ولایت علی

ویکی شیعہ سے
(ولایت امام علی سے رجوع مکرر)

ولایت امام علیؑ کا مطلب امام علیؑ کی امامت، ان کی امامت کے مراتب اور امت کی سرپرستی ہے۔ اکثر محقیقن اور مصنفین ولایت اور امامت کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں لیکن مرتضی مطہری ولایت کوامامت کے مراتب یا اس سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ امام علیؑ کی ولایت قرآن میں براہ راست بیان نہیں ہوئی ہے لیکن تفسیر اور روایت کے مآخذ میں اس کے ضمن میں بہت سی آیات کی تفسیر ہوئی ہے۔ احادیث میں امام علیؑ کی ولایت کی اہمیت اور مقام اور اس کے اثرات سے متعلق ذکر ہوا ہے جیسے ولایت علیؑ ارکان اسلام میں سے ہے دین کو کامل کرنے والی اور ولایت الہی اور اس کے رسول کی ولایت کے عنوان سے متعارف ہوئی ہے ۔ولایت امام علیؑ کے بعض اثرات روایات میں ذکر ہوئے ہیں جیسے بہشت میں داخلہ، جہنم کی آگ سے نجات پل صراط کو عبور کرنے کاسبب اور مغفرت۔ بعض روایات کے مطابق ولایت امام علیؑ ایمان اور اعمال کی قبولیت کی شرط سمجھی جاتی ہے ولایت کے ایمان کے قبول ہونے یا شرط صحت کے معاملے میں شیعہ علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تفسیری احادیث کے مطابق آیہ ولایت ، آیہ تبلیغ اور آیہ اکمال امام علیؑ کی ولایت پر دلالت کرتی ہیں اسی طرح بعض علما کے مطابق حدیث غدیر اور حدیث ولایت کو بھی ولایت امام علیؑ کی معنی میں سمجھتے ہیں اور ان کو مومنین کے ولی اور صاحب اختیار مانتے ہیں۔

اہمیت اور مقام

ولایت علیؑ ان مباحث میں سے ہے جن میں تفاسیر اور روایات میں بکثرت بحث ہوئی ہے اگر چہ امام علیؑ کی ولایت قرآن میں بطور صراحت بیان نہیں ہوئی ہےلیکن بہت سی آیات اس کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں[1] جیسے (مثال کے طور پر) سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۳میں اللہ کی رسی وا عتصمو بحبل اللہ جمیعا۔۔۔۔[2] ۔،سورہ انعام کی آیت ۵۳ میں صراط مستقیم[3] اور سورہ زخرف کی آیت ۴۳ [4] ولایت علی میں تفسیر میں ہوئی ہے اور اسی طرح روایات میں ایک امانت جو امانت کی آیت میں آسمان زمین اور پہاڑوں کی امانت قبول کرنے سے خوداری میں بیان ہوئی ہیں ولایت کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں ۔ [5] دانشنامہ امیرالمومنین میں تقریبا سو روایات ولایت علیؑ کے بارے میں جمع ہوئی ہیں [6] بعض روایات میں ولایت علیؑ دین کو مکمل کرنے والا [7] اسی طرح ولایت خدا اور ولایت پیغمبرﷺ بیان ہوئی ہے [8] اور منکر ولایت علیؑ ایسے ہیں جیسے منکرولایت پیغمبرﷺ ۔ [9]بعض احادیث پیغمبر میں بھی ولایت علی بن ابیطالب ؑ کو ارکان اسلام کی بنیادوں میں شمار کیا گیا ہے۔ [10]

ولایت کا مفہوم

علامہ طباطبائی کے مطابق ولایت کا مطلب نصرت اور مدد کے نہیں ہیں بلکہ اس کے معنا سر پرست اور مالک تدبیر کےہے یہ عمومی معنا ہےاور تمام مشتقات میں۔۔۔ ۔[11]۔ان کے مطابق ولایت سے مراد قرب اور نزدیک کی قسم جو کہ سبب بنتا ہے حق تصرف اور ملکیت تدبیر کے خاص قسم کا سبب بنتا ہے [12] شیعی فلاسفر اور فقیہ عبداللہ جوادی آملی ولایت کے اصلی معنا قرب اور نزدیکی اور اس کا لازمہ تصدیق اور امور کے سرپرستی ا نصرت اور محبت سمجھتے ہیں [13] مجمع البحرین کے مصنف فخر الدین طریحی کے مطابق ولایت تدبیر اور قدرت اور فعل کی طرف اشارہ ہے اور اس کا مطلب اہل بیتؑ کی محبت اور ان کے پیروری اوامر کی امتثال اور ان کی نواہی ،،،،کردار اور اخلاق ہے [14] ولایت کا لفظ لغت میں کئی و پر فتحہ(ولایت)اور کئی و پر کسرہ(ولایت)کے ساتھ استعمال ہواہے بعض لغت شناس ولایت کو ۔۔۔جیسے رشتہ داری،محبت،وراثت ، نصرت اور مدد کے لیے استعمال کا ہے اور ولایت کا سرپرست اور زمامدار کے کاموں میں معنا کیا ہے [15] دوسری صدی کے علم نحو کے مشہور دانشمند سیبویہ کے مطابق دونوں کلمےزمامداری اور تدبیر کے معنا میں ہیں [16]بعض دونوں کا نصرت اور مدد کے معنا سمجھتے ہیں[17]

امامت سے رابطہ

بعض شیعہ علما ولایت اور امامت کو ایک ہی مطلب سمجھتے ہیں[18] شیخ مفید نے بھی حدیث غدیر میں مولا اور ولی کو امام کا معنی کیا ہے [19]دور حاضر کے بہت سے محقیقن اور مصنفین[20] جیسے علامہ عسکری نے اپنی کتاب ((ولایت علی در قرآن و سنت پیامبرﷺ)) ،اور شیعہ مرجع تقلید اور مفسر قرآن ناصر مکارم شرازی نے کتاب ((آیات وولایت در قرآن)) [یادداشت 1] اور بھی بعض عالم ولایت اور امامت کا ایک ہی معنا میں استعمال کیا ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے لیکن ]]مرتضی مطہری]][21] ولایت کو امامت کا اعلی ترین مرتبہ اور درجہ اور اس میں سے بعض [22] کو نبوت اور امامت کا اہم ترین پہلو(بعد)سمجھتے ہیں اکثراہل سنت اور شیعہ متکلمان نے معمولی فرق کے ساتھ امامت کی اس طرح تعریف کی ہے ((«الامامةُ ریاسة عامّة فی امور الدّین و الدّنیا نیابةً [أو خلافةً] عن النبی (ص)؛))امامت دین اور دنیاوی امور میں پیغمبرﷺ کی جانشین اور نیابت ہے ref>رجوع کیجیے مفید، النکت الاعتقادیہ، ۱۴۱۳ھ، ص۳۹؛ علامہ حلی، الباب الحادی عشر، ۱۳۶۵ہجری شمسی، ص۳۹؛ فیاض لاہیجی،‌ گوہر مراد، ۱۳۸۳ہجری شمسی، ص۴۶۱و۴۶۲؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ھ، ج۵، ص۲۳۲؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ھ، ج۸، ص۳۴۵۔</ref>

«نَادِ عَلِيّاً مَظْہرَ الْعَجَائِبِ، تَجِدْہ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ، كُلُّ ہمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي، بِوَلايَتِكَ يَا عَلِيُّ»۔[۱] این جملات در کتاب فرہنگ غدیر، نوشتہ جواد محدثی، با افزودہ‌ای نقل شدہ است: «نَادِ عَلِيّاً مَظْہرَ الْعَجَائِبِ، تَجِدْہ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ، كُلُّ ہمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي، بِنُبُوَّتِکَ یا مُحَمَّد، بِوَلايَتِكَ يَا عَلِيُّ» کہ ترجمہ آن چنین است: علی را کہ مظہر عجایب است صدا بزن، او را در گرفتاری‌ہا یاور خود خواہی یافت؛ ہر غم و اندوہی برطرف می‌شود، بہ برکت نبوتت ای محمد! و ولایتت ای علی![۲]

ولایت کے آثار

دعا ناد علی صغیر نَادِ عَلِیّاً مَظْہرَ الْعَجَائِبِ، تَجِدْہ عَوْناً لَکَ فِی النَّوَائِبِ، کُلُّ ہمٍّ وَ غَمٍّ سَیَنْجَلِی، بِوَلایَتِکَ یَا عَلِیُّ علی جو کہ مظہر العجایب ہیں پکارو انہیں اپنی پتیشانیوں میں اپنا مددگار پاو گے ہر غم و الم دور ہو جائیں گےآپ کی نبوت کی برکت سے اے محمدﷺ اور آپ کی ولایت کی برکت سے اے علی۔ [23] معصومین سے روایات نقل ہیں ولایت علیؑ کے آثار بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں : بہشت میں داخل ہونا [24]: رسول اللہ ﷺ سےروایت نقل ہے جو بھی اپنی زندگی اور موت پیغمبر ﷺجیسی چاہتا ہے اور بہشت میں رہنا چاہتا ہے جس کا خدا نے وعدہ کیا ہے تو علی بن ابی طالب کو اپنا ولی قرار دے [25] آتش جہنم اور عذاب الہی سے حفاظت [26]: مشہور حدیث قدسی میں ولایت امیر المومنین امن الہی کا قلعہ اور جہنم کی آگ سے حفاظت کے عنوان سے پیش ہوا ہے جو بھی اس میں داخل ہوا وہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہے گا «وَلَایَةُ عَلِیِّ بْنِ‏ أَبِی‏ طَالِبٍ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ نَارِی؛ولایت علی بن ابی طالب میرا قلعہ ہے جو بھی اس میں داخل ہو گا وہ میری آگ سے امان میں رہے گا ۔ [27]

  • صراط کو عبور کرنے کا باعث: [28]پیغمبر ﷺ کی حدیث میں ہے «إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ وَ نُصِبَ الصِّرَاطُ عَلَی ظَہرَانَی جَہنَّمَ فَلَا یَجُوزُہا وَ یَقْطَعُہا إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہ جَوَازٌ بِوَلَایَةِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع؛ جب قیامت ہو گی اور جہنم پر صراط کا پل نصب کیا جائے گا کوئی اس پر سے نہیں گذر سکے گا مگر یہ کہ اس کے پاس ولایت عی بن ابی طالب کا پروانہ ہو۔[29]
  • بخشش اور رستگاری کا سبب:امام باقر ؑ سے روایت ہےکہ خوشی۔،رستگاری،کرامت،مغفرت،عافیت،آسایش اور رضایت ولایت امام علیؑ میں ہے۔[30]

آیت ولایت اور اس سے متعلقہ آیات

آیت ولایت ،آیت اکمالاور آیت تبلیغ آیت ولایت :بعض شیعہ مفسرین کے مطابق ولایت امام علیؑ سرپرست اور تمام امور پر اختیار کے معنی میں ہے[31] کیونکہ شیعہ اور سنی مفسرین آیت کی شان نزول امام علی کے حالت رکوع میں انگوٹھی عطا کرنے سمجھتے ہیں۔[32] اس آیت کی بنیاد پر صر خدا اور رسول اللہ اور امام علیؑ مومنین کے ولی اور سر پرست ہیں۔ [33] یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو امام علیؑ کی امامت کے اثبات کے لیے دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ [34] آیت اکمال : شیعہ علما کے مطابق غدیر کے واقعہ کے لیے نازل ہوئی ہے [35] ناصر مکارم شیرازی کےمطابق شیعہ تفاسیر میں دین کے کامل ہونے سے مراد مسلمانوں سے امام علی ؑ کی ولایت اور خلافت کا اعلان ہے اور روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ [36] آیہ تبلیغ: یہ آیت بھی بعض روایات کے مطابق امام علیؑ کی ولایت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [37]

حدیث ولایت اور غدیر

حدیث ولایت میں ہے «ہوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدی وہ[علی]میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں۔حضرت علیؑ رسول اللہ کے بعد مومنین کے صاحب ولایت اور ولی کے عنوان سے پیش ہوئے ہیں۔ حدیث غدیر : من کنت مولاہ فعلی ہذا مولاہ بھی ولایت امام علی کے سرپرستی کے بارے میں شواھد اور دلایل میں سے ہے۔یہ دو احادیث بھی اول امام کی امامت کی اثبات میں دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔

ولایت سے متعلق کتابیں

  • ولایت علیؑ کے عنوان سے بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں سے اکثرامام عل ؑ کی امامت اور خلافت کے اثبات میں ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں جیسے:
  • ولایت علیؑ در قرآن کریم و سنت پیامبرﷺ،مصنف سید مصطفی عسکری قم ،دانشکدہ اصول الدین ،۱۳۸۹ق
  • اثبات ولات امیر المومنیناز قرآن و سنت مصنف عبدالصمد ساکی ،قم،طوبای محبت چاپ اول،۱۳۹۰ق ۔ان مصنف سے اک کتاب تفسیر ولای قرآن کریم در اثبات ولایت امیر المومنین از قرآن و سنت تین جلدوں میں شایع ہو چکی ہے
  • النصوص:بیش از ۵۰۰ دلیل روشن بر ولایت حضرت علیؑ از منابعاھل سنت، مصنف احمد رضا آقا دادی ،قم دلیل ما، چاپ اول ،۱۳۸۹ق مقدمہ میں مولف کے مطابق ولایت پر اہل سنت کے ماخذ سے ۵۱۲ روایات امام علیؑ کی ولایت وصایتاور خلافت پر جمع کیےگئے ہیں۔
  • پرتوی از خورشید تابان :اثبات ولایت امیر المومنین علیؑ مصنف محمد علی انصاری ،قم،افقروشن ،چاپ اول ،۱۳۹۳ق۔
  • ولایۃ امیرالمومنین علی بن ابی طالب فی الکتاب و السنۃ ،کربلا،انتشارات العتبۃالعباسیۃ المقدسۃ۔

متعلقہ مضامین

امام علیؑ کی خلافت

نوٹ

  1. این کتاب دارای سہ فصل با این عناوین است: آیات خلافت و زعامت مسلمین، آیات فضائل اہل بیت(ع) و آیات فضائل مخصوص حضرت علی(ع)۔(مکارم شیرازی، آیات ولایت در قرآن، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ص۱۹) در فصل اول، آیات دلالت‌کنندہ بر خلافت و جانشینی (امامت) امام علی(ع) مطرح و بررسی شدہ‌اند۔(برای نمونہ نگاہ کنید بہ مکارم شیرازی، آیات ولایت در قرآن، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ص۲۵، ۳۰، ۲۸۱ و ۲۹۹۔)

حوالہ جات

  1. مثال کے لیے رجوع کیجیے کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۱۲-۴۳۶؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ۲۰۰، ۲۷۱، ۳۸۳، ج۲، ص۳۵، ۴۷، ۷۷، ۱۰۵، ۱۲۶، ۱۹۸، ۲۵۵، ۳۸۹ و ۳۹۰؛ فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۶۶، ۹۱، ۱۰۶، ۱۰۷، ۱۷۸؛ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ہجری شمسی، ج۱، ص۱۰۲، ۲۵۵، ۲۸۵، ۳۸۴۔
  2. فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۹۱۔
  3. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ہجری شمسی، ج۱، ص۳۸۴۔
  4. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۲۸۶۔
  5. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۱۲۔
  6. رجوع کیجیے محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۹ہجری شمسی، ج۲، ص۱۱۹-۱۷۷۔
  7. رجوع کیجیے طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۲۰۵،‌ ح۳۵۱؛ محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۹ہجری شمسی، ج۷، ص۵۶۶-۵۶۹۔
  8. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۴۲۰، ح۵۹۱۸؛ طبری آملی، بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، ۱۳۸۳ھ، ص۱۹۱؛ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۴۱۸۔
  9. ابن حیون، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطہار(ع)، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۰۵، ح۵۳۳۔
  10. صدوق، الأمالی، ۱۳۷۶ہجری شمسی، ص۲۶۸
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱۳، ص۳۱۷۔
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۶، ص۱۲۔
  13. جوادی آملی، ولایت در قرآن، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۲۰۔
  14. طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ج۱، ص۴۶۲و۴۶۳، ذیل واژہ ولا۔
  15. نگاہ کنید بہ ازہری، تہذیب اللغۃ، دار احیاء‌التراث العربی، ج۱۵، ص۳۲۳؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ۱۴۱۲ھ، ص۸۸۵؛ ابن‌منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ج۱۵، ص۴۰۷؛ طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ج۱، ص۴۵۵، ذیل واژہ ولا۔
  16. رجوع کیجیے ابن‌منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ج۱۵، ص۴۰۷۔
  17. رجوع کیجیے ابن‌منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ج۱۵، ص۴۰۷؛ جوہری، الصحاح، ۱۴۱۰ھ، ج۶، ص۲۵۳۰؛ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، ۱۳۶۸ہجری شمسی، ج۱۳، ص۲۰۳ و۲۰۴۔
  18. رجوع کیجیے مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۹، ص۴۳؛ جمعی از نویسندگان، امامت‌پژوہی، ‌۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۴۸۔
  19. شیخ مفید، رسالۃ فی معنی المولی، نسخہ خطی، بہ نقل از: جمعی از نویسندگان، امامت پژوہی، ‌۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۴۸۔
  20. رجوع کیجیےسبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ہجری شمسی، ج۸، ص۱۲۸، ۱۴۸؛ حسینی تہرانی، امام‌شناسی، ۱۴۲۶ق، ج۲،‌ ص۲۰۶ و ج۵، ص۲۰۰ و ج۷، ص۲۷۸؛ جمعی از دانشمندان، امامت و ولایت در قرآن، ۱۳۹۷ہجری شمسی، ص۱۳، ۴۹، ۹۲و۹۳، ۱۶۱، ۱۸۷۔
  21. مطہری، امامت و رہبری، ۱۳۸۰ہجری شمسی، ص۵۵۔
  22. جمعی از نویسندگان، امامت‌پژوہی، ‌۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۱۷۷۔
  23. میبدی یزدی، شرح دیوان منسوب بہ امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، بہ کوشش اکرم شفائی، ص۴۳۴۔
  24. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۳۷، ح۷؛ طبری آملی، بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، ۱۳۸۳ھ، ص۱۹۱۔
  25. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۰۹؛ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۵۷۸۔
  26. رجوع کیجیے طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ھ، ص۲۹۵؛ طبری آملی، بشارة المصطفى لشيعۃ المرتضى، ۱۳۸۳ھ، ص۱۸۷؛ محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امیرالمؤمنین(ع)، ۱۳۸۹ہجری شمسی، ج۲، ص۱۶۸-۱۷۳۔
  27. صدوق، الأمالی، ۱۳۷۶ہجری شمسی، ص۲۳۵، ح۹؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۱۷۰۔
  28. نگاہ کنید بہ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۱۶۲؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۷۲۔
  29. طبری آملی، بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، ۱۳۸۳ق، ص۲۰۰۔
  30. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۰، ح۷۔
  31. مکارم شیرازی، آیات ولایت در قرآن، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ص۷۵و۸۰؛ فاریاب، معنا و چیستی امامت در قرآن، سنت و آثار متکلمان، ۱۳۹۱ہجری شمسی، ص۱۶۱۔
  32. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۸؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۱۲۶؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۹۳ و۲۹۴؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۰۹-۲۳۹۔
  33. مکارم شیرازی، آیات ولایت در قرآن، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ص۱۔
  34. برای نمونہ نگاہ کنید بہ سید مرتضی، الذخیرة فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ص۴۳۸؛ طوسی، تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، ص۲۲۵؛ محقق حلی، المسلک فی اصول الدین، ۱۴۱۴ق، ص۲۴۸؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۴۱ و۳۴۲۔
  35. نگاہ کنید بہ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ہجری شمسی، ج۴، ص۲۶۴۔
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ہجری شمسی، ج۴، ص۲۶۴و۲۶۵۔
  37. نگاہ کنید بہ عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ہجری شمسی، ج۱، ص۳۳۲؛ فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ق، ص۱۳۰۔

مآخذ

  • آقادادی، احمدرضا، النصوص: بیش از ۵۰۰ دلیل روشن بر ولایت حضرت علی(ع) از منابع اہل سنت، قم، دلیل ما، چاپ دوم، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطہار(ع)، محمد حسین حسینی جلالی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • ابن‌شاذان قمی، ابوالفضل شاذان بن جبرئیل، الروضة فی فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب(ع)، قم، مکتبة‌الامین، چاپ اول، ۱۴۲۳ھ۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمس‌الدین، بیروت، دار الکتب العلمیة، منشورات محمد علی بیضون‏، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تحقیق و تصحیح احمد فارس،‌ بیروت، دار الفکر، چاپ سوم، ۱۴۱۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، شرح چہل حدیث (اربعین حدیث)، تہران،‌ مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ بیست و پنجم، ‌۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔
  • جمعی از دانشمندان، امامت و ولایت در قرآن، ترجمہ احمد ناظم، قم، مجمع جہانی اہل بیت، چاپ اول، ۱۳۹۷ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ اول، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح - تاج اللغة و صحاح العربیة، تحقیق و تصحیح احمد عبدالغفور عطار، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
  • حسکانی، عببداللہ بن عبداللہ، شواہدالتنزیل لقواعد التفضیل، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
  • حسینی تہرانی، سید محمدحسین، امام شناسی، مشہد، علامہ طباطبایی، چاپ سوم، ۱۴۲۶ھ۔
  • حسینی میلانی، سید علی، تشیید المراجعات و تنفید المکابرات، قم، مرکز الحقائق الإسلامیة، چاپ چہارم، ۱۴۲۷ھ
  • خوئی، سید ابوالقاسم، موسوعة الامام الخوئی، قم، مؤسسہ احیاء آثار الامام الخوئی، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، تحقیق مالک محمودی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۱ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، لبنان-سوریہ، دار العلم-دار الشامیة، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • سبحانی، جعفر، المحصول فی علم الاصول،‌ قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، ‌۱۴۱۴ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
  • طباطبایی قمی، الغایة القصوی فی التعلیق علی العروة الوثقی (کتاب الصوم)، قم، انتشارات محلاتی، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مکتبة النشر الإسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق محمدجواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • طبری آملی، عمادالدین، بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، نجف،‌ مکتبة الحیدریة، چاپ دوم، ۱۳۸۳ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق و تصحیح سید احمد حسینی، تہران، مرتضوی، چاپ سوم، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
  • طوسی، خواجہ نصیرالدین، تجرید الاعتقاد، تحقیق حسینی جلالی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۷ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافة، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • عسکری، مرتضی، ولایت علی در قرآن کریم و سنت پیامبر(ص)، قم، دانشکدہ اصول الدین، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقادات قسم الالہیات، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعة العلمیة، چاپ اول، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • فاریاب، محمدحسین، معنا و چیستی امامت در قرآن، سنت و آثار متکلمان، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، ارشاد الطالبین الی نہج المسترشدین، تحقیق سید مہدی رجائی، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، ۱۴۰۵ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • محقق حلی، نجم الدین جعفر بن حسن، المسلک فی اصول الدین و الرسالة الماتعیة، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۴۱۴ق۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد و ہمکاران، دانشنامہ امیرالمؤمنین(ع) بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، ترجمہ عبدالہادی مسعودی و ہمکاران، قم، دار الحدیث، چاپ سوم، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، امامت و رہبری، تہران، انتشارات صدرا، چاپ بیست و ششم، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، آیات ولایت در قرآن، تہیہ و تنظیم ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، نسل جوان، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ہجری شمسی۔
  • ‌ ازہری، محمد بن احمد، تہذیب اللغة، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، بے ‌تا۔
  • ‌ تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق و تعلیقہ عبدالرحمن عمیرہ، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • ‌ جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، تحقیق بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۳۲۵ھ۔
  • ‌ جمعی از نویسندگان، امامت پژوہی (بررسى دیدگاہ‌ہای امامیہ، معتزلہ واشاعرہ)، زیر نظر یزدی مطلق، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، ‌۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • ‌ سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • ‌ سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرة فی علم الکلام، تحقیق سید احمد حسینی، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • ‌ طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی (محشی)، قم،‌ دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ‌۱۴۱۹ھ۔
  • ‌ علامہ حلی، حسن بن یوسف، الباب الحادی عشر، تہران، مؤسسہ مطالعات اسلامی، ۱۳۶۵ہجری شمسی۔
  • ‌ فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق محمد کاظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی‏، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
  • ‌ فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، گوہر مراد، تہران، نشر سایہ، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • ‌ مجلسی، محمدباقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • ‌ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، النکت الاعتقادیہ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • ‌ مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ نہم، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • ‌ موسوی عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح عبادات شرائع الاسلام،‌ بیروت، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، ‌۱۴۱۱ھ۔
  • ‌میبدی یزدی، میرحسین بن معین‌الدین، شرح دیوان منسوب بہ امیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، بہ کوشش اکرم شفائی، بر اساس نسخہ سایت تصوف ایران۔
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید