قاعدہ لاضرر

ویکی شیعہ سے
حدیث لاضرر و لاضرار، محمد فاتح یلدیز کی خطاطی (Muhammet Fatih Yıldız) سال 2019ء

قاعده لاضَرَرْ حدیث نبوی «لا ضَرَر و لا ضِرار فی الاسلام» سے ماخوذ ایک فقہی قاعدہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دین اسلام کی رو سے خود اور دوسروں کو نقصان پہنچانا شرعی لحاظ سے حرام ہے۔ قاعدہ ضرر ایک مشہور قاعدہ ہے جو اکثر فقہی مباحث میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قاعدہ ان پانچ قواعد میں سے ہے جن پر فقہی احکام کی بنیادیں قائم ہیں۔ قرآن مجید کی بعض آیات، دلیل عقلی، سیرہ عقلاء اور شیعہ و اہل سنت کے منابع حدیثی سے منقول کثیر تعداد میں احادیث اس قاعدے پر دلالت کرتی ہیں۔ محمد بن حسین حلی جیسے علما، اس قاعدے کے سلسلے میں واردہ احادیث کو متواتر احادیث سمجھتے ہیں۔ واقعہ سَمُرَة بن جُنْدَب فزاری کے بارے میں وارد شدہ حدیث اسی سلسلے کی مشہور احادیث میں سے ہے۔ شیخ مرتضی انصاری کے مطابق یہ روایت سند اور دلالت کے لحاظ سے باقی دیگر روایات کی بنسبت زیادہ واضح ہے۔

«ضرر» کے معنی ہیں مال، جان اور عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا؛ لیکن «ضرار» کے معنی میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض علما کی نظر میں دو نفر کا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کو ضرار کہتے ہیں۔ قاعدہ ضرر بعض اوقات باقی فقہی قواعد کے ساتھ قواعد فقہی کے عنوان میں شامل ہوتا ہے اور کبھی اصولی مباحث میں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود فقہاء اور دیگر محققین نے اس کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں اور رسالے لکھے ہیں جن میں سے شیخ انصاری کا رسالہ «رسالۃ فی قاعدة لاضرر» کے نام سے مشہور ہے اسی طرح فتح اللہ غروی اصفہانی نے ایک کتاب «قاعدة لاضرر» کے عنوان سے تحریر کی ہے۔

اہمیت اور مقام

قاعدہ ضرر قواعد فقہی میں سے ایک مشہور قاعدہ ہے جو اکثر فقہی مباحث جیسے عبادات اور معاملات[1] اسی طرح طبی امور کے شرعی احکام اور دیگر جدید فقہی مسائل میں اس سے استناد کیا جاتا ہے۔[2] ناصر مکارم شیرازی کے مطابق قاعدہ ضرر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ بہت سے مجتہدین نے اس کے بارے میں مستقل طور پر تقریرات، کتابیں اور رسالے تحریر کیے ہیں۔[3]

قاعده لاضرر اس جملے: «لا ضَرر و لا ضِرار فی الاسلام؛ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں "اسلام میں خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے"۔[4] یہ جملہ حضرت محمدؐ سے منسوب چند روایتوں کا بعض حصہ ہے جو «احادیث لاضرر» کے نام سے معروف ہیں؛[5] جو کہ شیعہ اور اہل سنت کی روائی کتابوں میں منقول ہیں۔[6] سید علی حسینی سیستانی کے مطابق جن احادیث میں «لاضرر و لاضرار» کا جملہ موجود ہے ان کی کل تعداد 8 ہے، ان میں سے تین احادیث شیعہ روائی کتب میں ہیں اور 4روایتیں اہل سنت منابع روائی میں ہیں جبکہ ایک حدیث کتاب "دعائم الاسلام" میں ہے جس کے مصنف کا تعلق اسماعیلی مذہب سے تھا۔[7]

بعض اہل سنت[8] علما جیسے جلال الدین سیوطی وغیر کا کہنا ہے کہ اسلامی فقہ کی بنیادیں کل پانچ احادیث پر قائم ہے؛ ان میں سے ایک "حدیث لا ضرر" ہے۔[9] شہید اول اپنی کتاب "القواعد و الفوائد" میں لکھتے ہیں کہ "قاعدہ لا ضرر" ان پانچ قواعد میں سے ایک ہے جو ادلہ اربعہ سے ثابت ہے اور ممکن ہے سارے شرعی احکام کا اس سے تعلق ہو۔[10]

بعض محققین کے مطابق، "قاعدہ لاضرر" اکثر عصری قانونی نظاموں میں "حقوق کا ناجائز استعمال ممنوع" کے عنوان سے رائج ہے۔[11]جمہوریہ اسلامی ایران کے آئین کے آرٹیکل 40 کے مطابق، کوئی بھی شخص اپنے حق کے حصول کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے یا مفاد عامہ کو پامال کرنے کا مجاز نہیں ہے[12] اور آرٹیکل 43 کے مطابق دوسروں کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔[13]

ضرر اور ضرار کے معنی

خط ثلث میں حدیث "لا ضرر و لا ضرار" کی خطاطی، خطاط: حسن کنعان

فقہی اصطلاح میں لفظ «ضرر» نفع کے مقابلے میں مستعمل ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کے مال، جان یا عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا۔[14] آخوند خراسانی کی رائے یہ ہے کہ روایت «لاضرر و لاضرار فی الاسلام» میں لفظ «ضرار»؛ «لاضرر» کے معنی میں تاکید پیدا کرنے کے غرض سے لایا گیا ہے۔[15]

سید علی حسینی سیستانی کے مطابق نقصان پہنچانے کے عمل کو مداومت کے ساتھ جاری رکھنے کو «ضرار» کہتے ہیں[16] اور بعض علما کے مطابق دو شخص کے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کو ضرار کہتے ہیں۔[17] فقہاء کی نظر میں نقصان کا معیار عرف عام ہے۔[18]

قاعده لاضرر کے معنی

فقہاء نے معنی کے لحاظ سے جملہ «لا ضَرر و لا ضِرار فی الاسلام» کے بارے میں چار احتمال دیے ہیں[19] جو کہ درج ذیل ہیں:

  • پہلا احتمال: خود اور دوسروں کو کسی قسم کے نقصان پہنچانے سے گریز کیا جانا چاہیے اور ایسا کرنا حرام ہے۔[20] فتح‌ الله غروی اصفہانی نے اس احتمال کو قبول کیا ہے۔[21] ناصر مکارم شیرازی کے مطابق اگر اس احتمال کو قبول کیا جائے تو یہ قاعدہ صرف احکام تکلیفی سے مخصوص ہوجائے گا اور اس کی عمومیت ختم ہوجانے کے بعد فقہ کے مختلف ابواب میں یہ کار آمد نہیں ہوگا۔[22]
  • دوسرا احتمال: اسلامی رو سے کوئی ناقابل تلافی نقصان وجود نہیں رکھتا۔[23]یعنی جو شخص کسی دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے اسے اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی اور اس کے نقصان کی تلافی کرنی ہوگی۔[24] عبد الله فاضل تونی نے اپنی کتاب "الوافیہ فی اصول الفقہ" میں اس احتمال کو پسند کیا ہے۔[25]
  • تیسرا احتمال: اسلام میں نقصان کا باعث بننے والے احکام موجود نہیں ہیں۔ یعنی اسلام میں کوئی ایسا شرعی حکم(حکم تکلیفی یا حکم وضعی) تشریع نہیں ہوا ہے جس کی بجاآوری سے خود مکلف یا کسی دوسرے کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے۔[26] مثلا وضو کے دوران اگر کسی کے لیے پانی کا استعمال نقصان کا باعث ہو تو اس قاعدے کے مطابق نماز پڑھنے کے لیے اس پر وضو کرنا واجب نہیں۔ (بلکہ مکلف تیمم کرکے نماز پڑھے گا)[27] شیخ انصاری نے اپنی کتاب فرائد الاصول[28] اور «رسالۃ فی قاعدۃ لاضرر»[29] میں اس احتمال کو قبول کیا ہے۔
  • چوتھا احتمال: حکم کی نفی سے خود موضوع کی بھی نفی ہوگی۔ آخوند خراسانی نے اس نظریے کو قبول کیا ہے؛[30] نمونے کے طور پراس مثال کو لیجیے: جب کہا جاتا ہے «لا صلوة الا بفاتحۃ الکتاب»(سورہ حمد کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی)[31] تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز کی ماہیت سورہ الحمد سے تشکیل پاتی ہے لہذا بغیر سور حمد کے نماز نہیں ہوسکتی، بعبارت دیگر جس نماز میں سورہ حمد نہ پڑھا جائے اس پر نماز کا عنوان اطلاق ہی نہیں آتا، جب ایسا ہے تو اس کے احکام بھی مترتب نہیں ہونگے۔[32] اس طرح کے مقامات سے ضَرَری اور نقصان آور موضوع سے حکم کو اٹھا لیا گیا ہے۔[33] بالفاظ دیگر وہ موضوعات جن کے عناوین اولیہ نقصان آور اور ضرر رساں ہوتے ہیں ان سے حکم کو اٹھالیا جاتا ہے؛[34] مثلاً وضو کا حکم اَوّلی (لوح محفوظ پر اس کا حکم) اس کا واجب ہونا ہے۔ لیکن اگر پانی کا استعمال مکلف کے لیے نقصان کا باعث ہو تو اس صورت میں اس کا حکمِ وجوب اٹھا لیا جاتا ہے۔[35]

قاعده لا ضرر کے دلائل

فقہاء نے قاعدہ لاضررکے معتبر ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ادلہ اربعہ اور سیرہ عقلاء سے استناد کیا ہے:

قرآن

فقہاء کی رائے کے مطابق قرآن مجید کی دج ذیل آیات قاعدہ لاضرر پر دلالت کرتی ہیں:[36] سورہ بقرہ کی آیت نمبر231، 233 اور 282، سورہ طلاق کی آیت نمبر6، سوره نساء کی آیت نمبر12 اور سورہ توبہ کی آیت نمبر 107۔[37] ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کو کسی قسم کا نقصان یا زیاں پہنچانا شریعت کی رو سے حرام ہے۔[38]

حدیث

جعفر سبحانی نے قاعدہ لاضرر پر دلالت کرنے والی روایات کو چار گروہوں میں تقسیم کیا ہے:[39]

1. وہ روایات جن میں عین جملہ «لاضرر و لاضرار فی الاسلام» یا «لاضرر و لاضرار» موجود ہے۔ یہ روایات خود دو قسم کی ہیں:[40]

الف. وہ روایات جو واقعہ سَمُرَة بن جُنْدَب‏ فَزاری سے تعلق رکھتی ہیں[یادداشت 1] یہ روایات الفاظ کے لحاظ سے قدرے مختلف ہیں[41] اور یہ چار ہیں۔[42]
ب. وہ روایات جو واقعہ سمرة بن جندب کے علاوہ دوسری جہتوں سے وارد ہوئی ہیں۔[43] جیسے وہ روایت جسے مشایخ ثلاثہ (شیخ کلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی) نے مسئلہ شفعہ[یادداشت 2] سے متعلق نقل کی ہے۔ شفعہ کے بارے میں امام صادقؑ[یادداشت 3]سے منقول ہے۔[44] سبحانی نے اس سلسلے میں تحقیق اور جستجو کے بعد 9 روایات نقل کی ہیں۔[45]

2. وہ روایات جن میں جملہ «لاضرر و لاضرار فی الاسلام» موجود نہیں ہے۔ یہ روایات دو قسم کی ہیں: پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں صرف لفظ «ضرار» آیا ہے[46] اور دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جو خود اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کو حرام قرار دیتی ہیں۔[47]

فخر المحققین اپنی کتاب "ایضاح الفوائد فی شرح مشکلات القواعد" میں "قاعدہ لاضرر" کے بارے میں وارد شدہ روایات کو متواتر روایات سمجھتے ہیں۔[48] آخوند خراسانی کی نظر میں اس سلسلے میں وارد شدہ روایات متواتر اجمالی ہیں؛ یعنی ان میں سے بعض روایات به طور یقین کسی معصومؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[49] آخوند خراسانی مزید لکھتے ہیں کہ یہ روایات سند کے لحاظ سے مقبول ہیں کیونکہ انہیں مشہور فقہاء نے نقل کی ہیں لہذا یہی اس بات کے لیے اطمینان بخش ہے کہ یقینا یہ روایات معصوم سے سےصادر ہوئی ہے، علاوہ برایں، عمل فقہاء سند کے لحاظ سے جو ضعف و کمزوری ہے وہ تکالفی ہوجاتی ہے۔[50] شیخ انصاری نے ان روایات کو جو واقعہ سمرۃ بن جندب سے متعلق ہیں، سند اور دلالت کے لحاظ سے واضح روایات قرار دیا ہے۔[51]

اجماع

شیعہ اور اہل سنت فقہاء دونوں قاعدہ لاضرر کی حجیت پر اجماع و اتفاق کرتے ہیں۔[52] بعض فقہاء نے روایات لاضرر کو اس اجماع کا مدرک قرار دیا ہے لہذا اجماع کو الگ سے اس قاعدے کی دلیل کے طور پر ذکر نہیں کیا ہے۔[53]

عقل

دلیل عقلی مستقل طور پر یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ قاعدہ لاضرر کے لیے دلیل بن جائے۔[54] حکم عقل کے لحاظ سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کی حرمت اس طرح ہے: کسی کو نقصان پہنچانا ایک قبیح فعل ہے لہذا اسے ترک کیا جانا چاہیے، اور ہر وہ عمل جو عقل کی نظر میں قبیح ہو اور اسے ترک کرنا ضروری ہو عقل اور شرع کے مابین تلازم احکام کی بنا پر شرع بھی اسے قبیح سمجھتا ہے پس دوسرے کو نقصان دینا شرعی طور پر بھی حرام ہے۔[55]

سیره عقلا

اجتماعی زندگی اور عرف عام میں عقلاء کا طرز فلکر و عمل یہ ہے کہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا ایک ناپسندیدہ عمل ہے اور نقصان پہنچانے والا نقصان کی تلافی کا ذمہ دار ہے۔[56] یہ قانون اور اصول تمام قانونی نظاموں میں مسلمہ اصول ہے۔ دوسری طرف شریعت بھی اس کا منع نہیں کرتی، اور یہ منع نہ کرنا گویا شارع نے اس کی تائید کی ہے۔[57]

قاعدہ لاضرر کا دیگر ادلہ احکام سے رابطہ

قاعدہ لاضرر کا دیگر ادلہ احکام سے رابطے کی نوعیت کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں: 1. قاعدہ لاضرر باقی دوسرے ادلہ احکام پر ترجیح رکھتا ہے اور وہ مقدم ہے،[58] لیکن اس اس ترجیح کی کیا نوعیت ہوگی اس کے بارے میں چند اقوال ہیں:

الف. قاعدہ لاضرر کا تقدم اور ترجیح مفسریت اور ناظریت کے عنوان سے ہے۔[59] اصول فقہ کی اصطلاح میں اس نظریے کو "حکومت" کہتے ہیں.[60] مثال کے طور پر شریعت کا حکم ہے: «روزه واجب ہے» اور دوسری طرف قاعدہ لاضرر بھی موجود ہے اب یہ قاعدہ ادلہ وجوب روزہ کے دائرے کو محدود کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب روزہ رکھنا نقصان کا سبب ہو تو مکلف پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ [61] شیخ انصاری اس نظریے کے قائل ہیں[62]
ب. آخوند خراسانی کیے نظریے کے مطابق قاعدہ لاضرر کی ترجیح یا تقدم "حکومت" کی وجہ سے نہیں بلکہ "جمع عرفی" کی وجہ سے ہے؛ یعنی عرف قاعدہ لاضرر اور دوسری دلیل کو جمع کرتا ہے اور "قاعدہ لاضرر" پر عمل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔[63] مثلاً شریعت نے مطلق طور پر کہا کہ نماز کے لیے «وضو واجب ہے»، اب یہ حکم اس مورد کو بھی شامل ہے جس میں انسان کو وضو کرنے پانی نقصان پہنچاتا ہے، اور "قاعدہ لاضرر" کہتا ہے کہ اس صورت میں وضو کرنا واجب نہیں ہے؛ اب ان دونوں دلیلوں کے مابین تعارض پیدا ہوا، اس تعارض کو حل کرنے کے لیے عرف کہتا ہے کہ وضو اس صورت میں واجب ہے کہ جب پانی ک استعمال نقصان دہ نہ ہو اب جبکہ نقصان دہ ثابت ہورہا ہے تو وضو واجب نہیں۔[64]

2. ان جگہوں پر جہاں «لاضرر و لاضرار فی الاسلام» کے معنی یہ ہو کہ خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی نہی کی گئی ہے اور نقصان کی صورت میں اس کی تلافی ہونی چاہیے، اس صورت میں یہ قاعدہ خود ایک شرعی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے لہذا دوسے ادلہ سے س کا کوئی رابطہ یا تعلق ہی نہیں۔[65]

قاعدے کے موارد استعمال

احکام شرعی کے استنباط میں قاعدہ لاضرر کئی مقامات پر استعمال کیا جاتا ہے:

  • سگریٹ نوشی کی حرمت: شیخ حر عاملی نے اپنی کتاب فوائد الطوسیۃ میں سگریٹ نوشی کی حرمت پر چند قسم کی دلیلیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک قاعدہ لاضرر ہے۔[66] معاصر مجتہد ناصر مکارم شیرازی نے بھی سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال کی حرمت کے سلسلے میں اسی قاعدے سے استناد کیا ہے۔[67]
  • زنجیر زنی کی حرمت: بعض فقہاء نے قاعدہ لاضرر کی بنیاد پر زنجیر زنی کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔[68] جعفر سبحانی نے مورخہ 21 ستمبر 2014ء کو اصول فقہ کے درس خارج اصول میں زنجیر زنی کو قاعدہ لاضرر کے موارد میں سے شمار کیا ہے۔[69]
  • جسم کے اعضا کا عطیہ دینا:

قاعدہ لاضرر کی بنیاد پر بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک صحت مند انسان کو شریعت یہ اجازت نہیں دیتی ہے کہ وہ اپنے اہم اعضاء مثلاً دل، جگر، آنکھیں وغیرہ کسی اور کو عطیہ کر دے، کیونکہ اس عمل سے خود کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ حرام ہے۔[70]

کتابیات

بعض فقہاء نے دیگر قواعد فقہی کے ساتھ قاعدہ لا ضرر کے بارے میں بھی بحث کی ہے۔[71] محمد باقر ایروانی کے مطابق فاضل تونی کے زمانے سے قاعدہ لاضرر کی بحث اصولی بحثوں کا حصہ بنا۔[72] فاضل تونی نے اصولی ایک قاعدہ اصل برائت جاری کرنے کی شرائط میں اس شرط کو اضافہ کیا کہ اس کے جاری کرنے سے کسی کو نقصان نہ پہنچے، اس لحاظ سے انہوں نے قاعدہ لاضرر کا خوب جائزہ لیا ہے؛[73] اسی وجہ سے بعض فقہاء جیسے شیخ انصاری[74] اور آخوند خراسانی[75] نے اس قاعدے کو اصولی مباحث میں جگہ دی ہے؛ اس کے باوجود اس قاعدے کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں اور رسالے لکھے گئے ہیں ان میں سے بعض یہاں بیان کیے جاتے ہیں:

  • «رسالة فی قاعدة لاضرر» مولف: شیخ انصاری. اس رسالے کو ایک کتاب کے ساتھ جس کا عنوان «رسائل فقهیه» ہے، «مجمع الفکر الاسلامی» پبلیشرز نے شائع کیا ہے۔[76]
  • کتاب «قاعدة لاضرر» مولف: شیخ الشریعة اصفهانی.[77] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق یہ کتاب ملوف کی آخری کتاب تھی اور محمد علی قاضی تبریزی نے اس کا فارسی ترجمہ کیا ہے۔[78]
  • کتاب «قاعدة لاضرر و لاضرار»؛ یہ کتاب سید علی حسینی سیستانی کے درس خارج کی تقریرات ہے جسے ان کے بیٹے محمد رضا سیستانی نے عربی زبان میں لکھی ہے۔[79] اس کتاب کا اکبر نائب زادہ نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور خرسندی پبلشرز نے شائع کیا ہے۔[80]
  • «بدایع الدرر فی قاعدة نفی الضرر»؛ مولف امام خمینی۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے اور مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی نے قم سے شائع کیا ہے۔[81]

نوٹ

  1. کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں امام محمد باقرؑ سے منقول زرارہ کی روایت نقل کی ہے۔ جس کے مطابق عصر رسول خداؐ میں ایک شخص بنام سمرۃ بن جندب تھا، انصار میں سے کسی شخص کے باغ میں اس کا خرما کا ایک درخت تھا، سمرۃ بن جندب انصاری شخص سے اجازت لیے بغیر اپنے درخت کے پاس جایا کرتا تھا۔ درخت کے پاس اس کی آمد ورفت انصاری شخص کے لیے باعث تکلیف تھی، انصاری شخص نے پیغمبر اسلامؐ کے پاس اس کی شکایت کی۔ پیغمبر خداؐ نے سمرۃ بن جندب کو اپنے پاس بلایا اور اس سے فرمایا: جب بھی تم اپنے درخت کے پاس جاؤ باغ کے مالک سے اجازت لیا کرو۔ لیکن سمرۃ نے رسول اللہؐ کا حکم نہیں مانا۔ پیغمبرؐ نے بہشت میں ابن جندب کے لیے ایک درخت کے عوض میں انصاری کے باغ میں موجود درخت کو مالک کو بیچنے یا اس کا معاوضہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن ابن جندب نے نہیں مانا۔ بالآخر پیغمبر خداؐ نے انصاری شخص سے فرمایا: اپنے باغ میں جاؤ اور اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کے سامنے پھینک دو؛ کیونکہ «لاضرر و لاضرار فی الاسلام؛ یعنی اسلام میں دوسروں کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔»(کلینی، الکافی، 1430ھ، ج10، ص476.) اس سلسلے میں کلینی نے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے جو الفاظ کے لحاظ سے اس روایت سے قدرے مختلف ہے۔«انک رجل مضار و لاضرر و لا ضرار علی مؤمن» (کلینی، الکافی، 1430ھ، ج10، ص485-486.)
  2. شفعہ قانون اور فقہ میں مستعمل ایک اصطلاح ہے جس کے معنی یہ ہیں: جب دو شخص کسی مال میں شریک ہوں اور ایک اگر اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو دوسرا شریک یہ حق رکھتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو وہ خود اسے خریدے گا اور مالک ہوگا۔(شهید ثانی، الروضة البهیئة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1427ھ، ج2، ص289.)
  3. امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ پیغمبر خداؐ نے شرکائے زمین اور مکانات کے سلسلے میں حق شفعہ کے تحت فیصلہ کیا اور فرمایا: (اسلام میں) نقصان اٹھانے اور نقصان دینے کی ممانعت ہے؛ اگر زمین یا مکان مشاع کی صورت میں زیر استعمال ہو تو حق شفعہ بھی باقی رہے گا اور اگر ان کی حدود کو متعین کیا گیا ہے تو اس صورت میں حق شفعہ ختم ہوجائے گا۔ (حرعاملی، وسائل الشیعه، 1416ھ، ج25، ص400.)

حوالہ جات

  1. محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص131.
  2. حرعاملی، الفوائد الطوسیة، 1423ھ، ص224؛ حسون، قراءة فی رسالة التنزیه (سید محسن الامین)، 1423ھ، ص120؛ عدنانی، «قاعده فقهی لاضرر و کاربرد آن در فقه پزشکی»، ص69.
  3. محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص131.
  4. جمعی از محققان، فرهنگ‌نامه اصول فقه، 1389ہجری شمسی، ج1، ص622.
  5. دایرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص268.
  6. شیخ الشریعه اصفهانی، قاعدة لاضرر، مؤسسة النشر الإسلامی، ص10.
  7. سیستانی، قاعدة لاضرر و لاضرار، 1414ھ، ص11.
  8. ایروانی، دروس تمهیدیة فی القواعد الفقهیة، 1432ھ، ج1، ص87.
  9. سیوطی، تنویر الحوالک، 1389ھ، ج2، ص122.
  10. شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج1، ص74.
  11. مظلوم و دیگران، «تبیین قاعده لاضرر و لاضرار در مباحث فقهی»، ص19.
  12. «قانون اساسی جمهوری اسلامی ایران»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.
  13. «قانون اساسی جمهوری اسلامی ایران»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.
  14. مصطفوی، القواعد الفقهیه، 1377ہجری شمسی، ج1، ص214.
  15. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، 1437ھ، ج2، ص194.
  16. سیستانی، قاعدة لاضرر و لاضرار، 1414ھ، ص131-133
  17. مصطفوی، القواعد الفقهیه، 1377ہجری شمسی، ج1، ص214.
  18. نراقی، مستند الشیعه، 1415ھ، ج15، ص17؛ شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص112؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، 1377ہجری شمسی، ج1، 215.
  19. موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، 1377ہجری شمسی، ج1، 215.
  20. موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، 1377ہجری شمسی، ج1، 215-216.
  21. شیخ الشریعه اصفهانی، قاعده لاضرر، مؤسسة النشر الإسلامی، ص24-25.
  22. مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص59.
  23. محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص146.
  24. مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص59.
  25. فاضل تونی، الوافیة فی اصول الفقه، 1412ھ، ص194.
  26. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص460.
  27. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص460؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، 1377ہجری شمسی، ج1، 217.
  28. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص460.
  29. شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص114.
  30. آخوند خراسانی، درر الفوائد فی الحاشیة علی الفرائد، 1410ھ، ص282.
  31. ابن‌ابی‌جمهور، عوالی اللئالی، 1403ھ، ج1، ص196.
  32. مروج جزایری، منتهی الدرایة، 1416ھ، ج6، ص507.
  33. حکیم، منتقی الاصول، 1413ھ، ج5، ص401.
  34. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، 1437ھ، ج2، ص196.
  35. محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص143.
  36. مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص28.
  37. ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص28-30؛ سبحانی، الایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص95-102.
  38. سبحانی، الایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص102.
  39. سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص102.
  40. سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص102.
  41. سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، ص102.
  42. ملاحظہ کیجیے: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ھ، ج25، ص427-429.
  43. سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص105.
  44. ایروانی، دروس تمهیدیة فی القواعد الفقهیة، 1432ھ، ج1، ص92.
  45. ملاحظہ کیجیے: سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص105-109.
  46. سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص113؛ حرعاملی، وسائل الشیعة، 1416ھ، ج18، ص275.
  47. سبحانی، ایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص114؛ کلینی، الکافی، 1430ھ، ج10، ص483.
  48. فخر المحققین، ایضاح الفوائد، 1387ھ، ج2، ص48.
  49. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، 1437ھ، ج2، ص194.
  50. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، 1437ھ، ج2، ص194.
  51. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص457.
  52. بجنوردی، قواعد فقهیه، 1401ھ، ج1، ص251.
  53. بجنوردی، قواعد فقهیه، 1401ھ، ج1، ص252.
  54. مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص28؛ سبحانی، الایضاحات السنیة للقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص102؛ محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص131.
  55. بادینی، مؤمنی، «رویکردی نو برای اثبات جریان قاعده لاضرر در احکام عدمی در زمینه مسئولیت مدنی»، ص27.
  56. محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص151.
  57. محقق داماد، قواعد فقه، 1406ھ، ج1، ص151.
  58. سبحانی، ایضاحات السنیة لقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص198.
  59. سبحانی، ایضاحات السنیة لقواعد الفقهیة، 1394ہجری شمسی، ص198.
  60. ولایی، فرهنگ اصطلاحات اصول، 1387ہجری شمسی، ص178.
  61. ولایی، فرهنگ اصطلاحات اصول، 1387ہجری شمسی، ص178.
  62. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص462.
  63. آخوند خراسانی، کفایة الاصول، 1437ھ، ج2، ص196.
  64. «درس کفایة الاصول، اصول عملیه و تعارض: حیدری فسایی»، سایت درسگفتار.
  65. مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص79.
  66. حرعاملی، الفوائد الطوسیة، 1423ھ، ص224.
  67. «ادله حرمت سیگار»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حضرت آیت الله مکارم شیرازی.
  68. حسون، قراءة فی رسالة التنزیه (للسيد محسن الأمین)، 1423ھ، ص120.
  69. «رابطه روایات اضرار به نفس و قمه زنی چیست؟»، سایت جماران.
  70. عدنانی، «قاعده فقهی لاضرر و کاربرد آن در فقه پزشکی»، ص69.
  71. ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1370ہجری شمسی، ج1، ص28؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377ہجری شمسی، ج1، ص211؛ الزحیلی، القواعد الفقهیة و تطبیقاتها فی المذاهب الاربعة، 1427ھ، ج1، ص199؛ الزرقا، شرح القواعد الفقهیة، 1409ھ، ص165.
  72. ایروانی، دروس تمهیدیه فی القواعد الفقهیة، 1432ھ، ج1، ص88.
  73. فاضل تونی، الوافیه، 1412ھ، ص193-194.
  74. شیخ انصاری، فرائد الاصول، 1419ھ، ج2، ص457.
  75. آخوند خرسانی، کفایة الاصول، 1437ھ، ج2، ص194.
  76. انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص13.
  77. شیخ الشریعه اصفهانی، قاعدة لاضرر، مؤسسه النشر الاسلامی، ص3.
  78. آقا بزرگ تهرانی، الذریعة، 1403ھ، ج17، ص11.
  79. سیستانی، قاعدة لاضرر و لاضرار، 1414ھ، ص7.
  80. «قاعده لاضرر و لاضرار (تقریرات)»، سایت انتشارات خرسندی.
  81. امام خمینی، بدایع الدرر فی قاعدة نفی الضرر، 1409ھ، ص3.

مآخذ

  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایة الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ ششم، 1437ھ.
  • آخوند خراسانی، محمدکاظم، درر الفوائد فی حاشیة علی الفرائد، تهران، مؤسسة النشر و الطبع، 1410ھ.
  • ابن‌ابی‌جمهور، محمد بن زین‌العابدین، عوالی اللئالی، قم، مؤسسه سیدالشهداء(ع)، چاپ اول، 1403ھ.
  • اکبرینه، پروین، «منع از سوءاستفاده از حقوق عینی در قانون مدنی»، فقه و مبانی حقوق اسلامی، تابستان و پاییز 1391ہجری شمسی.
  • امام خمینی، سید روح‌الله، بدایع الدرر فی قاعدة نفی ضرر، قم، مؤسسه نشر و تنظیم آثار امام خمینی، چاپ سوم، 1415ھ.
  • ایروانی، محمدباقر، دروس تمهیدیة فی القواعد الفقهیة، قم، دار الفقه للطباعة والنشر، چاپ پنجم، 1432ھ.
  • بادینی، حسن، و خسرو مؤمنی، «رویکردی نو برای اثبات جریان قاعده لاضرر در احکام عدمی در زمینه مسئولیت مدنی»، فصلنامه مطالعات حقوق خصوصی، شماره 3، پاییز 1392ہجری شمسی.
  • بجنوردی، سید محمد، قواعد فقهیه، تهران، مؤسسه عروج، چاپ سوم، 1401ھ.
  • پژوهشگاه فرهنگ و علوم اسلامی، فرهنگ‌نامه علم اصول، قم، پژوهشگاه فرهنگ و علوم اسلامی، چاپ اول، 1389ہجری شمسی.
  • تهرانی، آقابزرگ، الذریعه فی تصانیف الشیعه، قم، دار الاضواء، چاپ سوم، 1403ھ.
  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، 1416ھ.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، الفوائد الطوسیة، قم، مکتبة المحلاتی، 1423ھ.
  • حسون، محمد، قراءة فی رسالة التنزیه (سیدمحسن الامین)، قم، مکتبة شریعت، چاپ اول، 1423ھ.
  • حکیم، عبدالصاحب، منتقی الاصول، قم، دفتر آیت الله سید محمد حسینی روحانی، 1413ھ.
  • «درس کفایة الاصول، اصول عملیه و تعارض: حیدری فسایی»، سایت درسگفتار، تاریخ بازدید: 25 مرداد 1400ہجری شمسی.
  • زحیلی، محمدمصطفی، القواعد الفقهیة وتطبیقاتها فی المذاهب الأربعة، دمشھ، دارالفکر، چاپ اول، 1427ھ.
  • زرقا، احمد بن شیخ محمد، شرح القواعد الفقهیة، دمشھ، دارالقلم، 1409ھ.
  • سبحانی، جعفر، الایضاحات السنیة لقواعد الفقهیة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1394ہجری شمسی.
  • سیستانی، سیدعلی، قاعدة لاضرر و لاضرار، قم، مکتب آیت الله العظمی سیستانی، 1414ھ.
  • سیوطی، جلال الدین، تنویر الحوالک فی شرح موطأ مالک، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1418ھ.
  • شریعت اصفهانی، فتح الله بن محمدجواد، قاعدة لاضرر، قم، مؤسسه النشر الاسلامی، بی‌تا.
  • شیخ انصاری، مرتضی، رسائل فقهیة، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1414ھ.
  • شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1419ھ.
  • شهید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، قم، مکتبة المفید، چاپ اول، بی‌تا.
  • شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، قم، انتشارات جعفری، چاپ هفتم، 1427ھ.
  • عدنانی، محمد، قاعده فقهی لاضرر و کاربرد آن در فقه پزشکی، دوفصلنامه علمی-تخصصی پژوهشنامه فقهی، شماره 1، پاییز و زمستان 1392ہجری شمسی.
  • فاضل تونی، عبد الله بن محمد، الوافیه فی اصول الفقه، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ اول، 1412ھ.
  • فخرالمحققین، محمد بن حسن بن یوسف، إیضاح الفوائد فی شرح مشكلات القواعد‌، قم، مؤسسه اسماعیلیان، چاپ اول، 1387ھ.
  • «قاعده لاضرر و لاضرار (تقریرات)»، سایت انتشارات خرسندی، تاریخ بازدید: 22 مرداد 1400ہجری شمسی.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، انتشارات دارالحدیث، چاپ اول، 1387ہجری شمسی.
  • محقق داماد، سید مصطفی، قواعد فقه، تهران، مرکز نشر علوم اسلامی، چاپ دوازدهم، 1406ھ.
  • مروج جزایری، سید محمدجعفر، منتهی الدرایة فی توضیح الکفایة، قم، مؤسسه دار الکتاب، 1413ھ.
  • مظلوم، علیرضا و دیگران، «تبیین قاعده لاضرر در مباحث فقهی»، پژوهش ملل، شماره 23، پاییز 1396ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقهیة، قم، مدرسه علی بن ابی طالب(ع)، چاپ سوم، 1370ہجری شمسی.
  • موسوی بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقهیة، قم، نشر الهادی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی.
  • نراقی، احمد بن محمدمهدی، مستند الشیعه فی احکام الشریعة، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، 1415ھ.
  • ولایی، عیسی، فرهنگ تشریحی اصطلاحات اصول، تهران، نشر نی، چاپ ششم، 1387ہجری شمسی.