نیابتی حج

ویکی شیعہ سے

نیابتی حج یا حج میں نیابت، کسی اور شخص کی طرف سے حج بجا لانے کو کہا جاتا ہے جس کے صحیح انجام پانے سے متعلقہ شخص سے حج کا فریضہ ادا ہو جاتا ہے۔ احادیث میں اس کام کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب کا ذکر ملتا ہے۔ واجب حج میں کسی کا نائب بننا صرف اس صورت میں جائز ہے کہ متعلقہ شخص حج کے فریضے کو انجام دینے سے عاجز ہو۔ چنانچہ اگر کوئی شخص جس کے ذمے حج واجب ہو اور اسے انجام دئے بغیر اس دنیا سے چلا جائے یا اس نے اپنی طرف سے حج بجا لانے کی وصیت کی ہو تو اس کے وارثین پر واجب ہے کہ اس شخص کی طرف سے حج بجا لانے کے لئے کسی کو نائب بنایا جائے۔

نیابتی حج میں نائب اور منوب عنہ دونوں کا مسلمان ہونا نیز نائب کا عاقل ہونا اور خود اس کے ذمے حج واجب نہ ہونا بھی شرط ہے۔ تاہم اس سے پہلے حج انجام نہ دینے والے شخص کی نیابت کے صحیح ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعد نائب کے فوت ہونے کی صورت میں اس کا حج صحیح ہے۔ ایک شخص کی طرف سے کئی اشخاص کو نائب بنانا تو صحیح ہے لیکن ایک شخص کا کئی اشخاص کی طرف سے نائب بننا صحیح نہیں ہے سوائے مستحب حج کے۔ نائب پر ضروری ہے کہ وہ حج کے اعمال کو اپنے مرجع تقلید کے فتوا کے مطابق انجام دے اور اس سے صادر ہونے والے اعمال کا کفارہ بھی اسے خود ادا کرنا ضروری ہے۔

مفہوم اور اہمیت

نیابتی حج نیابتی عبادت کی اقسام میں سے ایک ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص حج کے اعمال کو کسی دوسرے شخص کی جانب سے انجام دے۔[1] بعض حدیثی[2] اور فقہی[3] کتابوں میں نیابتی حج کے لئے ایک یا ایک سے زیادہ ابواب کو مختص کیا گیا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص حج کی ادائیگی میں کسی کا نائب بنے اس کے لئے 9 یا 10 حج کا ثواب ملے گا[یادداشت 1] جبکہ جس شخص کی طرف سے حج انجام دیا گیا ہے اسے صرف ایک حج کا ثواب ملے گا۔[4] فقہی کتابوں میں حج کے تمام اعمال میں نیابت کے موضوع کے علاوہ حج کے بعض اعمال جیسے طواف، نماز طواف اور سعی وغیرہ میں نائب بننے کے موضوع پر بھی علیحدہ بحث کی گئی ہے۔[5]

احکام

صاحب جواہر کے مطابق نیابتی حج کی مشروعیت اور جواز میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔[6] اور نیابت میں حج بجالانا کسی کی درخواست پر ہو یا خود سے انجام دے دونوں صورتوں میں یہ ایک مستحب عمل شمار ہو گا۔[7] البتہ نیابت قبول کرنے اور اجرت لینے کی صورت میں حج کی ادائیگی نائب پر واجب ہو جائے گی۔[8] واجب اور مستحب حج [یادداشت 2] میں کسی ایسے شخص کی طرف سے نائب بننا جو دنیا سے چلا گیا ہو یا کسی زنده شخص کی طرف سے مستحب حج میں نائب بننا مطلقا صحیح ہے، لیکن کسی زندہ شخص کی طرف سے واجب حج میں نائب بننا صرف اس صورت میں جائز ہے جب متعلقہ شخص حج کی انجام دہی سے عاجز ہو۔[9]

شیعہ فقہاء کے مطابق بعض صورتوں میں حج کے لئے نائب بنانا واجب ہے:

  • زندہ شخص جس پر حج واجب ہوا ہو، یعنی تمام شرائط کے ساتھ حج واجب ہونے کے باوجود حج انجام نہ دیا ہو[10] اور اب عذر کی وجہ سے حج انجام دینے پر قادر نہ ہو، اس شخص پر حج کی ادائیگی کے لئے کسی کو نائب بنانا واجب ہے۔[11]
  • وہ شخص جس پر حج مستقر ہونے کے بعد فوت ہوا ہو اور اجرت کے بغیر اس کی طرف سے حج ادا کرنے پر کوئی تیار نہ ہو تو اس صورت میں اس کے وارثین پر واجب ہے کہ اس کے اموال میں سے کسی کو اس کی طرف سے حج بجا لانے کے لئے نائب بنائے، مگر یہ کہ متوفی کا پورا ترکہ حج نیابتی کی اجرت کے کافی نہ ہو۔[12]
  • وہ شخص جس پر حج مستقر ہونے سے پہلے فوت ہوا ہو لیکن اس نے اپنی طرف سے حج بجا لانے کی وصیت کی ہو، اس صورت میں نیابتی حج کی اجرت میت کے اموال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہ ہو تو اس کے وارثین پر اس کی طرف سے حج بجا لانے کے لئے کسی کو نائب بنانا واجب ہے۔[13]

نیابت میں طرفین کے شرائط

تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ صاحب جواہر کے مطابق نائب کے لئے مسلمان ہونا، عاقل ہونا اور خود اس کے ذمے واجب حج نہ ہونا شرط ہے۔[14] بعض فقہاء بلوغ، ایمان، حج کے احکام سے آشنائی اور حج کے بعض امور کو انجام دینے سے معذور نہ ہونے کو نیابتی حج میں نائب کی شرائط میں شمار کرتے ہیں۔[15] فقہا کے مطابق مرد اور عورت ایک دوسرے کا نائب بن سکتے ہیں۔[16]

اسی طرح جس کی طرف سے حج انجام دی جاتی ہے (منوب عنہ) کا بھی مسلمان ہونا شرط ہے[17] اور بعض فقہا کے مطابق غیر مؤمن کی نیابت بھی صحیح نہیں ہے، مگر یہ کہ منوب عنہ نائب کا باپ ہو۔[18] اکثر فقہا کے مطابق زندہ شخص کی طرف سے واجب حج میں نائب بننا صرف اس صورت میں جائز ہے جب متعلقہ شخص حج انجام دینے سے معذور ہو لیکن اس کا عاقل اور بالغ ہونا ضروری نہیں ہے۔[19]

صرورہ کی نیابت

فقہی اعتبار سے جس شخص نے ابھی تک حج انجام نہ دیا ہو اسے صرورہ[یادداشت 3] کہا جاتا ہے۔[20] صرورہ اگر خود مستطیع نہ ہو تو اس صورت میں اس کی نیابت کے صحیح ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض فقہاء جیسے پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شیخ طوسی وغیرہ صرورۃ عورت کی نیابت مطلقاً[21] یا کسی مرد کی طرف سے نائب بننے کو[22] جائز نہیں سمجھتے اور بعض فقہا اسے مطلقاً یا مرد کی طرف سے نائب بننے کی صورت میں مکروہ سمجھتے ہیں۔[23] جبکہ بعض فقہاء اس نیابت کو صحیح سمجھتے ہیں۔[24] اسی طرح بعض فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ زندہ شخص جو حج انجام دینے سے عاجز ہو کی طرف سے فقط اور فقط صرورہ مرد ہی نائب بن سکتا ہے لاغیر۔[25]

حج میں نائب بننے کے احکام

حج میں نیابت کے بعض احکام مشہور فقہا کے مطابق درج ذیل ہیں:

نیابت بغیر اجرت کے یا اجارہ یا جعالہ کی صورت میں بھی انجام دی جا سکتی ہے[26] اور نیابتی حج کے صحیح انجام پانے کی صورت میں متعلقہ شخص یعنی منوب عنہ کے ذمے سے حج ساقط ہو جاتا ہے، نہ یہ کہ صرف قرارداد اجارہ کے ذریعے ساقط ہوتا ہو۔[27] چنانچہ نائب احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعد اس دنیا سے چلا جائے تو اس کا حجَّ صحیح ہے اور نائب اور منوب عنہ دونوں کی گردن سے ساقط ہو گا۔[28] اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں جسمانی ناتوانی کی وجہ سے حج کے لئے کسی کو نائب بنا دے لیکن بعد میں اس کا عذر برطرف ہو جائے تو مشہور فقہا کے مطابق اس پر دوبارہ حج انجام دینا ضروری ہے، اگرچہ بعض فقہا اسی نیابتی حج کو کافی سمجھتے ہیں۔[29]

ایک شخص کا کئی اشخاص کی طرف سے نائب بننا صرف مستحب حج میں جائز ہے، واجب حج میں نہیں،[30] لیکن کئی اشخصا کا ایک شخص کی طرف سے نائب بننا مستحب اور واجب دونوں حج میں مخصوص شرائط کے ساتھ جائز ہے۔[31] اسی طرح واجب یا مستحب حج کے ثواب کو حج انجام دینے سے پہلے یا دینے کے بعد ایک یا کئی اشخاص کے لئے ہدیہ کرنا جائز ہے۔[32]

منوب عنہ کو معین کرنا، نیت میں لازم اور ضروری ہے، اسی طرح تمام مواقع پر اس کا نام لینا مستحب ہے۔[33] اگر نائب اور منوب عنہ کا مرجع تقلید مختلف ہو تو، نائب پر واجب ہے کہ حج کو اپنے مرجع تقلید کے مطابق انجام دے[34] اسی طرح متوقع اعمال پر کفارہ واجب ہونے کی صورت میں بھی کفارہ خود نائب کو ادا کرنا ضروری ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. شبیری زنجانی، سید موسی، مناسک الحج، 1421ھ، ص25۔
  2. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج11، ص163-210؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج96، ص115-119؛ محدث نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج8، ص63-75۔
  3. حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص219-220؛ محقق حلّی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص765-779 ؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404، ج17، ص356-410؛ شیخ حر عاملی، ہدایۃ الأمۃ، 1412ھ، ج5، ص37-52؛ خوانساری، جامع المدارک، 1405ھ، ج2، ص303-328؛ مدنی کاشانی، رضا، براہین الحج، 1411ھ، ج1، ص191-211۔
  4. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج11، ص163۔
  5. ملاحظہ کریں: یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص591۔
  6. نجفی، جواہر الکلام، 1404، ج17، ص356۔
  7. شیخ حر عاملی، ہدایۃ الأمۃ، 1412ھ، ج5، ص37۔
  8. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج3، ص241۔
  9. افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص111۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1404، ج17، ص298۔
  11. موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص50 و 53؛ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج3، ص239۔
  12. موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص50؛ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج3، ص238۔
  13. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص571؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص134۔
  14. نجفی، جواہر الکلام، 1404،ج17، ص356۔
  15. موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص45؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص134۔
  16. افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص117۔
  17. نجفی، جواہر الکلام، 1404، ج17، ص358؛ محقق حلّی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص765؛ خوانساری، جامع المدارک، 1405ھ، ج2، ص304؛ یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص536؛ موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص46؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص114۔
  18. شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص280؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404، ج17، ص358؛ خوانساری، جامع المدارک، 1405ھ، ج2، ص304۔
  19. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص537؛ موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص46؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص114۔
  20. طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج3، ص365؛ عبدالرحمان عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیۃ، بی‌تا، ج2، ص367۔
  21. شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص280۔
  22. شیخ طوسی، الاستبصار، 1390ھ، ج2، ص322۔
  23. نجفی، جواہر الکلام، 1404، ج17، ص364؛ یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص538؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص134۔
  24. محقق حلّی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص767؛ شیخ حر عاملی، ہدایۃ الأمۃ، 1412ھ، ج5، ص41۔
  25. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص538؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص119؛ محمودی، مناسک حج (محشّٰی)، 1429ھ، ص89۔
  26. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص538۔
  27. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص538؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص123۔
  28. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص539؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص124۔
  29. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص436۔
  30. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص568-569؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص130؛ موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص51۔
  31. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص-570-569
  32. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص569 و 597؛ موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص55۔
  33. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص538۔
  34. افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص131؛ موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی، 1428ھ، ص52۔
  35. یزدی، العروۃ الوثقی (المحشی)، 1419ھ، ج4، ص558؛ افتخاری گلپایگانی، آراء المراجع فی الحج، 1428ھ، ج1، ص127۔

نوٹ

  1. شیخ حر عاملی ان احادیث کا نتیجہ یہ لیتے ہیں کہ: ان احادیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر نائب حج کی ادائیگی میں کوئی اجرت نہ لے تو اسے 10 ثواب لیکن اگر اجرت لے لے تو اسے 9 ثواب ملے گا (شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج11، ص163)۔
  2. اس بات پر توجہ رہے کہ یہاں مستحب حج سے مراد عمرہ نہیں بلکہ حج تمتع ہے اس شخص کے لئے جس پر حج واجب نہ ہوا ہو (مستطیع نہ ہونے کی بنا پر یا پہلے حج انجام دینے کی بنا پر)۔
  3. یہ صفت مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے یکساں طور پر تاء تأنیث (ۃ) کے ساتھ استعمال ہوتی ہے (طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج3، ص365؛ عبدالرحمان عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیۃ، بی‌تا، ج2، ص367)۔

مآخذ

  • افتخاری گلپایگانی، علی، آراء المراجع فی الحج (فتاوای مراجع عظام: خمینی، خویی، گلپایگانی، شبیری، سیستانی، بہجت، تبریزی، وحید، صافی، مکارم، نوری و فاضل پیرامون مناسک حج)، تصحیح صدر الدین افتخاری، قم،نشر مشعر، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • حلبی، تقی الدین، الکافی فی الفقہ، تحقیق رضا استادی، اصفہان، کتابخانہ عمومی امام امیر المؤمنین(ع)، چاپ اول، 1403ھ۔
  • خوانساری، سید احمد، جامع المدارک فی شرح مختصر النافع، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، مناسک الحج، قم، مؤسسۃ الولاء للدراسات، چاپ اول، 1421ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایۃ الأمۃ إلی أحکام الأئمۃ(ع)، تحقیق قسم الحدیث فی مجمع البحوث الإسلامیۃ، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الأخبار، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1390ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1400 ھ۔
  • طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق سید احمد حسینی، تہران، مرتضوی، چاپ سوم، 1416ھ۔
  • عبدالرحمان عبدالمنعم، محمود، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیۃ، قاہرہ،‌ دار الفضیلۃ، بی‌تا۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، جلد 6، چاپ اول، 1395ہجری شمسی۔
  • محدث نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1408ھ۔
  • محقق حلّی، نجم الدین، المعتبر فی شرح المختصر، تحقیق محمد علی حیدری و سید مہدی شمس الدین و سید ابو محمد مرتضوی و سید علی موسوی، قم، مؤسسہ سید الشہداء(ع)، چاپ اول، 1407ھ۔
  • محمودی، محمد رضا، مناسک حج (محشّٰی) (ہمراہ با فتاوای آیات عظام: خمینی، خوئی، گلپایگانی، اراکی، فاضل، بہجت، تبریزی، سیستانی، خامنہ‌ای، صافی، مکارم و نوری)، تحقیق معاونت آموزش و پژوہش بعثہ مقام معظم رہبری، قم، نشر مشعر، 1429ھ۔
  • مدنی کاشانی، رضا، براہین الحج للفقہاء و الحجج، کاشان، مدرسہ علمیہ آیۃ اللہ مدنی کاشانی،چاپ سوم، 1411ھ۔
  • مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ و معظم عناوینہ الموضوعیۃ، قم، الہادی، چاپ اول، 1419ھ۔
  • موسوی شاہرودی، سید مرتضی، جامع الفتاوی مناسک حج (فتاوای مراجع عظام خمینی، خویی، گلپایگانی، سیستانی، بہجت، تبریزی، صافی، خامنہ‌ای، مکارم و فاضل پیرامون مناسک حج)،قم، نشر مشعر، چاپ سوم، 1428ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، با تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • ہویدا، مہدی حمزہ و بیات، کوروہجری شمسی، «بررسی رابطہ عقد اجارہ با جعالہ در حقوق ایران»، مجلہ پژوہشنامہ حقوق خصوصی احرار، شمارہ 3، تابستان 1400۔
  • یزدی، سید محمد کاظم طباطبایی، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی(المحشّٰی) (با حواشی آیات عظام: جواہری، فیروزآبادی یزدی، نائینی، عبدالکریم حائری، ضیاء الدین عراقی،ابوالحسن اصفہانی، آل یاسین، کاشف الغطاء، بروجردی، عبدالہادی شیرازی، حکیم، خوانساری، خمینی، خویی وگلپایگانی)، تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی (جامعہ مدرسین)، چاپ اول، 1419ھ۔