ۱۵۲؛ افندی اصفہانی، ج ۴، ص ۲۶۸؛ ان کے شاگردوں کے لئے ابو الصلاح حلبی کی طرف رجوع کریں، ۱۳۶۲ش، وہی مقدمہ، ص ۱۵ـ۱۸
  9. ابو الصلاح حلبی، ۱۳۶۲ش، ص ۵۱۱.
  10. نوری، ج ۳، ص ۱۲۹.
  11. ابن‌ ادریس حلّی، ج ۱، ص ۴۹۰؛ علامہ حلّی، ج ۱، ص ۳۶۶، ج ۴، ص ۸۳، ج ۵، ص ۲۰۰، ۳۶۷، ج ۹، ص ۷۴
  12. حلبی ۱۳۶۲ش، ص ۴۲۱ـ۴۲۳
  13. حلی ج ۲، ص ۴۴۹
  14. ابن ‌شہرآشوب، ہمانجا؛ دیلمی، ص ۴۴ـ۵۸؛ آقا بزرگ طہرانی، ج ۲۱، ص ۲۲۴، ج ۲۲، ص ۴۳۵، ج ۲۶، ص ۹۶ـ۹۷؛ ابو الصلاح حلبی، ۱۳۷۵ش، وہی مقدمہ، ص ۳۷ـ۴۱؛ آثار کی فہرست کے لئے ابو الصلاح حلبی کی طرف رجوع کریں، ۱۳۶۲ش، وہی مقدمہ، ص ۱۹ـ۲۲

مآخذ

  • ابن‌ ادریس حلّی، كتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، ۱۴۱۰ـ۱۴۱۱ق.
  • ابن‌ حجر عسقلانی، لسان‌ المیزان، حیدر آباد، دكن ۱۳۲۹ـ۱۳۳۱، چاپ افست بیروت، ۱۳۹۰/۱۹۷۱.
  • ابن‌ شہر آشوب، كتاب معالم‌ العلماء، چاپ عباس اقبال آشتیانی، تہران، ۱۳۵۳ش.
  • ابو الصلاح حلبی، تقریب‌ المعارف، چاپ فارس تبریزیان حسون، قم، ۱۳۷۵ش.
  • ابو الصلاح حلبی، الكافی فی الفقہ، چاپ رضا استادی، اصفہان، ۱۳۶۲ش.
  • عبداللّه‌ بن عیسی افندی‌ اصفہانی، ریاض‌ العلماء و حیاض الفضلاء، چاپ احمد حسینی، قم، ۱۴۰۱ق.
  • امین.
  • حرّ عاملی، امل‌ الآمل، چاپ احمد حسینی، بغداد، ۱۳۸۵، چاپ افست قم، ۱۳۶۲ش.
  • حسن‌ بن علی دیلمی، اعلام‌ الدین فی صفات المؤمنین، قم، ۱۴۱۴ق.
  • ذهبی.
  • فخر الدین‌ بن محمد طریحی، مجمع‌ البحرین، چاپ احمد حسینی، تہران، ۱۳۶۲ش.
  • محمد بن حسن طوسی، رجال‌ الطوسی، نجف ۱۳۸۰/۱۹۶۱، چاپ افست قم، بی‌ تا.
  • حسن‌ بن یوسف علامہ حلّی، مختلف الشیعۃ فی احكام الشریعۃ، قم، ۱۴۱۲ـ۱۴۲۰ق.
  • اسداللّه‌ بن اسماعیل كاظمی تستری، مقابس الانوار و نفایس الأسرار فی احكام النبی المختار و عترتہ الاطہار، قم، آل‌البیت، بی‌تا.
  • محمد علی مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، تہران، ۱۳۶۹ش.
  • علی‌ بن عبید اللّه منتجب‌ الدین رازی، الفہرست، چاپ جلال‌ الدین محدث ارموی، قم، ۱۳۶۶ش.
  • حسین‌ بن محمد تقی نوری، خاتمۃ مستدرك الوسائل، قم، ۱۴۱۵ـ۱۴۲۰ق.