اشعث بن قیس کندی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | معدیکرب بْن قَیس کِنْدی |
کنیت | ابو محمد |
لقب | اشعث |
نسب/قبیلہ | قبیلہ کندہ |
اقارب | محمد بن اشعث، قیس بن اشعث، جعدہ، عبدالرحمن بن محمد |
وفات | سنہ 40 ہجری |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | سنہ 10 ہجری |
جنگوں میں شرکت | فتح عراق، جنگ قادسیہ، جنگ یرموک، جنگ صفین |
نمایاں کارنامے | قبیلہ کندہ کا سردار اور آذربایجان میں عثمان بن عفان اور حضرت علیؑ کے کارگزار |
اَشْعَث بْن قَیس کِنْدی (متوفی 40ھ) جنگ صفین میں امام علیؑ کے لشکر کے سپہ سالاروں میں سے تھا جو حکمیت کے مسئلے میں ابو موسی اشعری کو ثالث بنانے کا حامی اور معاویہ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا مخالف تھا۔ جنگ صفین کو متوقف کرنے نیز حکمیت کے مسئلے میں امام علیؑ اور عراقیوں کی طرف سے عبداللہ بن عباس کی جگہ ابو موسی اشعری کے ثالث بننے میں اس کا بڑا کردار تھا۔ جنگ نہروان میں بھی جب امام علیؑ معاویہ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کو کہا تو اس نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر جنگ کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے آپ کے سپاہیوں کے حوصلے سست ہو گئے یوں امام علیؑ جنگ سے منصرف ہونے پر مجبور ہوئے۔
تاریخی قرائن و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اشعث امام علیؑ کو شہید کئے جانے کے منصوبے سے آگاہ تھا اور امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کی بنا پر اس منصوبے میں وہ خود بھی شریک تھے۔ وہ قبیلہ کِندِہ کا سردار اور آذربایجان میں عثمان بن عفان اور امام علیؑ کا کارگزار تھا۔
محمد اور قیس جو امام حسینؑ کے قتل میں ملوث تھے اور جعدہ جس نے معاویہ کے کہنے پر امام حسنؑ کو زہر دیا، اشعث کی اولاد ہیں۔
حالات زندگی
اشعث بن قیس کا تعلق قبیلہ کندہ سے تھا اور وہ حَضرَموت یمن کے رہنے والے تھا۔[1] بعض مورخین اس کا نام معدی کرب، لقب اشعث (گنگریالے بال کے معنی میں) اور کنیت ابو محمد بتائی ہے۔[2] دسویں صدی ہجری[3] میں اپنے قبیلے کی بعض افراد کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔[4] اس بنا پر اس کا شمار پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب میں بھی ہوتا ہے اور صحابہ سے متعلق منابع میں اس کے حالات زندگی بھی ذکر ہوئے ہیں۔[5] اسی طرح اہل سنت منابع من جملہ صحیح بخاری[6] اور صحیح مسلم میں احادیث موجود ہیں جسے اشعث نے رسول اکرمؐ سے نقل کی ہیں۔[7]
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔[8] ابوبکر نے اشعث کو گرفتار کرکے مدینہ لانے کے لئے اپنے بعض سپاہیوں کو یمن بھیجا۔ بعد میں ابوبکر نے اشعث کو آزاد کیا اور اپنی بہن ام فروہ کے ساتھ ان کی شادی کرائی۔[9]
خلیفہ دوم کے دور خلافت میں اشعث جنگ یرموک، فتح عراق[10] اور جنگ قادسیہ[11] میں شریک ہوا اور کوفہ میں مقیم تھا۔[12] اسی طرح خلیفہ سوم کے دور میں وہ آذربایجان میں ان کا کارگزار تھا[13] اور امام علیؑ کے خلافت ظاہری میں بھی اسے اسی منصب پر باقی رکھا گیا۔[14] تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن حبیب کے مطابق اشعث جنگ جمل میں امام علیؑ کے ساتھ تھا[15] لیکن امام علیؑ کا اس کے نام خط سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جنگ جمل میں آپؑ کے ساتھ نہیں تھا۔[16]
اشعث 63 سال کی عمر میں فوت ہوا۔[17] اس کی موت سنہ 40[18] یا 42 ہجری میں ہوئی ہے۔[19] کہا جاتا ہے کہ امام حسنؑ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔[20]
جنگ صفین روکنے میں اشعث کا کردار
جنگ صفین میں اشعث امام علیؑ کے لشکر میں تھا اور قبیلہ کندہ اور ربیعہ کے سپاہیوں کا سپہ سالار تھا۔[21] نصر بن مزاحم کے مطابق امام علیؑ نے ان دو قبیلوں کی سپہ سالاری اس سے واپس لے کر حسان بن مخدوج کے سپرد کی لیکن امام علیؑ کی بعض یمنی سپاہی اس کام کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اسی بنا پر امام علیؑ کے لشکر میں اختلاف پیدا ہوا۔ معاویہ اشعث کو اپنی طرف لے جانے کی کوشش کرنے لگا لیکن امام علیؑ نے اپنی فوج کے دائیں بازوں کی سپہ سالاری اشعث کے سپرد کی۔[22] جب معاویہ کے سپاہیوں نے امام علیؑ کے لشکر پر فرات کا پانی بند کر دیا تو اشعث نے فرات کو شام کے لشکر سے چھڑا لیا۔[23]
تاریخی منابع کے مطابق لیلۃ الہریر جس دن بہت سارے سپاہی مارے گئے تھے اور جنگ تقریبا امام علیؑ اور آپ کے لشکریوں کے حق میں ختم ہونے والی تھی،[24] اشعث نے جنگ جاری رکھنے سے انکار کیا۔[25] معاویہ کو جب اشعث کے نظریات کا علم ہوا تو اس نے قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے ثالثی کا مطالبہ کیا۔[26] معاویہ کی طرف سے قرآن نیزوں میں اٹھائے جانے کے بعد اشعث نے امام علیؑ پر اعتراض کیا[27] اور آپ پر قرآن کو حاکم قرار دیئے جانے کی اس پیشکش کو قبول کرنے پر زور دیا۔[28] کہا جاتا ہے کہ جنگ صفین سے پہلے امام علیؑ نے اشعث کے نام ایک خط لکھا تھا جس کے بعد اس نے معاویہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے اس کام سے منع کیا تھا۔[29]
ابو موسی اشعری کو ثالث بنانے کی حمایت
جنگ صفین میں معاویہ کی طرف سے شام اور عراق والوں کی طرف سے ایک ایک شخص کو ثالث بنائے جانے کی پیشکش کو اشعث نے پسند کیا۔[30] لیکن اس نے امام علیؑ اور عراق والوں کی طرف سے عبداللہ بن عباس کو ثالث بنانے کی مخالفت کی اور اپنی طرف سے ابو موسی اشعری کو کا نام پیش کیا۔[31] تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی کے مطابق جب صلح نامہ لکھتے وقت امام علیؑ کے لئے امیرالمؤمنین کا لقب دیئے جانے کے بارے میں دونوں لشکروں کے درمیان اختلاف ہوا تو اشعث نے اس لقب کو مٹانے کا مطالبہ کیا۔[32]
اشعث اس بات کا معتقد تھا کہ معاویہ کے ساتھ دوبارہ جنگ کرنے سے پہلے نہروان کے خوارج کے ساتھ جنگ کرنا چاہئے،[33] لیکن جب جنگ نہروان کے بعد امام علیؑ نے اپنے لشکریوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی تو اس نے تھکاوٹ کا بہانہ کر کے جنگ کرنے سے انکار کیا۔ ان کی بات امام علیؑ کے لشکریوں میں بھی اثرانداز ہوئی یوں امام علیؑ جنگ سے منصرف ہونے پر مجبور ہوئے۔[34]
امام علیؑ کے قتل میں ابن ملجم کا ساتھ دینا
تاریخی منابع کے مطابق اشعث امام علیؑ کے قتل کے منصوبے سے آگاہ تھا۔ یعقوبی کے مطابق جب ابن ملجم امام علیؑ کو شہید کرنے کے لئے مصر سے کوفہ آیا تو ایک مہینے تک اس نے اشعث کے یہاں قیام کیا اور وہیں پر اس نے اپنی تلوار تیار کی۔[35] ایک اور نقل کے مطابق اشعث نے ابن ملجم سے کہا تھا کہ صبح ہونے اور امام علیؑ کے مسجد کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے اپنا کام تمام کرے۔[36] ابن ملجم کے اقدام کے بعد اشعث نے اپنے بیٹے کو بھیجا تاکہ وہ صورتحال سے اسے آگاہ کرے۔[37] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں بھی امام علیؑ کے قتل میں اشعث کے ملوث ہونے کا پتہ چلتا ہے۔[38] البتہ بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ جب اشعث ابن ملجم کے ارادے سے آگاہ ہوا تو اس نے اس بات کی اطلاع امام علیؑ کو دی تھی۔[39]
اسی طرح بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ اشعث نے امام علیؑ کو قتل کی دھمکی دی تھی۔[40] کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ کو اس پر اعتماد نہیں تھا[41] اور آپؑ نے اسے منافق سے خطاب کیا تھا۔[42]
اولاد
ذیل میں اشعث کے بعض اولاد کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
- "محمد بن اشعث" زیاد بن ابیہ اور ابن زیاد کے افراد میں سے تھا اور حجر بن عدی،[43] ہانی بن عروہ[44] اور مسلم بن عقیل[45] کو گرفتار کرنے میں اس کا کردار تھا۔ اسی طرح الکافی میں امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام حسینؑ کو شہید کرنے میں بھی محمد بن اشعث کا کردار تھا۔[46]
- "قیس بن اشعث" امام حسینؑ کو خط لکھ کر کوفہ دعوت کرنے والوں میں سے تھا لیکن بعد میں عمر بن سعد کا ساتھ دیا۔[47]
- "جعدہ بنت اشعث" امام حسن مجتبی کی زوجہ تھی اور تاریخی منابع کے مطابق معاویہ کے کہنے پر اس نے امام حسنؑ کو زہر دے کر مسموم کیا۔[48]
- "عبدالرحمن بن محمد" (متوفی 95ھ) اشعث کا پوتا تھا، شروع میں بنی امیہ کے حامیوں میں سے تھا لیکن بتدریج ان کے مخالفین میں شامل ہوا اور ان کے خلاف بغاوت کی۔[49]
حوالہ جات
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص133۔
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج1، ص239؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج1، ص118۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج1، ص118۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص133۔
- ↑ ملاحظہ کریں: ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص133؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج1، ص118-119؛ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج1، ص239-240۔
- ↑ ملاحظہ کریں: بخاری صحیح البخاری، 1422ق، ج9، ص8 باب القسامہ۔
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج1، ص239۔
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، 1992م، ص334۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج1، ص118؛ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج1، ص239؛ خلیفہ، تاریخ خلیفہ، 1415ق، ص60-61۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص134۔
- ↑ دینوری، اخبار الطوال، 1368ش، ص120۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص134۔
- ↑ دینوری، اخبار الطوال، 1368ش، ص156۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص200۔
- ↑ ابن حبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص291-29۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص20-21۔
- ↑ ابن حجر، الاصابہ، 1415ق، ج1، ص240۔
- ↑ خلیفہ، تاریخ خلیفہ، 1415ق، ص120؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، 1409ق، ج1، ص119؛ ابن قتیبہ، المعارف، 1992م، ص334۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج1، ص119۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص134؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ق، ج1، ص119۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص137۔
- ↑ منقری، وقعہ صفین، 1382ق، ص139-140۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص165-167۔
- ↑ منقری، وقعة صفین، 1382ق، ص477-480.
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص480۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص480-481؛ دینوری، اخبارالطوال، 1368ش، ص188-189۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص188-189.
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص482۔
- ↑ منقری، وقعۃ صفین، 1382ق، ص21۔
- ↑ منقری، وقععۃ صفین، 1382ق، ص499۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص189۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص189۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص82۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص89؛ ثقفی، الغاراث، 1355ش، ج1، ص24-25؛ دینوری، اخبار الطوال، 1368ش، ص211؛ ابن عدیم، بغیۃ الطلب، 1409ق، ج4، ص1911۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص212۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج3، ص26۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج3، ص27۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص167، ح187۔
- ↑ مبرد، الکامل، بینا، ج2، ص146۔
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ق، ج2، ص40-41؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفہ، ص48۔
- ↑ بہرامیان، «اشعث بن قیس کندی»، ص48.
- ↑ نهج البلاغہ، خطبہ 19۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص263-264۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص367.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص369.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص167، ح187۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص425۔
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفہ، ص80۔
- ↑ ملاحظہ کریں: دینوری، اخبار الطوال، 1368ش، ص316-324۔
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ق/1989م۔
- ابن حبیب بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بیتا۔
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، دار الکتب العلمیہ، 1415ق/1995م۔
- ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ق/1990م۔
- ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دار الجیل، 1412ق/1992م۔
- ابن عدیم، عمر بن احمد، بغیۃ الطلب فی تاریح حلب، تحقیق سہیل زکار، دمشق، دار الفکر، 1409ق /1988م۔
- ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریہ العامۃ للکتاب، 1992م۔
- ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
- ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، دار المعرفہ، بیتا۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاۃ، 142ق۔
- بہرامیان، علی، «اشعث بن قیس کندی»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی(ج9)، تہران، 1379ش۔
- ثفقی کوفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، تحقیق جلالالدین محدث ارموی، تہران، انجمن آثار ملی، 1355ش۔
- خلیفہ بن خیاط، تاریخ، تحقیق فواز، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ق/1995م۔
- دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، 1368ش۔
- ذہبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق شعیب ارنؤوط و دیگران، مؤسسۃ الرسالۃ، 1405ق/1985م۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، دار التراث، بیروت، 1387ق/1967م۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ق۔
- مبرد، محمد بن یزید، الکامل فی اللغۃ و العرب، بینا، بیتا۔
- منقری، نصربن مزاحم، وقعہ صفین، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، قاہرہ، الموسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، 1382ق/1962م، افست (قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی)، 1404ق۔
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بیتا۔