حدیث مباہتہ

ویکی شیعہ سے
حدیث مباہتہ
حدیث مباہتہ
حدیث کے کوائف
موضوعفقہ
صادر ازحضرت محمدؐ
اصلی راویامام صادقؑ
اعتبارِ سندصحیح
شیعہ مآخذاصول کافی
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حَدیث مُباہِتہ حضرت محمدؐ سے منقول ایک حدیث ہے جس سے استناد کرتے ہوئے بعض علما دین میں بدعت پیدا کرنے والوں پر تہمت لگانے کو اگر مصلحت درکار ہو تو، جائز سمجھتے ہیں۔ تاہم، اکثر فقہاء ایسا درست نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مضبوط دلائل کے ساتھ بدعت گزار کو قائل کرنا چاہیے۔ سید موسی شبیری زنجانی کے مطابق حدیث مباہتہ سے ایسا مفہوم اخذ کرنا ائمہؑ کی سیرت اور شرعی مسلمہ امور کے خلاف ہے اس وجہ سے اس روایت کی یا تو تاویل کی جانی چاہیے یا اسے رد کرنا چاہیے۔ کہا گیا ہے کہ عصر شیخ انصاری تک کسی فقیہ نے اس روایت سے استناد کرتے ہوئے بدعتیوں پر تہمت لگانے کو جائز نہیں سمجھا ہے۔

اس حدیث سے ایک فقہی عنوان اخذ کیا گیا ہے اور فقہی کتب میں اس پر بحث کی گئی ہے جیسے حد قذف، غیبت جائز ہونے کے استثنائی موارد اور حرام معاملات وغیرہ۔ بدعت کاروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ان پر تہمت لگانے جیسے طریقے استعمال کرنے کے جواز یا عدم جواز اس حدیث کے اہم مباحث سمجھے جاتے ہیں۔

تعارف اور اہمیت

حدیث مباہتہ حدیث نبوی ہے اور کتاب کافی میں نقل ہوئی ہے۔[1] بعض فقہاء اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے دین میں بدعت پیدا کرنے والوں پر تہمت لگانے کو جائز سمجھتے ہیں۔[2] جبکہ اس کے مقابلے میں اکثر فقہاء اس طرح کے الزام تراشی کو جائز نہیں سمجھتے۔[3] یہ حدیث شیعہ معتبر حدیثی کتب میں سے صرف الکافی میں آئی ہے اور اہل سنت منابع حدیثی میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔[4] اس حدیث سے ایک فقہی عنوان اخذ کیا گیا ہے[5] اور فقہی مختلف ابواب میں اس پر بحث کی گئی ہے۔ جیسے حدّ قذف (کسی پر زنا یا لواط کا الزام لگانے کی سزا)،[6] غیبت جائز ہونے کے استثنائی موارد[7] اور حرام کسب جیسے ابواب میں اس پر فقہی بحث ہوئی ہے۔[8] بدعت کاروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ان پر تہمت لگانا چاہیے یانہیں؟ یہ ایک اہم بحث ہے۔[9]

متن حدیث اور اس کی سند

امام صادق‌ؑ فرماتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ سے منقول ہے

عَنْ أَبی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص‏) إِذَا رَأَیْتُمْ أَهْلَ الرَّیْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَکْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ کَیْلَا یَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ یَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا یَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ یَکْتُبِ اللَّهُ لَکُمْ بِذَلِکَ الْحَسَنَاتِ وَ یَرْفَعْ لَکُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ.؛ میرے بعد جب بھی تم دین میں شکوک پیدا کرنے والوں اور بدعتیوں کو دیکھو تو ان سے کھلی بے زاری کا اظہار کرو اور ان کو کثرت سے ناسزا دو، ان کے عیبوں کو بے نقاب کرو اور ان کے ساتھ مباہتہ کرو، تاکہ وہ لوگ اسلام کو برباد کرنے کی حرص نہ کریں اور لوگوں کو ان سے ان کی بدعتوں سے خبردار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کام کا اجر دے گا اور آخرت میں تمہارے درجات بلند کرے گا۔

محمد بن یحیی العطار، ابن‌ ابی‌ الخطاب، احمد بن ابی‌نصر بزنطی اور داوود بن سِرحان سب اس حدیث کے راوی ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں‌اس لیے یہ حدیث صحیح السند احادیث میں شمار ہوتی ہے۔[10]

کہا جاتا ہے کہ شیعہ مرجع تقلید آیت‌ الله مکارم شیرازی کی نظر میں اس حدیث کی سند میں ابہام اور اشکال پایا جاتا ہے۔[11]

حدیث کی مختلف تشریحات

لفظ «بَاهِتُوهُمْ» (ان کو متحیر کردو یا ان پر بہتان لگادو) کے مختلف معنی کے لحاظ سے اس حدیث کی مختلف تشریحات بیان کی گئی ہیں:

مباہتہ یعنی «مضبوط دلیل سے استدلال کرنا»

بعض شیعہ علماء کا خیال ہے کہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بدعتیوں کو مضبوط دلائل سے متحیر کر دیا جائے۔[12]ملا صالح مازندرانی (متوفی: 1081ھ) اور مرتضی مطہری (1298-1358 ہجری شمسی) نے آیت «فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ»[13](وہ کافر مبہوت رہ گیا) کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بدعتیوں کے سامنے ایسی دلیل پیش کی جائے کہ وہ مبہوت رہ جائیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے مضبوط دلائل سے نمرود کو مبہوت کر دیا۔[14]علامہ مجلسی (1037-1110ھ) نے دونوں اختلافی معانی ذکر کرنے کے بعد بعض اہل لغت کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے ("بھت" کے معنی کو مبہوت کردینا؛) اس معنی کو ترجیح دی ہے۔[15] صاحب ریاض (1161-1231ھ) بھی اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے بدعتیوں پر تہمت لگانے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[16]صاحب جواہر (1202-1266ھ) کا عقیدہ ہے کہ اس حدیث کے مطابق بدعتیوں پر ان کے ناروا عمل کی وجہ سے الزام لگانا جائز نہیں ہے۔[17] پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ مراجع تقلید جعفر سبحانی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اور ناصر مکارم شیرازی سے جب مباہتہ کے معنی کے سلسلے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کے معنی مبہوت کردینا ہے تہمت لگانا نہیں ہیں۔ [18]

مباہتہ کی تفسیر «تہمت‌ لگانا»

پندرہویں صدی ہجری کے مراجع تقلید سید محمدرضا گلپایگانی اور میرزا جواد تبریزی نے اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے بدعت کاروں پر تہمت لگانے کو جائز سمجھتے ہیں۔[19] اس صدی کے دیگرمراجع میں سے یوسف صانعی وغیرہ اہل بدعت پر تہمت لگانا نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ ایسا کرنا واجب سمجھتے ہیں۔[20] سید ابوالقاسم خویی (1278-1371ہجری شمسی) بھی بعض مواقع میں اہل بدعت پر تہمت لگانے کو جائزسمجھتے ہیں۔[21]تاہم انہوں نے تہمت لگانے کے جواز کو مصلحت سے مشروط کیا ہے، پس اگر بدعتیوں پر تہمت لگانے سے کوئی مفسدہ پیدا ہو تو نہ اس پر تہمت لگانا جائز نہیں بلکہ اس کے اندر موجود عیب کو بیان کرنا بھی جائز نہیں۔[22]

کہا جاتا ہے کہ بارہویں صدی ہجری سے پہلے «باهِتوهُم» کے معنی "تہمت لگانا" اور اسے اہل بدعت کی نسبت جائز سمجھنا رائج نہیں تھا، اور شیخ مرتضی انصاری (1214-1281ھ) پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے اس معنی کو بطور احتمال بیان کیا ہے۔[23] شیخ انصاری نے کتاب مکاسب نے آغاز بحث میں اگرچہ بدعت کاروں پر تہمت لگانے کو جائز نہیں سمجھا ہے لیکن آخر میں احتمال دیا ہے کہ لوگوں کو اہل بدعت سے دور رکھنے کے لیے ان پر تہمت لگانا جائز ہے۔[24] اگرچہ بعض مصنفین نے روایت کی دوسری عبارتوں (ناسزا کہنا اور لعنت کا جائز ہونا) کو مد نظر رکھ کر «باهِتوهُم» کے معنی کو تہمت لگانا بیان کیا ہے۔[25]لیکن ان کے اعتقاد کے مطابق مباہتہ کا یہ مفہوم سیرت ائمہؑ اور دینی مسلمہ اصولوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ [26]پندرہویں صدی ہجری کے مرجع تقلید سید موسی شبیری زنجانی دین سچائی اور دیانت کے ساتھ مستحکم ہوتا ہے اور سیرت ائمہؑ میں کہیں نہیں ملتا کہ انہوں نے جھوٹ اور بہتان کے ذریعے اپنے مخالفین کو میدان سے خارج کیا ہو؛ لہٰذا مباہتہ کی روایت کو رد کرنا چاہیے یا اس کی تاویل کرنی چاہیے۔[27]

امام خمینی سے منسوب صوتی کلپ کی حقیقت

جمہوری اسلامی ایران کے بانی امام خمینی کی ایک آڈیو کلپ کو بنیاد بنا کر بی بی سی کے فارسی چینل نے دعویٰ کیا کہ امام خمینی مباہتہ کی روایت کو بنیاد بنا کرمخالفین پر بہتان تراشی کو جائز سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے حکومت ایران اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے بہتان تراشی کا مرتکب ہوتی ہے۔[28] تاہم حوزہ علمیہ قم کے ایک استاد محمد سروش محلاتی نے امام خمینی کی کتابوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ اس طرح کے فتوے کو ان کی طرف منسوب کرنا درست نہیں اور اس طرح کے دعوے ان کے سیاسی طرز زندگی کے برخلاف ہے۔[29]سنہ1401 ہجری شمسی میں کسی علمی اور تنقیدی نشست میں امام خمینی کے نظریے کا جائزہ لیا گیا؛ اس اجلاس میں محسن کدیور (جس نے اس فتوی کو امام خمینی منسوب سے جانا تھا) پر نقد کیا گیا[30]اور اسی عنوان پر ایک مضمون سہ ماہی جملہ "حکومت اسلامی" میں شائع ہوا۔[31]

حوالہ جات

  1. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص375.
  2. خویی، مصباح الفقاهة، 1417ھ، ج1، ص458؛ گلپایگانی، الدرّ المنضود، تقریر کریمی جهرمی، 1412ھ، ج2، ص148؛ تبریزی، ارشاد الطالب، 1416ھ، ج1، ص281.
  3. محمدیان و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم به مباهته»، ص159.
  4. بهادری، پیروزفر، «بررسی سندی و متنی روایت مباهته»، ص57.
  5. بهادری، پیروزفر، «بررسی سندی و متنی روایت مباهته»، ص55.
  6. شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج14، ص434؛ نجفی، جواهر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص143.
  7. بحرانی، الحدائق الناضرة، 1405ھ، ج18، ص164.
  8. نراقی، مستند الشیعه، 1415ھ، ج14، ص162؛ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج1، ص353.
  9. محمدیان و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم به مباهته»، ص158.
  10. مجلسی اول، روضة المتقین، 1406ھ، ج9، ص 327؛ علامه مجلسی، مرآة العقول، 1404ھ، ج11، ص77.
  11. «آیا تهمت زدن به اهل بدعت جایز است؟ / پاسخ متفاوت مراجع تقلید به سندیت و مفهوم یک حدیث»، خبر آنلاین.
  12. فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ج1، ص245.
  13. سوره بقره، آیه 258.
  14. مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج10، ص34؛ مطهری، سیری در سیره نبوی، صدرا، ص128.
  15. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج71، ص204-205.
  16. طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج16، ص42.
  17. نجفی، جواهر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص413.
  18. «فتوای 5 تن از مراجع عظام تقلید درباره دروغ گفتن و بهتان زدن به افراد»
  19. گلپایگانی، الدرّ المنضود، تقریر کریمی جهرمی، 1412ھ، ج2، ص148؛ تبریزی، ارشاد الطالب، 1416ھ، ج1، ص281.
  20. صانعی، مجمع المسائل، 1387ہجری شمسی، ج2، ص57.
  21. خویی، مصباح الفقاهة، 1417ھ، ج1، ص458.
  22. خویی، مصباح الفقاهة، 1417ھ، ج1، ص458.
  23. سروش محلاتی، «تهمت در خدمت دیانت»، ص6.
  24. انصاری، المکاسب، 1415ھ، ج2، ص118-119.
  25. بهادری، پیروزفر، «بررسی سندی و متنی روایت مباهته»، ص63.
  26. «تقریرات گعدهٔ آیت‌الله شبیری زنجانی»، ص10؛ بهادری، پیروزفر، «بررسی سندی و متنی روایت مباهته»، ص72.
  27. «تقریرات گعدهٔ آیت‌الله شبیری زنجانی»، ص10.
  28. باستانی، «بهتان برای حفظ نظام».
  29. «واکنش سروش محلاتی به بهتان بی‌بی‌سی به امام(ره)».
  30. بی‌پایه بودن سخنان کدیور درباره مجوز امام خمینی(ره) به بهتان‌بستن به مخالفان، خبرگزاری ایکنا.
  31. رک: رفیعی علوی و مرادی، «امکان‌سنجی استخدام انگاره بهتان برای حفظ نظام از دیدگاه امام خمینی(ره)»

مآخذ

  • «آیا تہمت زدن بہ اہل بدعت جایز است؟ / پاسخ متفاوت مراجع تقلید بہ سندیت و مفہوم یک حدیث»، خبر آنلاین، درج مطب 29 اردیبہشت 1394ہجری شمسی، مشاہدہ 18 شہریور 1402ہجری شمسی۔
  • «واکنش سروش محلاتی بہ بہتان بی‌بی‌سی بہ امام(رہ)»، در سایت شبکہ اجتہاد، تاریخ درج: 2 دی 1397ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 15 اسفند 1401ہجری شمسی۔
  • انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1415ھ۔
  • باستانی، حسین، «بہتان برای حفظ نظام»، در سایت بی‌بی‌سی فارسی، تاریخ درج : 27 آذر 1397ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 15 اسفند 1401ہجری شمسی۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاہرة، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1405ھ۔
  • بہادری، محمدرضا، و پیروزفر، سہیلا، «بررسی سندی و متنی روایت مباہتہ»، در دوفصلنامہ مطالعات فہم حدیث، شمارہ 4، بہار و تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • بی‌پایہ بودن سخنان کدیور دربارہ مجوز امام خمینی(رہ) بہ بہتان‌بستن بہ مخالفان، خبرگزاری ایکنا، مرور خبر 10 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • تبریزی، میرزا جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق علی المکاسب، قم، اسماعیلیان، 1416ھ۔
  • «تقریرات گعدۂ آیت‌اللہ شبیری زنجانی»، دوماہنامۂ تقریرات، شمارہ 3، دی 1394ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہة، قم، انصاریان، 1417ھ۔
  • رفیعی علوی، سید احسان و مرادی، میلاد، «امکان‌سنجی استخدام انگارہ بہتان برای حفظ نظام از دیدگاہ امام خمینی(رہ)»، فصلنامہ حکومت اسلامی، شمارہ 101، پاییز 1400ہجری شمسی۔
  • سروش محلاتی، «تہمت در خدمت دیانت»،، در مجلہ دندانپزشکی جامعہ دندان پزشکان، شمارہ 1، بہار 1391ہجری شمسی۔
  • سید محمدجواد موسوی غروی، تفسیر حدیث باہتوہم۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیة، 1413ھ۔
  • صانعی، یوسف، مجمع المسائل، قم، انشارات میثم تمار، 1387ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید علی، ریاض المسائل، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1418ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1404ھ۔
  • «فتوای 5 تن از مراجع عظام تقلید دربارہ دروغ گفتن و بہتان زدن بہ افراد»، در سایت شفقنا، تاریخ درج: 6 اسفند 1395ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 15 اسفند 1401ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی(ع)، 1406ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
  • گلپایگانی، الدرّ المنضود، تقریر کریمی جہرمی، قم، دار القرآن الکریم، 1412ھ۔
  • مازندرانی، شرح الکافی، تہران، المکتبة الاسلامیة، 1382ھ۔
  • مجلسی اول، محمدتقی، روضة المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، 1406ھ۔
  • مجلہ مطالعات فہم حدیث، شمارہ 4، بہار و تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • محمدیان،‌ علی و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ 28، زمستان 1394ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، سیری در سیرہ نبوی، تہران، صدرا، بی‌تا۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • نراقی، مولی احمد بن محمدمہدی، مستند الشیعة فی احکام الشریعة، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1415ھ۔