اسود عنسی
نبوت کا جھوٹا دعوے دار | |
---|---|
کوائف | |
نام | أسْوَد عَنْسی |
پورا نام | عبہلۃ بن کعب بن حارث بن عمرو بن عبد اللہ بن سعد بن عنس بن مذحج |
لقب/کنیت | ذوحمار؛ ذوخمار |
شہرت | اسود عنسی کذاب |
جائے پیدائش | نجران |
سکونت | نجران کے قریب غار خبان |
وفات | سنہ 11 ہجری |
علمی معلومات | |
دیگر معلومات | |
تخصص | کہانت و جادوگری |
اَسوَد عَنْسی پیغمبرخداؐ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والوں میں سے تھا۔[1] وہ اسی دوران یا ابوبکر کی خلافت کے پہلے سالوں میں اسلامی فوج کے سپہ سالار فیروز دیلمی کے ہاتھوں یمن میں مارا گیا۔[2] اسود عنسی کا ارتداد پیغمبراکرمؐ کے زمانے میں پہلا ارتداد سمجھا جاتا ہے۔[3]
اسود عنسی کی جانب سے پیغمبری کا دعوا اور بغاوت سنہ 10 ہجری میں اپنی جائے پیدائش اور نجران کے نزدیک خبان نامی ایک غار سے شروع ہوئی[4] اور اس کی موت یعنی تین سال تک جاری رہی۔[5] اہل سنت مفسرین میں سے ماوَردی اور طَبری کا خیال ہے کہ سورہ انعام آیت نمبر 93 مُسَیًلَمہ کذّاب اور اسود عنسی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[6]
اسود عنسی کا مکمل نام عَبْہَلَۃ بن کعب بن حارث بن عمرو العَنْسی تھا اور اس کے چہرے کی رنگت سیاہ ہونے کی وجہ سے وہ اسود کے نام سے مشہور ہوا۔[7] وہ یمن کا رہنے والا اور بنی عنس کی بڑی شخصیات میں سے تھا اور قبیلہ مَذحِج سے اس کا تعلق تھا۔[8] اسود عنسی کی نجران کے نزدیک ایک خَبّان نامی ایک غار میں پیدائش ہوئی۔[9] اسود کو ذوحِمار کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہے تربیت یافتہ گدھے کا مالک ۔[10] نیز اسے ذوخِمار بھی کہتے تھے۔ ذو خمار سے مراد وہ شخص ہے جو ہمیشہ اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔[11]
اسود خود کو رحمانِ یمن کہتا پھرتا تھا۔[12] شیعہ مفرس قرآن ابوالفتوح رازی کے مطابق اسود عنسی کاہِن(کہانت کا عمل کرنے والا) اور جادوگر تھا جو اپنی چکنی چپڑی باتوں اور جادوگری سے لوگوں کو دھوکہ دیا کرتا تھا۔[13] وہ دعوا کرتا تھا کہ سَحیق اور شَقیق نامی دو فرشتوں کے ذریعے اس پر وحی ہوتی ہے۔[14]
اسود کی جانب سے نبوت کا دعوا کرنے کے بعد قوم عنس کے بزرگان اور دوسرے بعض افراد نے اس کے ہاتھوں بیعت کی۔[15] دعوائے نبوت اور غار خبان سے نکلنے کے دس دن بعد اسود عنسی اور اس کے کارندوں نے نجران پر قبضہ کیا اور 25 دن بعد صنعا اور یمن کو اپنے قبضے میں لے لیا۔[16] اسود نے شَہْر بن باذام (باذان کا بیٹا اور صنعا میں ایرانی حکمران) کو قتل کیا اور اس کی بیوی مرزبانہ کو زور بازو سے اپنی زوجیت میں لے لیا۔ شَہْر بن باذام اور اس کے بیٹے کو پیغمبر خداؐ نے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا۔[17]
ابن کثیر کے مطابق جب اسود عنسی نے یمن، نجران اور حضرموت کے علاقوں پر اپنے حملے شروع کیے تو ان علاقوں میں رسول خداؐ کی جانب سے مقرر کیے گئے افراد جیسے معاذ بن جبل، ابو موسیٰ اشعری، عمر بن حرام اور خالد بن سعید بن عاص اپنے زیر تسلط علاقوں سے اپنے قبائل کی طرف یا مدینہ کی طرف بھاگ گئے۔[18]
اسود کی بغاوت کے بعد رسول خداؐ نے جریر بن عبد اللہ بجلی کو یمن بھیجا؛ رسول خداؐ کے نمائندے نے سب سے پہلے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، لیکن اسود نے انکار کر دیا۔[19] اس کے بعد رسول اللہؐ نے قیس بن هُبَیْره کو اسود کی بغاوت کو دبانے کے لیے یمن بھیجا۔ [20] بَلاذُری کے مطابق قیس کے یمن پہنچنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی وفات اور ابوبکر کا خلافت پر براجمان ہونے کی خبر قیس تک پہنچی۔[21] قیس قبیلہ مدحج اور قبیلہ ہمدان کے ہمراہ اسود سے جنگ کرنے کے لیے فیروز دیلمی کی مدد کو پہنچا۔ نیز شَہر بن باذام کی اولاد بھی دیلمی کی مدد کو پہنچیں۔ فیروز دیلمی ایرانی نژاد تھا۔[22] انہوں نے اسود کی ایرانی بیوی مرزبانہ کی مدد سے اسے رات کے وقت اس کے گھر میں قتل کر دیا۔[23]
ابن اثیر کا خیال ہے کہ اسود عنسی رسول خداؐ کے زمانہ میں ہی قتل ہوا تھا اور یہ خبر رسول اللہؐ کو وحی کے ذریعے دی گئی تھی۔[24] رسول خداؐ نے اپنی رحلت سے چند دن پہلےاسود کے قتل کی خبر سنائی اور فرمایا: "اسود کو فیروز دیلمی نے قتل کیا ہے، جو خدا کے نیک بندوں میں سے تھا۔"[25] اسود کے مارے جانے کے بعد فیروز دیلمی صنعا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔[26]
حوالہ جات
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص71۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ ابناثیر، الکامل، 1385ھ، ج2، ص337۔
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1380شمسی، ج2، ص267؛ المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج1، ص433؛ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص50۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص59۔
- ↑ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج7، ص181-182؛ ماوردی، تفسیر ماوردی، بیروت، ج2، ص143-144۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص49؛ مسعودی، التنبیہ و الإشراف، قاہرہ، ج1، ص240۔
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1380شمسی، ج2، ص267؛ المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج1، ص433؛ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص50۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص122۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125؛ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص49۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص122۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، 1408ھ، ج7، ص2۔
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، قاہرہ، ج5، ص154۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص50؛ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1398ھ، ج6، ص307؛نویری، نہایۃ الارب، 1929-1992ء، ج19، ص51۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1398ھ، ج6، ص306۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ بلاذری، فتوح البلدان، 1956ء، ج1، ص125۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص71۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص71۔
- ↑ ابناثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج19، ص59۔
مآخذ
- ابن قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم، المعارف، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامّۃ للکتاب، 1992ء۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
- ابناثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
- ابناثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ق/1965ء۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1398ھ۔
- بلاذری، احمد بن جابر، فتوح البلدان، قاہرہ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، 1956ء۔
- دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، بیروت، دارالمغرب الاسلامی، 1406ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
- ماوردی، علی بن محمد، تفسیر ماوردی، النکت و العیون، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، بیتا۔
- مسعودی، علی، التنبیہ و الإشراف، قاہرہ، دارالصاوی، بیتا۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، قاہرہ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بیتا۔
- نویری، احمد بن عبدالوہاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، وزارۃ الثقافۃ و الارشاد القومی، 1929-1992ء۔
- یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، تہران، سازمان میراث فرہنگی، 1380ہجری شمسی۔