عصمت انبیاء سے مراد انبیاء کا خطا اور گناہ سے محفوظ ہونا ہے۔ عصمت انبیاء کو تمام ادیان الہی کا مشترکہ اصول قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی حقیقت اور اس کے مراتب کے بارے میں ان میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے۔ مسلمان علماء اس بات پر متفق ہیں کہ انبیاء شرک و کفر سے پاک اور وحی کے دریافت کرنے نیز اس کی تبلیغ میں کسی قسم کی خطا اور گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن انبیاء کا دوسرے گناہوں اور خطا سے بھی محفوظ ہونے یا نہ ہونے میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر مسلمان علماء کے مطابق انبیاء ان دونوں امور میں بھی معصوم ہوتے ہیں۔

شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت

قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں کوئی تصریح نہیں آئی ہے، لیکن مفسرین قرآن کی بعض آیتوں مانند سورہ بقرہ آیت نمبر 36 جو حضرت آدم اور حوا کے بہشت سے نکالے جانے کے بارے میں ہے، کے ذیل میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ مسلمان متکلمین انبیاء کی عصمت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف عقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ قرآن کی بعض آیات من جملہ سورہ حشر کی آیت نمیر 7 سے بھی استناد کرتے ہیں۔

انبیاء کی عصمت کے مخالفین بھی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہیں جو تمام انبیاء کی عصمت یا کم از کم بعض انبیاء کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ ان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ آیات متشابہ آیات ہیں جن کی تأویل و تفسیر کے لئے ان کو محکمات کی طرف ارجاع دینا ضروری ہے۔ اسی طرح وہ آیات جو انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار ہیں ان کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے جو گناہ اور خطا کے متعارف معانی سے متفاوت معانی پر دلالت کرتی ہیں۔

مفہوم‌ شناسی

عصمت انبیاء سے مراد انبیاء کا ہر قسم کے گناہ اور بدی [1] نیز وحی کے دریافت اور ابلاغ میں ان کا خطا سے منزہ ہونا ہے۔[2] عصمت، انبیاء کی اندرونی صفت ہے جس کے باعث وہ نیک اعمال کو برے اعمال سے واضح اور آشکار طور پر تشخیص دے سکتے ہیں۔[3]

اسلامی تعلیمات میں انبیاء کی عصمت کو مختلف کلمات کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے جن میں تنزیہ انبیاء،[یادداشت 1] توفیق، صدق اور امانت وغیرہ شامل ہیں۔[4]

اہمیت

وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیاء کا معصوم ہونا تمام ادیان الہی کا مشترکہ عقیدہ مانا جاتا ہے؛[5] اگرچہ اس کی حقیقت اور مراتب کے بارے میں ان کے درمیان اور مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[6]

بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی عصمت کا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں رائج ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ خلیفہ اول نے پیغمبر اسلامؐ کی تجلیل کی خاطر آپ کو خطا سے معصوم قرار دیا ہے۔[7] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ نے انبیا کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے وقت عصمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔[8] ان تمام باتوں کے باوجود بعض دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ عصمت انبیاء کی اصطلاح علم کلام کی دوسرے بہت ساری اصطلاحات کی طرح اس علم کی پیدائش کے بعد اور امام صادقؑ کی امامت کے دوران وجود میں آئی ہیں۔[9]

قرآن میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں تصریح نہیں آئی ہے؛[10] لیکن مفسرین نے قرآن کی بعض آیات کی تفسیر میں اس موضوع سے بحث کی ہیں۔ ان آیات میں سورہ بقرہ کی آیت نمیر 36،[11] سورہ اعراف کی آیت نمیر 32 اور سورہ طہ کی آیت نمیر 121 جو حضرت آدم و حوا کی داستان اور ان کے شیطان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں ہے اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 33 جو بعض انبیاء کے برگزیدہ ہونے کے بارے میں ہے اور سورہ نجم کی آیت نمبر 3 سے 5 جو پیغمبر اسلامؐ کے وحی کے بغیر اپنی ہوا و ہوس سے نطق نہ کرنے سے متعلق ہے، شامل ہیں۔[12]

منشأ

عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: شیخ مفید اور سیدِ مرتَضی عصمت انبیاء کو ان کے حق میں خدا کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[13] سیدِ مرتضی ایک اور قول میں شیخ طوسی اور ابن میثم بحرانی کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔[14] علامہ طباطبایی طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات یہ کہ یہ علم قابل تعلیم نہیں ہے بلکہ خدا کا عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔[15] ملا صدرا بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلی جاتی ہے۔[16]

دائرہ

عصمت انبیاء کے کئی مراحل اور مراتب تصور کئے جاتے ہیں جو بالترتیب یہ ہیں: شرک اور کفر سے معصوم ہونا، وحی کے دریافت اور ابلاغ میں معصوم ہونا، گناہ کبیرہ و صغیرہ نیز روزمرہ امور میں خطا سے معصوم ہونا۔ مسلمان علماء پہلے اور دوسرے مرحلے کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور سب اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نبوت پر فائز ہونے سے پہلے اور بعد میں کسی وقت بھی شرک اور کفر میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔[17] اسی طرح شیعہ اور سنی متکلمین اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ انبیاء وحی کے دریافت، حفظ اور ابلاغ میں عمدا،[18] اور سہوا کسی گناہ یا خطا[19] سے معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے معتزلی رہنما قاضی عبد الجبار تبلیغ رسالت میں کذب سہوی کو جائز قرار دیتے ہیں۔[20]

عصمت کے تیسرے مرحلے میں بھی شیعہ متکلمین اتفاق‌ نظر رکھتے؛[21] یعنی ان کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ کبیرہ و صغیرہ سے معصوم ہوتے ہیں۔[22] اس بارے میں صرف شیخ مفید سہوا گناہ صغیرہ کی انجام دہی کو انبیاء کے لئے بعثت سے پہلے ممکن قرار دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ یہ گناہ بھی نفس کی پستی کی وجہ سے سرزد نہ ہوا ہو۔[23]

چوتھا مرحلہ یعنی روزمرہ امور میں خطا سے بھی معصوم ہونے کو بھی اکثر شیعہ علماء قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء زندگی کے فردی اور سماجی امور میں بھی خطا سے معصوم ہوتے ہیں؛[24] لیکن ان میں سے بعض جیسے کلینی اور شیخ صدوق اس نظریے کے مخالف ہیں۔ کلینی اس بات کے معتقد ہیں کہ روزمرہ امور میں انبیاء کا چھوٹی چھوٹی خطاوں سے بھی معصوم ہونا جن کے سرزد ہونے سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچتا، کے ثبوت میں نہ صرف کوئی عقلی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف بعض احادیث بھی موجود ہیں کہ جو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ اس طرح کے خطائیں انبیاء سے سرزد ہوئی ہیں۔[25] شیخ صدوق حدیث ذوالشمالین سے استناد کرتے ہوئے[26] سہو النبی کو قبول کرتے ہیں اور انبیاء کو خطا اور اشتباہ سے بھی معصوم سمجھنے کو غلو اور تفویض قرار دیتے ہیں۔[27]

علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کی زندگی کے وہ امور جو وحی اور لوگوں کی ہدایت سے مربوط نہیں ہیں وہ عصمت کے موضوع سے خارج ہیں۔ آپ کے مطابق پیغمبر اسلامؐ کے علاوہ دوسرے انبیاء سے روزمرہ امور میں خطا اور اشتباہ کے مرتکب ہونے میں قرآن کی بعض آیات دلالت کرتی ہیں مثلا: حضرت آدم کا اپنے عہد و پیمان کو فراموش کرنا، حضرت نوح کا اپنے گناہگار بیٹے کو طوفان سے نجات دینے کی درخواست کرنا، حضرت یونس کا غصے کی حالت میں اپنی قوم سے باہر جانا اور حضرت موسی کا بنی‌اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے متعلق حضرت ہارون کے بارے میں بے جا قضاوت وغیرہ۔[28]

انبیاء کی عصمت اور ان کا اختیار

ایک گروہ کا خیال ہے کہ عصمت اور اختیار ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ اسی بنا پر بعض لوگ انبیاء کی عصمت کے منکر ہیں جبکہ بعض، انبیاء کی عصمت کے تو قائل ہیں لیکن اسے ایک اجباری امر قرار دیتے ہیں۔[29] دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور گناہ اس کی سرشت میں شامل ہے لہذا وہ لاکھ کوشش کرے پھر بھی کسی نہ کسی خطا میں مبتلا ہو کر ہی رہے گا۔ اس بنا پر کسی انسان کا عصمت کے مقام پر فائز ہونا بیرونی عوامل کی بنا پر ہے اور اس کے اختیار سے خارج ہے۔ یہ گروہ اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی بعض آیات سے بھی تمسک کرتا ہے۔[30]

من جملہ ان آیات میں سے ایک سورہ ص کی آیت نمبر 46 ہے جس میں انبیاء کے بارے میں "اخلصناھم" (ہم نے ان کو مخلص بنایا) کی عبارت استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح آیت تطہیر (سورہ احزاب کی آیت نمبر 33) جس کے مطابق خدا نے بعض انسانوں کو گناہوں سے پاک اور منزہ قرار دیا ہے۔[31]

اس نظریے کے مقابلے میں علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء کو علم عطا کیا ہے جس سے وہ گناہ کے باطن سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر چونکہ انبیاء گناہ کی پستی اور حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں اس کا ارتکاب نہیں کرتے نہ یہ کہ وہ اس کام میں مجبور ہیں۔ علامہ طباطبائی گناہ سے انبیاء کی آگاہی کو کسی کھانے والی زہریلی چیز سے متعلق انسان کی آگاہی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اس چیز کو کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔[32]

آیت اللہ جعفر سبحانی لکھتے ہیں کہ مقام عصمت خدا کے ارادے سے نصیب ہوتا ہے اور قرآن کی بعض آیات اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ یہ مقام خدا کی عطا کردہ ہے؛ لیکن عصمت کے مقام کو کسب کرنے کے مقدمات انسان کی کوشش اور نفسانی خواہشات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر عصمت اختیار کے ساتھ قابل‌ جمع ہے۔[33]

دلائل

انبیاء کی عصمت پر عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں:

عقلی دلائل

عصمت انبیاء پر سب سے اہم عقلی دلیل انبیاء پر لوگوں کے اعتماد کی بحالی ہے۔[34] اسی بنا پر اس دلیل کو "دلیل اعتماد" کا نام دیا گیا ہے،[35] اگر انبیاء کا کردار ان کے گفتار کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو لوگ ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے۔[36]

اس سلسلے کی دیگر عقلی دلائل میں سے ایک رسالت کے اہداف کا پایمال ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ انبیاء کی اطاعت واجب ہے، اس صورت میں اگر انبیاء گناہ کے مرتکب ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گناہ میں بھی ان کی پیروی واجب ہے یا نہیں؟ اگر اس میں بھی ان کی پیروی کرنے کو واجب قرار دیں تو ان کے بھیجنے کا مقصد ختم ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ان کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ ایک قسم سے ان کی تحقیر شمار ہو گی۔[37]

نقلی دلائل

نقلی دلائل میں قرآن کی آیات اور احادیث شامل ہیں۔ مفسرین کے مطابق قرآن کی بعض آیات انبیاء کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ طباطبایی سورہ نساء کی آیت نمیر 64، 69 اور 165، سورہ انعام کی آیت نمیر 90 اور سورہ کہف کی آیت نمبر 17 کو من جملہ ان آیات میں سے قرار دیتے ہیں۔[38]

سورہ کہف کی آیت نمیر 17 میں آیا ہے کہ: "جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے"۔ علامہ طباطبایی کے مطابق یہ آیت ہدایت یافتہ گان سے ہر قسم کی گمراہی کو نفی کرتی ہے اور چونکہ ہر گناہ ایک قسم کی گمراہی ہے، پس انبیاء کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔[39]

متعدد احادیث میں عصمت کو انبیاء کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔[40] من جملہ ان احادیث میں سے ایک میں آیا ہے کہ امام باقرؑ نے فرمایا: "انبیاء گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے؛ کیونکہ انبیاء سب کے سب معصوم اور پاک ہیں اور وہ کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔"[41]

اعتراضات اور ان کا جواب

عصمت انبیاء کے مخالفین بعض آیات سے تمسک کرتے ہوئے انبیاء کی عصمت کے منکر ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض دوسری آیات سے استناد کرتے ہوئے بعض انبیاء کی عصمت پر اعتراضات بھی کئے گئے ہیں؛ من جملہ ان میں حضرت آدم،[42] حضرت نوح،[43] حضرت ابراہیم،[44] حضرت موسی،[45] حضرت یوسف،[46] حضرت یونس،[47] اور پیغمبر اسلامؐ۔[48] شامل ہیں۔ آیت‌اللہ سبحانی عصمت انبیاء کے منکرین کی جانب سے اس موضوع پر کئے جانے والے سب سے اہم اعتراضات کا سرچشمہ انہی آیات کو قرار دیتے ہیں۔[49] احمد امین مصری انہی آیات سے استناد کرتے ہوئے[50] نبوت سے پہلے اور بعد میں انبیاء کو گناہ کبیرہ اور صغیرہ سے معصوم قرار دینے کو غلو اور قرآن کی صریح آیات کے منافی قرار دیتے ہیں۔[51]

اس سلسلے میں کئے جانے والے بعض اعتراضات اور ان کا جواب ذیل میں ملاحظہ کریں:

وعدہ الہی کی نسبت نا امیدی اور بدگمانی

سورہ یوسف کی آیت نمبر 110 میں آیا ہے کہ: "حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیأَسَ الرُّ‌سُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَہُمْ نَصْرُ‌نَا فَنُجِّی مَن نَّشَاءُ[؟؟]"(ترجمہ: یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی۔۔۔۔) [42] کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں وعدہ الہی کی نسبت انبیاء کی ناامیدی اور بدگمانی (وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا[؟؟]) کے بارے میں بحث ہوئی ہے یہ چیز انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ انبیاء نے یہ گمان کیا تھا کہ خدا نے ان کی مدد اور نصرت کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔[43]

علامہ طباطبایی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں فعل "ظنوا" کا فاعل لوگ ہیں نہ انبیاء۔ اس صورت میں آیت کا معنا یوں ہوگا: لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے عذاب کا وعدہ جھوٹا ہے۔[44] [یادداشت 2] آیت اللہ سبحانی اس آیت میں موجود تمام ضمیروں کو انبیاء کی طرف لوٹاتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء نے خدا کے حوالے سے ایسا گمان نہیں کیا تھا بلکہ ان کی حالیت ایسی ہوگئی تھی لوگوں نے یہ خیال کیا تھا کہ انبیاء خدا پر ایسا گمان رکھتے ہیں۔[45]

انبیاء کا شیطانی وسوسوں میں آنا

سورہ حج کی آیت نمبر 52 میں آیا ہے کہ: "اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے (اصلاح احوال کی) آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی۔ پس شیطان جو خلل اندازی کرتا ہے خدا اسے مٹا دیتا ہے۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انیباء کے افکار، زبان اور خواہشات میں مداخلت کرتا ہے جو انبیاء کے معصوم نہ ہونے کی دلیل ہے۔[55] افسانہ غرانیق کو بھی اسی نظریے کا مؤید قرار دیا جاتا ہے۔[46]

اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں کہ مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ لینا قرآن کی دوسری آیات کے منافی ہیں، جیسے سورہ حجر کی آیت نمبر 42، سورہ اسراء کی آیت نمبر 45 اور سورہ ص کی آیت نمبر 82 اور 83۔ ان آیات کے مطابق شیطان خدا کے خاص بندوں کے ارادوں میں کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں کر سکتا اور خدا کے خالص بندوں میں انبیاء سر فہرست ہیں۔[47] بعض کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں شیطان کی مداخلت سے مراد لوگوں کو انبیاء کی مخالفت پر وادار کرنے کے لئے کئے جانے والا وسوسہ ہے۔[48]

انبیاء کا گناہ‌گار ہونا

سورہ نحل کی آیت نمبر 61 میں آیا ہے کہ: "اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا۔" کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں ظلم کو تمام لوگوں کی طرف نسبت دی گئی ہے جن میں انبیاء بھی شامل ہے اور اس سے مراد معصیت ہے۔ پس یہ آیت اس بات کے اور دلالت کرتی ہے کہ تمام لوگ گناہگار ہیں من جملہ ان میں انبیاء بھی شامل ہیں۔[49]

فخررازی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ سورہ فاطر کی آیت نمبر 32 اور اس طرح کے دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگ ظالم نہیں ہیں۔ پس مذکورہ آیت میں "الناس" سے مراد یا وہ تمام افراد مراد ہیں جو عذاب کے مستحق ہیں یااس سے مراد مشرکین ہیں جن کا ذکر مذکورہ آیت سے پہلی والی آیت میں آیا ہے۔[50] علامہ طباطبایی کے مطابق ظلم سے مراد اس آیت میں عام ہے جس میں معصیت اور ترک اولی دونوں شامل ہیں اور انبیاء سے ترک اولیٰ کا صادر ہونا ممکن ہے۔[51]

عمومی جوابات

عصمت انبیاء پر کئے گئے اعتراضات کا عمومی جوابات بھی دئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • جن آیات سے عصمت انبیاء کو استخراج کیا جاتا ہے وہ محکمات میں سے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں جن آیات سے انبیاء کا معصوم نہ ہونا استخراج کیا جاتا ہے وہ متشابہات میں سے ہیں۔ پس متشابہات کی تفسیر کے لئے ان کو محکمات کی طرف ارجاع دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔[52]
  • اگر کسی یقینی دلیل کے خلاف کوئی اور دلائل قائم ہوں تو یا ان کو ترک کیا جاتا ہے یا ان کی تأویل کی جاتی ہے۔ اور چونکہ انبیاء کی عصمت کے ساتھ ناسازگار آیات یقینی دلائل کے مقابلے میں ہیں لہذا ان کی تأویل کرنا ضروری ہے۔[53]
  • اگر ترک اولی کو انبیاء کے حق میں جائز قرار دیں، تو انبیاء کی عصمت سے متصادم تمام آیات کو ترک اولی پر حمل کی جا سکتی ہے؛ لیکن اگر ترک اولی کو انبیاء کے حق میں جائز قرار نہ دیں، تو ضرور یہ کہنا پڑے گا کہ ان مسائل میں حتما کوئی مصلحت تھی جنہیں ہم درک کرنے سے قاصر ہیں؛ جیسے حضرت موسی اور حضرت خضر کی داستان وغیرہ۔[54]

کتابیات

عصمت انبیاء کے بارے میں اکثر کلامی کتابوں میں بحث ہوئی ہیں۔[55] ان کے علاوہ بعض کتابیں مستقل طور پر اس بارے میں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:

  • تنزیہ‌الانبیاء۔ اس کتاب میں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم سیدِ مرتضَی(۳۵۵-۴۳۶ق) نے انبیاء اور ائمہؑ کی عصمت کو زیر بحث لایا ہے اور اس سلسلے میں موجود اعتراضات نیز ان آیات اور احادیث کا جواب دیا ہے جو ظاہرا انبیاء کی عصمت کے منافی ہیں۔[56] یہ کتاب "تنزیہ الانبیاء: پژوہشی قرآنی دربارہ عصمت پیامران و امامان(ع)" کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔
  • عصمۃ‌الانبیاء، اس کتاب میں اہل‌سنت فقیہ، متکلم اور مفسر فخرالدین رازی(متوفی ۶۰۶ھ) نے عصمت انبیاء کے بارے میں موجود مختلف نظریات کو بیان کرنے کے بعد عصمت انبیاء پر موجود دلائل کا ذکر کرتے ہوئے[57] اس پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔[58] اس کتاب میں قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت داوود، حضرت سلیمان اور پیغمبر اسلامؐ پر کئے گئے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا جواب دیا ہے۔[59]
  • تنزیہ الانبیاء عن ما نسب حثالۃ‌ الاغنیاء۔ یہ کتاب چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے عالم، علی بن احمد معروف بہ ابن‌خمیر (وفات ۶۴۰ھ) کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب بھی عصمت انبیاء پر کئے گئے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے[60] اور اس میں بعض انبیاء حضرت آدم، حضرت یونس، حضرت موسی، حضرت داوود، حضرت سلیمان اور پیغمبر اسلامؐ وغیرہ پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔[61]

عصمت انبیاء پر لکھی گئی بعض دیگر مستقل کتابیں درج ذیل ہیں:

  • عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، تحریر جعفر سبحانی
  • عصمۃ الانبیاء و الرسل، تحریر سیدمرتضی عسکری
  • عصمۃ الانبیاء فی القرآن؛ مدخلٌ الی النبوۃ العامۃ، تحریر سیدکمال حیدری
  • عصمۃ‌الانبیاء، تحریر زین‌العابدین عبدعلی طاہر الکعبی
  • عصمۃ الانبیاء بین الیہودیۃ و المسیحیۃ و الاسلام، تحریر محمود ماضی
  • مراجعاتٌ فی عصمۃ الانبیاء مِن منظور القرآنی، تحریر عبدالسلام زین العابدین
  • نور عصمت بر سیمای نبوت؛ پاسخ بہ شبہات قرآنی عصمت، تحریر جعفر انواری۔

نوٹ

  1. چنانچہ نام کتاب سید مرتضی دربارہ عصمت انبیا و ائمہ «تنزیہ الانبیاء» است و در کتاب الذریعۃ، از چہار کتاب دیگر با این عنوان نام بردہ شدہ است۔(آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۴۵۶۔)
  2. مفسرین اس آیت کی تفسیر میں مختلف احتمالات بیان کرتے ہیں۔(ملاحظہ کریں:‌ سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۳-۵۵۔)

حوالہ جات

  1. معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص۷۔
  2. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۶، ص۴۸-۴۹۔
  3. تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۳۹۰ش، ص۶۷۲؛ معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص۶۔
  4. یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان (ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۷-۳۰۔
  5. انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۵۲۔
  6. صادقی اردکانی، عصمت، ۱۳۸۸ش، ص۱۹۔
  7. یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔
  8. مجلسی، بحار الانوار، ۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۰۰ و ۱۶۴۔
  9. سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج۲، ص۱۱۳-۱۶۷؛ مظفر، دلائل الصدق، ج۱، ص۴۳۲-۵۵۲ بہ نقل از یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان (ع)، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۔
  10. یوسفیان و شریفی، پژوہشی نو در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۴۱۔
  11. مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۹۸۔
  12. نقی‌ پور فر، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۹-۳۴۵۔
  13. مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۸؛ سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹۔
  14. سید مرتضی، تنزیہ‌ الانبیاء، ص۱۹؛ طوسی، تلخیص‌ المحصل، ۱۹۸۵م، ص۳۶۹؛ بحرانی، النجاہ فی القیامہ، ۱۴۱۷ق، ص۵۵۔
  15. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۲۹۱؛ ج۵، ص۷۹۔
  16. ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۱ش، ج۵، ص۲۲۴۔
  17. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۳۱۳؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔
  18. ایجی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ش، ص۲۶۳۔
  19. تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۱۲ق، ج۵، ص۵۰۔
  20. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۳۱۔
  21. مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔
  22. برای نمونہ نگاہ کنید بہ مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ق، ص۳۷؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔
  23. مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۶۲۔
  24. مفید، عدم سہو النبی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹و۳۰؛ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش،‌ ص۱۵۵-۱۵۷۔
  25. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵-۳۱۔
  26. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۸و۳۵۹۔
  27. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۵۹۔
  28. فاریاب، «عصمت پیامبران در منظومہ فکری علامہ طباطبایی»، ص۲۴-۲۸۔
  29. یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان (ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۔
  30. یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔
  31. یوسفیان و شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸ش، ص۳۹-۴۱۔
  32. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۵۴۔
  33. سبحانی، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۹؛ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۶۱۔
  34. ملاحظہ کریں: حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵۔
  35. اشرفی و رضایی، «عصمت پیامبران در قرآن و عہدین»، ص۸۶۔
  36. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۳۷؛ سیدِ مرتضی، تنزیہ‌الانبیاء، ۱۳۸۰ش، ص۵
  37. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۴ش، ص۶۰۲۔
  38. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۳۵-۱۳۸۔
  39. ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۳۵۔
  40. نگاہ کنید بہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق،‌ ج۱۴، ص۱۰۳؛ ج۱۲، ص۳۴۸؛ ج۴، ص۴۵؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۹۲-۲۰۴۔
  41. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۹۹۔
  42. سورہ یوسف،‌ آیت ۱۱۰۔
  43. زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۲؛ سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۲۔
  44. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۱، ص۲۷۹۔
  45. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۵-۵۹۔ جواب کے لئے ملاحظہ کریں: انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، ۱۳۹۷ش، ص۱۰۹-۱۱۵۔
  46. فخررازی، عصمۃ الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۲۔
  47. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۶۰-۶۲۔
  48. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۳۹۱؛‌ سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۶۲۔
  49. فخررازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۰، ص۲۲۷۔
  50. فخررازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۰، ص۲۲۷۔
  51. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۲۸۱۔
  52. میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۲و۱۰۳۔
  53. میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۰۔
  54. میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۱-۱۰۲۔
  55. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵-۱۵۷؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۴۹-۶۰؛ ایجی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ش، ص۲۶۳-۲۸۰۔
  56. حیدری فطرت، «کتابشناسی توصیفی تنزیہ الانبیاء و ائمہ(ع)»، ص۱۰۳و۱۰۴۔
  57. فخررازی، عصمۃ الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۲۵۔
  58. فخررازی، عصمۃ الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۳۵۔
  59. فخررازی، عصمۃ الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۳۔
  60. ابن خمیر، تنزیہ الانبیاء عن ما نسب حثالۃ الاغنیاء، ص۱۸و۱۹۔
  61. ابن خمیر، تنزیہ الانبیاء، ص۵و۶۔

مآخذ

  • ابن ‌خمیر، علی بن احمد، تنزیہ الانبیاء عن ما نسب حثالۃ‌ الاغنیاء، دمشق، دار الفکر، چاپ دوم، ۱۴۲۰ق۔
  • احمد امین، ضحی ‌الاسلام،‌ قاہرہ، مکتبۃالاسرہ، ۲۰۰۳م۔
  • اشرفی، عباس و ام‌ البنین رضایی، «عصمت انبیاء در قرآن و عہدین»، در فصلنامہ پژوہشنامہ معارف قرآنی، شمارہ ۱۲، ۱۳۹۲ش۔
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۳ق۔
  • انواری، جعفر، نور عصمت بر سیمای نبوت: پاسخ بہ شبہات قرآنی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، ۱۳۹۷ش۔
  • ایجی، میر سید شریف، شرح ‌المواقف، قم، الشریف الرضی، ۱۳۲۵ش۔
  • بحرانی، ابن ‌میثم، النجاۃ فی القیامۃ فی تحقیق امر الامامۃ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۱۷ق۔
  • تفتازانی، سعد الدین، شرح‌ المقاصد، قم، الشریف الرضی، ۱۴۱۲ق۔
  • تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، غررالحکم و درر الکلم، تصحیح سید مہدی رجائی، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۱۰ق۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، وحی و نبوت در قرآن (تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج۳)، قم،‌ نشر اسراء، ۱۳۹۲ش۔
  • میلانی، سید علی، عصمت از منظر فریقین (شیعہ و اہل ‌سنت)،‌ قم، مرکز الحقائق الاسلامیہ، ۱۳۹۴ش۔
  • حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد؛ قسم الاہیات، تعلیقۂ جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۸۲ش۔
  • حیدری فطرت، جمال ‌الدین، «کتاب شناسی توصیفی تنزیہ الانبیاء و ائمہ(ع)»، مجلہ حدیث حوزہ، ش۱، پاییز و زمستان ۱۳۸۹۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فى وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق۔
  • سبحانی، جعفر، عصمۃ الانبیاء فی القرآن الکریم، قم، موسسہ امام صادق(ع)، ۱۴۲۰ق۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، موسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۸۳ش۔
  • صادقی اردکانی، محمد امین، عصمت، قم، انتشارات حوزہ علمیہ، ۱۳۸۸ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی ‌اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، ۱۳۶۲ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ‌السلام، مصحح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، ۱۳۷۸ق۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ق۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق۔
  • طوسی، خواجہ نصیر الدین، تلخیص‌المحصل، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۵ق۔
  • سید مرتضی، الذخیرہ فی العلم الکلام، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۱ق۔
  • سید مرتضی، تنزیہ‌الانبیاء، تہران، چاپ فاطمہ قاضی شعار، ۱۳۸۰ش۔
  • فاریاب، محمد حسین، «عصمت انبیاء در منظومہ فکری علامہ طباطبایی»، در مجلہ معرفت، شمارہ ۲۱۴، ۱۳۹۴ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح‌ الغیب)، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، عصمۃ الانبیاء، بیروت، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقاید، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، ۱۳۶۷ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، «عصمت انبیاء»، در مجلہ پژوہش‌ہای اجتماعی اسلامی، شمارہ ۸، ۱۳۷۶ش۔
  • معرفت، محمد ہادی، آموزش علوم قرآن، تہران، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۴ش۔
  • مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۴ق۔
  • مفید، محمد بن نعمان، النکت الاعتقادیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • مفید، محمد بن نعمان، اوائل المقالات، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • مفید، محمد بن نعمان، تصحیح الاعتقادات الامامیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • مفید، محمد بن نعمان، عدم سہو النبی، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۸۶ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
  • ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، التفسیر القرآن الکریم، تصحیح محمد خواجوی، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۱ش۔
  • نقی ‌پورفر، ولی ‌اللہ، پژوہشی پیرامون تدبر در قرآن، تہران، اسوہ، ۱۳۸۱ش۔
  • یوسفیان، حسن و احمدحسین شریفی، پژوہشی در عصمت معصومان علیہم السلام، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۸ش۔