ظہور کی نشانیاں

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


ظہور کی نشانیاں یا علائم ظہور ان واقعات اور حوادث کو کہا جاتا ہے جو امام زمانہ(عج) کے ظہور سے پہلے یا ظہور کے موقع پر رونما ہونگے۔ ان نشانیوں میں سے بعض حتمی ہیں جو ضرور رونما ہونگے جیسے صیحہ آسمانی، خروج سُفیانی، قیام یَمانی، قتل نفس زَکیّہ اور خَسفِ بَیداء اور بعض غیر حتمی ہیں جن کے تحقق کے بغیر بھی امام زمانہ کا ظہور کرنا ممکن ہے۔ بعض منابع میں امام زمانہؑ کے ظہور کی نشانیوں اور قیامت کی نشانیوں میں خلط ہوا ہے۔

بعض علماء امام زمانہؑ کے ظہور کی بعض نشانیوں جیسے سفیانی اور دجال وغیرہ کو علامتی رمز قرار دیتے ہیں مثلا دجال کو اسلام سے منحرف ہونے جبکہ سفیانی کو اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والے انحراف کی علامت قرار دیتے ہیں۔ البتہ یہ نظریہ ایک طرف احادیث کے ظاہر سے متصادم ہے تو دوسری طرف ظہور کی علامتوں کا بے بنیاد ہونا لازم آتا ہے۔

ان نشانیوں کا سرچشمہ وہ احادیث ہیں جو شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔ کتاب مقدس میں بھی ظہور منجی کی نشانیاں ذکر ہوئی ہیں جن میں سے بعض نشانیاں اسلامی منابع میں امام مہدیؑ کے ظہور کی نشانیوں کے ساتھ مشترک ہیں۔

معانی

علائم ظہور ان واقعات اور حوادث کو کہا جاتا ہے جن کا رونما ہونا ظہور امام زمانہ(عج) کے نزدیک ہونے کی علامت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں حوادث کے ذریعے امام مہدی اور مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان تشخیص دی جاتی ہے۔[1]

زمان اور کیفیت تحقق

احادیث کے مطابق بعض نشانیاں امام زمانہؑ کے ظہور سے پہلے یا ظہور کے وقت رونما ہونگے جبکہ بعض نشانیاں غیبت کبرا کے دوران رونما ہونگے۔[2] اسی طرح شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین میں نقل ہونے والی ایک حدیث کے مطابق صیحہ آسمانی، خروج سُفیانی، قیام یَمانی، قتل نفس زَکیّہ اور خَسفِ بَیداء امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے رونما ہونگے۔[3] شیخ مفید انہیں قیام قائم کی نشانیاں قرار دیتے ہیں۔[4] اسی بنا پر ان علامتوں کو قیام امام مہدیؑ کی نشانیوں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[5]

ان واقعات میں سے بعض دوسرے واقعات کی طرح بطور معمول رونما ہونے لیکن بعض واقعات جیسے صیحہ آسمانی وغیرہ بطور معجزہ رونما ہونگے۔[6]

حتمی اور غیرحتمی نشانیاں

ظہور کی نشانیاں حتمی اور غیرحتمی میں تقسیم ہوتے ہیں:[7] حتمی نشانیاں ان علامتوں کو کہا جاتا ہے جو ضرور رونما ہونگے اور جب تک یہ نشانیاں رونما نہیں ہونگے حضرت مہدیؑ ظہور نہیں فرمائیں گے۔ جبکہ غیر حتمی نشانیاں ان علامتوں کو کہا جاتا ہے جن کا رونما ہونا ضروری نہیں بلکہ ممکن ہے ان کے رونما ہوئے بغیر بھی امام زمانہؑ ظہور فرمائیں۔[8]

شیخ صدوق نے ایک حدیث نقل کی ہیں جس کے مطابق خروج سفیانی، قیام یمانی، صیحہ آسمانی، قتل نفس زکیہ اور خسف بیداء حتمی نشانیوں میں سے ہیں۔[9] شیخ مفید نے کتاب الارشاد میں ظہور کی نشانیوں کی ایک فہرست جاری کی ہیں جو یہ ہیں: سورج اور چاند گرہن، کثرت سے موت واقع ہونا، عالمگیر جنگ‏وں کا رونما ہونا، مشرق کی جانب سے سیاہ پرچموں کا نمودار ہونا اور پے در پے بارشوں کا آنا۔[10] شیخ مفید نے ان فہرست کے آخر میں "واللہ اعلم" کہا ہے،[11] اس بنا پر بعض نے یہ خیال ظاہر کی ہیں کہ شیخ مفید ان نشانیوں میں سے بعض نشانیوں کے بارے میں تردید رکھتے تھے۔[12]

قیامت کی نشانیوں کے ساتھ خلط

بعض حدیثی منابع میں امام مہدیؑ کے ظہور کی نشانیاں قیامت کے نشانیوں کے ساتھ خلط ہوا ہے۔ مثلا سورج کا مغرب سے طلوع ہونا جسے احادیث میں قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے[13] بعض نے اسے بھے ظہور کی نشانی قرار دئے ہیں۔[14]

اسی طرح ظہور کی بعض نشانیوں جیسے خروج سفیانی کو قیامت کی بعض نشانیوں جیسے دابۃ الارض، خروج عیسی، قیام امام زمانہؑ اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا کے ساتھ قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔[15] کہا جاتا ہے کہ چونکہ اسلامی منابع میں امام مہدی کے قیام کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے،[16] اس بنا پر ظہور کی بعض نشانیوں کو قيامت کی نشانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔[17]

دوسرے ادیان میں ظہور منجی کی نشانیاں

یہودیت اور مسیحیت میں ظہور منجی کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں جو اسلامی احادیث میں ظہور امام مہدی کی نشانیوں کے ساتھ مشترک ہیں۔ یہودی فساد کا عام ہونا اور عالگیر جنگوں کو ظہور ماشیح کی نشانی قرار دیتے ہیں۔[18]

اسی طرح مسیحیوں کے مطابق دجال وہ شخص یا اشخاص ہیں جو حضرت عیسی کے مسیح ہونے کا انکار کرتے ہیں۔[19] دجال آخری زمانے میں قیام کرے گا اور جب مسیح ظہور کریں گے تو ان کو قتل کرے گا۔[20] فساد کا عام ہونا، جنگوں کا عالگیر ہونا، افراتفری، زلزلہ، بیماری اور قطحی نیز سورج، چاند اور ستاروں میں کچھ نشانیوں کا نمودار ہونا ان واقعات میں سے ہیں جو مسیحیوں کے نزدیک حضرت عیسی کے ظہور کرنے سے پہلے واقع ہونگے۔[21]

علائم ظہور کو امام زمانہ کے علاوہ دوسروں پر تطبیق کرنا

مختلف ادوار میں ظہور کی نشانیوں کو مختلف واقعات یا اشخاص پر تطبیق کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ کام مختلف اشخاص یا حکومتیوں کے ذریعے مختلف مقاصد کی خاطر انجام پاتے تھے۔ مثال کے طور پر سورج کا مغرب سے طلوع ہونے کو مصر میں فاطمیوں کی حکومت اور قتل نفس زکیہ کو محمد بن عبداللہ بن حسن مثنی کے اوپر تطبیق کی گئی تھی۔[22]

کتابیات

علائم ظہور کا منبع وہ احادیث ہیں جو شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں نقل ہوئی ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض احادیث کے معتبر ہونے میں شک و تردید کا اظہار کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض احادیث معصومین سے صادر نہیں ہوئی ہیں۔[23]نعمانی کی کتاب الغیبہ،[24] شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین،[25] شیخ طوسی کی کتاب الغیبہ[26] اور شیخ مفید کی کتاب الارشاد[27] میں علائم ظہور سے متعلق احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اہل سنت منابع میں ملاحم و فتن نامی حصے میں اس مسئلہ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اسی طرح بعض مستقل کتابیں بھی الملاحم و الفتن کے عنوان سے تحریر کی گئی ہیں۔[28]

علائم ظہور سے متعلق بعض کتابیں مستقل طور پر لکھی گئی ہیں ان میں سے بعض کتابوں میں صرف اس موضوع سے مربوط احادیث کو جمع کیا گیا ہے جبکہ بعض کتابوں میں تجزیہ و تحلیل بھی کی گئی ہیں من جملہ وہ کتابیں درج ذیل ہیں:

  • جعفر مرتضی عاملی کی کتاب "دراسۃٌ فی علامات الظہور" میں علائم ظہور کو تحلیلی اور تنقیدی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔[29]
  • محمدحسن میرجہانی کی کتاب "نوائب الدہور فی علائم الظہور" سنہ ۱۳۸۳ھ میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۔
  • محمدعلی طباطبایی کی کتاب "مأتان و خمسون علامۃ"، اس کتاب میں ظہور کی ۲۵۰ علامتوں کو ذکر کیا ہے۔[30]
  • نصرت‌اللہ آیتی کی کتاب "تأملی در نشانہ‌ہای حتمی ظہور" ظہور کی پانچ حتمی نشانیوں سے متعلق ہے جسے مؤسسہ آیندہ روشن نے سنہ ۱۳۹۰ش میں منتشر کیا ہے۔[31]

اسی طرح اہل سنت کی کتابیں "عقد الدرر في اخبار المنتظر(عج)"، "العرف الوردي في اخبار المہدی عليہ‌السلام" اور "البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان" بھی علائم ظہور کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔[32]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. آیتی، تأملی در نشانہ ہای حتمی ظہور، ۱۳۹۰ش، ص۱۵۔
  2. سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، ج۱، ص۴۴۵۔
  3. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷۔
  4. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۶۸۔
  5. سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۴۵ (پانویس)۔
  6. ملاحظہ کریں: صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، ص۴۷۷-۴۸۱۔
  7. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۷۰.
  8. سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۴۴۶۔
  9. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۲، ص۶۵۰.
  10. ملاحظہ کریں: مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۶۸-۳۶۹.
  11. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۷۰.
  12. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ص۴۲۵۔
  13. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ص۳۵۷؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۷۱.
  14. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۶۸؛ اسماعیلی، «بررسی نشانہ ہای ظہور»، ص۲۲۴۔
  15. طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۳۶.
  16. ملاحظہ کریں: طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۳۶.
  17. سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۴۴۸۔
  18. رسول‌زادہ، «آخرالزمان و حیات اخروی در یہودیت و مسیحیت»، ص۷۶، بہ نقل از جوليوس گرينستون، انتظار مسيحا در آيين يہود، ص۶۲ و تلمود بابلی، شبات، ۱۱۸ب.
  19. نامہ اوّل یوحنای رسول ۲: ۱۸-۲۰۔
  20. تسالونیکیان،۸:۲ بہ نقل از دین‌پناہ و خواص، «بررسی پیش‌گویی‌ ہای عہدین دربارہ کشتارہای جمعی پیش از ظہور»، ص۳۳۱۔
  21. لوقا، ۲۱: ۵-۲۹۔
  22. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ص۴۵۲۔
  23. صادقی، «تأملی در روایت‌ہای علائم ظہور»، ص۳۲۲-۳۲۳۔
  24. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۴۷-۲۸۳۔
  25. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۴۹-۶۵۶۔
  26. طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۳۳بہ بعد۔
  27. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۶۸-۳۷۸۔
  28. صادقی، «تأملی در روایت‌ہای علائم ظہور»، ص۳۲۲۔
  29. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ص۴۲۲۔
  30. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ص۴۲۲۔
  31. «تأملی در نشانہ‌ہای حتمی ظہور»۔
  32. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۷، ص۴۲۲۔

مآخذ

  • انجیل ترجمہ ہزار نو۔
  • اسماعیلی، اسماعیل، «بررسی نشانہ‌ہای ظہور»، دوفصلنامہ حوزہ، شمارہ۷۰، پاییز۱۳۷۴ش۔
  • آیتی، نصرت‌اللہ، تأملی در نشانہ‌ہای حتمی ظہور، قم، آیندہ روشن، ۱۳۹۰ش۔
  • براری، محمد، «منبع‌شناسی روایات علائم ظہور در کتاب الغیبہ شیخ طوسی»، پژوہش‌ہای مہدوی، شمارہ ۱۷، تابستان ۱۳۹۵ش۔
  • دین‌پناہ و خواص، حسن و امیر، «بررسی پیش‌گویی‌ہای عہدین دربارہ کشتارہای جمعی پیش از ظہور»، مشرق موعود، شمارہ ۴۱، ۱۳۹۶ش۔
  • رسول‌زادہ، عباس، «آخرالزمان و حيات اخروی در یہودیت و مسیحیت»، معرفت ادیان، شمارہ ۲، بہار ۱۳۸۹ش۔
  • سلیمیان، خدامراد، فرہنگ‌نامہ مہدویت، قم، بنیاد فرہنگی مہدی موعود(عج)، ۱۳۸۸ش۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، انتشارات آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران، تصحیح علی‌اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۵ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ للحجہ، تصحیح عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ق۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تصحیح مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • صادقی، مصطفی، «تأملی در روایت‌ہای علائم ظہور»، شمارہ ۸ و ۹، تابستان و پاییز ۱۳۸۲ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ للنعمانی، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، ۱۳۹۷ق۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج) بر پایہ قرآن (ج۷)، حدیث و تاریخ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، ۱۳۹۳ش۔