نص کے مقابلے میں اجتہاد

ویکی شیعہ سے

نَصّ کے مقابلے میں اجتہاد کا مطلب ہے قرآن مجید کی صریح آیات یا چودہ معصومینؑ کے صریح کلام پر اجتہاد کو ترجیح دینا۔ شیعہ فقہا نیز اہل سنت کے اکثر فقہا کے نزدیک نص صریح کے مقابلے میں اجتہاد کرنا ایک بدعت عمل ہے۔ رسول خداؐ کے بعض صحابہ نیز اہل سنت کے بعض علما نے اپنی ذاتی رائے کو نص پر ترجیح دی ہے۔ بطور نمونہ عمر بن خطاب نے نص کے مقابلے میں اجتہاد کرتے ہوئے نص صریح کی مخالفت کی ہے اس کے نتیجے میں انہوں نے نکاح متعہ اور متعہ حج کی حرمت کا اعلان کیا ہے۔ سید عبدالحسین شرف الدین عاملی (متوفیٰ: 1377ھ) نے اپنی کتاب اَلنَّصُ و الْاِجتہاد میں خلفائے ثلاثہ، حاکمان اور ان کے اقرباء کے حیات پیغمبر خداؐ اور اس کے بعد والے زمانوں میں انجام دیے جانے والے تقریبا 100 اجتہادات اور ذاتی رائے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

تعریف اور اہمیت

اللہ تعالیٰ، رسول خداؐ یا دیگر معصومینؑ کے صریح فرمان کے مقابلے میں اپنی ذاتی اور ظنی رائے کو ترجیح دینے کو نص کے مقابلے میں اجتہاد کہتے ہیں۔[1] صریح اور واضح کلام کو "نص" کہتے جس کے صرف ایک معنی ہوتے ہیں۔[2]

شیعہ علما نص کے مقابلے میں اجتہاد کرنے کے مخالف ہیں۔ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق اگر نص کے مقابلے میں اجتہاد کا عمل عام ہوجائے تو شرعی تمام احکام کا تحفظ خطرے کا شکار ہوگا۔[3] مرزا حبیب‌ اللہ خویی کے نزدیک نص کی مخالفت ایک بدعت عمل ہے۔[4] جواد شہرستانی نے وسائل‌الشیعہ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ جو لوگ نص کے مقابلے میں اجتہاد کرتے ہیں وہ در واقع پیغمبر خداؐ کو بھی اپنی طرح ایک مجتہد تصور کرتے ہوئے آپؐ کے اجتہاد کو بھی جائزُ الخطا سمجھتے ہیں۔[5] سید محمد‌ حسین تہرانی کے مطابق شیعہ اور سنی کے مابین ایک بنیادی اختلاف یہی ہے کہ شیعہ نص صریح کو من و عن مانتے ہیں اور اس سے تجاوز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے جبکہ اہل سنت نص کی مخالفت کرنے کو روا سمجھتے ہیں۔[6]

اکثر فقہاء کی جانب سے نص کے مقابلے میں اجتہاد کی مخالفت

شیعہ فقہاء[7] اور فقہائے اہل سنت[8] قطعی دلیل کے مقابلے میں اجتہاد کرنے کو باطل سمجھتے ہیں۔ بعض اصحاب رسولؐ اور تابعین نے بھی نص کے مقابلے کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی فقہی حکم جاری نہیں کیا ہے۔[9] سنی عالم دین ابن‌ قیّم جوزیہ کے مطابق احمد بن حنبل نص کے مطابق فتوا دیتے تھے اور نص سے متصادم کسی نظریے کو نہیں مانتے تھے حتیٰ خلفائے راشدین سے بھی۔[10]

ان تمام باتوں کے باوجود اہل سنت کے بعض فقہا کبھی کبھار نص کو پس پشت ڈال کر اپنے اجتہاد کو ترجیح دیتے تھے۔[11] مکارم شیرازی نے انہی علما میں سے کسی ایک سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر سیاست اور معاملات میں نص اور مصلحتی تقاضے متصادم ہو تو دونوں کے مابین سازگاری غیر ممکن ہونے کی صورت میں مصلحت کو نص پر مقدم کیا جائے گا۔ البتہ اہل سنت فقہاء کی اکثریت اس نظریے کی مخالف کرتی ہے۔[12]

نص کے مقابلے میں اجتہاد کے عدم جواز پر دلائل

نص کے مقابلے میں اجتہاد کی مخالفت کرنے والوں نے عقل[13] کے علاوہ قرآنی آیات نیز شیعہ سنی مآخذ میں منقول روایات سے مختلف دلائل پیش کیے ہیں:

  • شیعہ مرجع تقلید جعفر سبحانی نے سورہ حجرات کی پہلی آیت سےاستناد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ضروری ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور اگر ایسا نہ کریں تو یہ نص کے مقابلے میں اجتہاد اور اللہ اور رسول سے آگے بڑھنے کے مترادف ہوگا۔[14]
  • ناصر مکارم شیرازی نے سورہ نساء کی آیت 65 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت اللہ اور اس کے رسول کے صریح اور نص پر مشتمل احکام کے سلسلے میں ہر قسم کے اجتہاد اور ذاتی رائے کی مخالفت کرتی ہے۔[15]
  • سورہ احزاب کی آیت 36 کے مطابق مومنین کو خدا اور پیغمبر اکرمؐ کی مرضی کے خلاف کسی چیز کے انتخاب یا اس کی مخالفت کا حق حاصل نہیں ہے اور کسی بھی رائے اور اجتہاد کو حرام قرار دیا گیا ہے۔[16]
  • اہل سنت منابع میں ایک روایت یوں نقل ہوئی ہے: ایک دن قبیلہ ثقیف کے ایک شخص نے مسلمانوں کے خلیفہ دوم سے حج کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا۔ جناب عمر نے اس کا جواب دے دیا۔ اس شخص نے کہا: پیغمبر اکرمؐ نے مجھے اس مسئلے کا کوئی اور جواب دیا تھا آپ نے ان سے الگ جواب دیا۔ یہ سن کر حضرت عمر ناراض ہوئے اور کہا: "جب پیغمبر اکرمؐ سے سوال کا جواب پانے کے بعد دوبارہ مجھ سے کیوں سوال کرتے ہو؟!"[17]

نص کے مقابلے میں اصحاب کے اجتہادات

فریقین کے مابین نص کے مقابلے میں اجتہاد کی ممانعت کے باوجود تاریخ میں بعض صحابہ سے نص کے مقابلے میں بطور صراحت صدور فتوا و اجتہاد کے کئی نمونے ملتے ہیں۔[18] شیعہ عقیدہ کے مطابق عمر بن خطاب وہ پہلا شخص ہے جنہوں نے نص قرآن اور صریح فرمان رسول خداؐ کے مقابلے میں اجتہاد کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی ہے۔[19] کہتے ہیں کہ انہوں نے نکاح متعہ اور متعۃ الحج کے سلسلے میں نص کے مقابلے میں اپنی رائے بیان کرتے ہوئے ان دونوں کو حرام قرار دیا۔[20]

شرف‌الدین عاملی نے اپنی کتاب کتاب النص و الاجتہاد میں نص کے مقابلے میں کیے گئے بعض اجتہادات کو نقل کیا ہے۔ مولف نے اس کتاب کے 7 ابواب میں زمانہ پیغمبر اکرمؐ یا اس کے بعد والے ادوار میں خلفا، حاکمین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے کیے گئے اجتہادات کے تقریبا 100 نمونے بیان کیے ہیں[21] ان میں سے بعض نمونے یہ ہیں:

یہاں حیرت کی بات یہ کہ فقہائے اہل سنت اس طرح کے اجتہادات کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔[22]

حوالہ جات

  1. مؤسّسہ دائرة‌المعارف فقہ اسلامى، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بيت(ع)، 1385ہجری شمسی، ج1، ص267؛ یوسفی مقدم، درآمدی بر اجتہاد از منظر قرآن، 1387ہجری شمسی، ص276۔
  2. جرجانی، معجم التعریفات، 2004ء، ص203؛ جمعی از محققان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، 1394ہجری شمسی، ص994۔
  3. مکارم شیرازی، شیعہ پاسخ می‌گوید، 1428ھ، ص130ـ131۔
  4. ہاشمی خویی، منہاج البراعہ، 1400ھ، ج8، ص188۔
  5. شہرستانی، «مقدمہ»، در کتاب وسائل الشیعة، ص18۔
  6. حسینی، ولایت فقیہ در حکومت اسلامی، 1421ھ، ج1، ص118۔
  7. موسوی قزوینی، ینابیع الاحکام، 1424ھ، ص501؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج30، ص515؛ ہاشمی خویی، منہاج البراعہ، 1400ھ، ج8، ص186؛ شرف الدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، بخش2، ص3؛ مغنیہ، فی ظلال نہج البلاغہ، 1979ء، ج1، ص304۔
  8. شرف الدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، بخش2، ص3؛ فضل اللہ، «دراسات فقہیة و قانونیة: أضواء علی الشوری فی النص القرآنی»، ص38۔
  9. یوسفی مقدم، درآمدی بر اجتہاد از منظر قرآن، 1387ہجری شمسی، ص276۔
  10. ابن‌قیّم جوزیہ، اعلام الموقعین، 1407ھ، ص29۔
  11. قدسی، انوار الاصول، 1416ھ، ج3، ص602۔
  12. قدسی، انوار الاصول، 1416ھ، ج3، ص602۔
  13. سبحانی، الانصاف فی مسائل مادام فیہا الخلاف، 1423ھ، ج1، ص35۔
  14. سبحانی، الانصاف فی مسائل مادام فیہا الخلاف، 1423ھ، ج1، ص34۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج3، ص456۔
  16. یوسفی مقدم، درآمدی بر اجتہاد از منظر قرآن، 1387ہجری شمسی، ص284۔
  17. حسینی میلانی، خلاصة عبقات الانوار، 1405ھ، ج3، ص223؛ الاحکام، ابن‌حزم، ج6، ص807۔
  18. ابن‌حزم، الإحکام فی اصول الأحکام، دار الآفاق الجدیدہ، ج2، ص12؛ حسینی میلانی، خلاصة عبقات الانوار، 1405ھ، ج3، ص222ـ227؛ تیجانی، ثم اہتدیت، منشورات مدینة العلم، ص165ـ167۔
  19. مرکز الابحاث العقائدیہ، موسوعة من حیاة المستبصرین، 1433ھ، ج9، ص66۔
  20. مکارم شیرازی، شیعہ پاسخ می‌گوید، 1428ہجری شمسی، ص128ـ130؛ یوسفی مقدم، درآمدی بر اجتہاد از منظر قرآن، 1387ہجری شمسی، ص 278۔
  21. شرف الدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، بخش2، ص5۔
  22. ابن‌حزم، الإحکام فی اصول الأحکام، دار الآفاق الجدیدہ، ج2، ص16؛ یوسفی مقدم، درآمدی بر اجتہاد از منظر قرآن، 1387ہجری شمسی، ص 278۔

مآخذ

  • ابن‌حزم، علی بن محمد، الإحکام فی اصول الأحکام، لبنان، دار الآفاق الجدیدہ، بی‌تا۔
  • ابن‌قیّم جوزیہ، محمد بن ابی‌بکر، اعلام الموقعین عن رب العالمین، تحقیق: محمد محیی‌الدین عبد‌الحمید، لبنان، المکتبۃ العصریۃ، 1407ھ۔
  • تیجانی سماوی، محمد، ثم اہتدیت، بی‌جا، منشورات مدینۃ العلم، بی‌تا۔
  • جرجانی، علی بن محمد، معجم التعریفات، قاہرہ، دار الفضیلہ، 2004ء۔
  • جمعی از محققان، فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی،‍‍ قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1394ہجری شمسی۔
  • حسینی تہرانی، سید محمد حسین، ولایت فقیہ در حکومت اسلامی، مشہد، انتشارات علامہ طباطبایی، چاپ دوم، 1421ھ۔
  • حسینی میلانی، سید علی، خلاصۃ عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار، بی‌جا، 1405ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الإنصاف فی مسائل مادام فیہا الخلاف، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1423ھ۔
  • شرف الدین موسوی، سید عبدالحسین، النص والاجتہاد، اول، سیدالشہداء، بی‌جا، 1404ھ۔
  • شہرستانی، جواد، «مقدمہ»۔ در کتاب وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد‌باقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • فضل اللہ، مہدی، «دراسات فقہیۃ و قانونیۃ: أضواء علی الشوری فی النص القرآنی»، در فصل‌نامہ الثقافۃ الاسلامیہ، شمارہ 26، محرم و صفر 1410ھ۔
  • قدسی، احمد، انوار الاصول، تقریرات درس ناصر مکارم شیرازی، قم، انتشارات نسل جوان، چاپ دوم، 1416ھ۔
  • مؤسسہ دائرۃ‌المعارف فقہ اسلامى، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بيت(ع)، موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • مرکز الابحاث العقائدیہ، موسوعۃ من حیاۃ المستبصرین، بی‌جا، مرکز الابحاث العقائدیہ، 1433ھ۔
  • مغنیہ، محمد‌جواد، فی ظلال نہج البلاغہ، بیروت، دار العلم للملایین، 1979ء۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب (ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، شیعہ پاسخ می‌گوید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ ہشتم، 1428ہجری شمسی۔
  • موسوی قزوینی، سید علی، ینابیع الأحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، تحقیق: سید علی علوی قزوینی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1424ھ۔
  • ہاشمی خویی، میرزا حبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، تحقیق: ابراہیم میانجی، ترجمہ: حسن زادہ آملی، حسن و محمد‌باقر کمرہ‌ای، تہران، مکتبۃ الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1400ھ۔
  • یوسفی مقدم، محمد‌صادق، درآمدی بر اجتہاد از منظر قرآن، قم، بوستان کتاب، 1387ہجری شمسی۔