تسبیحات حضرت زہرا (س)
دعا و مناجات |
تسبیحات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ایک خاص ذکر ہے جو 34 مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ پر مشتمل ہے۔ احادیث کے مطابق رسول اللہؐ نے اسے حضرت فاطمہ زہراؑ کو تعلیم دی۔ اسی طرح بہت ساری احادیث میں پنجگانہ نمازوں کے بعد اس ذکر کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ امام محمد باقرؑ نے ایک حدیث میں اسے یاد خدا اور ذکر کثیر کا مصداق قرار دیا ہے۔
حضرت زہراؑ کو تسبیحات کی تعلیم
شیعہ مآخذ میں امیرالمؤمنینؑ حضرت علیؑ کی زبان مبارک سے منقولہ ایک حدیث کے مطابق اس ذکر کی تعلیم رسول اللہؐ نے حضرت زہراؑ کو دی۔ اس روایت کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے روزمرہ کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لئے اپنے والد ماجد رسول خداؐ سے گھر کے لئے ایک خادمہ کی درخواست کی، اس کے جواب میں رسول خداؐ نے حضرت زہرا(س) کو اس تسیبح کی تعلیم دی اور اسے مذکورہ خادمہ سے بہتر قرار دیا جس کی تعلیم کے بعد حضرت زہراؑ خوش ہو گئیں۔[1]
شرائط و احکام
تسبیحات حضرت زہراؑ تمام واجب اور مستحب نمازوں کے بعد مستحب ہے لیکن نماز صبح کے بعد یہ مستحبّ مؤکّد ہے۔[2] جیسا کہ شیعہ متون حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ تسیبحات حضرت زہراءؑ پڑھنے کے کچھ شرائط ہیں جو درج ذیل ہیں:
- اذکار کی ترتیب اور ہر ذکر کی تعداد کی رعایت کرنا؛ (اول: اللہ اکبر 34 مرتبہ، دوئم: الحمد للہ 33 مرتبہ اور سوئم: سبحان اللہ 33 مرتبہ)؛ ذکر سبحان اللہ کو ذکر الحمد للہ سے پہلے پڑھنا، جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ الحمد للہ، سبحان اللہ پر مقدم ہو۔
- تسبیح کے وقت حضور قلب اور معنوی و روحانی توجہ کے ساتھ پڑھے؛
- تسبیح کا آغاز نماز کے [سلام کے] فورا بعد اور نماز کی کیفیت سے نکلنے سے قبل ہو؛
- تسبیح کے اجزاء کے درمیان موالات اور تسلسل کی رعایت اور اذکار کے درمیان فاصلہ نہ ڈالنا اور کسی اور کام کے لئے اذکار کو منقطع نہ کرنا۔[3]
اہمیت احادیث کی روشنی میں
حدیث کے مآخذ میں تسبیحات حضرت زہراءؑ کی اہمیت کے بارے میں متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں:
- ابو ہارون مکفوف کہتے ہیں: امام صادقؑ نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "ہم اپنے بچوں کو جس طرح نماز کا حکم دیتے ہیں اسی طرح تسبیحات حضرت زہراؑ کا حکم بھی دیتے ہیں۔ پس اس ذکر کو پابندی کے ساتھ جاری رکھو، کیونکہ جو بندہ اس ذکر پر مداومت کرے گا کبھی بھی بدبخت نہیں ہوگا"۔[4]
- امام باقرؑ نے فرمایا:جو بھی تسبیح حضرت زہراؑ کا ورد کرے اور اس کے بعد اللہ سے مغفرت طلب کرے [اور استغفار کرے]، خدا اس کو بخش دے گا۔ یہ تسبیح زبانی طور پر ایک سو مرتبہ ہے لیکن میزان اعمال میں ایک ہزار تسبیح شمار ہوتی ہے، یہ شیطان کو دور کردیتی ہے اور خدائے رحمان کو راضی و خوشنود کرتی ہے"۔[5]
- امام محمد باقرؑ نے فرمایا: "ذکر اور حمد کے حوالے سے تسبیح حضرت زہراء سے بہتر کسی ذکر کے ذریعے خدا کی عبادت نہیں ہوئی۔ اگر اس سے بہتر کوئی عمل ہوتا تو رسول اللہؐ سیدہ زہراؑ کو عطا فرماتے"۔[6]
- امام صادقؑ نے فرمایا: "جو شخص نماز واجب کے بعد تسبیح حضرت زہراءؑ کے ذریعے سو مرتبہ اللہ کی تسبیح کرے گا اور آخر میں ایک بار "لا الہ الا اللہ" کہے وہ بخشا جائے گا۔"[7]
- ایک دوسری حدیث میں آپؑ سے مروی ہے: "ہر روز نماز واجب کے بعد تسبیح فاطمۂ زہراءؑ، خدا کی بارگاه میں روزانہ ایک ہزار رکعت نماز سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے"۔[8]
- امام صادقؑ سے مروی ہے: "جو بھی نماز واجب کے بعد دائیں پیر کو بائیں پیر سے اٹھانے سے قبل(حالت نماز سے خارج ہونے س پہلے)، تسبیح حضرت زہراءؑ کو بجا لائے خداوند متعال اس کی مغفرت فرمائے گا"۔[9]
- محمد بن مسلم ثقفی کوفی نقل کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے فرمایا: تسبیح حضرت فاطمہ(س) اسی ذکر کثیر کا مصداق ہے جس کی طرف خدا نے قرآن کریم میں اشارہ کیا ہے اور اس کے ذریعے خدا کو کثرت سے یاد کرنے کا حکم دیا ہے۔[10]
حوالہ جات
- ↑ من لایحضرہ الفقیہ، ج1، ص 320۔
- ↑ اکبری، احکام و نکتہ ہایی دربارہ حضرت زہرا، ص 41۔
- ↑ شیوۂ صحیح "تسبیحات حضرت زہراؑ»؛ اکبری، احکام و نکتہ ہایی دربارہ حضرت زہرا، ص 41۔
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص315۔
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص 315۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج4، ابواب تعقیب، باب 9، ص1024، ح1۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج4، ابواب تعقیب، باب7، ص1021، ح3۔
- ↑ وسائل الشیعہ، ج4، ابواب تعقیب، باب 9، ص1024، ح2۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج4، ابواب تعقیب، باب 7، ص1022، ح4۔
- ↑ "تَسبیحُ فاطِمَةَ مِن ذِکرِ اللهِ الکَثیرِ الَّذی قالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: اذْکُرُوا اللهَ ذِکْراً کَثِیراً." سوره احزاب، ۴۱. نوری، مستدرک الوسائل: ج ۵ ص ۳۶ ح ۵۳۰۵.
مآخذ
- اکبری، محمود، احکام و نکتہ ہایی دربارہ حضرت زہرا، مجلہ مبلغان، شمارہ 44
- الحر العاملي، وسائل الشيعۃ، تحقيق وتصحيح وتذييل : الشيخ عبد الرحيم الرباني الشيرازي، بیروت، دار إحياء التراث العربي، الطبعۃ الخامسۃ، 1403 – 1983ع
- شیخ صدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (المعروف بہ شیخ صدوق و اِبنِ بابُوَیْہ)، من لا يحضرہ الفقيہ، محقق و مصحح: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ دوم، 1413ھ ق۔
- شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ترجمہ انصارى محلاتى، محمد رضا، نشرنسیم کوثر، قم، چاپ اول، 1382ھ ش۔
- سایت عقیق