محمد حسن نجفی

ویکی شیعہ سے
محمد حسن نجفی
کوائف
مکمل ناممحمد حسن بن باقر بن عبدالرحیم بن محمد بن عبدالرحیم شریف اصفہانی
لقب/کنیتصاحب جواہر
تاریخ ولادتتقریبا 1202ھ
آبائی شہرنجف اشرف
رہائشنجف اشراف
تاریخ وفاتشعبان 1266ھ
مدفنمحلہ عمارہ نجف اشرف
علمی معلومات
اساتذہسید محمد جواد عاملی، شیخ جعفر نجفی، شیخ موسی کاشف الغطاء و ...
شاگردسید حسین کوہ کمرہ‌ای، ملا علی کنی، محمد ایروانی، شیخ جعفر شوشتری، سید اسداللہ اصفہانی، عبدالحسین تہرانی و ...
اجازہ روایت ازسید محمد جواد عاملی و شیخ جعفر کاشف الغطاء
تالیفاتنجاۃ العباد‌، جواہر الکلام
خدمات
سماجیمسجد کوفہ کے گلدستے کی تاسیس
تاسیس حرم مسلم بن عقیل اور اس کا صحن

فرات تا نجف نہر ایجاد کرنا

کوفہ اور نجف میں کنووں کی کھودائی اور لوگوں کے لیے وقف...


محمد حسن نجفی (1202۔1266 ھ)، صاحب جواہر کے نام سے مشہور، تیرہویں صدی کے نجفی شیعہ اصولی فقہا میں سے تھے۔ آپ کی تالیفات میں سب سے اہم جواہر الکلام نامی کتاب ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے آپ شیعہ فقہا کے درمیان صاحب جواہر کے نام سے مشہور ہوگئے۔ آپ سید محمد جواد عاملی (صاحب مفتاح الکرامہ) و شیخ جعفر کاشف الغطاء کے شاگرد تھے۔ شریف العلماء مازندرانی کے بعد آپ کا درس حوزہ علمیہ نجف کے اہم دروس میں سے شمار ہوتا تھا۔ بہت سارے علما اس میں شرکت کرتے تھے۔ آپ کے کہنے پر شیخ انصاری نے زعامت اور شیعوں کی مرجعیت کو سنبھال لیا۔

سوانح عمری

ولادت اور وفات

آپ کی تاریخ ولادت کا علم نہیں ہے؛ لیکن بعض قرائن و شواہد کے مطابق تقریبا 1202 ھ نجف میں متولد ہوئے ہیں اور بروز بدھ 1 شعبان 1266 ھ کو نجف اشرف میں وفات پائی اور آپ کی قبر نجف کے محلہ عمارہ میں واقع ہے۔[1]

حسب و نسب

صاحب جواہر کے اجداد اصفہان میں رہتے تھے۔ آپ کے تیسرے جد شیخ عبد الرحیم شریف اصفہان سے نجف چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ آپ کے والد محمد باقر نجفی اور آپ کی والدہ شیخ ابو الحسن فتونی عاملی کی نسل سے تھیں۔ عذاری سادات جو آل حجاب سے مشہور ہیں، ان سے منسوب ہیں۔ آپ کا پورا خاندان اہل علم تھا۔[2]

زوجہ اور اولاد

شیخ محمد حسن نجفی نے اپنی عمر کے آخری ایام میں سید رضا بحر العلوم کی بیٹی سے شادی کی۔[3]آپ کی اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چلی۔ ان میں سے شیخ محمد جو شیخ حُمید کے نام سے مشہور ہیں؛ شیخ عبد الحسین جو علامہ کے نام سے مشہور ہیں؛ شیخ حسین ادیب اور شیخ حسن[4] معروف ہیں۔

حصول علم

محمد حسن نجفی نے مندرجہ ذیل اساتذہ سے کسب فیض کیا:

  1. شیخ حسن آل محی الدین
  2. شیخ قاسم آل محی الدین
  3. سید حسین شقرایی عاملی

ان کے بعد اس دور کے نجف کے بزرگ علما کے شاگرد رہے اور اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے اور جواہر الکلام لکھنے لگے۔ آپ کے اساتذہ میں ان بزرگوں کو ذکر کیا جا سکتا ہے:[5]

  1. سید محمد جواد عاملی (صاحب مفتاح الکرامہ)
  2. شیخ جعفر نجفی (صاحب کشف الغطاء)
  3. شیخ موسی کاشف الغطاء

شیخ محمد حسن نجفی نے سید محمد جواد عاملی اور شیخ جعفر کاشف الغطاء سے روایت کی اجازت حاصل کی۔[6]


شاگرد

محمد شریف مازندرانی کی وفات پر حوزہ علمیہ کربلا کی رونق ختم ہوئی اور شیخ محمد حسن نجفی کے درس کی شہرت نے شریف العلماء کے شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔[7]اس وجہ سے حوزہ علمیہ نجف میں ایک بار پھر سے رونق آگئی۔ سید حسن صدر کہتے ہیں کہ آپ کے انداز بیان اور درس دینے کا اسلوب اتنا اچھا تھا کہ 400 سے زیادہ علما آپ کے درس میں حاضر ہونے لگے۔[8]اور انہی شاگردوں میں سے بعض آپ کے بعد مرجعیت تک پہنچے اور مسند فتوی پر بیٹھ گئے۔[9]ان میں سے بعض اہم شخصیات کے نام مندرجہ ذیل ہیں:[10]

حالات زندگی

منقول ہے کہ آپ مرفہ زندگی گزارتے تھے اور بعض لوگوں کے لیے یہی سوال کا باعث بنا تھا۔ اسی لئے شیخ انصاری سے سوال ہوا کہ آپ کیوں زاہدانہ زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ آپ کے استاد، صاحب جواہر بڑی شان و شوکت کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ شیخ انصاری نے جواب میں کہا:

«‌ہمارے استاد نے شریعت کی عزت و وقار کو ظاہر کرنے کا ارادہ کیا ہے اور میں شریعت کے زہد کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں»۔[12]

شیخ محمد رضا مظفر کہتے ہیں کہ جو چیز شیخ کی حقیقی زندگی کو آشکار کرتی ہے وہ عثمانی حکومت کے سامنے الہی افراد کی عظمت دکھانا ہے جس حکومت نے عراق پر اپنا کنٹرول کیا تھا۔ جب عثمانی حکومت نے ایران سے شکست کھائی، تو شیخ جعفر کاشف الغطاء کی وساطت تھوڑا بہت ایران کا دباؤ کم ہوا۔ اس وجہ سے عثمانی حکومت میں شیعہ علماء کی اتنی عظمت بڑھی کہ وہ شیعہ علماء کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے تھے۔[13]

ان تمام اوصاف کے باوجود شیخ محمد حسن کا شیعوں کے ساتھ برتاؤ مختلف تھا۔ تاریخی حوالے سے معلوم ہوتا ہے آپ ہر عام و خاص کے ساتھ خوش اخلاقی اور نیک رفتار سے پیش آتے تھے۔ محمد رضا مظفر اس بارے میں لکھتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ مہربان باپ کی طرح، شاگردوں کے سامنے تواضع اور انکساری اور بزرگوں کے سامنے شکستہ نفسی کے ساتھ پیش آنا آپکا وطیرہ تھا۔ منقول ہے کہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر کتاب کشف اللثام نہ ہوتی تو میں جواہر الکلام نہیں لکھ پاتا، یا آرزو کیا کرتے تھے کہ جواہر کے بدلے ازریہ کے مشہور قصیدے قصیدۂ ہاییہ کا ثواب ان کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا۔[14]

سماجی خدمات

صاحب جواہر اپنی پوری عمر فقیر اور نادار لوگوں کی مدد کرتے اور لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے اور عام المنفعت کاموں میں پیش پیش ہوتے تھے۔ ان کی خدمات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • نجف اور کوفہ میں دو کنویں کھود کر عوام کے لیے وقف کرنا۔
  • مسجد کوفہ کے مینار بنانا۔
  • مسلم بن عقیل کا حرم اور صحن بنانا۔
  • نجف میں پانی کی کمی کے پیش نظر فرات سے نجف تک ایک نہر کھودنا؛ جو لوگ اس کام پر آنے والی لاگت پر اعتراض کرتے تھے ان کے جواب میں آپ نے کہا: «اگر اس نہر سے نکلنے والے ریت کے ذرات کے برابر سونا خرچ کرنا پڑے تب بھی یہ کام انجام پائے گا۔» اگرچہ یہ نہر بعد میں لوگوں کی کوتاہی سے ختم ہوگئی۔[15]

تالیفات

شیخ محمد حسن کی بعض تالیفات جو باقی ہیں درج ذیل ہیں:[16]

تفصیلی مضمون: جواہر الکلام
مجموعہ جواہر الکلام

جواہر الکلام آپ کی سب سے اہم اور موثر تالیف ہے۔ یہ کتاب فقہ کے استنباط میں سب سے اہم مآخذ اور منبع سمجھی جاتی ہے جس کی نظیر اب تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ فقہا کے اقوال اور نظریات کو بیان کرنا اور اہم نکات سے استدلال کرنا کتاب جواہر کی خصوصیات میں سے ہے۔[17]یہ کتاب فقہ کے تمام فروعات بیان کرنے کے حوالے سے علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار کی طرح ہے۔ شیخ محمد حسن نے 25 سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا اور تقریبا 30 سال اس کتاب کو لکھنے میں لگایا اور اسی وسیع تالیف کی وجہ سے آپ شیخ الفقہاء کے نام سے ملقب ہوئے۔[18]اور آخرکار سنہ 1257 ھ میں کتاب مکمل ہوئی۔[19]

  • نجاۃ العباد‌
  • رسالۃ فی الزکاۃ والخمس
  • نجاۃ العباد فی یوم المعاد (رسالہ عملیہ و فقہی فتوے)
  • ہدایۃ الناسکین (حج کے بارے میں ایک رسالہ)
  • ارث میں ایک رسالہ
صاحب جواہر کے مقبرے کا اندرونی منظر

صاحب جواہر کے بعد مرجعیت

رجب 1266 ھ میں صاحب جواہر کی بیماری شدید ہوگئی، نجف کے بزرگ علماء، صاحب جواہر کی دعوت پر ان کے گھر پر جمع ہوئے۔ صاحب جواہر ملا مرتضی کو بھی بلانے کا حکم کرتے ہیں اور اس مجلس میں صاحب جواہر ملا مرتضی کی طرف دیکھتے ہوئے وصیت کرتے ہیں:

وہ دینی امور جو مجھ سے مربوط تھے اپنے بعد آپ کے سپرد کرتا ہوں اور یہ الہی امانت آپ کے سپرد کرتا ہوں اور میرے بعد آپ شیعوں کے مرجع تقلید ہیں۔[20]

محمد رضا مظفر اس مرجعیت کے منتقل کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ« جب مجلس میں داخل ہوا تو اس وقت ملا مرتضی تھے اور مجلس سے نکلتے ہوئے شیخ مرتضی انصاری بن کر نکلے» اور ان کا گمان تھا کہ صاحب جواہر نے شیخ مرتضی انصاری کو اگرچہ بعض سرشناس افراد کی نسبت ناشناختہ تھے لیکن اعلمیت اور تقوی کی وجہ سے ان کو مرجعیت تک پہنچا دیا۔»[21]

ولايت فقيہ

صاحب جواہر نے جواہر الکلام کے مختلف ابواب میں فقیہ کے اختیارات اور ذمہ داریوں کے بارے میں خامہ فرسائی کی ہے اور اس ولایت کے بارے میں ان کا کہنا ہے:

اگر ولايت عامہ فقيہ نہ ہو تو شیعوں سے مربوط بہت سارے کام تعطل کے شکار ہونگے۔[22]

صاحب جواہر ان لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو ولایت فقیہ کے بارے میں تذبذب کے شکار ہیں اور لکھتے ہیں:

ان لوگوں نے فقہ کے ذائقے کو نہیں چکھا ہے اور ائمہؑ کے کلام سے کچھ نہیں سمجھا ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۲؛ قمی، الفوائد الرضویہ، ج۲، ص۷۲۶؛ معلم حبیب آبادی، مکارم الآثار، ج۵، ص۱۸۲۶ و ۱۸۲۸؛ آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ج۲، ص۳۱۳؛ مدرس تبریزی، ریحانہ الادب، ج۳، ص۳۵۸؛ خوانساری نے تاریخ وفات کو ۱۲۶۸ھ کہا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے، خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص۳۰۵۔
  2. مراجعہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۷؛ صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۴؛ قمی، الفوائد الرضویہ، ج۲، ص۷۲۸؛ آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ج۲، ص۳۱۰؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۴؛ اسلامی، صاحب جواہر (فقیہ جاودانہ)، ص۱۸؛ معلم حبیب آبادی، مکارم الآثار، ج۵، ص۱۸۲۷۔
  3. مراجعہ کریں: صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۸؛ معلم حبیب آبادی، مکارم الآثار، ج۵، ص۱۸۲۸۔
  4. اسلامی، ص۱۰۷؛ معلم حبیب آبادی، مکارم الآثار، ج۵، ص۱۸۲۸-۱۸۳۲؛ مراجعہ کریں: صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۷۔
  5. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۵؛ قمی، الفوائد الرضویہ، ج۲، ص۷۲۴؛ آقا بزرگ، ج۱۰، ص۳۱۰؛ مدرس تبریزی، ریحانہ الادب، ج۳، ص۳۵۷؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۲۲۔
  6. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۵۔
  7. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۹۔
  8. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۵۔
  9. آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ج۲، ص۳۱۲؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۱۸-۱۹۔
  10. آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ج۲، ص۳۱۲؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۱۸-۱۹۔
  11. آقا بزرگ، طبقات، ج۱، ص۸۰۵؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۱۶۷۔
  12. امین، اعیان الشیعہ، ج۹، ص۱۴۹۔
  13. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۲۱-۲۲۔
  14. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، مقدمہ، ص۲۱-۲۲۔
  15. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۸؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۱۱و ۲۱۔
  16. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۸؛ آقا بزرگ، الذریعہ، ج۵، ص۲۷۵، ج۱۱، ص۲۱۴، ج۱۲، ص۴۳، ج۲۴، ص۵۹ ؛ معلم حبیب آبادی، مکارم الآثار، ج۵، ص۱۸۲۸؛ قمی، الفوائد الرضویہ، ج۲، ص۷۲۶۔
  17. آقا بزرگ، الذریعہ، ج۵، ص۲۷۵۔
  18. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۳؛ صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۶؛ نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۱۶؛ مدرس تبریزی، ریحانہ الادب، ج۳، ص۳۷۵۔
  19. رکـ: صدر، تکملہ امل الآمل، ج۵، ص۳۲۶؛ قمی، الفوائد الرضویہ، ج۲، ص۷۲۵۔
  20. آل محبوبہ، ماضی النجف، ج۲، ص۱۳۴۔
  21. نجفی، جواہر الکلام، ج۱، ص۱۹۔
  22. نجفی، جواہر الکلام، ج۲۱، ص۳۹۷۔
  23. نجفی، جواہر الکلام، ج۲۱، ص۳۹۷۔

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۳ھ
  • طبقات اعلام الشیعہ الکرام البررہ فی القرن الثالث بعد العشرہ، تعلیقات سید عبد العزیز طباطبایی، در المرتضی للنشر، مشہد، ۱۴۰۴ھ
  • آل محبوبہ، ج‍ع‍ف‍ر ب‍ن‌ ب‍اق‍ر، ماضی النجف و حاضرہا، دار الاض‍واء‏‫، بیروت، ۱۹۸۶ء
  • اسلامی، ابراہیم، صاحب جواہر (فقیہ جاودانہ)، بی‌جا، سازمان تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۳ش.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار المتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ
  • حبیب‌ آبادی، محمد علی، مکارم الآثار در احوال رجال دو قرن  ١٣  و  ١۴  ہجری، نفایس مخطوطات اصفہان، اصفہان، ١٣۶۴ ش.
  • خوانساری، محمد باقر بن زین العابدین، روضات الجنات في أحوال العلماء و السادات، اسماعیلیان، قم.
  • صدر، حسن، تکملہ امل الآمل، تحقیق حسین علی محفوظ، عدنان دباغ، عبد الکریم دباغ، دار المورخ العربی، بيروت.
  • قمی، عباس، الفواید الرضویہ فی احوال علماء المذہب الجعفریہ، تحقیق ناصر باقری بیدہندی، بوستان کتاب، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، قم، ١٣٨۵ ش.
  • مدرس تبریزی، محمد علی، ریحانہ الادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، کتاب فروشی خیام، تہران،  ١٣۶٩ش.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۳۶۷ش.