واجب عینی
واجب عینی، دین کے ان واجب احکام کو کہا جاتا ہے جن کا انجام دینا ہر مکلف کے لئے ضروری ہے۔ واجب عینی کے مقابل میں واجب کفائی ہے جس میں کسی واجب کام کو بعض مکلفین کے انجام دینے سے دوسرے مکلفین بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ نماز یومیہ، روزہ، خُمس، زکات، والدین کے ساتھ نیکی، صلہ رحم اور اس طرح کی اکثر عبادات واجب عینی کا حصہ ہیں۔
علمائے اصول فقہ کے مطابق، جب کسی واجب کے بارے میں شک ہو کہ یہ واجب عینی ہے یا کفائی تو اس کے واجب عینی ہونے پر بناء رکھی جائے گی۔
فقہی تعریف
واجب عینی؛ اس واجب کو کہا جاتا ہے جس کا انجام دینا ہر مکلف کے لئے مستقل طور پر ضروری ہے۔ لہذا کوئی مکلف واجب عینی کو اس وجہ سے ترک نہیں کر سکتا کہ اسے دوسروں نے انجام دیا ہے۔[1] نماز یومیہ، روزہ، حج،[2] خمس، زکات،[3] والدین کے ساتھ نیکی، صلہ رحم، اور وفائے عہد اسی واجب عینی کا حصہ ہیں۔
واجب عینی اور واجب کفائی میں فرق
واجب عینی، واجب کفائی کے مقابل میں آتا ہے جس کا مخاطب کوئی مخصوص مکلف نہیں ہوتا ہے۔ یعنی شارع کی نظر میں اس فعل واجب کا کسی ایک کے ذریعہ انجام پانا کافی ہے۔ لہذا اگر اسے کسی گروہ نے انجام دے دیا تو وہ باقی سب پر سے ساقط ہو جاتا ہے۔[4] جیسے امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد، جواب سلام،[5] کفن، دفن، نماز میت اور کسی انسان کی جان بچانا۔[6]
علمائے اصول فقہ کے مطابق، اس بات کی علت کہ واجب کفائی میں فعل واجب بعض افراد کے انجام دینے سے وہ باقی سب پر سے ساقط ہو جاتا ہے، یہ ہے کہ اس میں خود عمل مطلوب ہے اور عمل یا فعل کا انجام پانا اہمیت رکھتا ہے، کس نے انجام دیا ہے یہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔[7]
واجب عینی و کفائی میں تشخیص
علمائے اصول فقہ کا کہنا ہے کہ جن موارد میں ہمارے پاس دلیل موجود نہیں ہے کہ امر خدا اس مورد میں واجب عینی ہے یا واجب کفائی تو ہم اس کے واجب عینی ہونے پر بناء رکھیں گے۔[8] اس لئے کہ عقل حکم کرتی ہے کہ جس وقت مکلف مطمئن نہ ہو کہ وہ واجب دوسرے افراد کے انجام دینے سے خود اس سے ساقط ہوگا یا نہیں، (وہ بری الذمہ ہوگا یا نہیں) تو اس حکم پر عمل کرنا، (اس کو بجا لانا) اس کے لئے ضروری ہے۔[9]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۱۴۰؛ حسینی، الدلیل الفقہی، ۲۰۰۷م، ص۳۰۱؛ ولایی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ۱۳۸۷ش، ص۳۳۶۔
- ↑ حسینی، الدلیل الفقہی، ۲۰۰۷م، ص۳۰۱۔
- ↑ العجم، موسوعۃ مصطلحات اصول الفقہ عند المسلمین، ۱۹۹۸م، ج۲، ص۱۶۹۰۔
- ↑ مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۱۴۰؛ حسینی، الدلیل الفقہی، ۲۰۰۷م، ص۳۰۹؛ ولایی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ۱۳۸۷ش، ص۳۳۷.
- ↑ العجم، موسوعة مصطلحات اصول الفقہ عند المسلمین، ۱۹۹۸م، ج۲، ص۱۶۹۰.
- ↑ مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۱۴۰۔
- ↑ برای نمونہ نگاه کریں مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۱۴۰-۱۴۱۔
- ↑ برای نمونہ نگاه کریں مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۵؛ آخوند خراسانی، کفایةالاصول، ۱۴۰۹ق، ص۲۵۲؛ سبحانی، الوسیط، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۰۰.
- ↑ مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۵۔
مآخذ
- آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایة الاصول، قم، مؤسسہ آل البیت، جاپ اول، ۱۴۰۹ھ
- العجم، رفیق، موسوعة مصطلحات اصول الفقہ عند المسلمین، بیروت، مکتبة لبنان ناشرون، ۱۹۹۸ء
- حسینى، محمد، الدلیل الفقهى تطبیقات فقهیة لمصطلحات علم الاصول دمشق، مرکز ابن ادریس الحلی للدارسات الفقهیہ، چاپ اول، ۲۰۰۷ء
- سبحانی تبریزی، جعفر، الوسیط فی اصول الفقہ، قم، مؤسسه امام صادق، چاپ چهارم، ۱۳۸۸ش
- مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۳۰ھ
- ولایی، عیسی، فرهنگ تشریحى اصطلاحات اصول، تهران، نشر نی، چاپ ششم، ۱۳۸۷ش