مصباح المتہجد (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(مصباح المتہجد سے رجوع مکرر)
مصباح المتہجد
مِصباحُ المُتَہجِّد و سلاحُ المُتَعَبّد
کتاب مصباح المتہجد
کتاب مصباح المتہجد
مؤلفشیخ طوسی 385-460ھ)
تاریخ تالیف410ھ
زبانعربی
موضوعادعیہ و زیارات اور سال بھر کے مستحب اعمال
اسلوبحدیث و دعا
تاریخ اشاعتتقریبا


مِصباحُ المُتَہجِّد و سلاحُ المُتَعَبّد یا المِصباحُ الکَبیر عربی زبان میں دعا، زیارات، سال کے مہینوں، ایام کے مستحب اعمال و آداب پر مشتمل شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) کی تالیف ہے۔ یہ کتاب اپنی تحریر و تالیف کے وقت سے ہی شیعہ علماء و عوام اہل بیت کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس کتاب میں، بعض فقہی احکام بھی دعاؤں کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں۔

مؤلف کا مختصر تعارف

محمد بن حسن بن علی بن حسن (385-460 ھ) المعروف بہ شیخ الطائفۃ (زعیمِ قوم) و شیخ طوسی، حدیث کی چار اہم کتب میں سے دو کتابوں التہذیب اور الاستبصار کے مؤلف اور عظیم شیعہ محدثین اور اکابِرِ فقہائے شیعہ، متکلمین و مفسرین میں شمار ہوتے ہیں۔ شیخ طوسی، طوس میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور سنہ 408ھ کو 23 سال کی عمر میں بغداد چلے آئے۔[1][2][3]

فقہ کے ساتھ ساتھ، علم کلام و تفسیر قرآن میں بھی ان کی تالیفات بہت اہم اور مؤثر ہیں۔ بغداد اس زمانے میں عالم اسلام کا دار الحکومت نیز علمی مرکز تھا اور شیخ مفید عالم تشیع کے زعیم تھے۔ شیخ طوسی نے شیخ مفید کی وفات (سنہ 413ھ) تک ان کے حلقۂ درس سے استفادہ کیا اور بعد از اں، جب سید مرتضی نے عالم تشیع کی زعامت سنبھالی تو 23 سال تک ان سے فیض حاصل کیا اور 436ھ میں سید مرتضی کی وفات کے بعد خود زعامت شیعہ کا منصب سنبھالا۔[4] بغداد میں کافی عرصے تک تدریس اور افتاء کا سلسلہ جاری رکھا اور طغرل سلجوقی کے حملے کے بعد ـ جس میں اہل تشیع کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیاـ ان کا گھر اور کتب خانہ نذر آتش ہوا چنانچہ شیخ نجف چلے گئے اور 22 محرم سنہ 460ھ کو وہیں وفات پاگئے۔[5][6] شیخ طوسی نے نجف ہجرت کرکے وہاں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی گوکہ ان سے پہلے بھی نجف میں امیرالمؤمنین(ع) کے حرم شریف میں درس و تدریس کے کئی حلقے موجود تھے لیکن شیخ نے نجف کو باضابطہ حوزہ علمیہ کی شکل دے دی۔[7][8]

تاریخ تالیف

شیخ طوسی سنہ 408ھ میں بغداد میں داخل ہوئے تو کتب خانۂ شاپور، سے ـ جو بعد میں آگ میں جل کر نابود ہوا ـ نیز اپنے استاد سید مرتضی کے کتب خانے سے استفادہ کرکے، معتبر شیعہ اصول سے متعلق روایات کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا جو اصحابِ ائمہ(ع) نے پہلے ہی تحریر کر رکھی کھی تھیں۔ اس زمانے میں انہیں ایسی کتب بھی دستیاب تھیں جو آج نایاب ہیں اور شیخ طوسی نے اپنی کتب میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔[9] قزوینی رازی کے بقول شیخ نے نجف میں مختلف علوم میں 200 سے زائد کتب تالیف و تصنیف کیں۔[10] علماء نے اپنی کتب میں شیخ کی بعض کتب کا تذکرہ کیا ہے۔[11][12][13]

شیخ کی بعض اہم کتب کے عناوین حسب ذیل ہیں:

التبیان، تہذیب الاحکام ـ جو درحقیقت شیخ مفید کی کتاب المقنعہ کی شرح و توضیح ہے ـ الاستبصار، الامالی، النہایہ، المبسوط، کتاب الغیبۃ، اور مصباح المتہجد۔[14]

ایک قول کے مطابق شیخ نے اپنی اہم کتب منجملہ تہذیب الاحکام، الاستبصار و مصباح المتہجد کو بغداد میں مکمل کیا ہے۔[15]

تحریر کا اسلوب

شیخ طوسی نے اس کتاب میں سال بھر کے ایام کی مستحب دعائیں اور عبادات نقل کی ہیں۔ انھوں نے عبادات کے سلسلے میں بعض فقہی احکام کو بھی اس کتاب میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب متعدد عناوین جیسے طہارت، تہجد، روز جمعہ کے اعمال، ہفتے کی دعائیں، ماہ رمضان کی دعائیں، وغیرہ پر مشتمل ہے۔

کتاب کے ابواب

  1. طہارت؛ یہ باب 9 فصلوں پر مشتمل ہے جن میں طہارت کی قسمیں، کیفیات، اور فقہی احکام بیان ہوئے ہیں۔
  2. کتاب الصلاۃ؛ یہ باب 4 فصلوں اور 12 عام فصلوں پر مشتمل ہے جن میں نماز کے عام انواع، جزوی اقسام، احکام اور آداب، بیان ہوئے ہیں۔
  3. ہفتے کے ایام کی دعائیں؛ اس باب میں ہفتے کے شب و روز کی دعاؤں کو بیان کیا گیا ہے۔
  4. قمری مہینوں کے اعمال؛ یہ باب 12 فصلوں پر مشتمل ہے اور ہر فصل میں متعلقہ مہینے کے اعمال بیان ہوئے ہیں۔[16]

کتاب کی قدر و قیمت اور موزونیت

یہ کتاب دعا اور زیارت کے اہم مآخذ میں سے ہے اور ابن فہد حلی کی کتاب، عدۃ الداعی، کفعمی کی مصباح، سید بن طاؤس کی إقبال الأعمال اور شیخ عباس قمی کی مفاتیح الجنان نے اس سےفائدہ اٹھایا ہے۔

بعض شیعہ اکابرینِ علماء نے اس کی تلخیص لکھی ہے اور بعض دیگر نے اس کے تراجم کئے ہیں، بعض نے اس پر شرحیں لکھی ہیں اور اس کے بارے میں متعدد کتابیں تحریر ہوئی ہیں۔[17]

کتاب کے بارے میں تحقیقات

کتاب کی تکمیل

سید بن طاؤس نے سنہ 635 ھ میں مصباح المتہجد پر پانچ کتابیں تالیف کی ہیں:

  1. فلاح السائل، جو شب و روز کے مسائل پر مشتمل ہے؛
  2. زہرۃ الربیع، ایام ہفتہ کے اعمال؛
  3. الدروع الواقیۃ، مہینوں کے اعمال؛
  4. إقبال الأعمال، سال بھر کے اعمال؛
  5. أسرار الصلاۃ۔[18]

کتاب کی تلخیص

اس کا کتاب کا وسیع سطح پر خیر مقدم ہوا تو شیخ طوسی نے خود اس کی خلاصہ نگاری کا اہتما کیا تا کہ اس سے بہتر انداز سے، عمومی سطح پر، فائدہ اٹھایا جاسکے۔ انھوں نے خلاصۂ کتاب کا نام مصباح صغیر رکھا۔[19]

دوسرے علماء نے بھی اس کے خلاصے تحریر کئے ہے، جیسے:

  1. شیخ نظام الدین سلیمان بن حسن صهرشتی، بعنوان "قبس الإصباح فی تلخیص المصباح۔[20]
  2. علامہ حلی نے وزیر محمد قوہدی کی درخواست پر منہاج الصلاح فی مختصر المصباح کے عنوان سے اس پر تلخیص لکھی ہے۔ انھوں نے اس تلخیص کے آخر میں باب حادی عشر تحریر کیا ہے جو اصول عقائد کا ایک سلسلہ ہے۔[21] [باب حادی عشر سے، مستقل کتاب کی صورت میں بھی، علوم دینیہ کے طلبہ مستفید ہورہے ہیں]۔
  3. سید علی بن حسین باقی قرشی، المعروف بہ ابن باقی کی تلخیص بعنوان اختیار المصباح۔[22]
  4. ضیاء الثقلین، جو میرزا حاتم بن نظام الملک نے تالیف کی ہے۔[23]

تراجم

بعض بزرگوں نے اس کتاب کے تراجم کا اہتمام کیا ہے:

  1. سید علی امامی اصفہانی جو صاحبِ ریاض العلماء کے ہم عصر تھے۔
  2. شیخ عباس قمی؛ انھوں نے سنہ 1331ھ میں مصباح المتہجد کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب مصباح کے حاشیے میں شائع ہوئی ہے۔[24]

شرحیں

بعض اکابرین نے شیخ طوسی کی مصباح المتہجد پر شرحیں لکھی ہیں، جیسے:

  1. شرح سید بہاء الدین علی بن عبدالکریم نیلی بعنوان ایضاح المصباح۔
  2. سید زین الدین علی بن عبدالحمید حسینی نجفی کی شرح۔[25]

کتاب کے نسخہ جات

طباعت

یہ کتاب بارہا مختلف ممالک میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ مؤسسۂ فقہ شیعہ کی ایک طباعت میں، علی اصغر مروارید اور ابوذر بیدار نے کی تصحیح و تحقیق کا اہتمام کیا ہے اور اس پر مقدمہ لکھا ہے۔[27]

حوالہ جات

  1. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج5، ص279۔
  2. حسینی جلالی، فہرس التراث، ج‏1، ص525۔
  3. زرکلی، الاعلام، ج‏6، ص 84۔
  4. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج5، ص280۔
  5. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج18، ص335۔
  6. امین العاملی، اعیان الشیعہ، ص166۔
  7. بحر العلوم، الدراسۃ و تاریخہا فی النجف، ج1، ص11۔
  8. شمس الدین، بہجۃ الراغبین، ج1، ص67-68۔
  9. مصباح المتہجد کا تعارف (فارسی)
  10. قزوینی رازی، نقض، ص ‌210۔
  11. شیخ طوسی، فهرست کتب الشیعۃ و اصولهم، ج1، ص ‌447 – 451۔
  12. فهرست اسماء مصنّفی الشیعة، ص403۔
  13. ابن شہر آشوب، معالم العلماء، ص ‌114 – 115۔
  14. آقا بزرگ طہرانی، الذریعة إلی تصانیف الشیعۃ، ج ‏16، ص 79۔
  15. کتاب مصباح المتہجّد کا تعارف۔
  16. فہرست کتاب۔
  17. "مصباح المتہجد" کا تعارف۔
  18. کتاب شناخت آثار شیخ طوسی۔
  19. آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، ج21، ص118۔
  20. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج17، ص30۔
  21. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج23، ص164۔
  22. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج8، ص190۔
  23. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج15، ص123۔
  24. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج4، ص137۔
  25. آقا بزرگ طہرانی، وہی ماخذ، ج14، ص68.
  26. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص862۔
  27. کتاب‌ شناخت آثار شیخ طوسی۔

مآخذ

  • طہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسہ فقہ الشیعة، 1411ھ ق۔
  • مرکز تحقیقات کامپیوتری نور، نرم‌افزار آثار شیخ طوسی.
  • سبحانی، جعفر، موسوعة طبقات الفقہاء، قم، مؤسسہ امام صادق (ع)، 1418ھ ق۔
  • حسینی جلالی، سید محمد حسین، فہرس التراث، قم، انتشارات دلیل ما، 1422ھ ق۔
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ع‍۔
  • ذہبی، محمد بن أحمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالة، چاپ سوم، 1405ھ ق۔
  • امین عاملی‏، سید محسن، أعیان الشیعة، بیروت، دار التعارف للمطبوعات‏، 1406ھ ق۔
  • قزوینی رازی، عبدالجلیل، نقض، تہران، انتشارات انجمن آثار ملى‏، 1358ھ ش۔
  • ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، معالم العلماء، نجف اشرف‏، منشورات المطبعة الحیدریة، 1380ھ ق۔
  • نجاشی، احمد‌ بن علی، فہرست أسماء مصنفی الشیعة (رجال نجاشی)، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ ششم، 1365ھ ش۔
  • ذہبی، محمد‌ بن احمد، تاریخ الاسلام، بیروت، دار الکتاب العربى، چاپ دوم، 1413ھ ق۔
  • بحر العلوم، محمد، الدراسة و تاریخہا فی النجف، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات 1407ھ ق۔
  • شمس‌ الدین، محمد رضا، بہجة الراغبین، بیروت، 1424ھ ق۔
  • شیخ طوسی، محمد‌ بن حسن، فہرست کتب الشیعة و أصولہم و أسماء المصنّفین وأصحاب الأصول‏، مقدمہ، قم، مکتبة المحقق الطباطبائی‏، چاپ اول‏، 1420ھ ق۔

بیرونی ربط