حیازت

ویکی شیعہ سے

حیازَت یا حیازت مباحات، یعنی مباح منقول (وہ اموال جن کا ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل کرنا ممکن ہے)اموال کا اپنے استعمال میں لینا ہے کہ جن کا کوئی خاص مالک نہ ہو اور اس سے تمام لوگ استفادہ کا حق رکھتے ہوں جیسے: مچھلی پکڑنا، عمومی دریا سے پانی بھرنا، چراگاہوں کا استعمال، شکار، بے مالک لکڑیاں اور گھاس پھوس۔

فقہاء کی نظر اور قاعدہ حیازت کے مطابق، اگر کوئی شخص کسی مباح مال کی حیازت کرے، تو وہ اس مال کا مالک ہو جاتا ہے۔ اس حکم اور قاعدہ کو شرعی حیثیت دینے کے لئے قرآن، روایات اور سیرہ عقلاء سے مستند کیا گیا ہے۔ بعض فقہاء کی نظر کے مطابق، وہ شخص جو حیازت کرتا ہے اس کا بالغ، عاقل اور رشید ہونا ضروری ہے تاکہ اسے حیازت کی گئی چیز کا مالک شمار کیا جا سکے اور حیازت‌ کئے ہوئے مال کا منقولہ اموال سے ہونا بھی ضروری ہے کیوں کہ حیازت، غیر منقولہ اموال میں جائز نہیں ہے۔

حیازت کی ہوئی چیز میں اجارہ، شرکت اور وکالت کے صحیح ہونے کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔اقتصادی اور معاشی نقطہ نظر پر لکھی جانے والی کتاب قاعدہ حیازت، جسے حسن نظری نے تالیف کیا ہے، اس میں قاعدہ «مَن حازَ مَلِکَ» کے سلسلے میں گفتگو و تحقیق ہوئی ہے۔

تعریف

حیازت یعنی مباحات منقول کا اپنے استعمال میں لینا۔[1] مباحات منقول سے مراد وہ قدرتی اور طبیعی چیزیں ہیں جن کا کوئی مخصوص مالک نہ ہو اور تمام لوگ اس سے استفادہ کا حق رکھتے ہوں اور عام طور پر اس سے استفادہ کرنے یا اس کو اپنی ملکیت میں لینے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔ جسے مچھلی پکڑنا، عام دریاؤں سے پانی بھرنا، چراگاہوں کا استعمال، خشکی اور تری(دریا) میں شکار کرنا، بے مالک زمین سے لکڑیاں اور گھاس پھوس اکٹھا کرنا۔[2]

فقہی متنوں میں، حیازت سے ایک مستقل موضوع کے عنوان سے بحث نہیں ہوئی ہے لیکن دوسرے عنوانات کے ضمن میں جیسے اجارہ، شرکت اور وکالت مورد بحث قرار پائی ہے.[3]

احکام

حیازت مباحات، مالکیت کا سبب ہوتی ہے؛ مثلا کوئی نہر یا دریا سے مچھلی کا شکار کرے تو وہ اس مچھلی کا مالک ہو جاتا ہے۔[4] لیکن فقہاء کے درمیان اس کی مالکیت کے حصول میں اختلاف ہے۔[5] ان میں سے بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اس کی مالکیت کے حصول کے لئے نیت اور قصد کا ہونا شرط ہے۔ اور بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ حیازت میں قصد اور نیت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تنہا حیازت ہی اس کے مالک بننے کے لئے کافی ہے۔[6]

چراگاہوں، لکڑیوں، وحشی جانوروں، پانی کے ذخائر وغیره کی حیازت عرف کے مطابق ہوتی ہے۔[7] جیسے چراگاہ کی حیازت جانوروں کے لئے گھاس پھوس لینے اور جنگلی جانواروں کی حیازت ان کے شکار کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔[8]

حیازت کے شرایط

  • اگر کوئی شخص حیازت کی ہوئی چیز کا مالک بننا چاہتا ہے تو اس کا عاقل، بالغ اور رشید ہونا ضروری ہے۔[9] البتہ بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ حیازت چونکہ عقود اور ایقاعات میں داخل نہیں ہے لہذا اس میں نیت کی ضرورت نہیں ہے اس بناء پر بچے بھی حیازت کے ذریعہ حاصل شدہ مال کے مالک بن سکتے ہیں۔[10]
  • حیازت‌ شدہ مال، مباح اور منقول اموال میں سے ہونا چاہئے؛ لہذا غیر منقول اموال کی حیازت جایز نہیں ہے۔[11]

وکالت کے ذریعہ حیازت

بعض شیعہ فقہاء جیسے شیخ طوسی اور ابن ادریس حلی حیازت میں کسی دوسرے کی ‌وکالت کو صحیح نہیں جانتے ہیں۔ [12] اسی کے مقابلے میں آیت اللہ خوئی نے حیازت میں دوسرے کی ‌وکالت کو جائز جانا ہے اور وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ حیازت کی وکالت میں موکل حیازت‌شدہ مال کا مالک ہو جاتا ہے۔[13]

حیازت میں اجارہ

حیازت کے لئے اجارہ کے جائز ہونے کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف‌ ہے بعض فقھاء جیسے شیخ طوسی اور محقق حلی نے جائز جانا ہے۔[14] اور علامہ حلی نے صرف اس وجہ سے چونکہ حیازت شدہ مال کے سلسلے میں یہ نہیں معلوم کہ وہ موجر سے مخصوص ہے یا مستاجر سے، اسی لئے حیازت میں اجارہ کو جائز نہیں جانتے ہیں۔[15]

بعض دوسرے فقہاء نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تنھا حیازت مالکیت کا سبب ہوتی ہو تو اس صورت میں وہ شخص جو مباح حیازت کے لئے اجیر ہوا ہے وہ حیازت کے مال کا مالک ہو جائے گا۔ لہذا حیازت میں اجارہ صحیح نہیں ہے؛ لیکن اگر تنھا حیازت سے مالکیت واقع نہ ہو اور اس میں قصد و ارادہ یا تملک کی نیت کی بھی ضرورت ہو تو اس صورت میں اجارہ صحیح ہو جائے گا۔[16]

حیازت میں شرکت

حیازت، چند لوگوں کی شرکت کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔[17] حیازت میں شرکت یعنی چند لوگوں کے ایک برتن سے پانی نکالنے یا درخت کے کاٹنے یا ایک جال سے مچھلی کا شکار کرنے یا اسی طرح اور چیزوں میں شریک ہونا ہے اور حیازت ان تمام چیزوں سے محقق ہوتی ہے۔[18] اس کی تقسیم کے سلسلے میں کہ کیا دونوں شریک کا حصہ جب معین نہ ہو تو برابر برابر ہوگا یا ہر ایک کی محنت اور کام کرنے کے اعتبار سے ہوگا، علماء کے درمیان اختلاف ہے۔[19]

قاعدہ حیازت

فقہ میں «مَن حازَ مَلِکَ» کے عنوان سے ایک قاعدہ ہے جس کی بنیاد پر جو شخص بھی کسی مباح چیز کی «حيازت» کرے، وہ اس چیز کا مالک ہو جاتا ہے۔[20] مراجع تقلید میں سے آیت اللہ مکارم شیرازی کی نظر کے مطابق کوئی خاص نص یا حدیث «من حاز ملک» کے عنوان سے موجود نہیں ہے؛ بلکہ یہ عنوان مختلف روایات سے حاصل ہوا ہے۔[21] مصطفی محقق داماد کتاب «قواعد فقہ» میں کہتے ہیں:

«صاحب جواہر نے فرمایا ہے کہ جملہ «من حاز ملك» حدیثوں کے متنوں میں وارد ہوا ہے، جب کہ مذکورہ جملہ نہ اہل سنت کے متون میں اور نہ شیعوں کے مآخذ میں موجود ہے، بلكہ یہ جملہ صرف ایک ایسے حکم کو بیان کرتا ہے جسے فقھاء نے روایات میں موجود دوسری تعبیرات سے استنباط کیا ہے۔»[22]

قاعدہ حیازت کے دستاویز اور دلائل

فقھا نے قاعدہ حیازت کے لئے مندرجہ ذیل دلیلیں بیان فرمائی ہیں:

  • قرآن

مشہور فقہاء قاعدہ حیازت کے لئے سورہ بقرہ کی آیت ۲۹ «وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیروں کو تم ہی لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے۔»[23] سے استناد کرتے ہیں۔ اس آیت کے مطابق، زمین میں موجود تمام مباح چیزیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں تاکہ انسان ان کو اپنی ملکیت میں لے سکے اور جو بھی ان میں سے کسی بھی چیز کو حاصل کر لے وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے۔[24]

  • روایتیں

امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ «جس شخص کو جنگل میں کوئی چیز یا کوئی ایسا جانور مل جائے جس کے مالک نے اسے چھوڑ دیا ہو اور وہ اسے زندگی دے تو وہ اس چیز کا مالک ہو جائے گا، اور اس طرح کی چیزیں مباح سمجھی جاتی ہیں۔»[25] ایک دوسری روایت میں امام صادق علیہ السلام سے آیا ہے «جو شخص بھی کسی (مباح) چیز پر ہاتھ رکھ دے (اس چیز پر تسلط حاصل کر لے)، وہ اس چیز کا مالک ہو جاتا ہے۔[26] فقہاء اس روایت اور بعض دوسری روایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ چیزوں کی مالکیت جیسے پرندے، شکار کئے ہوئے جانور اور دریا سے حاصل ہوئی مچھلیوں، کے حکم کا استنباط کرتے ہیں كہ ہر مباح مال حیازت کے ذریعہ، حیازت کرنے والے کی ملکیت میں قرار پاتی ہے۔[27]

  • سیرہ عقلا

حیازت کےذریعہ مباح مال کا مالک ہونا، عقلایی امور میں سے ہے [28] اور شریعت نے بھی اس پر امضاء کیا ہے۔[29] امام خمینی کے قول کے مطابق، تمدن بشری کی ابتداء ہی سے مسلمانوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ کسی چیز کی مالکیت، احیاء (زندگی دینا) اور حیازت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے اور کسی ایک انبیاء، اولیاء اور مؤمنین نے بھی اس کا انکار نہیں کیا ہے۔[30]

متعلقہ مآخذ

فارسی زبان میں کتاب «قاعدہ حیازت با رویکرد اقتصادی» تالیف حسن نظری، حیازت کے سلسلے میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں حیازت کی فقہی، حقوقی اور اقتصادی اعتبار سے تحقیق ہوئی ہے۔ انتشارات بوستان کتاب نے اس کتاب کو سال ۱۳۸۵ ہجری شمسی میں منتشر کیا ہے۔

حوالہ جات

  1. مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ہجری شمسی، ج۳، ص۳۹۰.
  2. مؤسسۃ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، الموسوعۃ الفقہیۃ، ۱۴۲۳ھ ، ج۷، ص۳۰۴؛ مکارم شیرازی، خطوط اقتصاد اسلامی، ۱۳۶۰ہجری شمسی، ج۱، ص۷۲۔
  3. مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ہجری شمسی، ج۳، ص۳۹۱-۳۹۰۔
  4. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ ہجری شمسی، ج۲۶، ص۳۲۱۔
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ہجری شمسی، ج۲۶، ص۳۲۱.
  6. شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳ق ، ج۴، ص۳۲۸۔
  7. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، ۱۳۸۳ ہجری شمسی، ج۲، ص۱۳۰-۱۲۹۔
  8. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، ۱۳۸۳ہجری شمسی، ج۲، ص۱۳۰-۱۲۹۔
  9. رزمی، نبی‌ نیا، «بررسی قاعدہ «من حاز ملک» در فقہ و حقوق موضوعہ ایران»، ص۲۴.
  10. اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ج۱، ص۴۸۳؛ سبزواری، مہذب الاحکام، ۱۴۱۳ھ ، ج۲۱، ص۱۲۰۔
  11. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ھ ، ج۱، ص۲۵۹۔
  12. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ھ ، ج۲، ص۳۶۳؛ ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ھ ، ج۲، ص۸۵۔
  13. خویی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۰ھ ، ج۲، ص۲۰۳۔
  14. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ھ ، ج۲، ص۳۵۸؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ھ ، ج۲، ص۱۵۳۔
  15. علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ھ ، ج۲، ص۲۹۰۔
  16. مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، الموسوعۃ الفقہیۃ، ۱۴۲۳ھ ، ج۴، ص۱۵۹-۱۶۲۔
  17. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۳۰ھ ، ج۲۶، ص۲۹۰۔
  18. مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ ہجری شمسی، ج۳، ص۳۹۱۔۔
  19. مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ ہجری شمسی، ج۳، ص۳۹۱۔
  20. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، ۱۳۷۰ ہجری شمسی، ج۲، ص۱۲۱۔
  21. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، ۱۳۷۰ ہجری شمسی، ج۲، ص۱۲۱۔
  22. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ھ ، ج۱، ص۲۵۰۔
  23. سورہ بقرہ، آیہ۲۹.
  24. مصطفوی، القواعد الفقہیۃ، ۱۴۲۱ھ ، ج۱، ص۲۸۰-۲۸۱.
  25. حر عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۲۴ھ ، ج۱۷، ص۳۶۴.
  26. حر عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۲۴ھ ، ج۱۷، ص۳۶۶.
  27. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ھ ، ج۱، ص۲۵۰.
  28. محقق داماد، قواعد فقہ، ۱۴۰۶ھ ، ج۱، ص۲۵۱.
  29. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، ۱۳۷۰ ہجری شمسی، ج۲، ص۱۲۲.
  30. امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۱۰ھ ، ج۳، ص۳۸.

مآخذ

  • ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ھ ۔
  • اصفہانی، سید ابو الحسن، وسیلۃ النجاۃ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، ۱۴۳۴ھ ۔
  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، کتاب البیع، قم،‌ مؤسسہ اسماعیلیان، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷ء
  • خویی، سید ابو القاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینۃ العلم، ۱۳۶۸ش/۱۴۱۰ھ ۔
  • رزمی، محسن و خالد نبی‌ نیا، «بررسی قاعدہ «من حاز ملک» در فقہ و حقوق موضوعہ ایران، پژوہش‌ہای فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ۳۱، بہار ۱۳۹۲ ہجری شمسی۔
  • سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر،
  • شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، ۱۴۱۳ھ ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن،‌ المبسوط، تہران، چاپ مرتضوی، ۱۳۸۷ھ ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۳ھ ۔
  • مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، الموسوعۃ الفقہیۃ، قم، مؤسسۃ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، ۱۴۲۳ھ ۔
  • مؤسسۃ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسۃ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، ۱۳۸۷ ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ ۔
  • محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقہ، ج۱، تہران، نشر علوم اسلامی، ۱۴۰۶ھ ۔
  • مصطفوی، سید محمد کاظم، القواعد الفقہیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ چہارم، ۱۴۲۱ھ ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقہیۃ، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌ طالب(ع)، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، خطوط اقتصاد اسلامی، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی‌ طالب، چاپ اول، ۱۳۶۰ ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۳۰ھ ۔